ثقافت اور شناخت دو باہم جڑی ہوئی چیزیں ہیں۔ان دونوں کو ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں کیا جاسکتا ۔ ہر امت اورقوم کی اپنی ثقافت ہوتی ہے جو ایک پہچان اورشناخت کا کام کرتی ہے۔ بیت المقدس ایسی ثقافتی خصوصیت کا حامل ہے جو دنیا کے کسی دوسرے شہر کو حاصل نہیں ہے ۔ بیت المقدس کی ثقافت ایک مقدس مذہبی ثقافت ہے۔ قرآن مجید میں مسجد حرام اورمسجد اقصیٰ کا تذکرہ ایک ہی آیت میں بیان ہوا ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
( سورۃ الأسراء :1)
” پاک ہے وہ ذات جو رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے بہت برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بلاشبہ وہی خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں دونوں مقدس ترین مساجد کو ایک ہی آیت میں بیان کر کے مسجد حرام کو مسجد اقصیٰ کے ساتھ مربوط کر دیا ہے اور ایک خاص رشتے کی واضح نشاندہی فرمائی ہے ۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے مسجد حرام کو مسجد اقصیٰ کے ساتھ مربوط کر دیا ہے تب سے بیت المقدس مسلمانوں کے ہاں مذہبی تقدس و احترام کے اعلیٰ درجے پر فائز ہے ۔ یعنی اس شہر کی ثقافت خالصتاً اسلامی ثقافت ہے، یہ ثقافت جغرافیائی عوامل کے تابع نہیں ہے کیونکہ اس کی ثقافت کو قرآن کریم نے خصوصیت کے ساتھ بیان کر کے متعین کیا ہے۔
فلسطینی مسلمان تقریباً ایک صدی سے تکلیف اور آزمائش کی چکی میں پس رہے ہیں اور یہ دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو خود اپنے ہی علاقے اور اپنے وطن میں مہاجروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل اہل فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ کسی بھی صورت اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ فلسطین کا غم امت مسلمہ کا مشترکہ غم ہے اور اہل فلسطین کا درد بھی مشترکہ ہے۔ یہ مسئلہ فقط اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو بیت المقدس اور فلسطین کی ثقافت اور تاریخ سے واقف کروائیں تاکہ ہماری نسلیں بیت المقدس کی حفاظت اور آزادی کیلئے ہمیشہ تیار رہیں۔
فنِ تعمیر
کسی بھی تہذیب اور ثقافت کی سب سے ٹھوس اور واضح شناخت اس کے فنِ تعمیر کے طرز سے پرکھی جاتی ہے ، فلسطینی فن تعمیر اسلامی اثرات کے امتزاج کی عکاسی کرتا ہے، چھ ہزار سالہ قدیم شہر فلسطین میں موجود اسلامی آثار مسجد اقصیٰ ، مسجد قبلی، مصلی مروانی اور دیوارِ براق مسلمانوں کی قدیم تہذیب و ثقافت کے واضح نشانات ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں دو سو سے زیادہ تاریخی و اسلامی آثار کے نشانات موجود ہیں، جن میں مساجد، مصلے، گنبدیں، قبے، مدرسے، چبوترے وغیره شامل ہیں۔ ساتویں صدی میں تعمیر شدہ قبۃ الصخرہ اسلامی فن تعمیر کی قدیم ترین مثالوں میں سے ایک ہے۔ فلسطین کے شہر الخلیل ، بیت اللحم ، نابلس، اور رام اللہ روایتی اسلامی طرز تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان قدیم شہروں میں پائی جانے والی پتھر کی قدیم عمارتیں، پیچیدہ نقش و نگار والے محراب نما شہر کے دروازے، قدیم مساجد، محرابوں پر خوبصورت پچی کاری اور شاندار خطاطی اسلامی ثقافت کا ثبوت ہیں۔پھر خلافت بنو امیہ اور بنو عباس کے دور کی بڑی بڑی اور خوبصورت مساجد، تاریخی عمارتیں، محلات اور سینکڑوں تاریخی مقامات شہر کے اسلامی تشخص کی گواہی دیتے ہیں۔ ایوبی، مملوکی اور ترکی دورِ حکومت کی اوقاف کی زمینوں، مدرسوں اور آثار قدیمہ کے نشانات اور قدیم عمارتوں اور شہروں سے اسلامی ورثہ اور فن تعمیر جھلکتا ہے جومسلمانوں کی تہذیب و روایات اور تمدن کی عکاسی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ مسجد اقصی کے ارد گرد میں ایوبی دور کے مدرسوں، کتب خانوں اور ہسپتالوں کی عمارتیں آج تک موجود ہیں۔ درج ذیل سطور میں فلسطین اور بیت المقدس میں پائی جانے والی چند قدیم عمارتوں کا تعارف پیش خدمت ہے جن سے اسلامی فنِ تعمیر جھلکتا ہے ۔ اور جو مسلمانوں کے بیت المقدس کے ساتھ ثقافتی رشتے کی گواہی دیتے ہیں۔
جامع مسجد اقصیٰ
یہ جامع مسجد قبۃ الصخرہ کے جنوب میں ( بیت اللہ کی سمت ) واقع ہے ، اسی جامع مسجد کو آج کل لوگ مسجد اقصی تصور کرتے ہیں، اسے اسلامی دور میں سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سادہ انداز میں بنایا تھا، پھر اموی دورِ خلافت میں اسے پوری شان و شوکت سے تعمیر کیا گیا۔ اس کی لمبائی 80 میٹر اور چوڑائی 55 میٹر ہے، اس کے اندر سنگ مرمر کے 53 اور عام پتھر کے 49 ستون ہیں ، اور خانہ کعبہ کی جانب ایک سبز رنگ کا قبہ ہے۔ اس جامع مسجد کے 11 دروازے ہیں، سات دروازے شمال میں، ایک جنوب میں ، ایک مشرق میں اور دو مغرب میں ہیں ۔
مسجد اقصی ٰ کے نام
بیت المقدس کے بیس سے زائد اسمائے گرامی ہیں، کثرت اسماء کسی جگہ کی شرف و منزلت کی دلیل ہے ، ان ناموں میں مسجد اقصیٰ ، بیت المقدس ، مسجد ایلیا ، مسجد سلم، اورشلم ، اورشلیم ، بیت ایل و صیہون ، مصروت ، بابوش ، صلمون ، کورسیلا اور قریۃ معروف ہیں ۔1
مسجد اقصیٰ کا ایک نام مسجد اِيلِيَاء ہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إنَّما يُسَافَرُ إلى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الكَعْبَةِ، وَمَسْجِدِي، وَمَسْجِدِ إِيلِيَاءَ.
(صحيح مسلم: 1397)
صرف تین مسجدوں کی طرف ہی (عبادت کے لئے) سفر کیا جا سکتا ہے ۔ کعبہ کی مسجد، میری مسجد اور ایلیاء کی مسجد (مسجد اقصیٰ )
مسجد اقصی کی حدود
بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مسجد اقصی ٰ صرف اس جامع مسجد کا نام ہے جو قبۃ الصخرہ کے جنوب میں واقع ہے ، یہ غلط فہمی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ مسجد اقصی اس پورے خطے کا نام ہے جسے چاروں طرف سے ایک دیوار نے گھیر رکھا ہے اور اس میں جامع مسجد کے علاوہ قبۃ الصخرۃ ، مصلی مروانی ، متعدد دروازے اور مینار، برآمدے اور قبے، اونچے اونچے چبوترے اور پانی کی سبیلیں شامل ہیں ۔ یاد رہے کہ مسجد اقصی ٰ کے پورے خطے پر چھت نہیں ہے، بلکہ صرف جامع مسجد اور قبۃ الصخرۃ پر چھتیں موجود ہیں، اس کے باقی حصے اس کے صحن شمار ہوتے ہیں ۔ یوں مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے، وہ اس کی چار دیواری کے اندر کہیں بھی نماز پڑھ کر حاصل کی جا سکتی ہے ۔
قبۃ الصخرۃ
یہ اسلامی فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے ، اسے ولید بن عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصیٰ کی چار دیورای کے اندر تعمیر کیا تھا اور جس شان و شوکت اور انتہائی خوبصورت شکل و صورت میں اس نے تعمیر کیا تھا یہ آج بھی اسی شکل میں موجود ہے ۔ یوں اس کی عمر تقریباً تیرہ سو سال 1300 ہے، یہ جامع مسجد کے شمال میں واقع ایک اونچے صحن پر بنا ہوا ہے ۔ اس کی لمبائی شمال سے جنوب کی طرف 550میٹر ہے ، جبکہ چوڑائی مشرق سے مغرب کی طرف 350 میٹر ہے ۔
مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کی منفرد طرز تعمیر
مسجد اقصی جو انبیاء کرام کی تعمیر کردہ ہے، اس کی عمارتوں میں اہم ترین قبہ صخری جسے عبدالملک بن مروان نے 72 ہجری الموافق 691 میں بنوایا تھا جوکہ اسلامی آثار میں شامل ہوتا ہے، اورآج یہ نام مسجد اقصیٰ کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد پر بولا جاتا ہے ۔ یہ قبہ مسجد اقصی کے صحن کے وسط اور بیت المقدس شہرکے جنوب مشرقی جانب بنایا گیا ہے۔2 قبۃ الصخرہ خوبصورت پچی کاری ، سنہرے گنبد، اور سنگ مرمر کے ستونوں کی وجہ سے مشہور ہے، جو شاندار اسلامی فن تعمیر کو نمایاں کرتا ہے۔
صحنِ مسجد اقصی
مسجد اقصی میں وسیع وعریض اور مستطیل شکل کا ایک صحن جس کی پیمائش شمال سے جنوب کی جانب تقریبا 480 میٹر اور مشرق سے مغرب 300 میٹر بنتی ہے، یہ صحن قدیم زمانے سے اب تک موجود ہے۔3 ۔
مسجد اقصی کے دروازے
مسجد اقصیٰ کے کل 15 تاریخی دروازے ہیں جو کسی تاریخی اسلامی شخصیت یا کسی خاص موقع کی نسبت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ ان پندرہ دروازوں میں سے 10 کھلے ہیں مگر پانچ دروازے بند ہیں۔
کھلے دروازوں کے نام
مسجد کی شمالی دیوار میں تین دروازے باب الاسباط، باب حطۃ، باب العتم جب کہ مسجد کے مغربی دیوار میں سات دروازے باب المغاربہ[مراکشی دروازہ]، باب الغوانمہ، باب الناظر، باب الحدید، باب المطہرہ، باب القطانین، باب السلسلہ کھلے ہیں۔ ان میں مراکشی دروازے کے سوا باقی سب دروازوں سے مسلمان قبلہ اول میں آتے جاتے ہیں۔ باب المغاربہ سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد فلسطینیوں کی آمد و رفت کے لیے بند ہے۔
بند دروازوں کے نام
اسی طرح پانچ دروازے باب الثلاثی، باب المزدوج، باب المفرد، باب الرحمۃ اور باب الجنائز مسجد کی مغربی اور مشرقی سمتوں میں واقع ہیں۔ یہ سب بند ہیں۔ ان میں باب المفرد کا صرف نشان باقی ہے۔ یہاں اب عملا کوئی گیٹ موجود نہیں۔
مسجد اقصیٰ کے دروازوں کا مختصر تعارف
باب الاسباط
اس دروازے کی بلندی چار میٹر ہے۔ اگرچہ یہ صدیوں پرانا دروازہ ہے مگر اسے دور ایوبی کے سلطان شاہ المعظم عیسیٰ نے 1213ء میں دوبارہ تیار کرایا تھا۔ بعد ازاں ممالیک اور خلافت عثمانیہ کے دور میں سنہ 1817ء میں اس کی دوبارہ مرمت کرائی گئی۔
باب الحطۃ
یہ بھی قبلہ اول کے پرانے دروازوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسے نیچے سے اوپر تک پھتروں سے تیار کیا گیا ہے، اس کی تاریخِ تعمیر کا صحیح اندازہ نہیں تاہم صلاح الدین ایوبی اور خلافتِ عثمانیہ کے ادوار میں اس کی تعمیرِ نو کی گئی تھی۔
باب العتم
باب العتم کا نیا نام ”باب شاہ فیصل” ہے اور یہ دروازہ مسجد کی شمالی سمت میں واقع ہے۔ اس کی تجدید 610ھ بمطابق 1213ء میں ایوبی فرمانروا شاہ المعظم شرف الدین عیسیٰ کے دور میں کی گئی۔
باب الغوانمہ
اسے باب بنی غانم بھی کہا جاتا ہے۔ الغانمہ ایک عرب خاندان تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ صلاح الدین ایوبی کے ہمراہ بیت المقدس آیا اور اس جگہ قیام پذیر ہوا۔ اسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی نسبت سے”باب الخلیل” بھی کہا جاتا ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ یہ دروازہ اموی خلافت میں بنایا گیا۔ اسے باب الولید بن عبدالملک بھی کہا جاتا ہے۔ ممالیک کے دور میں 1307ء میں اس کی تجدید کی گئی اور اس کی تجدید کا شرف مملوک فرمانروا شاہ الناصر محمد بن القلاوون کو جاتا ہے۔
باب الناظر
اسے حرمین الشریفین کی نسبت سے باب الناظر کہا جاتا ہے۔ ممالیک حکومت کے دور میں الناظر ایک عہدہ تھا اور اس عہدیدار کی ذمہ داری قبلہِ اول کی دیکھ بال اور نگرانی تھی۔ مسجد اقصیٰ کی طرح مسجد ابراہیمی اور مسجد حرام اور مسجد نبوی کے لیے بھی الناظر مقررکیے جاتے تھے۔ مستطیل شکل کا یہ ایک بھاری بھرکم دروازہ ہے۔ اس کی اونچائی 4.5 میٹر ہے۔ اس کی تجدید 1203ء میں شاہ المعظم عیسیٰ کے دور میں کی گئی۔
باب الحدید
اپنی تعمیر میں انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب شکل میں ہے۔ اسے باب ارغون بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عربی کے الحدید ہی کا مترادف ہے۔ یہ دروازہ مملوک فرمانروا ارغون الکاملی کی یاد گار ہے۔ الکاملی نے 1357ء میں اس باب کی تجدید کی تھی۔
باب القطانین
یہ دروازہ بھی ممالیک کے دور کی حسین یادگار ہے۔ اسے سلطان محمد بن القلاوون نے 1336ء میں تعمیر کرایا۔ یہ اپنی زینت اور خوبصورتی میں قبلہ اول کے دیدہ زیب دروازوں میں سے ایک ہے۔ اس کی تیاری میں قدیم دور کی خوبصورت نقش و نگاری کی گئی ہے۔
باب المطہرۃ
باب المطہرۃ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں قائم کیا گیا۔ بعد ازاں ابو بکر ایوب نے یہاں پر وضو خانہ بنایا۔ بعض روایات میں شاہ المعظم عیسیٰ الایوبی کو اس دروازے کا بانی کہا جاتا ہے۔ بعد ازاں شہزادہ علاء الدین البصیری نے 1266ء میں اس کی تجدید کی۔ باب المطہرۃ کی اونچائی 3.5 میٹر ہے، سنہ 1980ء کے عشرے میں فلسطینی محکمہِ اوقاف نے بھی باب المطہرۃ اور اس سے متصل وضو خانہ کی تجدید کی تھی۔
باب السلسلہ
قرین قیاس یہ ہے کہ اسے ایوبی دور میں 1200 ء میں بنایا گیا تھا۔ فجر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لیے کھولے جانے والے قبلہ اول کے تین دروازوں میں سے ایک دروازہ باب السلسلہ بھی ہے۔ تاہم سنہ 1967ء کے بعد ظہر اور عصر کی نمازوں کے لیے یہ دروازہ بند رہتا ہے۔
باب المغاربہ
مسجد اقصیٰ کے تاریخی اور مشہور دروازوں میں سے ایک باب المغاربہ ہے جو دیوارِ براق کے بالمقابل ہے۔ باب الغاربہ مملوک فرمانروا سلطان الناصر محمد بن قلاوون کے دور میں 1313ء میں تعمیر کیا گیا۔ اسے باب البراق اور باب النبی بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی باب سے معراج کی رات مسجد میں داخل ہوئے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ فتح بیت المقدس کے وقت خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسی دراوزے سے مسجد میں داخل ہوئے تھے۔ باب المغاربہ سنہ 1967ء تک قبلہ اول میں مسلمانوں کی آمد و رفت کے لیے کھلا رہا مگر اس کے بعد اب فلسطینی مسلمانوں کا اس دروازے سے مسجد میں داخلہ منع ہے۔
مسجد اقصیٰ کے مینار
مسجد اقصی کے چار مینار ہیں جنہیں عہدِ مملوکی میں تعمیر کیا گیا تھا، یہ چاروں مینار درج ذیل ہیں ۔
مینار فخریہ
یہ مسجد اقصیٰ کے جنوب مغرب میں مدرسہ فخریہ کے اوپر واقع ہے ، اسے قاضی شرف الدین عبد الرحمن نے سنہ 677 ء میں بنایا تھا ۔
مینار باب الغوانم
یہ مسجد اقصی کے شمال میں واقع ہے ، اور یہ سب سے بڑا مینار ہے ۔
مینار باب السلسلۃ
یہ مسجد کے مغرب میں واقع ہے ، اسے مینار المحکمۃ بھی کہا جاتا ہے ، کیونکہ عہد عثمانی میں یہاں پر ایک عدالت لگا کرتی تھی ۔
مینار باب الاسباط
یہ مسجد اقصی کے شمال میں مدرسہ صلاحیہ کے قریب واقع ہے ، اسے سیف الدین قطلوبگا نے سنہ 769ء میں تعمیر کیا تھا ۔
مصلیٰ مروانی
یہ مسجد اقصیٰ کے جنوب میں مشرق میں واقع ہے ، اس کے 16 برآمدے اور 8 دروازے ہیں ۔ اسے عہد بنوامیہ میں بنایا گیا اور عبد الملک بن مروان کے دورِ خلافت میں اس سے ایک مدرسے کا کام لیا جاتا تھا ، تب سے اسے مروانی مصلی ٰ کا نام دیا گیا ، پھر جب صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا تو اسے گھوڑوں اور دیگر جانوروں کے باندھنے کے لئے استعمال کیا گیا ۔ اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا حالانکہ یہ محض ایک جھوٹ ہے ، جسے یہودی ذرائع ابلاغ نے ہی گھڑ کر منتشر کیا ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسجد اقصی پر وہ اپنا کوئی حق ثابت کر سکیں ۔
جائے وضو
یہ سنگ مرمر سے بنا ہوا گول شکل کا ایک خوبصورت حوض ہے ، اس کے وسط میں ایک فوارہ ہے ، اس کے چاروں طرف ٹونٹیاں لگی ہوئی ہیں جن میں نمازی حضرات وضو کرتے ہیں ۔ یہ جامع مسجد اور قبہ الصخرۃ کے درمیان واقع ہے ۔
دیوار براق
یہ مسجد اقصیٰ کے جنوب مغرب میں ایک دیوار ہے ، جسے حائط البراق کہا جاتا ہے اور اس کی لمبائی 50 میٹر اور اونچائی 20 میٹر ہے ۔ یہ مسجد اقصیٰ کا ہی ایک حصہ ہے اور مسلمان اسے اپنی املاک میں شمار کرتے ہیں ، جبکہ یہودی اسے حائط المبکی یعنی ” دیوار گریہ” کا نام دیتے ہیں ،اور ان کا دعوی ہے کہ یہ ” ہیکل سلیمانی ” کا بقیہ حصہ ہے ۔
کنویں
مسجد اقصی کے صحن میں 26 عدد کنویں موجود ہیں۔ یہ کنویں مسجد اقصی کی چار دیواری کے اندر کھودے گئے ہیں ، تاکہ بارشوں کا پانی انہی کنووں میں جمع ہوتا رہے اور ضایع نہ ہو۔ یہ کنویں پکے پتھر سے بنے ہوئے ہیں اس لئے ان میں کم ہی کوئی خراب ہوتا ہے۔ کنویں کا منہ تنور کے منہ کی طرح تنگ اور گول ہوتا ہے اور اس پر ایک بڑا ڈھکن رکھ دیا جاتا ہے تاکہ اس کے اندر کوئی چیز نہ گرے ، ہر کنویں کا الگ الگ نام ہے اور ان سے نمازیوں کے علاوہ بیت المقدس کے دیگر رہائشی بھی مستفید ہوتے ہیں ۔
پانی کی سبیلیں
مسجد اقصی کے صحن میں پانی کی11 سبیلیں موجود ہیں ، ہر ایک کا الگ الگ نام ہے ، ان میں مشہور ترین سبیل ” سبیل ِ قایت بائے ” ہے جو کہ عہدِ مملوکی کے اعلیٰ فنِ تعمیر کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے ۔ یہ سبیل باب السلسلہ اور باب القطانین کے درمیانی صحن میں واقع ہے ، اسے سنگِ مرمر سے تعمیر کیا گیا ہے ، اس کے اوپر ایک خوبصورت قبہ ہے اور چاروں طرف پانی پینے کے لئے کھڑکیاں بنی ہوئی ہیں ۔
چبوترے
مسجد اقصیٰ علمی حلقوں کے ساتھ مشہور رہی ہے ، کیونکہ بہت سارے نامورعلماء اس میں بے شمار طالب علموں کو پڑھاتے رہے ہیں ، ان میں ہر ایک کے لئے ایک چبوترہ خاص ہوتا تھا جو کہ زمین کی سطح سے ایک یا دو سیڑھیوں کے برابر اونچا بنایا جاتا تھا اور اس کی ایک سمت ایک چھوٹی سی محراب بھی تعمیر کی جاتی تھی جس کی طر ف پیٹھ کر کے استاذ اپنے سامنے بیٹھے ہوئے طالب علموں کو درس دیا کرتا تھا ۔ اب بھی مسجد اقصی ٰ کے صحنوں میں اس طرح کے تیس کے قریب چبوترے موجود ہیں ۔
فلسطین کی مساجد
فلسطین کا شمار دنیا کے قدیم ترین اسلامی خطوں میں ہوتا ہے۔اسلام کی آمد کے بعد فلسطین میں تعمیر مساجد کا سلسلہ تیزی سے شروع ہوا۔ مساجد کی تعمیر اور ڈیزائین مختلف زمانوں اور ادوار کی بدلتی تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے مختلف نوعیت کے ہیں۔ فلسطین میں درجنوں پرانی مساجد ہیں جن میں سے کچھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کی ہیں ۔ مسجد اقصیٰ کےعلاوہ بیت المقدس میں 35 مساجد ہیں، ان میں سب سے اہم اور قابلِ دید جامع عمر رضی اللہ عنہ ہے۔ فلسطین میں پائی جانے والی قدیم مساجد میں مسجد اقصٰی، مسجد قبلی ، مسجد قبۃ الصخرة، مسجد البراق ، مصلی مروانی، مسجد خانقاہ صلاحیہ، مسجد مغاربہ ، مسجد عمر، مسجد یعقوبی ، مسجد عابدین، مسجد بدر الدين لؤلؤ، جامع القلعہ ، مسجد قلاوون، مسجد سويقہ علوان، مسجد ابراہيمی، مسجد شيخ علی بكاء، الجامع الكبير، مسجد الحنبلي، جامع الخضراء، جامع النبی يحیی، جامع النصر، المسجد العمري أو مسجد قلقيليۃ، مسجد علی بن ابی طالب، مسجد أبی عبيدة عامر بن الجراح، مسجد ابی بكر الصديق، مسجد محمد الفاتح، مسجد بلال بن رباح، مسجد النصر، مسجد الأيبکی، المسجد العمري الكبير، مسجد علي بن مروان، جامع ابن عثمان، مسجد المحكمہ، مسجد السيد هاشم، مسجد عمر بن الخطاب قابل ذکر ہیں ۔
مسجد اقصی میں اسلامی مدارس
کائنات میں اولین مدرسے کی بنیاد عرشِ عظیم پر رکھی گئی تھی۔ اس مدرسے کے پہلے طالب علم حضرت آدم علیہ السلام تھے اور پہلے معلم خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ تھے، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ
(البقرۃ : 31)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام بتائے، پھر مقابلے کے لیے فرشتوں پر پیش کیا۔
معلوم ہوا کہ دینی مدارس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اسلام کی تاریخ ہے۔ مدارس اسلا م اور مسلمانوں کی علامت ہیں، مدارس اسلام اور مسلمانوں کے ثقافتی مرکز ہیں۔ یہ دینی ادارے اسلامی تہذیب و ثقافت اور اخلاقی اقدار کا نمونہ ہیں۔ معاشرے میں اسلامی اقدار اور روایات کو زندہ رکھنے میں ان مدارس کا تاریخی کردار ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب ہندوستان میں حکومتِ مغلیہ کا خاتمہ ہوا اور مسلمانوں کا سیاسی قلعہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو بالغ نظر اور صاحبِ فراست علماء کرام نے جا بجا شریعتِ اسلامیہ اور تہذیبِ اسلام کے قلعے تعمیر کر دیئے۔ انہی قلعوں کا نام عربی مدارس ہے اور آج اسلامی شریعت انہی قلعوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کی قوت و استحکام انہی قلعوں پر موقوف ہے۔ درج ذیل مدارس صرف مسجد اقصی ٰ کے ارد گرد موجود مدارس کے نام ہیں ، جبکہ فلسطین کے دیگر شہروں میں پائے جانے والے اسلامی مدارس کی فہرست الگ ہے ۔ مسجد اقصیٰ کے درج ذیل مدارس ”المدرسۃ العثمانیہ ، المدرسہ التنکزیہ ، مدارس ریاض الاقصی ٰ ، ثانویۃ الاقصیٰ الشرعیۃ ، المدرسۃ الأشرفیۃ ،المدرسۃ الملکیۃ ، المدرسۃ الأسعردیۃ ، المدرسۃ المنجکیۃ ، المدرسۃ الباسطیۃ ، المدرسۃ الأمینیۃ ، المدرسۃ الفارسیۃ ، المدرسۃ الغادریۃ” اسلامی ثقافت کے آئینہ دارہیں اور اسلامی فنِ تعمیرکے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے بیت المقدس کے ساتھ نہایت گہرے ثقافتی رشتے کی گواہی دیتے ہیں۔
ثقافتی ورثہ
فلسطینی ثقافت اسلامی اقدار، روایات اور رسم و رواج سے جڑی ہوئی ہے۔ فلسطینی کھانے اور لباس اسلامی ورثے سے متاثر ہیں۔ اسلامی خطاطی، ادب کے مختلف فنون، شعر اور نثر نے فلسطین کی اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ تمام شواہد مسلمانوں کے بیت المقدس کے ساتھ ثقافتی رشتے کو اجاگر کرتے ہیں۔ فلسطین کی تاریخ، متنوع فنِ تعمیر اور بھرپور ثقافتی ورثہ ، اسلامی دنیا کی متنوع ثقافتی اور مذہبی روایات کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ تمام حقائق مسلمانوں کے بیت المقدس کے ساتھ ثقافتی رشتے اور اسلامی اثرات کے امتزاج کی عکاسی کرتے ہیں۔
بیت المقدس کے قدیم اسلامی، تاریخی اور ثقافتی مقامات پر یہودی حملے
عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بیت المقدس کے قدیم اسلامی، تاریخی اور ثقافتی مقامات پر یہودی حملے جاری ہیں ۔ یہودیوں کی جارحیت سے 192 مساجد کو نقصان کو پہنچا ہے جن میں سے 56 مساجد شہید ہوچکی ہیں ۔ غزہ شہر میں یہودی فوج نے آثارِ قدیمہ پر حملہ کرتے ہوئے 650 سال پرانی العمری مسجد شہید کر دی ہے۔ عرب میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نےغزہ کی قدیم اور سب سے بڑی 650 سال قدیم العمری مسجد کو بمباری سے شہید کر دیا ہے۔ قدس نیوز نیٹ ورک نے شہید ہونے والی العمری مسجد کی تصاویر شائع کی ہیں جن کی الجزیرہ نے بھی تصدیق کی ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی جارحیت سے غزہ پٹی میں جہاں ہزاروں گھر بھی تباہ ہوئے ہیں وہیں خطے کے قدیم ثقافتی مقامات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہ خطہ قدیم زمانے سے مصر، یونان، روم، بازنطینی اور مسلم ریاستوں کے تحت تجارت اور ثقافت کا مرکز رہا ہے۔Heritage for Peace نامی ادارے کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک غزہ کے 100 سے زائد تاریخی و ثقافتی مراکز تباہ ہوچکے ہیں ۔ ان میں فلسطین کی تاریخی مسجد عمری بھی شامل ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنطیموں بالخصوص دنیا بھرمیں ثقافتی اور تہذیبی ورثے کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ فلسطین میں یہودیوں کے ہاتھوں پامال ہوتی اسلامی اور مسیحی تاریخ و تہذیب و ثقافت کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔