پہلا خطبہ
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے، ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے، ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے ہدایت مانگتے ہیں، اور ہم اپنے نفس کی برائیوں اور برے اعمال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اور جسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردار محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہیں اللہ نے ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس دین دین کو تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں کو یہ بات ناگوار گزرے۔
یا اللہ ! اپنے بندے اور رسول محمدﷺ پر اور ان کی آل پر اور ان کے تمام صحابہ پر رحمتین، سلامتیاں اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و ثنا کے کے بعد:
اللہ سےاس طرح ڈریں جس طرح ڈرنے کا حق ہے، اور اسلام کے مضبوط کڑے کو تھام لیں؛ اللہ کا ڈر ہی معاملات کی اصلاح ، زمانوں کی عزت اور قیامت کے دن بہترین نتیجہ کا باعث ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا
الطلاق – 5
اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے گناہ مٹا دے گا اور اسے بڑا بھاری اجر دے گا۔
اللہ کے بندوں!
کیا آپ لوگوں کو ایسے عظیم رکن،عزت والے عمل اور ہمیشہ کی بھلائی کی فکر ہے،جس کے ذریعےاللہ آپ کے تمام اعمال درست فرمادیتا ہےاور دلوں کو پاکیزہ کردیتا ہے، اخلاق کو بلند فرمادیتا ہے، دنیا آباد کردیتاہے، اور جنتوں میں درجات بلند فرمادیتا ہے، اور سبقت لے جانے والوں تک آپ پہنچ جاتے ہیں، اور آپ کی امیدوں سے کہیں زیادہ آپ کو نعمتیں ملتی ہیں؟ کیاان چیزوں میں آپ کی کوئی دلچسپی ہے؟
تو وہ کونسا ایسا رکنِ عظیم ہےجس کی بدولت آپ ہر خیر کو حاصل کرلیتے ہیں اور اسی کی وجہ سے اللہ تعالی آپ کی ہر مصیبت کو ٹال دیتے ہیں؟
وہ (رکنِ عظیم) ہے: نماز،جسے اُس کی شرائط، ارکان ، واجبات اور سنتوں کے ساتھ قائم کرنا۔
توحید ورسالت کی گواہی کے بعد نماز ہی ایک ایسا عظیم ترین رکن ہے جسے اللہ نے ہر امّت میں فرض کیا ہے۔اور اللہ تعالی پچھلے اور اگلے لوگوں سے نماز کے بغیر کوئی دین قبول نہیں کرےگا۔
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ (34) الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَى مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ
الحج – 34/35
اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے! انہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے ان کے دل تھرا جاتے ہیں، انہیں جو برائی پہنچے اس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ اس میں سے بھی دیتے رہتے ہیں۔
لیکن اللہ تعالی نے اپنے رحم و کرم سے اس امت کو بہت سی ایسی خصوصیات سے نوازا ہے جو پچھلی امتوں کو نہیں دی گئیں، جیسے: افضل ترین کتاب اور رب کےمحبوب ترین رسولﷺ۔ اللہ عز وجل نے اس امت پر معراج کی رات آسمان میں پانچ نمازیں فرض کیں، اور اللہ نے اپنے بندے اور رسول محمدﷺ کی طرف وحی کی، اور ان سے وہ کلام کی اجو انہوں نے رب العزت سے سنا، اور ان پر بغیر کسی فرشتے کے واسطے کے پانچ نمازیں فرض کیں، جب سید البشر کو بلند آسمانوں سے سدرۃ المنتھی کی طرف معراج کرائی گئی، پھر اللہ نے انہیں ایسے اونچے مقام پر بلایا جہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔
ثم أمرَ الله – سبحانه – جبريلَ – صلى الله عليه وسلم – أن يؤُمَّ نبيَّنا محمدًا – صلى الله عليه وسلم – في أول وقت كل صلاةٍ وآخره، فقال له: “يا محمد! هذا وقتُ الأنبياء من قبلك، والوقتُ ما بين هذين الوقتَين”؛ رواه أبو داود وغيره من حديث ابن عباس – رضي الله عنهما –
پھر اللہ تعالی نے جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیاکہ وہ ہمارے نبی محمدﷺ کی ہر نماز کے ابتدائی اور آخری وقت میں امامت کرائیں، اور ان سے فرمایا: اے محمدﷺ! یہ آپ سے پہلے انبیاء کا وقت ہےاور (نمازوں کاق اصل) وقت ان دونوں کے درمیان ہے۔اس حدیث کو ابوداود اور دیگر نے ابن عباس رضی الله عنهما سے روایت کیا ہے۔
تو اللہ نے اسے بلاواسطہ فرض کیا،اور جبرائیل علیہ السلام کی امامت کے ذریعہ فرض کیا، اور ان کی امامت کی وجہ سے اس کی فرضیت اور قدر مزید بڑھ جاتی ہے، اور اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اس کے افعال و اقوال کو بیان فرمایا۔اور رسول اللہ ﷺ نے اس کے ارکان ،واجبات اور مستحبات بیان کئے، اور اپنے صحابہ کو نماز قائم کرنے کے لئے ہر قول و فعل سکھادیا۔اور تمام حالات میں پوری زندگی ان کی امامت کرائی۔
نبی علیہ السلام نے فرمایا:
صلُّوا كما رأيتُموني أُصلِّي
رواه بخاری و مسلم
نما زاس طرح پڑھیں جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
اور ہر نئی نسل نے پچھلے لوگوں سے نماز نقل کی ہے، اس کا کوئی قول یا فعل انہوں نے نہیں چھوڑا، اور اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا، اور ہمارے دین کی حفاظت فرمائی۔
اللہ سب سے بڑا ہے! اللہ کی رحمت بہت عظیم ہے! اور لوگوں پر اللہ کی نعمت بہت ہی جلیل القدر والی ہے۔
اور بغیر کسی فرشتے کے واسطے کےامت محمدیہ کے نبی محمدﷺ پراللہ کی طرف سے نماز کا فرض ہوجانا اللہ کے نزدیک نمازوں کی اہمیت اور قدر و منزلت کی ایک بہت ہی بڑی دلیل ہے۔ اور یہ تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے، دین زمین میں اس وقت تک باقی رہے گا جب تک نماز باقی رہے گی، اور نماز کے کم ہونے سے دین بھی کم ہوجائے گا، اور نماز کے ختم ہونے سے زمین میں دین بھی ختم ہوجائے گا، اور نمازیوں کی کثرت سے ہی زمین میں اصلاح ہوتی ہے اور نمازیوں کی قلت سے زمین میں فساد ہوتا ہے۔
اور اگر ہر مسلمان مرد و عورت نماز کو اس طرح قائم کرے جس طرح اللہ کے رسول ﷺ اور ان کے صحابہ نے قائم کیاتو یہ امت فتنوں، برائیوں ، مخالفتوں اور سزاؤں سے محفوظ رہے گی، اور اللہ دشمنوں کے مقابلے میں ان کے لئے کافی ہوجائے گا، اور ہر مسلمان مرد و عورت کے حالات بہتر اور درست ہوجائیں گے، اور ان کا انجام بھی اچھا ہوجائے گا۔
اور افراد کی اصلاح سے ہی معاشرے میں بھلائی عام ہوتی ہے، اور شر کم ہوتا ہے، اور لوگ نیکی کو پسند کرتے ہیں اور برائی سے نفرت کرتے ہیں، لیکن اگر کچھ لوگوں نے نماز کو معمولی سمجھ کر چھوڑدیایا کچھ لوگوں کی نما زکے ارکان اور واجبات میں کمی آگئی یا کچھ لوگوں نے مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنا ترک کردیا، یا اسے دیر سے ادا کیا تو نماز میں کمی کی وجہ سے لوگوں کے معاملات خراب ہوجائیں گے، اور نمازوں کو ضائع کرنے والے ہر شخص کے کام بکھر جائیں گے، اور وہ نڈھال ہوجائے گا، اوراس کا اتحاد بھی پارا پارا ہوجائے گا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا
الكهف – 28
اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے ۔
اور جس کا دل زندہ ہوتا ہے وہ سزا کو محسوس کرتا ہے، اور مردہ کو تو کسی زخم کی کوئی تکلیف ہی نہیں ہوتی۔
“كان الناسُ في عهد رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يضَعون أبصارَهم في موضعِ سُجودِهم، وكانوا في عهد أبي بكرٍ يضَعون أبصارَهم قريبًا من موضعِ سُجودِهم، وكانوا في عهد عُمر يطمَحُ بعضُهم بأبصارِهم إلى جِهة القبلة، وفي عهد عُثمان تلفَّتُوا يمينًا وشمالاً، فوقَعت الفتنةُ”
اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں لوگ سجدے کی جگہ پر اپنی نگاہیں رکھا کرتے تھے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سجدے کی جگہ کے قریب نگاہ یں رکھتے، اور عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض لوگ اپنی نگاہوں کو قبلے کی طرف بھی گھمالیتے، اور عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں دائیں بائیں دیکھنا شروع کردیا تو فتنہ برپا ہوگیا۔
تو آپ ام سلمہ رضی اللہ عنھا کی سمجھ کو دیکھئے کہ کس طرح انہوں نے نماز کا اچھا یا برا اثر لوگوں کے معاملات میں پہچان لیا۔
ودخلَ بعضُ أصحاب أنس بن مالك – رضي الله عنه – فوجدَه يبكِي، فقال: ما يُبكِيك يا أبا حمزة؟ فقال: أبكِي لما أحدثَ الناسُ، حتى هذه الصلاة أخَّرُوها عن وقتِها
اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بعض احباب داخل ہوئے تو انہیں روتے ہوئے دیکھا، اور پوچھا: اے ابا حمزہ آپ کو کس چیز نے رُلایا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ لوگوں نے نئی نئی چیزیں ایجاد کرلی ہیں۔
نماز ہی دین ہے اور اسلامی امور کا مجموعہ ہے، جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
رأسُ الأمر الإسلام، وعمُودُه الصلاة
روه الترمذی من حدیث معاذ رضی الله عنه
اصل چیز اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے۔
وعن أبي هريرة – رضي الله عنه – عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال: «الصلواتُ الخمس، والجُمعة إلى الجُمعة كفَّارةٌ لما بينهنَّ ما لم تُغشَ الكبائر».
رواه مسلم
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: پانچ نمازیں ، اور ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ ان کے درمیان کے وقت کا کفارہ ہیں جب تک کبیرہ گناہ نہ کئے ہوں۔
وعن عُبادة بن الصامِت – رضي الله عنه – قال: سمِعتُ رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يقول: «خمسُ صلواتٍ كتبهنَّ الله على العباد؛ فمن جاءَ بهنَّ ولم يُضيِّع منهنَّ شيئًا استِخفافًا بحقِّهنَّ كان له عند الله عهدٌ أن يُدخِلَه الجنة، ومن لم يأتِ بهنَّ فليس له عند الله عهدٌ .. الحديث»
رواه أبو داؤد والنسائی
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنا وہ فرمارہے تھے: اللہ نے پانچ نمازیں بندوں پر فرض کی ہیں؛ جو انہیں ادا کرے گا اور ان کو معمولی سمجھ کر انہیں ضائع نہیں کرے گاتو اللہ کا اس سے یہ وعدہ ہے کہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا، اور جو ان نمازوں کو ادا نہیں کرے گا تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں۔
وعن عبد الله بن قُرطٍ – رضي الله عنه – قال: قال رسولُ الله – صلى الله عليه وسلم -: «أولُ ما يُحاسَبُ به العبدُ يوم القيامةِ الصلاةُ؛ فإن صلُحَت صلُح سائرُ عمله، وإن فسَدَت فسَدَ سائرُ عمله
رواه الطبرانی
عبد اللہ بن قرط رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا۔اگر اس کی نماز صحیح ہوئی تو باقی اعمال بھی صحیح ہوں گے، اور اگر اس کی نماز میں کوئی خرابی نکلی تو دیگر اعمال بھی خراب ہوں گے۔
اور نماز کی روح تین چیزوں میں ہے: خشوع ، سنت کے مطابق، اور باجماعت نماز ادا کرنا۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (1) الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ
المؤمنون – 1/2
یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی ۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں ۔
وعن ابن عباس – رضي الله عنهما – أن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال: «من سمِعَ النداءَ فلم يُجِب فلا صلاةَ له إلا من عُذرٍ»
ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جس آذان سنے اور پھر اس کا جواب نہ دے اور اگر اس کے پاس عذر نہ ہو تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔اسے حاکم نے روایت کیا اور کہا کہ : یہ حدیث صحیح بخاری اور مسلم کی شرط پر ہے۔
اور عورت کی نماز گھر میں افضل ہے،
عن أم سلَمة – رضي الله عنها – عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال: «خيرُ مساجد النساء قعرُ بيوتهنَّ
رواه أحمد والطبرانی
ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورتوں کی سب سے بہترین مسجد ان کے گھر کا اندرونی حصہ ہے۔
وعن ابن مسعود – رضي الله عنه – عن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال: «المرأةُ عورةٌ، فإذا خرجَت استشرَفَها الشيطان»
رواه الترمذی
اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا: عورت ایک پردے کی چیز ہے، جب یہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتا ہے۔
اور ابن خزیمہ اور ابن حبان میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
وأقربُ ما تكونُ من وجهِ ربِّها وهي في قعرِ بيتها
(عورت) اپنے رب کے چہرے کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندرونی حصے میں ہوتی ہے۔
کیونکہ عورت اپنے گھر کے اندر جب ہوتی ہے تو فتنوں سے محفوظ رہتی ہے، نہ وہ کسی کو فتنہ میں ڈالتی ہے اور نہ ہی کوئی اسے فتنے میں ڈالتا ہے۔ہاں جب زیب و زینت کے ساتھ نکلتی ہے تو دوسروں کو بھی فتنے میں مبتلا کرتی ہے اور خود بھی فتنے میں مبتلا ہوجاتی ہے۔اور شر اور ہلاکت واقع ہوجاتے ہیں،
اللہ تعالی نے امھات المومنین سے ارشاد فرمایا:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ
الاحزاب – 33
اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکٰوۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو ۔
حالانکہ وہ مسلمان خواتین کے لئے ایک بہترین نمونہ ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ
العنكبوت – 45
یقیناً نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے ۔ بیشک اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے ۔
اللہ مجھے اور آپ کو قرآن کریم کی برکت سے فیض یاب فرمائے، اور اس کی آیات اور حکمتوں والی نصیحتوں سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اور ہمیں رسولوں کے سردارکے اقوالِ زریں اور طریقوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔میں یہ بات کہہ رہا ہوں اور اپنے لئے ، آپ سب کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے اللہ سے ہر گناہ کی مغفرت مانگتا ہوں، آپ سب بھی بخشش مانگیں، بیشک وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، پرہیزگار لوگوں کا امام ہے، میں اپنے رب ہی کی تعریف کرتا ہوں اور اسی کا شکر ادا کرتا ہوں، اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں، اور اسی سے مغفرت مانگتا ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، انتہائی طاقتور اور مضبوط ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردار محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جو وعدے کو پورا کرنے والے اور امانت دار ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ اور ان کی آل پر اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و ثنا کے بعد:
اللہ سے ڈریں وہ آپ سب کے اعمال بہتر فرمادے گا اور گناہوں کو بھی بخش دے گا۔
اللہ کے بندوں! جان لیں کہ جن چیز وں سے نماز پاکیزہ رہتی ہے اور اس کی کمی دور ہوجاتی ہےوہ یہ ہیں: نماز سے پہلے اور بعد کی مؤکدہ سنتوں کی حفاظت کرنا، اور وتر کو ہمیشہ ادا کرنا، اور کثرت سے نوافل ادا کرنا، اور مسنون اذکارکو پڑھتے رہنا؛ یہ چیزیں فرض کو مکمل کردیتی ہیں اور گناہوں کو بخش دیتی ہیں۔
عن أم حبيبة – رضي الله عنها – عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال: «من صلَّى قبل الظهر أربعًا وبعدها أربعًا حرَّمَه الله على النار»
رواه ابو داؤد والترمذی وابن ماجه
ام حبیبہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جوشخص ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعت ادا کرے گا تو اللہ اس پر آگ کو حرام کردے گا۔
وعن ابن عمر – رضي الله عنهما – عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال: «رحِمَ الله امرأً صلَّى قبل العصر أربعًا»
رواه أبو داؤد والترمذی
اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ اس نسان پر رحم فرمائے جو عصر سے پہلے چار رکعتیں ادا کرے۔
اور مغرب کے بعد دو یا چار رکعتیں، اور عشاء سے پہلے دو یا چار رکعتیں، اور عشاء کے بعد جتنی اللہ نے اسے توفیق دی ہو وہ نفل ادا کرے، اور آخر میں وتر پڑھ لےاور اس کا آخری وقت سحری کا وقت ہے۔اور مسلم کی حدیث ہے:
«ركعتا الفجر خيرٌ من الدنيا وما فيها»-.
رواه البخاری ومسلم عن عائشة رضی الله عنها
فجر کی دو رکعتیں دنیا اور اس کی تمام نعمتوں سے بہتر ہیں۔
ایک دوسری حدیث میں ہے:
«وإنك لن تسجُد لله سجدةً إلا رفعَك الله بها درجةً، وحطَّ عنك بها خطيئةً».
اور بیشک آپ اللہ کے سامنے ایک سجدہ کرتے ہیں تو اللہ اس کی بدولت آپ کا ایک درجہ بلند فرمادیتا ہے، اور آپ کی ایک غلطی مٹا دیتا ہے۔
اور نبی علیہ السلام نے بعض صحابہ سے فرمایا:
«أعِنِّي على نفسِك بكثرةِ السُّجُود».
کثرت سے سجدے کرکے اپنے (جنت میں اعلی مقام کے لئے) لئے میری مدد کریں۔
اور نماز کو چھوڑدینا آگ میں جانے کا سبب ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ (42) قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ (43) وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ (44) وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ (45) وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ (46) حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ
المدثر – 42/47
تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا۔ وہ جواب دیں گے ہم نمازی نہ تھے۔ نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ اور ہم بحث کرنے والے (انکاریوں) کا ساتھ دے کر بحث مباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے ۔ اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے۔ یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی۔
اللہ کے بندوں!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو ۔
اور نبی علیہ السلام کا بھی فرمان ہے:
«من صلَّى عليَّ صلاةً واحدةً صلَّى الله عليه بها عشرًا».
جو مجھ پر ایک درود بھیجے گا اللہ اس پر اس کے بدلے دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔
اس لئے پچھلے اور اگلے لوگوں کے سردار رسولوں کے امام پر درود و سلام بھیجیں۔
یا اللہ! محمد ﷺ اور آل محمدﷺ پر رحمتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمتیں نازل فرمائیں،بیشک تو بہت تعریفوں والا اور بزرگی والا ہے۔
یا اللہ ! محمدﷺ اور آلِ محمدﷺ پر برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمتیں نازل فرمائیں،بیشک تو بہت تعریفوں والا اور بزرگی والا ہے۔
یا اللہ! ہمارے سردار محمدﷺ اور ان کی ازواج مطہرات ، اولاد اوراہل بیت پر بے شمار رحمتیں اور سلامتیاں نازل فرما۔
یا اللہ! تمام صحابہ سے راضی ہوجا، اور خلفائے راشدین سے بھی جوکہ ہدایت یافتہ ائمہ ہیں: ابو بکر و عمر، عثمان و علی اور تمام صحابہ رضی اللہ عنھم سے بھی ، اور تابعین سے بھی اور ان لوگوں سے بھی راضی ہوجا جوقیامت تک ان کی پیروی کریں گے۔
یااللہ! اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! ان کے ساتھ ساتھ اپنے رحم و کرم سے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، یا اللہ! یا رب العالمین! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اورکفر اور کافروں کو رسوا کردے، اور شرک اور مشرکوں کو ذلیل کردے۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! مسلمانوں کے معاملات میں رہنمائی فرما۔
یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! اپنی رحمت سے ہمارے اور تمام مسلمانوں کے فوت شدہ لوگوں کو بخش دے،ان کی قبروں کو نور سے بھردے، ان کے گناہوں کو معاف فرمادے، ان کی نیکیوں کو بڑھادے، ان کی خطاؤں سے درگزر فرما۔
یا اللہ! اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! اپنی رحمت سےحق کو ہمارے سامنے حق ہی دکھانا اور ہمیں اس کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اور اسے ہم پر مشتبہ نہ کرنا کہ ہم گمراہ ہوجائیں۔
یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! اپنی اطاعت پر ہمارے دلوں کو ثابت کردے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اپنے دین کی مدد فرما۔
یااللہ! اے قوی و غالب! اپنے دین اور کتاب و سنت کی تائید فرما۔ یااللہ! ہر جگہ قرآن و حدیث کی مدد فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے ہی نفس کی شرارتوں سے محفوظ فرما۔ یا اللہ! ہمیں اپنے ہی نفس کی شرارتوں سے محفوظ فرما۔ اور ہمارے ہی برے عمال سے محفوظ فرما۔ یا اللہ! اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! اپنی رحمت سے ہر شر والی چیز کے شر سے محفوظ فرما۔
یااللہ! شام میں ہمارے مسلمان بھائیوں پر ظلم ہورہا ہے، یااللہ! ان پر تو واقعی ظلم ہوا ہے، یااللہ! اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! ان پر ایسی مصیبتیں، پریشانیاں اور سختیاں آگئی ہیں جنہیں تیرے سوا کوئی دور نہیں کرسکتا،
یا اللہ! ان پر ظالم قوم کو مسلط نہ کر، اے تمام جہانوں کے رب! اس گردش کو انہی ظالموں پر ڈال دے، بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! ان پر ظالم قوم کو مسلط نہ کر۔
یا اللہ! تو ہی مددگار ہےاوریقینا تو ہرچیز پر قادر ہے، یااللہ! جلد ہی ان کی مصیبتوں کو دور فرما، یااللہ! یا رب العالمین! جلد ہی ان کی سختیوں کو ختم کردے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے؛ اور بیشک تو ہی سچا معبود ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں تیری ہی طرف ٹھکانہ ہے اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
یا اللہ! ہمارے ملکوں میں امن پیدا فرما، اور ہمارے امیر کی اصلاح فرما۔
یاللہ! اے تمام جہانوں کے رب! اس ملک کے ساتھ ساتھ تمام مسلم ممالک کو فراوانی اور امن و سکون کا گہوارا بنادے۔
یا اللہ! حرمین شریفین کے خادم کو ہر اس کام کی توفیق عطا فرما جس سے تو خوش اور راضی ہوتا ہے، یا اللہ! انہیں ہدایت کی توفیق عطا فرما، اور اسے اپنی رضا کے کام والے اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما۔یا رب العالمین! دین کے معاملات میں اور اسے نافذ کرنے میں ان کی مدد فرما، اور اے تمام جہانوں کے رب! ہر اس کام میں مدد فرما جس میں مسلمانوں اور عوام کے لئے بھلائی ہو، بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! اے عزت و جلال والے! ہم تجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم پر بارش برسا۔ یا اللہ! اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! ہم پر بارش برسا۔ یااللہ! یا ذاالجلال والاکرام! پل جھپکنے کے برابر یا اس سے بھی کم وقت کے لئے ہمیں اپنے (ہمارے) ہی سپرد نہ کردینا۔
اللہ کے بندوں!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
النحل – 90/91
اللہ تعالٰی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ اور اللہ تعالٰی کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم آپس میں قول و قرار کرو اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد مت توڑو، حالانکہ تم اللہ تعالٰی کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے ہو ۔ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کو بخوبی جان رہا ہے۔
اور اللہ عظیم و جلیل کا ذکر کریں وہ آپ کا ذکر کرے گا، اور اس کی نعمتوں پر اسی کا شکر ادا کیجئے وہ آپ کو مزید عطا فرمائے گا، اور اللہ کا ذکر تو سب سے بڑ اہے، اور اللہ جانتا ہےجو کچھ آپ سب کرتے ہیں۔
***