رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم به، کتاب اللہ و سنة رسولة
میں نے تمہارے درمیان دو امر چھوڑ دیئے ہیں جب تک اس کو تھامے رکھو گے گمراہ نہیں ہوگے، وہ کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ہیں.
اہل اسلام کا اتحاد وقت کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی، اس کے ساتھ ساتھ یہ اسلام کا دائمی حکم بھی ہے۔اسلام نے اتحاد کی تعلیم دی ہے اور اختلاف سے بچنے کی تلقین کی ہے، اتحاد طاقت کا راز ہے اور اختلاف کمزوری کا سبب، اتحاد سے شجاعت، ایثار، محبت و اخوت جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں، اور اختلاف سے بزدلی، خود غرضی، منافقت اور عداوت جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں،مگر یہ بات ابتداء میں ہی جان لیں کہ تمام اختلافات مذموم نہیں، اگر اختلاف حدود کے دائرہ میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین کئی معاملات میں اختلاف ہوا لیکن ایک تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اخلاص، للہیت انتہاء درجہ کی تھی، دوسرے انکا مقصد نبی کریم ﷺکی اطاعت تھی، صحابہ کرام کے علاوہ تابعین، تبع تابعین، فقہاء، مجتہدین کے درمیان ہزاروں فقہی اور سیاسی مسائل میں اختلاف رہا، لیکن ان اختلافات کے باوجود وہ ایک دوسرے کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے تھے، یہ ان کے باہمی ادب و احترام کا ہی نتیجہ تھا کہ آج تک امت کے باشعور لوگ ان کا تذکرہ ادب و احترام ہی سے کرتے ہیں،اور کسی کو ان کی شان میں گستاخی کی جرات نہیں ہوتی،عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر اختلاف نہ مذموم ہے نہ ممنوع، ایسا اختلاف جو اخلاص اور للہیت اور اصولوں پر مبنی ہو اس کی نا صرف شریعت نے اجازت دی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ
النساء – 59
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول ﷺ کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف۔
جبکہ مذموم اور ممنوع اختلاف وہ ہے جس کی بنیاد ریا اور نفسانیت پر ہواور شر اور فساد کا سبب بنے،یہی وہ اختلاف ہے جو ہلاکت اور تباہی کا ذریعہ بنتا ہے ایسا اختلاف جماعت، ملک اور ادارہ کی بنیادیں ہلا دیتا ہے اللہ کی رحمت اٹھ جاتی ہے اور مختلف صورتوں میں عذاب کا نزول شروع ہو جاتا ہے، مسلمانوں کی ہوا اکھڑ جاتی ہے اور کافروںکے حوصلے بلند ہونے لگتے ہیں،اگرچہ آج کل ہر شخص اپنے اختلاف کو اصولی اختلاف اور اصولوں پر مبنی قرار دیتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو امت مسلمہ کی جماعتوں، ملکوں اور افراد کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے گیارہ بڑے اسباب سامنے آتے ہیں، کاش ہم ان اسباب سے چھٹکارہ پا کر امت مسلمہ کو بنیان مرصوص (سیسہ پلائی دیوار)بننے میں مدد دے سکیں۔
: نفس پرستی:
اختلاف کا پہلا سبب نفس پرستی ہے جب افراد اور جماعتیںخدا پرستی کی بجائے نفس پرستی شروع کر دیتی ہیں تو تنازعات کا پنڈورا بکس کھل جاتا ہے بہت سے گروہ اور لیڈر ایسے ہیں جو محض نفسانی اغراض کی وجہ سے امت کو ایک پلیٹ فارم پر متحد نہیں ہونے دیتے۔
۲: ضد و عناد:
اختلاف کا دوسرا سبب ضد و عناد ہے جو کہ نفس پرستی ہی کا لازمی نتیجہ ہے،ہمارے یہاں بعض مسائل کا التزام صرف دوسروں کی ضد و عناد میں کیا جاتا ہے۔
۳: حسد:
اختلاف کا تیسرا سبب حسد ہے ،بہت سے بے وقوف دوسروں کی عزت و شہرت کو دیکھ کر جلتے ہیں اور پھر ان سے اصولی اختلاف شروع کر دیتے ہیں،
۴: تشخص:
چوتھا سبب تشخص ہے، یعنی یہ خواہش کہ ہم لباس ، ٹوپی اور جھنڈے کے رنگ اور ڈیزائن کے اعتبار سے دوسروں سے جدا اور ممتاز نظر آئیں اور ہم امت کے سمندر کی موجیں بن کر اسی میں کہیں گم ہوجائیں، کاش کہ وہ جان سکتے کہ (موج ہیں دریا میںاور بیرون دریا کچھ بھی نہیں)
۵: اجزاء اور رسموں پر اصرار:
پانچواں سبب اجزاء اور رسموں پر اصرارہے، بعض بھولے بھالے لوگ دین کے کسی ایک جزء اور خاندان کی کسی ایک رسم کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ اسے کفر اور ایمان کے درمیان حد فاصل ٹہرا لیتے ہیںاور اس کے لئے ہر کسی سے لڑنے مرنے کو تیار ہوتے ہیں، ان لوگوں کا حال ان اندھوں جیسا ہوتا ہے جن میں سے کسی نے ہاتھی کے کان کو کسی نے سونڈ کو، کسی نے ٹانگوں اور کسی نے دم کو ہی پورا ہاتھی سمجھ لیا تھا۔
۶: خوش خیالی اور خوش فہمی:
چھٹا سبب خوش خیالی اور خوش فہمی ہے، ہر شخص اپنی کھال اور حال میں مست ہے، اس کے ذہن میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بٹھا دی گئی ہے کہ صرف ہماری جماعت ہی دین ، ملک اور قوم کی صحیح خدمت کر رہی ہے باقی سارے لوگ کھانے پینے اور دین کی بیخ کنی میں مصروف ہیں۔
۷: شخصیت پرستی:
ساتواں سبب حد سے بڑھتی ہوئی شخصیت پرستی ہے ایسے لوگ اپنے حضرات اور بزرگوں کے فرمودات کے مقابلے میں قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کو بھی ٹھکرا دیتے ہیں(نعوذباللہ من ذلک)
۸: کم ظرفی اور تنگ نظری:
آٹھواں سبب کم ظرفی اور تنگ نظری ہے،جس کی وجہ سے ایک گروہ دوسرے گروہ کے وجود کو برداشت کرنے کے لئے آمادہ نہیں۔
۹: معاشی مجبوری:ـ
نواں سبب معاشی مجبوری ہے، بعض بد بخت امت کو اس لئے متحد نہیں ہونے دیتے کیوں کہ اختلافی مسائل ہی ان کا ذریعہ معاش ہیں، انہیں ان مسائل کے علاوہ کچھ نہیں آتاجاہل عوام میں انکی طلب اور شہرت صرف اور صرف ان کی اختلافی تقریروں کی وجہ سے ہوتی ہے جن کا وہ منہ مانگا معاوضہ وصول کرتے ہیں،
۱۰: نسلی اور لسانی تعصبات:
دسواں سبب نسلی اور لسانی تعصبات ہیں، اسلام دشمنوں نے ان تعصبات کو اس قدر ہوا دی ہے کہ قرآن کریم کے جو اولین مخاطب تھے یعنی عرب، ان کے ذہنوں کو بھی تعصبات سے مسموم کر کے رکھ دیا ہے اور ان میں سے بعض نے کفار کے پروپیگنڈا کے نتیجہ میں عجمی مسلمانوں کو عرب سے کم تر سمجھنا شروع کر دیا۔
۱۱: ملکی سرحدیں:
امت مسلمہ میں پایا جانے والا اختلاف کا گیارہواں سبب ملکی سرحدیں ہیں جنہیں بعض وطن پرست ایمان سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جبکہ قرآنی حقائق اور نبوی فرمودات پر ایمانی نظریں رکھنے والے خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملکی ، قومی، لسانی، نسلی، خاندانی، جماعتی اور گروہی تعلقات اور رشتوں سے کہیںزیادہ اہمیت ایمانی رشتہ کو حاصل ہے،
یہی رشتہ ہے جس نے فارس کے سلمان، حبشہ کے بلال روم کے صہیب،نینوا کے عداس، غفار کے ابو ذر، دوس کے طفیل، طائی کے عدی، اور جعشم کے سراقہ رضی اللہ عنہم کو بھائی بھائی بنا کر قیصر و کسری کے سامنے ایمان ، استقامت، جرات اور شجاعت کا مضبوط پہاڑ بنا کر کھڑا کر دیاتھا، جس سے ٹکرا کر وقت کے فرعون اور نمرود اپنی موت آپ مر گئے تھے،
اگر اہل اسلام اور حق متحد نہ ہوئے تو اہل باطل انہیں ایک ایک کر کے ختم کر ڈالیں گے، کبھی ایک جماعت پر ہاتھ ڈالا جائے گا کبھی دوسری پر، کبھی ایک مدرسہ کو طوق سلاسل میں جکڑا جائے گا اور کبھی دوسرے کو، کبھی ایک ملک پر آتش و آہن کی بارش ہوگی اور کبھی دوسرے پر، اے کاش ملکی اور بین الاقوامی سطح پرایک بار پھر اہل اسلام اسی اتحاد کا مظاہرہ کر سکیں تاکہ دور حاضر کے دجال اور نمرودان کے سامنے ناک رگڑنے پر مجبور ہو جائیں۔اللہم آمین