خطبہ اول:
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، ہم اس کی حمد کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں، اور اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں، اور ہم اپنے نفسوں کے شر اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، اور جسے وہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ ان پر اور ان کے آل و اصحاب پر کثرت سے رحمتیں اور بہت زیادہ سلامتی نازل فرمائے۔
اما بعد!
مسلمانو! اللہ کی اپنے بندوں پر عظیم ترین نعمتوں میں سے یہ ہے کہ اس نے ان کی طرف رسول بھیجے، کیونکہ دنیا و آخرت میں کامیابی اور فلاح کا راستہ صرف انہیں کے ذریعے ہے، پاکیزہ اور ناپسندیدہ چیزوں کی تفصیلی معرفت بھی صرف انہیں کے ذریعے ممکن ہے، اور اللہ کی رضا بھی صرف انہیں کے ہاتھوں حاصل ہوتی ہے۔ بندوں کے لیے ان رسولوں کی ضرورت جسم کے لیے روح کی ضرورت سے بھی بڑھ کر ہے، اور زمین والوں کا وجود صرف ان کے اندر پائی جانے والی رسالت کی تعلیمات کی وجہ سے قائم ہے، اللہ نے اپنے رسولوں کو ایسی واضح نشانیوں اور دلائل کے ساتھ تائید فرمائی جو ان کی رسالت کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں۔
اللہ پاک نے فرمایا:
أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ1
کیا تمھارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، نوح کی قوم کی (خبر) اور عاد اور ثمود کی اور ان کی جو ان کے بعد تھے، جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے،
محمد ﷺ کی نبوت پر دلالت کرنے والی نشانیاں اور دلائل بہت زیادہ اور متنوع ہیں، بلکہ وہ دوسرے انبیاء کی نشانیوں سے زیادہ اور عظیم ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ2
عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میں اور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہوجائے کہ یقیناً یہی حق ہے اور کیا تیرا رب کافی نہیں اس بات کے لیے کہ بے شک وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔
ہمارے نبی محمد ﷺ کی نبوت ظاہر ہونے کے بعد مشرکین کے مطالبات بڑھ گئے، اور ان کے اعتراضات متنوع ہو گئے، انہوں نے ضد اور ہٹ دھرمی سے آپ ﷺ سے مختلف نشانیاں مانگیں، انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے اوپر کوئی کتاب نازل ہوتی تو ہم اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے،
جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
وَإِن كَانُوا لَيَقُولُونَؐ لَوْ أَنَّ عِندَنَا ذِكْرًا مِّنَ الْأَوَّلِينَٔلَكُنَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينٌَفَكَفَرُوا بِهِ ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ3
کفار تو کہا کرتے تھے ۔اگر ہمارے سامنے اگلے لوگوں کا ذکر ہوتا۔تو ہم بھی اللہ کے چیدہ بندے بن جاتےعنقریب جان لیں گے۔
لیکن جب قرآن نازل ہوا اور انہوں نے اس کی واضح نشانیاں دیکھیں تو کہنے لگے کہ یہ قرآن ان کے نزدیک مکہ اور طائف کے کسی بہت عظیم اور اثر و رسوخ والے شخص پر نازل کیوں نہ ہوا؟
اللہ نے فرمایا:
وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ4
اور انھوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟
اور جب وہ اللہ کے چیلنج کو پورا کرنے سے قاصر رہے کہ قرآن یا اس کے کچھ حصے جیسی کوئی چیز لا سکیں تو انہوں نے نبی ﷺ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس قرآن کو بدل کر کوئی اور کتاب لے آئیں،
اللہ کا فرمان ہے:
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ5
’’اور جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی امید نہیں وہ کہتے ہیں کہ یا تو اس کے سوا کوئی اور قرآن بنا لاؤ یا اس کو بدل دو، کہہ دو کہ مجھ کو اختیار نہیں کہ اسے اپنی طرف سے بدل دوں‘
اور جب انہیں اس بات کا علم ہو گیا کہ قرآن کو بدلنا نبی ﷺ کا کام نہیں تو انہوں نے دیکھا کہ یہ قرآن حالات اور واقعات کے مطابق جستہ جستہ نازل ہو رہا ہے تو انہوں نے اس کے یکبارگی کتابی شکل میں اتارنے کا مطالبہ کر دیا،
جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً6
اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، یہ قرآن اس پر ایک ہی بار کیوں نہ نازل کردیا گیا ؟
پھر ان کی سرکشی اور ہٹ دھرمی مزید بڑھی اور انہوں نے نبی ﷺ سے مطالبہ کیا کہ آپ سیڑھی پر چڑھ کر آسمان پر جائیں، جبکہ وہ آپ کو دیکھ رہے ہوں، پھر ہر ایک کے لیے آسمان سے ایک خاص کتاب لے کر آئیں جسے وہ پڑھ سکیں،
جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
بَلْ يُرِيدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ أَن يُؤْتَىٰ صُحُفًا مُّنَشَّرَةً7
بلکہ ان میں سے ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ اسے کھلے ہوئے صحیفے دیے جائیں۔
مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا:
یعنی ہر ایک کے لیے ایک الگ صحیفہ ہو جس پر لکھا ہو کہ یہ اللہ کی طرف سے فلاں بن فلاں کے لیے کتاب ہے، جب انہیں یقین ہو گیا کہ اللہ نے محمد ﷺ کی قرآن کے معجزے سے مدد فرمائی ہے تو انہوں نے آپ کی رسالت کے تئیں تکبر اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا اور کہا: کیوں نہیں اس پر کوئی فرشتہ نازل کیا گیا جو اس کی اس کے کام میں مدد کرتا؟
اور پھر انہوں نے اپنے مطالبات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہیں ہم پر فرشتے اترتے جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور لگاتار قطار در قطار آتے اور ہمیں بتاتے کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں؟ پھر وہ خالق کائنات کے سامنے بھی تکبر پر اتر آئے اور مطالبہ کیا کہ اللہ ان سے براہ راست بلاواسطہ کلام کرے اور بتائے کہ محمد اس کے رسول ہیں،
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ8
اور ان لوگوں نے کہا جو نہیں جانتے ہم سے اللہ کلام کیوں نہیں کرتا ؟ یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟
بلکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اللہ کو دیکھنے کا بھی مطالبہ کیا کہ تاکہ اللہ خود انہیں بتائے کہ محمد ﷺ ان کی طرف بھیجے گئے سچے رسول ہیں، پھر انہوں نے اپنی انا کا اظہار کرتے ہوئے نبی ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے کی شرط یہ رکھی کہ فرشتے ان کے پاس بھی ویسے ہی رسالت لے کر آئیں جیسے انبیاء کے پاس آتے ہیں،
جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ ۘ9
اور جب ان کو کوئی آیت پہنچتی ہے تو یوں کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ ہم کو بھی ایسی ہی چیز نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی جاتی ہےاور جب ان کو کوئی آیت پہنچتی ہے تو یوں کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ ہم کو بھی ایسی ہی چیز نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی جاتی ہے۔
تو اللہ نے ان کے جواب میں فرمایا:
ۘ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۗ10
اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔
جب ان کے تمام دینی مطالبات ناکام ہو گئے تو انہوں نے نبی ﷺ سے دنیاوی مطالبات شروع کیے تاکہ بزعم خویش ان کو عاجز کر سکیں، چنانچہ انہوں نے مطالبہ کیا کہ آسمان سے ان پر خزانہ برسایا جائے جس سے وہ فائدہ اٹھا سکیں، اور انہوں نے نبی ﷺ سے جو کہ مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں رہتے تھے مطالبہ کیا کہ آپ کے لیے کھجور اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس میں نہریں بہتی ہوں، اور انہوں نے آپ سے جن کے پاس دن بھر کا کھانا میسر نہ ہوتا اس بات کا مطالبہ کیا کہ آپ کے پاس سونے کا ایک گھر ہو،یا آپ کے اپنے لیے کوئی سونے کا گھر ہو جائےاور اپنے لیے دنیاوی فوائد کے حوالے سے انہوں نے کہا
جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًاۙأَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا11
اور انھوں نے کہا ہم ہرگز تجھ پر ایمان نہ لائیں گے، یہاں تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ جاری کرے۔یا تیرے لیے کھجوروں اور انگور کا ایک باغ ہو، پس تو اس کے درمیان نہریں جاری کردے، خوب جاری کرنا۔
اور جب ان کے تمام مطالبات پورے نہ ہوئے تو انہوں نے اپنے لیے نبی ﷺ سے عذاب نازل کرنے کا مطالبہ کر دیا، کہ یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے، اور انہوں نے گھمنڈ میں آ کر عذاب میں جلدی کا مطالبہ کیا،
جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ12
اور وہ تجھ سے جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔
بلکہ انہوں نے اپنے من چاہے عذاب کی تعیین بھی کر دی کہ ان پر آسمان ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرا دیا جائے اور ان کو ہلاک کر دے جس طرح قوم شعیب کے ساتھ ہوا،
جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا13
یا آپ آسمان کو ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرا دیں جیسا کہ آپ کا گمان ہے۔
فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ14
اور جب کہ ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ۔
اور جب ان کے مطالبات فورا پورے نہ ہوئے تو ان کی سرکشی کا یہ عالم ہوا کہ وہ رسولوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگے، کیوں نہیں تم اپنی طرف سے کوئی نشانی لے آتے؟
جیسا کہ اللہ نے فرمایا: وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي ۚ15
اور جب آپ کوئی معجزہ ان کے سامنے ظاہر نہیں کرتے تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ یہ معجزہ کیوں نہ لائے (١) آپ کہہ دیجئے! کہ میں اس کی پیروی کرتا ہو جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے
پھر اللہ پاک نے بیان کیا کہ صرف وہی نشانیوں کو نازل کرنے پر قادر ہے اور نشانیاں صرف اسی کے پاس ہیں،
اس کا فرمان ہے:
قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ ۖ16
تو کہہ نشانیاں تو صرف اللہ کے پاس ہیں۔
اور اس میں نہ تو رسولوں کا اور نہ ہی کسی اور مخلوق کا کچھ اختیار ہے،
اللہ کا فرمان ہے:
وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ17
اور کسی رسول کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ کوئی نشانی لے آتا،
اللہ تعالیٰ نے ان کے مطالبات پورے نہیں کیے کیونکہ وہ لوگ اس میں اللہ کی حکمت کو نہیں سمجھتے،
اللہ کا فرمان ہے:
قُلْ إِنَّ اللَّهَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن يُنَزِّلَ آيَةً وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ18
کہہ دے بے شک اللہ اس پر قادر ہے کہ کوئی نشانی اتارے اور لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔
اور اس وجہ سے بھی کہ جو نشانیاں وہ مانگ رہے ہیں وہ ایمان لانے کا سبب نہیں بن سکتی تھیں، کیونکہ پہلی قوموں نے بھی یہی نشانیاں مانگی تھیں، اور انہیں وہ دی گئیں پھر بھی وہ ایمان نہ لائے، بلکہ ان کا انجام ہلاکت اور تباہی ہوا،
اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:
فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ ٗ مَا آمَنَتْ قَبْلَهُم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا ۖ أَفَهُمْ يُؤْمِنُونَ19
ورنہ ہمارے سامنے یہ کوئی ایسی نشانی لاتے جیسے اگلے پیغمبر بھیجے گئے (٢) تھے۔ ان سے پہلے کوئی بستی، جسے ہم نے ہلاک کیا، ایمان نہیں لائی تو کیا یہ ایمان لے آئیں گے۔
اور جب قوم موسیٰ نے کہا کہ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک اللہ کو کھلی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں تو ان پر بجلی گر پڑی اور وہ دیکھتے ہی رہ گئے، اور جب حواریوں نے عیسیٰ ابن مریم سے مطالبہ کیا کہ وہ ان پر آسمان سے دسترخوان اتاریں
تو اللہ نے فرمایا:
قَالَ اللَّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۖ فَمَن يَكْفُرْ بَعْدُ مِنكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَّا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ20
اللہ نے فرمایا بے شک میں اسے تم پر اتارنے والا ہوں، پھر جو اس کے بعد تم میں سے ناشکری کرے گا تو بے شک میں اسے عذاب دوں گا، ایسا عذاب کہ وہ جہانوں میں سے کسی ایک کو نہ دوں گا۔
نبی ﷺ کے دل کو ان کی باتوں سے اور مطالبات سے کوفت ہوتی تھی،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ21
اور بلاشبہ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ بے شک تیرا سینہ اس سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں۔
اور آپ ﷺ کہتے تھے:
’’مجھے اللہ کی راہ میں ایسی تکلیفیں دی گئیں جو کسی اور کو نہیں دی گئیں‘‘،
لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو صبر، کثرت عبادت اور جاہلوں سے اعراض کرنے کا حکم دیا، اور آپ کو بتایا کہ رسالت کا مقصد ڈرانا اور بشارت دینا ہے۔
مسلمانو! اللہ نے محمد ﷺ کو ایسی نشانیاں اور دلائل سے نوازا جو آپ کی پیدائش سے پہلے بھی ظاہر ہوئیں، اور آپ کی زندگی میں بھی، اور اب تک یہ یکے بعد دیگرے مسلسل جاری ہیں، اور روزانہ بڑھ رہی ہیں، نبی ﷺ وفات پا گئے اور یہ نشانیاں پہلے سے بھی زیادہ ہو گئیں، اور یہ قیامت تک باقی رہیں گی، ان میں سب سے عظیم نشانی قرآن مجید ہے، جس نے اپنی فصاحت، بلاغت اور گہرے معانی کے ذریعے تمام اہل زمین کو بے بس کر دیا ہے۔
اللہ پاک نے فرمایا:
وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِّن رَّبِّهِ ۖ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ22
اور انھوں نے کہا اس پر اس کے رب کی طرف سے کسی قسم کی نشانیاں کیوں نہیں اتاری گئیں، کہہ دے نشانیاں تو سب اللہ ہی کے پاس ہیں اور میں تو صرف ایک کھلم کھلا ڈرانے والاہوں۔
أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ23
اور کیا انھیں یہ کافی نہیں ہوا کہ بے شک ہم نے تجھ پر کتاب نازل کی جو ان کے سامنے پڑھی جاتی ہے۔
جو شخص رسالت کی سچائی اور اس کے دلائل کی شفافیت کو جاننا چاہتا ہے تو اسے قرآن کی طرف رجوع ہونا چاہیے،
نبی ﷺ نے فرمایا:
أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مَا مِثْلهُ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ24
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کو ایسے ایسے معجزات عطا کئے گئے کہ ( انہیں دیکھ کر ) ان پر ایمان لائے ( بعد کے زمانے میں ان کا کوئی اثر نہیں رہا ) اور مجھے جو معجزہ دیا گیا ہے وہ وحی ( قرآن ) ہے جو اللہ تعالی نے مجھ پر نازل کی ہے ۔ ( اس کا اثر قیامت تک باقی رہے گا ) اس لئے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے تابع فرمان لوگ دوسرے پیغمبروں کے تابع فرمانوں سے زیادہ ہوں گے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’یہ جاننا چاہیے کہ جب اللہ کسی نبی کو بھیجتا ہے اور وہ کسی ایسی نشانی لے کر آتے ہیں جو اس کی سچائی پر دلالت کرتی ہے تو اس سے حجت قائم ہو جاتی ہے اور راستہ واضح ہو جاتا ہے، پھر اگر کوئی دوسری نشانی کا مطالبہ کرے تو اس کا مطالبہ پورا کرنا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات یہ مناسب بھی نہیں ہوتا، کیونکہ اگر دوسری نشانی دے دی جائے گی تو پھر تیسری نشانی کا مطالبہ ہو گا، اور اگر تیسری دے دی جائے گی تو چوتھی مانگی جائے گی، اور ہٹ دھرموں کے مطالبات کی کوئی انتہا نہیں ہوتی‘‘۔
جن کے پاس رسول بھیجے گئے ان کا یہ حق نہیں کہ وہ اپنی من مانی نشانیوں کا تقاضا کریں، کیونکہ اس سے ان کا مقصد صرف ہٹ دھرمی اور تکذیب پر اڑے رہنا ہوتا ہے۔ نبوت کی صداقت اور رسالت کے ثبوت کے لیے مشرکین کے مطالبات پورے کرنا ضروری نہیں، اور جو کچھ وہ مانگتے ہیں اس سے ہدایت لازم نہیں آتی، بلکہ یہ تو صرف حجت قائم کرنے کے لیے ہوتا ہے، اللہ کا دستور ہے کہ وہ صرف اسی قوم پر مطالبہ کی گئی نشانیاں ظاہر کرتا ہے جس کے لیے اس نے عذاب اور ہلاکت مقدر کر رکھی ہے، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ وہ ربوبیت کے مقام کی بے حرمتی یا رسالت کے مرتبے کی توہین سے بچے، اور جو شخص ان دونوں کی تعظیم نہیں کرے گا وہ ہلاک ہو جائے گا،
اللہ کا فرمان ہے:
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۖ وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ25
بے شک ہم نے تجھے حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور تجھ سے جہنم والوں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔
اللہ ہمارے لیے اور آپ سب کے لیے قرآن عظیم میں برکت عطا فرمائے، اور ہمیں اس کی آیات اور حکمت بھری نصیحتوں سے نفع پہنچائے، میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ سے اپنے لیے، آپ سب کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے ہر قسم کے گناہوں کی مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں، بے شک وہ بہت مغفرت والا، بڑا مہربان ہے۔
خطبہ ثانی:
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، اس کے احسان پر، اور اس کا شکر ہے اس کی توفیق و نوازش پر، اور میں اس کی تعظیم کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر، ان کے آل و اصحاب پر درود اور بہت زیادہ سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو! دین اسلام دو اصولوں پر قائم ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، جو شخص نبی کریم ﷺ کا اتباع جتنا زیادہ کرنے والا ہو گا، وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو بجا لانے اور دین کو اس کے لیے خالص کرنے میں اتنا ہی عظیم ہو گا، اور جو کوئی آپ ﷺ کے اتباع سے جتنا دور ہو گا، اس کا دین بھی اسی قدر ناقص ہو گا۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جو صدیقیت کا درجہ ملا وہ نبی ﷺ کی تصدیق میں سبقت لے جانے کی وجہ سے ملا،
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
يا أيها الناس إني رسول الله إليكم جميعا فقلتم كذبت. وقال أبو بكر صدقت 26
میں نے کہا: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، تو تم نے کہا: تو جھوٹا ہے، اور ابوبکر نے کہا: آپ سچ فرما رہے ہیں۔
پس جو شخص اللہ کی بھیجی ہوئی رسالت کو قبول کر لے اور اس پر قائم رہے وہی بہترین انسان ہے۔ پھر جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے نبی ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے،
جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا27
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اس پر صلوٰۃ بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا۔
اے اللہ! ہمارے نبی محمد پر درود، سلام اور برکت نازل فرما، اور ان کے خلفائے راشدین، ابوبکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا جنہوں نے حق کے ساتھ فیصلے کیے اور عدل کے ساتھ حکومت کی، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، اور ان کے ساتھ ہم سے بھی اپنی سخاوت و کرم سے، اے سب سے زیادہ کرم کرنے والا!
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل کر، دین کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر، اور اس ملک کو اور تمام مسلم ممالک کو امن و اطمینان اور خوشحالی عطا فرما،
اے رب العالمین! اور تمام مسلم حکمرانوں کو اپنی کتاب پر عمل کرنے اور اپنی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کی توفیق دے، یا ذوالجلال والاکرام! اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا،
اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
اللہ کے بندو! بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور قرابت داروں کو عطا کرنے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے روکتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو، اللہ عظیم و جلیل کو یاد کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو وہ تمہیں مزید عطا کرے گا، اور بے شک اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔
خطبہ جمعہ مسجد النبوی
الشیخ د. عبدالمحسن القاسم حفظه الله
30 Muharram 1447 | 25 July 2025
___________________________________________________________________________________________________________________
- (سورۃ ابراہیم:09)
- (سورۃ فصلت:56)
- (سورۃالصافات:167،168،169،170)
- (سورۃ الزخرف:31)
- (سورۃ یونس:51 )
- (سورۃ الفرقان:32)
- (سورۃ المدثر:52)
- (سورۃ البقرۃ:118)
- (سورۃ الانعام:124)
- (سورۃ الانعام:124)
- (سورۃالاسراء91:90)
- (سورۃ العنکبوت:53)
- (سورۃالاسراء:92)
- (سورة الانفال:32)
- (سورۃ الاعراف:203)
- (سورۃ الانعام:109)
- (سورۃ الرعد:38)
- (سورۃ انعام:37)
- (سورۃ الانبیاء:-5۔6)
- (سورۃ المائدہ:115)
- (سورۃ الحجر:97)
- (سورۃ العنکبوت:50)
- ( سورۃ العنکبوت:51)
- (صحیح بخاری:4981)
- (سورۃ البقرۃ: 119)
- ( صحیح بخاری:464۰)
- (سورۃ الاحزاب:56)