مسلمانوں کا بیت المقدس کے ساتھ علم و معرفت کا رشتہ

بیت المقدس وہ مینار ہے جہاں سے ہدایت اور بھلائی کی روشنی چمکتی رہی ہے ۔ مسلمانوں کا بیت المقدس کے ساتھ علم و معرفت کے رشتے کا آغاز سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے کہ جب آپ نے عراق سے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی اور وہاں کے شہر الخلیل میں پڑاؤ ڈالا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بڑے فرزند سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے مکہ آباد کیا اور آپ کے دوسرے فرزند سیدنا اسحاق علیہ السلام کے فرزند سیدنا یعقوب علیہ السلام نے بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کو تعمیر کیا۔ بعد ازاں اسراء اور معراج کی رات رسول اللہ ﷺ کا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر اور پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں کی سیر اور پھر آسمان سے بیت المقدس کی طرف نزول اور پھر براق سے مکہ واپسی خود اس بات کے واضح اشارے تھے کہ اب بیت المقدس کی سرزمین جلد ہی اسلام اور مسلمانوں کی ثقافت کا مرکز بننے والی ہے۔ پھر رسول  اللہ ﷺ کا سولہ یا سترہ ماہ تک مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا بھی اس بات کی  واضح صراحت تھی کہ اب یہ مقدس سرزمین نہ یہود کی ہے نہ عیسائیوں کی، بلکہ  یہ  دین ِاسلام کے پیروکاروں کی ہے۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فلسطین کے بعض علاقے مثلاً نابلس، لُد، عمواس فتح ہوچکے تھے ۔ بعد ازاں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی افواج شام و عراق کو فتح کرتی ہوئی  بیت المقدس پہنچ گئیں، یہاں رومیوں کی حکومت تھی۔ چنانچہ مدینہ منورہ سے ان مشرکین کی سرکوبی کیلئے ایک خصوصی لشکر امین الامت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شام اور بیت المقدس بھیجا گیا ۔ان کی اعانت کیلئے دوسرا لشکر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ، تیسرا لشکر سیدنا معاویہ  رضی اللہ عنہ کے بھائی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اور چوتھا لشکر شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ  کی قیادت میں پہنچا ۔ ان چاروں لشکروں نے پورے شہر کا محاصرہ کرلیا ، جو چھ ماہ تک جاری رہا۔ جس سے تنگ آکر رومی گورنر نے لاٹ پادری صفر یانوس کے مشورہ سے کہا کہ میں امیرالمومنین کو چارج دینے کیلئے تیار ہوں اگر وہ خود تشریف لائیں تب عمر رضی اللہ عنہ خود  بیت المقدس تشریف لے گئے،  یوں مسلمانوں نے سنہ 16 ہجری  بمطابق  638 عیسوی میں بیت المقدس  فتح کرلیا۔ سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ بیت المقدس کو فتح کرنے والے سب سے پہلے مسلم حکمران تھے۔ فتحِ عمری کے بعد سے لیکر آج تک مسلمانوں نے بیت المقدس شہر کو اس طرح گلے سے لگا کر رکھا ہوا ہے جیسے ایک ماں اپنے نوزائیدہ بچے کو گلے لگائے رکھتی ہے اور اس طرح اس کی دیکھ بال کرتے آ رہے ہیں جیسے ایک ماں اپنے دودھ چھڑانے والے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ آسمانی مذاہب کی تاریخ میں کوئی شہر ایسا نہیں ملتا جس نے اس قدر  تقدس، عزت  اور حفاظت کا اہتمام حاصل کیا ہو۔

بیت المقدس ایک تاریخی اور قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے ۔ یہ ایک مقدس، پاکیزہ اور مبارک شہر ہونے کے ساتھ ساتھ  اسلامی ثقافت کا عجائب گھرہے ۔ یہ وہ مبارک خطہ ہے جہاں اسلامی تاریخ کا کوئی مرحلہ ایسا نہیں گزرا کہ  مسلمانوں نے اس کے مختلف علاقوں میں کوئی نئی عمارت قائم نہ کی ہو یا کسی پرانی عمارت کی مرمت نہ کی ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ شہر بیت المقدس قدیم اسلامی عمارات سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں  سینکڑوں مساجد ، دینی مدارس ، خانقاہیں اور لائبریریاں پائی جاتی ہیں۔ درج ذیل سطور میں مسلمانوں کے بیت المقدس کے ساتھ علم و معرفت کے رشتے کی مناسبت سے بیت المقدس میں پائے جانے والے  تعلیمی اداروں کے بارے میں چند معلوماتی باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی  ہیں ۔

بیت المقدس کے قیمتی کتب خانے

کتب خانے کسی بھی معاشرے کی ترقی و ترویج کیلئے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک تعلیم یافتہ اور باشعور معاشرے کی معراج کتب خانوں سے ہی زندہ ہے۔ جس معاشرے میں معیاری کتب خانے موجود نہ ہوں وہاں کے افراد ذہنی طور پر پسماندہ ہی رہیں گے ۔ کتب خانے زندہ معاشروں کی علامت ہیں۔ لائبریریاں انسانوں کو ان کی تاریخ اور ان کے مستقبل سے روشناس کروانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ فتح سے  پہلے ہی مسلمان اپنے قبلہ اول بیت المقدس سے قلبی وابستگی رکھتے تھے۔ واقعہ معراج کے بعد  بیت المقدس  کو بے پناہ  عزت و مقام حاصل  ہوا ۔ اور پھر فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں نے اس کی عظمت و تقدیس کو چار چاند لگا دیئے۔ یہاں کے  باشندوں کو مکمل مذہبی آزادی عطا کی۔ ان کے جان و مال اور آبرو کی مکمل حفاظت کی۔ یہاں لاثانی مذہبی عمارات تعمیرکرائیں۔ ولید نے مسجد اقصیٰ بنوائی۔ سلیمان نے رملہ نامی شہر بسا کر اسے فلسطین کا دارالحکومت بنایا، عبدالملک بن مروان  نے عربی زبان کو سرکاری زبان قرار دے کر اس کی نشو و نما کے لیے اقدامات شرو ع کیے۔ انہی اقدامات میں دینی درسگاہوں اور کتب خانوں کا قیام بھی شامل تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین اور بیت المقدس میں اسلامی کتب خانوں اور مخطوطات کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔

اس کے بعد  فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد سب سے پہلے مدارس اور تحقیقی اداروں کے قیام کا حکم دیا ۔ جس کے لئے مسجد اقصیٰ کے کتب خانے میں کتابوں کی ایک بڑی تعداد کا اضافہ کیا ۔ قرآنی نسخوں کی بڑے پیمانے پر تیاری کا حکم ، فقہ اور لغت کی عظیم درسگاہیں’’ دارالاسبّار ‘‘ ، ’’ مدرسہ صلاحیۃ ‘‘ اور مسجد اقصیٰ کے منبر کی پچھلی جانب ’’ مدرسہ خنشنیۃ ‘‘ قائم کی گئیں ۔ نیز ان اداروں میں قیمتی مخطوطات اور کتب بہم پہنچائی گئیں۔ صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کے بعد ان کے پیروکاروں نے اسی طریقہ سے مدارس و مکاتب کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا۔ نادر کتابوں اور مخطوطات سے ان اداروں کو بھر دیا۔ اس طرح علمی دنیا میں بیت المقدس قیمتی مخطوطات کا مرکز بن گیا۔1

صرف ’’ القدس ‘‘ میں تقریباً دس بڑے کتب خانے ماضی قریب تک موجود تھے ، جن میں سے سب سے زیادہ مخطوطات ’’ دار کتب المسجد الاقصیٰ ‘‘ اور ’’ دار کتب آل خالد ی ‘‘ میں رہے۔ اس مکتبہ میں دس ہزار مصنفین کی تحریر کردہ کتب جن میں سے پانچ ہزار مخطوطات کی صورت میں موجود تھیں۔ جبکہ دار کتب المسجد الاقصی جو کہ مسجد اقصیٰ کی مغربی جانب واقع ہے اس میں تقریباً ایک ہزار مخطوطات ہیں جو اسلامی اور عربی علوم کی قیمتی ترین متاع شمار کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور کتب خانہ ’’ دار الکتب الخلیلیۃ ‘‘ کے نام سے بھی موجود ہے، جسے شیخ محمد بن محمد الخلیفی (م 741ھ) نے وقف کیا ، اس میں بے شمار مخطوطات تھے، جو علم دشمن یہودیوں کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ’’ دار الکتب الفخریہ ‘‘ میں بھی تقریباً دس ہزار سے زائد کتب کا ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ ’’ خزانہ آل قطینہ حنبلیۃ ‘‘ باب عمود پر واقع ہے، اس مکتبہ میں علم ریاضی ، فلکیات ، نجوم اور دیگر سائنسی فنون پر مشتمل کتب کا بہترین ذخیرہ اور خزانہ موجود تھا، لیکن آج یہاں کوئی ایسی قابل ذکر قیمتی کتاب نہیں ملتی جو علم میں نئے اضافے کا سبب بن سکے۔2

بیت المقدس کے کتب خانوں کے نام

1۔ مكتبۃ المسجد الأقصى  ، 2۔ مكتبۃ المدرسۃ الناصریۃ، 3۔ المكتبۃ الفخریۃ،  4۔ مكتبۃ المدرسۃ الأمینیۃ،  5۔ مكتبۃ المدرسۃ البلدیۃ ، 6۔ مكتبۃ المدرسۃ الأشرفیۃ، 7۔ مكتبة المدرسۃ الغادریۃ ، 9۔ مكتبۃ الكلیۃ العربیۃ۔  10۔ المكتبۃ الخالدیۃ۔ 11۔  مكتبۃ آل البدیري،  12۔ مكتبۃ آل الموقت، 13 ۔  مكتبۃ آل قطینۃ  (الحنبلیۃ) ، 14 ۔ مكتبۃ عائلۃ جار الله ، 15 ۔  مكتبۃ المتحف الإسلامی ۔3

بیت المقدس کے خاص کتب خانے

1۔ مكتبۃ حسن بن عبد االله اللطیف الحسیني، 2 ۔ مكتبۃ زادة، 3۔ مكتبۃ  برھان الدین بن جماعۃ  ،  4۔ مكتبۃ طاھر مصطفى الحسیني، 5۔  مكتبۃ خلیل جواد الخالدي ،  6۔ مكتبۃ  إسعاف النشاشیبي ،7۔ مكتبۃ عبد االله مخلص ، 8۔ مكتبة خلیل بیدس ، 9۔ مكتبة راغب الخالدي،  10۔ مكتبۃ أحمد سامح الخالدي،11۔ مكتبۃ خلیل السكاكیني ، 12۔ مكتبۃ عادل جبر ، 13۔ مكتبۃ عارف العارف، 14۔ مكتبۃ عجاج نویھض، 15۔  مكتبۃ اسحق موسى الحسیني قابل ذکر ہیں۔4

ان قیمتی کتب خانوں میں زیادہ تر کتب خانے  سنہ 1948 میں صہیونیوں کے ہاتھوں چوری اور تباہی کا نشانہ بن گئے، اسی طرح یہودیوں نے 1967 کے نکبہ کے بعد مشرقی بیت المقدس کی لائبریریوں کو تباہی کا نشانہ بنایا تھا۔ چند فلسطینی اداروں اور خالدی خاندان نے صہیونی عزائم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور  بیت المقدس میں موجود قیمتی مخطوطات کو محفوظ کرنے کا اہتمام کیا اور تمام مخطوطات کی تفصیلی فہرست بنائی۔ تمام تر حالات کے باوجود بیت المقدس حصولِ علم کیلئے آنے والے علماء اور ان کے ارد گرد جمع ہونے والے طلباء کے سبب ایک ایسا علمی اور ثقافتی مرکز تھا جس میں قرآن کے تمام علوم علم قرأت ، علم تفسیر، علم اسباب نزول  اورعلم دعوت و تبلیغ پڑھائے جاتے تھے۔

لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ یہودیوں نے مسلمانوں کی اس علمی متاع کو بھی مسلمانوں کی نگاہوں سے اوجھل کر دیا ہے۔ مخطوطات کا ایک بہت بڑا مرکز ’’ خزانہ  البدیری ‘‘ ہے ، یہ مسجد اقصیٰ کے پہلو میں واقع ہے، آل بدیر کے قیمتی مخطوطات و نوادرات یہاں موجود تھے، اسی طرح علامہ عبداللہ مخلص کا خزانہ کتب بھی انفرادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں تاریخی آثار اور مزاحمتی ادب پر مشتمل بہت سا سرمایہ محفوظ تھا۔ شیخ عبداللہ مخلص ان عظیم فلسطینیوں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے مخطوطات کے کردار اور ان کی علمی اہمیت اجاگر کرنے میں اپنا وقیع کردار ادا کیا ۔ فلسطین میں ہی ایک اور قابل ذکر کتب خانہ ’’ خزانہ الشیخ محمود اللحام ‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے، یہاں چار ہزار سے زائد مصنفین کی کتابیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار نجی کتب خانے اور ذاتی ملکیت کی لائبریریاں ہیں، جن میں قدیم مصاحف ، ربعات ، کتب تفسیر و تجوید ، قرأت ، رسم ، حدیث ، کتب اصول ، فقہ و فتاویٰ ، مذاہب اربعہ ،فرائض، کلام ، تصوف ، مواعظ و حکم ، نحو و بلاغت ، ادب ، سیاست ، قوانین ، سیرت ، مناقب ، تراجم ، فلکیات ، طب اور متفرق جامع کتب موجود ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ارض مبارک میں موجود یہودی تسلط کی وجہ سے اس گراں قدر علمی ورثے اور مسلم دینی متاع سے بہت کم لوگ آشنا ہیں۔ یہودی اس ارض مقدس میں موجود اسلامی کتب خانوں اور مخطوطات کو تباہ اور ضائع کر رہا ہے ۔

مسجد اقصی ٰ میں اسلامی مدارس

کائنات میں اولین مدرسے کی بنیاد عرشِ عظیم پر رکھی گئی تھی۔ اس  مدرسے کے پہلے طالب علم آدم علیہ السلام تھےاور پہلے معلم خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ تھے، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ

(البقرۃ : 31)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام بتائے، پھر مقابلے کے لیے فرشتوں پر پیش کیا۔

معلوم ہوا کہ دینی مدارس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اسلام کی تاریخ  ہے۔ مدارس  اسلا م اور مسلمانوں کی علامت ہیں۔ مدارس اسلام اور مسلمانوں کا ثقافتی مرکز ہیں۔ یہ دینی ادارے اسلامی تہذیب و ثقافت اور اخلاقی اقدار کا نمونہ ہیں۔ معاشرے میں اسلامی اقدار اور روایات کو زندہ رکھنے میں ان مدارس کا تاریخی کردار ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب ہندوستان میں حکومت مغلیہ کا خاتمہ ہوا اور مسلمانوں کا سیاسی قلعہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو بالغ نظر اور صاحب فراست علماء کرام نے جا بجا شریعت اسلامیہ اور تہذیب اسلام کے قلعے تعمیر کر دیئے ، انہی قلعوں کا نام عربی مدارس ہے اور آج اسلامی شریعت انہی قلعوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کی قوت و استحکام انہی قلعوں پر موقوف ہے۔ ذیل میں بیت المقدس كے ارد گرد پائے جانے والے چند مدارس کے نام پیش خدمت ہیں۔ یہ  صرف مسجد اقصی ٰ کے ارد گرد موجود مدارس کے نام  ہیں جبکہ  فلسطین کے دیگر شہروں میں پائے جانے والے اسلامی مدارس کی فہرست الگ ہے۔

1۔ المدرسۃ الأشرفیہ ۔ 2۔  المدرسۃ الأفضلیۃ، 3۔  المدرسۃ الأرغونیۃ  4۔  المدرسۃ  الإبراھیمیۃ، 5۔ المدرسۃ  الأباصیریۃ ۔ 6 ۔ المدرسۃ الأسعردیۃ، 7۔ المدرسۃ  الأمینیۃ ، 8۔ المدرسۃ الأوحدیۃ، 9۔ المدرسۃ الباسطیۃ، 10۔ المدرسۃ البلدیۃ ،11۔ المدرسۃ البدریۃ ، 12۔ المدرسۃ البارودیۃ، 13۔ المدرسۃ التشتمریۃ ، 14۔ المدرسۃ التنكزیۃ، 15۔ المدرسۃ الخاتونیۃ، 16۔ المدرسۃ الحسینیۃ  ـ( 1 )17 ـ المدرسۃ الحسینیۃ (2)18۔  المدرسۃ الحنبلیۃ،19۔  المدرسۃ الحمراء، 20۔ المدرسۃ الحكمیۃ، 21

۔ المدرسۃالجراحیۃ، 22۔ المدرسۃ الجاولیۃ، 23۔ المدرسۃ الجالقیۃ،  24۔ المدرسۃ الجھاركسیۃ، 25۔ المدرسۃ الجوھریۃ، 26 ۔ المدرسۃ الدواداریۃ، 27۔ المدرسۃ الرشیدیۃ، 28۔ المدرسۃ الرصاصیۃ،  29۔ المدرسۃ الزمینیّۃ، 30 ۔المدرسۃ الزمنیۃ، 31۔ المدرسۃ السلامیۃ ، 32۔ المدرسۃ الصامطیۃ، 33۔ المدرسۃ الصلاحیَّۃ، 34۔ المدرسۃ الصبیبیَّۃ، 35۔ المدرسۃ الطولونیۃ، 36۔ المدرسۃ الطازیۃ، 37۔ المدرسۃ الطشتمریۃ، 38۔ المدرسۃ العثمانیۃ، 39۔ المدرسۃ العمریۃ، 40۔ المدرسۃ الغادریۃ (القادریۃ)۔

41۔ المدرسۃ الفخریۃ ، 42۔ المدرسۃ الفارسیۃ ، 43۔ المدرسۃ الفنریۃ، 44۔ المدرسۃ القشتمریۃ، 45۔ المدرسۃ القرقشندیۃ، 46۔ المدرسۃ الكیلانیۃ، 47۔ المدرسۃ الكریمیۃ، 48۔ المدرسۃ الكاملیۃ، 49۔ المدرسۃ اللؤلؤیۃ، 50۔ المدرسۃ المیمونیۃ، 51۔المدرسۃ المنجكیۃ، 52 ۔ المدرسۃ المزھریۃ، 53۔ المدرسۃ الموصلیۃ۔ 54۔المدرسۃ الملكیۃ، 55۔ المدرسۃ المنصوریۃ، 56۔ المدرسۃ المعظمیۃ ، 57۔  المدرسۃ المحدثیۃ ، 58۔ المدرسۃ المھماریۃ، 59۔ المدرسۃ المالكیۃ، 60 ۔ المدرسۃ النحویۃ،61۔ المدرسۃ النصریۃ، 62۔ المدرسۃ الوجیھیۃ، 63۔ دار القرآن السلامیۃ، 64۔ دار الحدیث الھكاریۃ، 65۔ دار الحدیث التنكزیۃ (السیفیۃ)۔5

بیت المقدس کے جدید عرب اسلامی مدراس

1۔ دار الأیتام الإسلامیۃ، 2۔ مدرسۃ البنات الإسلامیۃ ، 3۔ كلیة روضۃ المعارف الوطنیۃ، 4۔ الكلیۃ الإبراھیمیۃ  ،5۔ المدرسۃ المحمدیۃ،  6۔ مدرسۃ الفلاح ، 7۔  مدرسۃ الحكمۃ ، 8۔ الكلیۃ العربیۃ، 9۔ دار المعلمات ، 10۔المدرسۃ البكریۃ ۔ 11۔مدرسۃ المصرارة ،  12۔ المدرسۃ العمریۃ ، 13۔ الكلیۃ الرشیدیۃ، 14۔ مدرسۃ الشیخ جراح ، 15۔ مدرسۃ العلویۃ، 16۔ مدرسة البقعۃ، 17۔ المدرسة المأمونیۃ القدیمۃ، 18 ۔المدرسة المأمونیۃ الجدیدة ، 19۔ كلیۃ النھضۃ ، 20۔ معھد الحقوق الفلسطیني بالقدس۔6

زوایا بیت المقدس

عربوں اور مسلمانوں میں تعلیم صرف مساجد اور مکاتب تک محدود نہیں تھی بلکہ ان میں دوسرے مراکز بھی پائے جاتے تھے، جہاں سے وہ دینی علوم حاصل کرتے تھے۔ ان میں زوایا، تکایا ، خانقاہ اور رباط کے نام سے مراکز شامل تھے۔ یہ مراکز تعلیم کے علاوہ دوسرے رفاہی مقاصد کے لئے بھی استعمال ہوتے تھے۔

زوایا سے کیا مراد ہے؟

زوایا سے مراد وہ گوشہ، کونہ یا  رہائش گاہ ہے جوعبادت یا طلب علم کے لئے مخصوص ہو۔ یہ خانقاہ اور رباط سے نسبتا چھوٹا ہوتا ہے۔ زاویہ کے وجود کے پیچھے بنیادی اصول یہ ہے کہ اس میں عبادت کے لیے خلوت اختیار کی جائے اور طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے جمع ہوں ۔ زاویہ کی تعلیمی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ فلسطین کے شہروں میں بہت سے مدراس زوایا کے نام سے معروف تھے۔ صرف مسجد اقصیٰ میں چھ  زوایا موجود تھے جو عبادت گزاروں، صوفیاء کرام ، علم کے متلاشیوں اور ضرورت مندوں کے لیے مخصوص ہیں۔ یہ مسجد اقصیٰ کے مشرقی اور مغربی جانب  واقع ہیں، مسجد اقصیٰ کے مخصوص گوشوں کے نام  درج ذیل ہیں ۔

1۔ الزاويۃ  الرفاعيۃ، 2۔  الزاويۃ الوفائيۃ، 3۔ زاويۃ الخضر، 4۔ الزاويۃ الغزاليۃ، 5۔ الزاويۃ البسطاميۃ، 6۔ الزاويۃ الفخريۃ ۔

جبکہ بیت المقدس میں موجود زوایا کی تعداد چالیس کے قریب ہے ۔ان میں بعض ناپید ہوچکے ہیں ۔ اور بعض اب بھی موجود ہیں ۔

1۔ الزاویۃ الأدھمیۃ، 2۔  زاویۃ  الأزرق (السرائي) 3 ۔ زاویۃ ابی مدین، 5۔ الزاویۃ الإبراھیمیۃ، 6۔ الزاویۃ البسطامیۃ، 6۔ زاویۃ بدر الدین،7۔ زاویۃ البلاسيـۃ 8۔  زاویۃ الشیخ خضر ، 9۔ الزاویۃ الختنیۃ، 10۔ زاویۃ الخانق ، 11۔ زاویۃ الشیخ حیدر،12۔ الزاویۃ الجراحیۃ ، 13۔  زاویۃ الدركاء، 14۔  الزاویۃ الرفاعیۃ، 15۔  الزاویۃ الشیخونیۃ، 16۔  زاویۃ شوفان، 17۔ الزاویۃ الطواشیۃ ، 18۔ زاویۃ العجم (الشیخ یعقوب العجمي)،  19۔ الزاویۃ القادریۃ الأفغانیۃ، 20۔ الزاویۃ القرشیۃ،21۔ الزاویۃ القیمریۃ، 22۔  زاویۃ القصبۃ ، 23۔ الزاویۃ القلندریۃ ، 24۔ زاویۃ القرمي، 25۔ الزاویۃ الكبكبیۃ، 26۔ الزاویۃ اللؤلؤیۃ، 27۔ الزاویۃ المھمازیۃ ، 28۔ الزاویۃ المحمدیۃ ، 29۔ الزاویۃ المولویۃ، 30۔ زاویۃ المصمودي ،31۔ زوایا مقام النبي داود ، 32۔ زاویۃ المغاربۃ ، 33۔ الزاویۃ النصریۃ (الغزالیۃ) ، 34۔ الزاویۃ النقشبندیۃ و تسمى (الأزبكیۃ و البخاریۃ) ، 35۔ زاویۃ الھنود ، 36۔ الزاویۃ الوفائیۃ ، 37۔ الزاویۃ الیونسیۃ۔7

خانقاہ و تكایا بیت المقدس

“خانقا” ایک فارسی اصطلاح ہے جس کا اصل معنی گھر ہے ۔ جو ان عمارات کے لیے استعمال ہوتی ہے جو عبادت کے لئے آنے والے صوفیاء  یا درس و تدریس کی غرض سے آنے والے طلبہ کرام کے لئے خاص طور پر تعمیر کی جاتی ہیں ۔ عثمانی دور میں اسے “تکایا” کہا جاتا تھا۔ “تکایا” ترکی کا لفظ ہے جو فارسی میں “خانقاہ” کے مترادف ہے۔ بیت المقدس میں درج ذیل تکایا معروف تھے ۔

1۔  التكیۃ المولویّۃ ،2۔  تكیۃ النبي موسى ، 3۔ تكیۃ خاصكي سلطان ۔8

بیت المقدس کی خانقاہیں

1۔  الخانقاه الصلاحیۃ ، 2۔ الخانقاه الفخریۃ ، 3۔ خانقاه سنجر ، 4۔ الخانقاه التنكزیُۃ ، 5۔ الخانقاه الأسعردیۃ ، 6۔ الخانقاه الكریمیۃ ،7۔ الخانقاه المنجكیۃ، 8۔ الخانقاه الدواداریۃ ، 9۔ الخانقاه المولویۃ۔9

 یہ تمام مدارس، خانقاہیں، زوایا، تکایا اور رباط  اسلامی ثقافت کے آئینہ دار تھے اور اسلامی فنِ تعمیرکے ساتھ ساتھ  مسلمانوں کے بیت المقدس کے ساتھ نہایت گہرے ثقافتی رشتے کی گواہی دیتے ہیں۔

قومی کتب خانہ اسرائیل

اسرائیل کی معروف لائبریری(  The National Library of Israel )یعنی ”قومی کتب خانہ اسرائیل”  پچاس لاکھ سے زائد کتب کا خزانہ رکھتی ہے، یہ سنہ1892 ءمیں بیت المقدس  کے اندر قائم ہونے والی لائبریری کا قدیم نام:

    Jewish National and University Library تھا، جسے بعد میں تبدیل کرکے The National Library of Israel رکھ دیا گیا ، یہ Hebrew University of Jerusalem کے ایک کیمپس کا حصہ ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ نہ صرف یہود کی روایتی کلچر اور تاریخ کے بارے میں بیش بہا خزانہ رکھتی ہے بلکہ یہاں پر عرب تہذیب اور عربی زبان کی بھی کئی نایاب اور قدیم تاریخی مخطوطات اور اسلامی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔

اس لائبریری کے خزانوں میں کئی ایسی غیر معمولی دستاویزات بھی شامل ہیں، جن میں تیرہویں صدی عیسوی کے مشہور امام محمد البوصیری کی شہرہ آفاق مشہور نظم ”قصیدہ البردہ” کی ایک نفیس کاپی بھی شامل ہے جو رسول کریم ﷺ کی مدح میں لکھی گئی تھی۔ اس کے علاوہ عہدِ سلطنتِ عثمانی کے کئی تاریخی نقشے اور فلسطین کے ماضی قریب کے سینکڑوں اخبارات بھی موجود ہیں جو سنہ 1908 ء سے سنہ 1948 ء کے عہد میں شائع ہوئے تھے اور تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ماضی قریب کے یہ اخبارات اور جرائد اسرائیل و فلسطین کشمکش کے ابتدائی ایام کے نقطہ نظر کو جاننے کے لئے تاریخ کے محققین کے لئے بہترین خزانہ ہیں۔ یہ اخبارات آج کے دور کے تاریخ کے اسکالرز کی اس عہد کی تاریخ تک رسائی کا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔

علاوہ ازیں اگست سنہ 1932 ء سے اپریل سنہ  1934 ء تک کے ہفتہ وار اخبار العرب Al-Arab Newspaper کے 73 شماروں کے بہترین مضامین بھی شامل ہیں جو فلسطین میں شائع ہوتے تھے۔ اس عہد کے عرب کے تمام بڑے مفکرین و دانشور اور ممتاز مصنفین جن میں خصوصا محمد عزت دروازی ، جو اس عہد کے مقبول فلسطینی سیاست دان اور مورخ تھے، جن کا فلسطین کے موضوع پر اس عہد کا شہرہ آفاق اور اہم مضمون، “عرب نیشنلزم کی جدید بیداری” بھی شامل ہے۔ محمد عزت دروازی کو اسی مضمون کے بعد سنہ1936 ء میں ریاست برطانیہ نے اپنے دور اقتدارمیں نظر بند کردیا تھا۔ مزید فلسطین سے ہی سنہ 1925 ء اور سنہ 1927ء کے عہد میں شائع ہونے والے دو ہفت روزہ اخبار الجزیرہ کے 167شمارے اس وقت کی سیاست کی ایک انمول بصیرت ہیں۔

رسالہ الفجر Al-Fajr Magazine جس کا 21 مئی سنہ   1935 ء کو پہلا ایڈیشن شائع ہوا تھا، جو اُس وقت خطے کے ادب، معاشرے، آرٹ اور سائنس جیسے مضامین کی فکر کی نمائندگی کرتا تھا۔ ان شماروں میں اس عہد کے فن و ثقافت کی دلکش تصاویر بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ الفجر رسالے میں متنوع تحریریں شامل ہوتی تھیں جو اس دور میں فلسطینی ثقافت کی ترقی کے ایک اہم مرحلے کی نمائندگی کرتی تھیں۔ الفجر رسالہ صرف دو سال تک جاری رہا۔ سنہ 1936 ء اور سنہ 1939 ء کے درمیان فلسطین میں عرب بغاوت کے دوران دیگر بہت سے اخبارات اور رسائل کی طرح الفجر رسالے کی بھی اشاعت بند کردی گئی اور پھر کبھی شائع نہ ہوسکا۔

اس قومی کتب خانہ اسرائیل میں اس مخصوص خطے کے تاریخی علم کا ذخیرہ موجود ہے۔ لائبریری کے ڈیجیٹل مجموعے میں قدیم رسائل میں پہلی بار سنہ 1908 ء میں یروشلم سے شائع ہونے والا ایک روزنامہ القدس بھی ہے۔ اس ڈیجیٹل مجموعے میں اس کی اشاعت سے لے کر سنہ 1913 ء تک کے 107شمارے موجود ہیں جو پہلی جنگ عظیم کے وقت سے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے تک کے عہد کا احاطہ کرتے ہیں اور اس وقت اس خطے کے موجودہ سماجی اور سیاسی خدشات کے حوالے سے اس وقت  کے مصنفین کی بصیرت پیش کرتے ہیں۔ سماجی تاریخ کے علاوہ ویڈیو اور آڈیو مواد بھی موجود ہے جو ماضی قریب کی بہت ساری آگاہی دیتا ہے۔ اس کےعلاوہ بہت سی دستاویزات اور کتابوں میں عربی اور فارسی خطاطی اور عکاسی کی بھی بے مثال مثالیں موجود ہیں۔ اس لائبریری میں موجود بہت ساری انمول دستاویزات جدید ٹیکنالوجی کی بدولت آن لائن اور ہر فرد کے لئے قابل رسائی ہیں، جہاں انہیں تاریخ یا عرب خطے سے دلچسپی رکھنے والے افراد بآسانی اور تفصیل سے دیکھ سکتے ہیں۔

موجودہ صورتِ حال

لیکن آج کی صورتحال یہ ہے کہ ذکر کردہ کتب خانوں میں سے صیہونیت نے تقریباً 80 فیصد مخطوطات اور نادر کتابیں غائب کردی ہیں اور تاحال صیہونیت اس ارض مقدس سے اسلامی ورثہ اور اس کے انسانی ، اخلاقی ، علمی اور سیاسی اثرات کو ملیامیٹ کرنے کی مسلسل کوشش میں ہے۔ نام نہاد مہذب مغربی دنیا علم کے ساتھ اپنے تعلق اور وابستگی کو اس طرح پیش کرتی ہے گویا صفحہ ہستی پر علم و تحقیق کے میدان میں غیر جانبدارانہ رویوں کے اظہار میں اُنکا کوئی سہیم و شریک نہیں ہے لیکن اس مغربی تاثر کی حقیقت اس وقت کھلتی ہے جب ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ انہی طاقتوں کی پروُردہ ظالم ریاست کھلے عام فلسطین میں علمی و تعلیمی اداروں اور وہاں کے بیش قیمت کتب خانوں کو اپنی بمباری کا نشانہ بنا کر اس کو ضائع کرتی  ہے اور ایسے میں پوری مغربی دنیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور فروغ تعلیم و تحقیق کے لئے آوازاٹھانے والی این جی اوز اپنے بلند آہنگ نعروں کے باوجود اس علمی ورثہ کے ضیاع پر قطعی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہیں۔

فلسطین سے متعلق منفرد تحقیقی کتب خانہ

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں شاہ عبدالعزیز لائبریری نے مسئلہ فلسطین اور بیت المقدس اور اس کے مقدس مقامات کے بارے میں تحقیق کے لیے ایک منفرد کتب خانے کی تشکیل پر کام کیا ہے۔ یہ کتب خانہ ہزاروں کتابوں پر مشتمل ہے۔ ان کتابوں میں فلسطین کا مختلف تاریخی، اقتصادی، سماجی، جغرافیائی، مذہبی اور ثقافتی زاویوں سے جائزہ لیا گیا ہے۔عرب ورثہ اور اسلامی مقاماتِ مقدسہ مذکورہ کتب خانے کا ایک بنیادی عنصر ہیں۔ فلسطین کے حوالے سے اس میں کتابوں، دستاویزات اور نقشوں کا ایک بڑا پلیٹ فارم موجود ہے۔ اسی طرح مسجد اقصی کے حوالے سے کتب خانے نے ایک ضخیم تصویری کتاب شائع کی ہے۔ اس میں تمام مقدس مقامات، تاریخی مقامات، قبّۃ الصخرہ کی مسجد اور مسجد اقصی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اس میں “الاقصی” کے عنوان سے 360 سے زیادہ تصاویر کے ذریعے مسجد اقصی کے ہر ہر حصے کی تفصیلات شامل کی گئی ہیں۔

کتب خانے میں شامل نادر و نایاب کتابوں میں جو مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اہم اور نمایاں ترین مصادر و مراجع کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سی آر کنڈر کی تالیف “القدس سٹی” شامل ہے۔ یہ کتاب 334 صفحات پر مشتمل ہے اور 1909ء میں لندن میں شائع ہوئی۔ کتاب میں مؤلف نے درجنوں کتابوں میں موجود تاریخی اور آثاریاتی تحقیقی مطالعوں کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ یہ تحقیقی مطالعے چار ہزار برسوں کے دوران بیت المقدس شہر کی تاریخ اور آثار قدیمہ کی عمارتوں سے متعلق ہیں۔ کتب خانے میں انگریزی زبان میں بیت المقدس شہر کے بارے میں شائع ہونے والی پہلی کتاب “پِکٹوریل یروشلم” بھی رکھی گئی ہے۔ لیز جے روبنسن کی 163 صفحات کی یہ کتاب 1893ء میں لندن میں شائع ہوئی تھی۔

اسی طرح کتب خانے میں ولیم فرانسس لِچ کی کتاب “دریائے اردن اور بحر مُردار کے حوالے سے امریکا کی مہم” بھی شامل ہے۔ کتاب 503 صفحات پر مشتمل ہے اور یہ لندن میں 1849ء میں شائع ہوئی۔ کتاب میں مؤلف نے بحر مردار میں پہلی مرتبہ کامیاب سفر کے حوالے سے تفصیلات شامل کی ہیں۔ جے اے فرینکلن کی کتاب “فلسطين : ایک تصویری وصف” فلسطین کا ایک “پینورامک عکس” پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب 219 صفحات پر مشتمل ہے اور 1911ء میں شائع ہوئی۔ کتاب میں 376 تصاویر ہیں۔ یہ تصاویر مؤلف نے بیت المقدس میں اپنے قیام کے دوران لیں۔

علاوہ ازیں جان ٹیلی تھون کی کتاب ”فلسطين  اس کے مقدس مقامات” بھی کتب خانے میں رکھی گئی ہے۔ سال 1880ء میں لندن میں شائع ہونے والی یہ کتاب 428 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب میں 350 تصاویر شامل ہیں۔ اس میں فلسطین کے جغرافیا کو اس کی مقدس تاریخ کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے۔ یہ فلسطین کی تاریخ اور جغرافیا کے درمیان بہترین امتزاج ہے۔ کتاب میں فلسطین کی تاریخ سے مربوط شخصیات، نامور افراد، مقامات، اقوام اور واقعات سے متعلق 120 تصاویر ہیں۔

سرزمین فلسطین اور علماء کرام

واقعہ معراج کے بعد مسجد اقصیٰ کا مسلمانوں کے دلوں میں ایک مقام و مرتبہ رہا ہے، اس لئے یہ سرزمین بہت سارے علماء کرام کی آماجگاہ رہی ہے ، اس کے علاوہ فلسطین کا جغرافیائی  محل وقوع بھی یہاں علمی سرگرمیوں کے عروج و زوال کا سبب رہا کیونکہ شام کے علاوہ افریقی عرب ممالک سے جتنے علماء حج کے لئے سفر کرتے تھے ، ان کا گزر بیت المقدس سے ہی ہوا کرتا تھا۔ پھر مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح  کیا تو اس کے مضافات میں مدارس ، جامع مساجد ، خانقاہیں ، کتب خانے،  مسافر خانے ، ہسپتال ، تفریحی مقامات اور پانی کے کنویں تعمیر کیے ۔ مسلمانوں کے دور میں قائم ان اداروں کے اندر دینی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت اور  درس و تدریس کی سرگرمیاں بھی جاری تھیں ۔ چنانچہ  بہت سے علماء نے مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں حصول ِ علم کے لیے سفر کیے  ہیں۔ چنانچہ فقہ مالکی کے عالم ابوبکر بن العربی المافری  رحمہ اللہ اپنے سفرِ مشرق کے تناظر میں بیان کرتے ہیں کہ “نفح الطیب” کے مصنف نے بیان کیا ہے: “میں نے مسجد اقصیٰ میں اپنے شیخ ابو بکر الفہری الطرطوشی سے ابو ثعلبہ کی مرفوع حدیث پر تبادلہ خیال کیا، جس میں آپ ﷺ فرماتے ہیں :

إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامًا، الصَّبْرُ فِيهِنَّ مِثْلُ الْقَبْضِ عَلَى الْجَمْرِ ، لِلْعَامِلِ فِيهِنَّ مِثْلُ أَجْرِ خَمْسِينَ رَجُلًا يَعْمَلُونَ مِثْلَ عَمَلِكُمْ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ أَجْرُ خَمْسِينَ مِنَّا أَوْ مِنْهُمْ ؟! قَالَ: بَلْ أَجْرُ خَمْسِينَ مِنْكُمْ 

 (السلسلہ الصحیحۃ : 494)

ترجمہ : تمہارے بعد ایام صبر ہونگے اس دور میں صبر کرنا ایسے ہی ہوگا جیسے انگارہ پکڑنا۔ ان (لوگوں کی موجودگی) میں عامل(عمل کرنے والے) کے لئے پچاس آدمیوں کے عمل کے مطابق اجر ہوگا جو اس کے عمل کی طرح کرتے ہونگے انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول ان میں سے (اُس دور کے) پچاس آدمیوں کا اجر۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے پچاس آدمیوں کا اجر (یعنی پچاس صحابہ کرام کے عمل کے برابر اجر ہوگا)۔

جو مشہور علماء اس مبارک سرزمین پر پیدا ہوئے اور انہوں نے علمی دنیا میں شہرت پائی ،ان میں درج ذیل علماء نمایاں ہیں ۔

امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ ۔

یہ فلسطین کے شہر غزہ میں پیدا ہوئے ۔ چار معروف فقہی مذاہب میں سے شافعی مذہب کی نسبت انہی کی طرف ہوتی ہے ۔

حافظ ابن حجر العسقلانی  رحمہ اللہ

یہ عسقلان میں پیدا ہوئے جو فلسطین کے مغربی ساحل پر واقع ہے۔ شہرہ آفاق کتاب “فتح الباری شرح صحیح البخاری” کے مؤلف یہی ہیں ۔

امام ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ

یہ فلسطین کی ایک بستی نابلس میں پیدا ہوئے ، ان کا شمار فقہائے حنابلہ میں ہوتا ہے۔ حنبلی مذہب کی مشہور کتاب ”المغنی” کے مؤلف ہیں ۔

الحافظ عبد الغنی بن عبد الواحد المقدسی رحمہ اللہ

یہ مشہور محدث ہیں۔ کتاب ” الکمال” اور ” عمدۃ الأحکام ” وغیرہ انہی کی تالیفات ہیں ۔

امام ابن مفلح المقدسی رحمہ اللہ

ان کا شمار بھی مشہور حنبلی علماء میں ہوتا ہے ۔ ان کی تالیفات میں ” الآداب الشرعیہ ” اور ” کتاب الفروع ” وغیرہ اہل معلم میں معروف ہیں ۔

امام احمد بن حسین الرملی رحمہ اللہ

یہ فلسطین کے شہر رملہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کی مؤلفات میں “شرح صحیح البخاری” سرفہرست ہے ۔

امام علاؤ الدین المرداوی (م 885ھ)

یہ بھی نامور حنبلی عالم ہیں۔ ان کی کتابوں میں ” الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف ” اہل علم میں مشہور و معروف ہے ۔

موسی بن نصیر رحمہ اللہ

فاتحِ اندلس موسی بن نصیر رحمہ اللہ کا تعلق بھی فلسطین سے تھا۔ وہ فلسطین کے شہر ” الخلیل” میں پیدا ہوئے اور شمالی افریقہ کے گورنر کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔ ان کی دعوت پر جو لوگ مسلمان ہو کر اسلامی فوج کے کمانڈر بنے ان میں طارق بن زیاد رحمہ اللہ سر فہرست ہیں ۔

رجاء بن حیوۃ الکندی رحمہ اللہ

اسی طرح رجاء بن حیوۃ الکندی کا تعلق بھی فلسطین سے تھا جو اموی عہدِ خلافت کے دوران وزیرِ خزانہ رہے اور انہی کے مشورہ پرسلیمان بن عبد الملک نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا ۔

بیت المقدس کے مشہور علماء میں ممتاز عالم دین  قاضی رجاء بن حیوہ، قاری سلیمان بن عبد اللہ انصاری    ، مفسر قرآن  مقاتل بن سلیمان جیسےعلماء مشہور ہیں۔ چنانچہ مسجد اقصیٰ میں خلفاءِ بنو امیہ کے تحت علماء کرام، طلباء، اہل قلم  اور باحثین کے لیے ایک منزل بن گئی تھی ۔

مسجد اقصی اور بیت المقدس کی تاریخ پر عربی کتابیں

اسلامی تاریخ کے ہر دور میں ایسے شواہد ملتے ہیں جو مسلمانوں کے دل میں اس مسجد کی عظمت کی دلیل ہیں۔ اگر آپ کو علمی اعتبار سے اہل اسلام کے دلوں میں مسجد اقصی کا مقام دیکھنا ہے تو یہ دیکھیے کہ مسجد اقصی کی فضیلت میں علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ کتنی قدیم ہیں۔ جب اسلامی تاریخ میں تصنیف و تالیف کا کام شروع ہوا اسی وقت سے مسجد اقصی پر لکھی گئی کتابیں سامنے آئیں۔ اس موضوع کی پہلی کتاب بشر ابن اسحاق بلخی متوفی 206 ہجری کی ہے جس کا عنوان ہے  ” فتوح بیت المقدسیہ” ۔ یہ کتاب  تاریخ مکہ پر لکھی گئی محمد بن عبد الله بن أحمد الأزرقي متوفی سنہ  250 ہجری کی کتاب (أخبار مكۃ وما جاء فيها من الآثار ) اور محمد بن إسحاق بن العباس الفاكھی متوفی سنہ 272 ہجری کی کتاب (أخبار مكۃ في قديم الزمان و حديثہ) سے بھی پرانی ہے۔ یعنی مکہ کی تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان سے بھی پرانی ہیں ۔ جبکہ  فضائل بیت المقدس کے نام سے تحریر کی جانے والی پہلی کتاب ولید بن حماد الرملی  متوفی سن  300 ہجری کی  ہے۔ یہ صحاح ستہ کے مؤلفین کے ہم عصر ہیں اور امام ذہبی نے اپنی کتاب میں ان کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ حافظ اور ربانی تھے۔  اس کے بعد پھر بیت المقدس کے فضائل اور اس کی تاریخ پر پے در پے کتابیں لکھی جاتی رہیں۔ اس مبارک شہر اور مسجد کے حوالے سے یوں تو کئی کتب لکھی گئی ہیں لیکن دو کتابیں بہت عمدہ اور تفصیلی ہیں اور تقریبا ایک ہی زمانے میں لکھی گئی ہیں۔

1۔ الروض المغرّس في فضائل البيت المقدّس

مؤلف : علامہ قاضي تاج الدين عبد الوهاب بن عمر الحسيني الشافعي، المتوفى عام875ھ، رحمہ الله.

یہ کتاب بیت المقدس کے فضائل و آداب کے حوالے سے جامع ترین بھی ہے اور اوسع بھی ہے۔ کتاب کے مؤلف امام تاج الدین شافعی رحمہ اللہ نے اس کتاب کے لکھنے کا مقصد خود لکھا ہے کہتے ہیں” میں نے جب871ھ میں مسجد اقصیٰ کی زیارت کی اور وہاں تقریباً چار ماہ مقیم رہا اور یہاں کے مبارک اور مشرف محلے اور مقامات دیکھے تو اس شوق نے انگڑائی لی کہ کوئی مجھے اس مبارک جگہ کے فضائل سے آگاہ کرے جس سے اس کی طرف زیارت کا ارادہ کرنے والے کا شوق مہمیز ہو، میں نے بہت سے علماء اور فضلاء سے اس متعلق دریافت کیا کہ مجھے اس کے احکام سے آگاہی ملے، آیا یہاں صرف نماز پڑھنا افضل ہے یا پھر اور عبادات کے اجر میں بھی اصافہ ہوتا ہے اور کیا یہ اجر کی فضیلت صرف خاص مسجد سے متعلق ہے یا پھر پورے شہر القدس سے متعلق ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: “بارکنا حولہ” پھر مجھے کوئی شافی و کافی جواب نہیں ملا تو میں نے استخارہ کیا اور اللہ تعالیٰ جو عزیز اور وہاب ہے اس سے توفیق مانگی اور اپنی ہمت کے مطابق یہ سب احادیث اور آثار جمع کر دئیے ہیں۔

یہ کتاب ٹوٹل 37 ابواب پہ مشتمل ہے جس میں اس جگہ کے نام، کب یہاں یہ مسجد بنی اور کس کس نے اسے تعمیر کیا؟ نبی داؤد اور نبی سلیمان علیہما السلام نے کیا اس کی نئی بنیاد رکھی؟ بیت المقدس کی فضیلت، اس کی طرف سفر کرنے کا حکم، اس کی زیارت کے آداب، اس میں نماز کی فضیلت، یہاں عام نیکیوں اور برائیوں پہ جزا و سزا کا حکم، یہاں صدقہ، روزہ اور اذان کا الگ سے اجر، قبۃ الصخرۃ کی فضیلت اور حقیقت اور اس سے نکلنے والے پانی کی اصل اور یہاں زیارت کی نیت سے آنا مشروع ہے؟ اس کے داہنے جانب نماز اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا اور کالے پتھر والے حصے کی کیا فضیلت ہے؟ آیا اس قبے پہ فرشتے کا نزول ہوتا رہتا ہے؟ معراج والے قبے کی حقیقت اور وہاں دعا مانگنا، قبہ سلسلہ، باب حطہ، باب توبہ، مسجد کا احاطہ کیا ہے؟ سیدنا عمر کا محراب اور باقی محرابوں کی حقیقت، نبی کریم ﷺ سے منسوب دروازہ، سلوان کا چشمہ، یہاں یہود و نصاریٰ کی عبادت گاہوں کا حکم، اس کے اردگرد برکت ہونے سے کیا مراد ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اس کی فتح، عبدالملک بن مروان کے دور کی تعمیر اور قبۃ الصخرۃ کی تعمیر، یہاں جن انبیاء علیہم السلام کی آمد ہوئی، وہ صحابہ کرام جو یہاں آئے، خاص مسجد اقصیٰ کے فضائل، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قبر کی زیارت کا حکم، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قبر کی حقیقت اور اس کی طرف زیارت کا حکم، شام کے عمومی فضائل کا بیان۔ یہ سب اس کتاب میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ مصنف نے ہر باب میں بکثرت احادیث اور آثار بیان کیے ہیں۔ ساتھ تاریخی واقعات کا ذکر کیا ہے، لغوی فوائد بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے علاوہ بھی یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہے اور بہت سی نادر اور مفقود حوالہ جات کا بھی ذکر ہے۔

2۔ الأنس الجليل بتاريخ القدس و الخليل

مؤلف : قاضي مجير الدين الحنبلي القدسي المتوفى العام 927ه‍.

اس کتاب کے مصنف کا تعلق ہی فلسطین سے ہے، ان کی پیدائش رملہ میں ہوئی اور بچپن میں ہی یہ القدس منتقل ہو گئے، ان کا تعلق ایک علمی خاندان سے تھا۔ ان کے والد اور دادا بھی علماء تھے اور ان کے والد اپنے وقت کے قاضی تھے اور مجیر الدین بھی اللہ کے فضل کے بعد اپنی قابلیت کے بل بوتے پر فلسطین کے قاضی القضاۃ مقرر ہوئے۔ ان کا شجرہ نسب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جا کے ملتا ہے، اس کتاب کا لکھنے کا مقصد بھی مصنف کے مطابق لوگوں کو اس منطقہ کی تاریخ اور معلومات سے آگاہ کرنا ہے۔ پہلی کتاب کے مقابلے میں اس کتاب کا منہج تاریخی اور معلوماتی ہے، مصنف نے اس کا آغاز عام تاریخی کتب کی طرح تخلیق کائنات سے کیا ہے، پھر سیدنا آدم علیہ السلام کا ذکر ہے اور آیا آدم علیہ السلام قدس شریف آئے اور یہاں پہلی تعمیر فرشتوں نے کی، ابراہیم علیہ السلام نے کی یا پھر یعقوب علیہ السلام نے کی تھی؟ پھر سلیمان علیہ السلام نے یہاں جنوں کے ہاتھوں کیا تعمیر کیا اور اضافہ کیا؟ زکریا علیہ السلام کا محراب کہاں ہے؟ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش، اسی طرح بہت سے انبیاء علیہم السلام کی قبور کا ذکر ہے۔ تاریخی لحاظ سے یہاں کون سی اقوام آباد رہی ہیں اور کون کون یہاں بادشاہ رہے، نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل یہاں کیا حالات تھے اور سیدنا عمر کے ہاتھوں اس کی فتح کا انتہائی تفصیل سے ذکر ہے۔ کون سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یہاں تشریف لائے اور کون سے یہاں آباد ہوئے اور یہاں وفات پائی، سیدنا عمر کے دور میں آنے والے طاعون میں کون سے اصحاب یہاں فوت ہوئے اور ان کی قبریں کہاں ہیں، بیت المقدس کی تعمیر میں کس کس خلیفہ نے حصہ لیا، اسی طرح صلیبی جنگوں کا بھی تفصیلی ذکر موجود ہے، زنگی، ایوبی اور ممالیک کے عظیم الشان جہاد کا بھی تفصیلی ذکر ہے اور یہ کتاب بھی دو جلدوں میں مطبوع ہے۔

یہودیوں کےعزائم

امت مسلمہ کا اس مبارک ارضی ٹکڑے سے دینی، ثقافتی اور سماجی تعلق توڑنے کے لئے مغربی اور صیہونی علمی دہشت گردی ایک ایسا پہلو ہے جو نسبتا نظروں سے اوجھل رہا ہے مگر اثرات اور خطرات کے اعتبار سے زیادہ مہلک اور نقصان دہ ہے۔ صیہونیوں کی اس علمی اور ثقافتی ورثہ کی پامالی اور اعلانیہ دہشت گردی کی جو بھی وجوہات بیان کی جائیں جہاں وہ سب غیر منصفانہ ، خلاف عقل اور ظلم پر مبنی ہیں۔ وہیں اس کی حقیقی وجہ کا ادراک بھی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ مغرب کو اپنے مراکز ، تحقیقی اداروں ، جامعات اور مستشرقین کے ذریعے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ امت مسلمہ کو اس وقت تک شکست دینا ممکن نہیں ہے جب تک ان میں اسلامی تشخص برقرار ہے۔ اس لئے اس قوم کو تابع بنانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے امت مسلمہ کے منفرد اسلامی تشخص اور علمی میراث کا خاتمہ اور روحِ اسلام کے اس جذبے کا خاتمہ جو ان کو دنیا کی بڑی طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کی قوتِ محرکہ فراہم کرتا ہے۔

ہمارا دینی فریضہ

ساری دنیا کی مسلم آبادی ، ماہرین فن، مسلم دانشور اور اسلامی تنظیمیں اس سلسلہ میں گہری تشویش سے دوچار ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس سرزمین کا ان کے ایمان اور یقین کی کیفیات سے ایک مضبوط رشتہ اور تعلق ہے۔ فلسطین کی مساجد ، مکاتب اور علمی اکیڈمیاں دراصل ہماری عظیم اسلامی ثقافت کا قیمتی سرمایہ ہیں لیکن چونکہ مغربی دنیا کو اسرائیل ہی کے مفادات کا تحفظ عزیز ہے اس لئے وہ اس غیر اخلاقی حرکت پر کسی ملال اور اندیشے کا اظہار نہیں کرتے۔ یہود مسلم علمی ورثے کو غائب کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تاکہ اس زمین سے مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کے تعلق کا کوئی بھی دستاویزی ثبوت نہ مل سکے لیکن اب ہمیں دھوکے ، فریب، ظلم و ستم کے اہم کرداروں کو بے نقاب کرنا ہے اور دنیا پر یہ واضح کرنا ہے کہ مغرب کے پیش نظر حق و انصاف کی بنیاد پر مسائل کا حل کبھی نہیں رہا ہے بلکہ اس کے نزدیک مشرق وسطی میں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے نہیں بستے بلکہ وہاں اس تہذیب اور دین کے وارث اور ماننے والے بستے ہیں جو مغرب (عیسائیت اور یہودیت) کے لئے ایک ہزار سال تک سنگین خطرہ بنے رہے۔

ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے؟

سرزمین بیت المقدس جس کے تقدس اور تبرک کا تذکرہ قرآن کریم میں بار بار آیا ہے، جس کے مسلمانوں کے بطور وارث ہونے کا تذکرہ قرآن مجید نے کیا ہے، اس لئے مسلمانوں کو اس مقدس اور متبرک مقام سے ہمیشہ قلبی اور جذباتی تعلق رہا ہے لیکن  افسوس صد افسوس کہ اس مقدس اور پاک سرزمین پر ناپاک یہودی قابض ہو کر مسلمانوں پر بد ترین مظالم ڈھا رہے ہیں۔ مسلمانوں کو اس کے تقدس کو سمجھنے اور بیت المقدس کی بازیابی کے لیے ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ بلاشبہ یہ ایک دینی و مذہبی فریضہ ہے۔اورآج بھی ہمارا  یہ  موقف ہونا چاہیئے کہ  1967 سے پہلے والے بارڈرز کے تحت خود مختار فلسطینی ریاست قائم ہو، جس کا مرکز بیت المقدس ہو۔ تنازعِ فلسطین کا یہی واحد قابلِ عمل حل ہے لیکن عشروں پہلے اس پر عالمی اتفاقِ رائے کے باوجود اب تک اس کا ٹلتے رہنا بعض بڑی طاقتوں کے منافقانہ رویوں کا نتیجہ ہے۔ امن و امان  پوری دنیا کی ضرورت ہے اور اس کے لیے تنازعِ فلسطین کا منصفانہ حل ناگزیر ہے۔ اقوام متحدہ اپنا فرض پورا کرے اور 1967 کی قراردادوں پر عملد درآمد کرواتے ہوئے بیت المقدس کو مسلمانوں کے حوالے کرے، ارضِ فلسطین، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی آزادی کی جدوجہد امتِ مسلمہ کا دینی و اجتماعی فریضہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیت المقدس کی بازیابی کے لیے پوری مسلم امہ اپنے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے۔

  1. (دراسات في تاريخ الأيوبيين والمماليك ،نعمان محمود جبران ۔  ندوة القدس بين الماضي والحاضر ،منشورات جامعۃ البتراء الأردنيۃ، ص: 59، 2001 )
  2. (القدس الشريف، تقديم خيري الذهبي،شوقي شعث، ص:236  )
  3. ( الأنس الجليل بتاريخ القدس والخليل، مجير الدين الحنبلي ،  بیت المقدس وماحولہ، د. محمد عثمان شبیر،  موسوعۃ بیت المقدس، مدارس القدس ومکتباتھا ، محمد عید  الخربوطی )
  4. ( الأنس الجليل بتاريخ القدس والخليل، مجير الدين الحنبلي ۔ خطط الشام ، كرد علی، القدس فی التاریخ، موسوعۃ بیت المقدس، المدارس فی بیت المقدس، بیت المقدس وماحولہ، د. محمد عثمان شبیر، مدارس القدس ومکتباتھا ، محمد عید  الخربوطی )
  5. (الأنس الجليل بتاريخ القدس و الخليل، مجير الدين الحنبلي ۔ خطط الشام ، كرد علی۔ القدس في التاريخ ، د. كامل جميل العسلي و آخرون۔ موسوعۃ  بیت المقدس و المسجد الأقصی،  شراب محمد حسن۔ المدارس في بیت المقدس في العصرین الأیوبی و المملوکي دورها في الحرکۃ الفکریۃ ، عبدالمهدی، عبدالجلیل حسن۔  بیت المقدس و ما حولہ، د. محمد عثمان شبیر۔ تاريخ القدس و الخليل عليہ السلام ،شمس الدین محمد خلیلی)
  6. (الأنس الجليل بتاريخ القدس والخليل، مجير الدين الحنبلي ۔ خطط الشام ، كرد علی۔ القدس في التاريخ ، د. كامل جميل العسلي وآخرون۔ موسوعۃ  بیت المقدس و المسجد الأقصی،  شراب محمد حسن۔ المدارس في بیت المقدس في العصرین الأیوبی و المملوکي دورها في الحرکۃ الفکریۃ ، عبدالمهدی، عبدالجلیل حسن۔  بیت المقدس وماحولہ، د. محمد عثمان شبیر۔تاريخ القدس و الخليل عليہ السلام ،شمس الدین محمد خلیلی)
  7. (الأنس الجليل بتاريخ القدس والخليل، مجير الدين الحنبلي ۔ خطط الشام ، كرد علی۔ القدس في التاريخ ، د. كامل جميل العسلي وآخرون۔ موسوعۃ  بیت المقدس و المسجد الأقصی،  شراب محمد حسن۔ المدارس في بیت المقدس في العصرین الأیوبی و المملوکي دورها في الحرکۃ الفکریۃ ، عبدالمهدی، عبدالجلیل حسن۔  بیت المقدس وماحولہ، د. محمد عثمان شبیر۔تاريخ القدس و الخليل عليہ السلام ،شمس الدین محمد خلیلی)
  8. (  الأنس الجليل بتاريخ القدس و الخليل، مدارس القدس و مکتباتھا ، محمد عید الخربوطی )
  9. (  الأنس الجليل بتاريخ القدس والخليل، مجير الدين الحنبلي ۔ ، موسوعۃ   بیت المقدس، القدس في التاریخ لزكار،لواء القدس في أواسط العھد العثماني، لعادل مناع ،  بیت المقدس وماحولہ، د. محمد عثمان شبیر، مدارس القدس ومکتباتھا ، محمد عید  الخربوطی )

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ