مُعَوَّذَتین ، فضائل ، مسائل اور آداب

(وہ دو سورتیں جن کے ذریعہ پناہ طلب کی جاتی ہے:سورۃ الفلق اور سورۃ الناس)

پہلا خطبہ

بیشک ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے، ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے مغفرت مانگتے ہیں۔ اور اپنے نفس کی شرارت اور برے اعمال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے  سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ ان پر اور ان کی آل پر اور ان کے صحابہ پر اور اور قیامت تک ان کی پیروی کرنے والوں پر رحمتین ، سلامتییاں اور برکتیں نازل فرمائے۔

حمد و ثنا کے بعد:

اے لوگو!

میں آپ سب کو وہ نصیحت کرتا ہوں جو اللہ نے  ہمیں اور  پچھلی قوموں کو بھی کی:

وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّـهَ ۚ 

النساء – 131

واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو ۔

جو ہوشیار ہوگیا وہی سلامت   رہا، اور جو غافل ہوگیا اسی کو ندامت ہوگی۔اور لوگوں کو (قیامت میں) اٹھایا جائے گا، میزان (ترازو) قائم کئے جائیں گے تو  اس دن کے لئے اچھی طرح تیاری کرلیں۔

وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّـهِ ۖ 

البقرة – 281

اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالٰی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔

اے مسلمانو!

جنت انسان کا پہلا گھر ہے، اور جنت تو اس بھلائی کا نام ہے جس میں کوئی برائی نہیں، جس طرح(جہنم کی)  آگ ایک ایسی برائی ہے جس میں کوئی خیر نہیں۔اور دنیا میں بھلائی بھی ہے اور برائی بھی۔

دینی نقصان کا سبب

انسانی زندگی میں بہت سے ایسے شر آجاتے ہیں کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا، جس وجہ سے جاہل لوگوں نےان برائیوں کو ٹالنے کے لئے اپنی طرف سے  من گھڑت چیزیں بنالیں، جن کے بارے میں نہ ہی آسمان سے کوئی دلیل نازل ہوئی اور نہ ہی نبیوں نے یہ چیزیں بتائیں، اور اسی وجہ سے برائی اور زیادہ بڑھ گئی اور لوگوں کے دین تباہ ہوگئے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا

الجن – 6

بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے ۔

دینی اصلاح اور جسمانی سلامتی کا ذریعہ

اور اللہ تعالی نے اپنی رحمت اور شفقت سے اپنی مخلوق  کے دین کی اصلاح اور ان کے جسم کی سلامتی کے لئے  رہنمائی کہ  کس ذات کی حفاظت طلب کریں اور کس طرح پناہ مانگیں۔

صحیح مسلم کی حدیث ہے:

روى عقبةُ بن عامر – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «ألم ترَ آياتٍ أُنزلَت هذه الليلة لم يُرَ مثلهنَّ قط:  ((قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ)) [الفلق: 1]، و((قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ)) [الناس: 1]»

رواه مسلم

عقبہ بن عامر  رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا آپ کو نہیں معلوم کہ جو آیات آج رات نازل ہوئی ہیں ان جیسی آیات پہلے کبھی نازل نہیں ہوئیں۔اور وہ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی آیتیں ہیں۔

شر  سے بچنے کا ایک مضبوط قلعہ

اس طرح نبی علیہ السلام نے ان دونوں عظیم سورۃوں کی اہمیت بیان کی۔اور نبیﷺ کے ان اہم کلمات کا مطلب یہ ہے کہ ان سورۃوں میں بہت بڑے راز کی بات ہے جو اللہ کو معلوم ہے، اور اللہ کی طرف سے ایک عظیم قلعہ ہے، اور ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعہ مومن جن و انس کے شیاطین کو بھگاسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں آنے والے شر، پریشانیوں اور سختیوں  کا مقابلہ کرسکتا ہے، اور مکر  و حسد، جادو ٹونہ کرنے والوں سے اپنے آپ کو محفوظ کرسکتا ہے، اور جوکوتاہیاں  اس سے سرزد ہوجاتی ہیں اور اسے نقصان اور تکلیف دیتی ہیں ، یہ دونوں سورتیں ان سے بھی بچنے کا بہترین  ذریعہ ہیں۔

’’ مُعَوَّذَتَین   میں بیماری کے ساتھ علاج کا ذکر‘‘

یہ ایسی واضح آیات ہیں جن میں  بیماری اور علاج  دونوں ذکر ہیں، اور نبی علیہ السلام تو ان سورۃوں کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے، اور اللہ کے حکم مطابق ان دونوں سورۃوں کو پڑھ کرپناہ حاصل کیا کرتے تھے۔

جیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے:

عن أبي سعيد قال: “كان رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يتعوَّذ من الجانِّ وعين الإنسان، حتى نزلَت المُعَوَّذَتَین ، فلما نزلَتا أخذَ بهما وتركَ ما سِواهما”

رواه الترمذی، النسائی وابن ماجه، وقال الترمذی “حدیث حسن” ۔

ترجمہؒ ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کے رسول ﷺ(مختلف الفاظ کے ذریعہ) جنات اور انسان کے حسد سے (اللہ کی)  پناہ مانگا کرتے تھے، لیکن جب یہ دونوں سورتیں (مُعَوَّذَتَین ) نازل ہوئیں تو انہوں  نے انہی سورۃوں کو اپنا معمولِ زندگی بنایا اور باقی تمام اکفاظ چھوڑ دیئے۔ یہ حدیث ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں ہے۔ اور امام ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

ہر شر سے حفاظت

اے مسلمانو!

یہ دو سورتیں  اللہ کی طرف سے سب سے پہلے اپنے نبیﷺ کےلئے ہیں اور ان کے بعد تمام مومنوں کے لئے ہیں تاکہ سب لوگ  ہر ظاہری و خفیہ، معلوم و نامعلوم اور اجمالی و تفصیلی  شر سے اللہ کی حفاظت  اور پناہ میں آجائیں ۔

گویا کہ اللہ تعالی نے مومنوں کے لئے اپنی حمایت (کے دروازے) کو کھول دیا ہے ، اور حفاظت کو پھیلادیا ہے اور محبت و رحمت سے یہ اعلان فرمادیا ہے:حمایت کی طرف سب آجاؤ، امن و سکون کی جگہ آجاؤ، آجاؤ، میں تو تمہاری کمزوری کو بھی جانتا ہوں اور تمہارے اردگرد کے خطرات سے بھی بخوبی واقف ہوں، اور تمہارے دشمن کو مکمل کنٹرول کرنے پر قادر ہوں۔ ( یاد رکھئے!) امن و سکون اور سلامتی تو اللہ ہی کی حفاظت میں ہے۔

خفیہ شر سے محفوظ

اور ان دونوں سورۃوں میں اگر  آپ  غور کریں تو معلوم ہوگاکہ یہ سورتیں (ظاہری نہیں بلکہ) خفیہ شر سے محفوظ ہونے کا قلعہ ہیں، یہاں تک کہ جس انسان کو یہ شر پہنچتا ہے اسے اکثر اوقات معلوم تک نہیں ہوتا کہ کس نے یہ کام کیا ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالی نے دیگر  آفات اور خطرات کی بجائے ان برائیوں کا خصوصی ذکر کیا ہے۔اور  ہمیں ہر برائی سے عمومی طور پر اور ان  مذکورہ برائیوں سےخصوصی طور پر اللہ کی مدد، معاونت، پناہ اور حفاظت مانگنے کا حکم ہے۔

اور ان کا مقصد توحید کودلوں میں بسانا ہے

توحید دلوں کی گہرائیوں میں اترجائے، کیونکہ انسان کو اس بات کی ضرورت تو ہر وقت ہے کہ اس کا تعلق ایسی ذات سے ہو جوشر اور تکلیف کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ ہر وقت حفاظت کرتی رہے تو یہ دو سورتیں انتہائی مختصر اور جامع الفاظ میں ان برائیوں سے محفوظ رہنے کا بہترین وسیلہ ہیں،اور اس مقصد کے لئے سب سے قوی اور شامل یہ سورتیں ہیں۔

سورۃ الفلق کی تفسیر

’’أعوذ‘‘ کا مطلب:

أعوذ کا مطلب ہے:  میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں  ،یا حفاظت مانگتا ہوں، یا بچاؤ مانگتا ہوں ، یا حمایت مانگتا ہوں۔

استعاذہ ایک عبادت ہے

تو معلوم یہ ہوا کہ استعاذہ ایک عبادت ہے جس کے ذریعہ ہم اللہ سبحانہ وتعالی کو راضی کرتے ہیں کیونکہ ہم اس کی پناہ مانگتے ہیں، اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ صرف  ایک اللہ  ہی خطرات کو ٹالنے اور ہٹانے پر قادر ہے۔

سورۃ الفلق کی اجمالی وضاحت

پہلی معوذہ (سورۃ الفلق) میں  اللہ نے اپنے نبی علیہ السلام کو یہ حکم دیا کہ:

فلق کے رب کی حمایت اور پناہ مانگیں، اور وہی اللہ سبحانہ وتعالی ہی صبح کا رب ہے جو  اسے رات  کے اندھیروں سے نکال کر روشن کردیتا ہے۔

اور صبح کے وقت پناہ مانگنے کا خصوصی ذکر اس لئے کیا کہ سخت اندھیرے کے بعد صبح کے نور کی کرنیں سختی اور پریشانی کی گھٹاؤں کے چھٹنے کی مانند ہیں۔ اور جس طرح انسان  طلوعِ صبح کا منتظر ہوتا ہے ، بالکل اسی طرح مظلوم بھی  چھٹکارے اور سلامتی کا منتظر رہتا ہے۔

ان دو آیتوں کا مفہوم

اللہ تعالی نے اپنے نبی علیہ السلام کو اور ہر مومن کو یہ حکم دیا ہے:

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ

الفلق – 1/2

 آپ کہہ دیجئے! کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ۔  ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔

یعنی: مطلق ہوں یا اجمالی، اس کی تمام مخلوقات کے شر سے۔ اور یہ ہر شر کے لئے عام ہے؛ دنیا کا ہو یا آخرت کا، انسانوں کو ہو یا جنات و شیاطین  کا،  درندوں کا ہو یا زہریلے جانوروں کا، آگ کا شرہو یا گناہوں اور خواہشات کا، نفس کا ہو یا عمل کا، الغرض ہر شر والے کے شر سے پناہ  مل جائے گی۔

تیسری آیت کا مفہوم

الغسق:

اس کا مطلب ہے سخت اندھیرا، اور غاسق کا مطلب رات ہے (کیونکہ رات اندھیرا کرتی  ہے)، یا وہ شخص جو اندھیرے میں حرکت کرتا ہے۔ اور وقب کا مطلب ہے داخل ہوا۔

ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں :

“هو الليلُ إذا أقبلَ بظلامِه”.

اس سے مراد رات ہے جب وہ اندھیرا پھیلاتی ہے۔

مجاہد اور زہری رحمۃ اللہ علیھما   فرماتے ہیں:

“هو وقتُ غروب الشمس”.

یہ سورج غروب ہونے کا وقت ہے۔

اس کا مقصد :

اس  کا مقصد یہ ہے : رات  سے پناہ مانگنا اور ہر اس برائی  سے جو رات میں ہوتی ہے۔ اور جب رات روئے زمین پر چھاجاتی ہے تو اس میں ایک ہیبت پائی جاتی  ہے، اور اس کی آڑ میں زہریلے  جانور اور  درندے حرکت میں آجاتے ہیں، مجرم اور فریبی لوگ  چست ہوجاتے ہیں،  خواہشات اور شہوتیں بڑھ جاتے ہیں اور  رات میں رونما ہونے والے وسوسے، خیالات،  غم اور حزن بھی بڑھ جاتے ہیں،  اور عجیب و غریب شعور اور احساسات جنم لیتے ہیں۔

اور شیطان کو چلنے اور باتیں پھیلانے میں  اندھیرے سے مدد ملتی ہے۔اسی لئے اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو رات اور اس کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔

اللہ تعالی نے فرمایا:

وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ

الفلق – 4

اور گرہ (لگا کر ان) میں پھونکنے والیوں کے شر سے (بھی) ۔

چوتھی آیت کا مفہوم

نفاثات کا مفہوم:

اور اس سے مراد جادوگر عورتیں ہیں، جو  مسحور (جس پر جادو کرنا ہو اس) کا نام لے کردھاگوں وغیرہ میں گرہ لگاکر اس میں پھونکتی ہیں تاکہ اس سے  مسحور کو تکلیف ہو۔

جادو  کا گناہ اور اس کی تاثیر

وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ

البقرة – 102

 اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالٰی کی مرضی کے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

اور نبی علیہ السلام نے جادو کو ان کبائر (بڑے )  گناہوں میں شمار کیا ہے جو امتوں اور افراد کو ہلاک کردیتے ہیں، اور جو (دوسروں کو تکلیف دے کر)  گناہ کرنے والے کو آخرت  کے مقابلے میں اس دنیا  میں  خوش کردیتے ہیں۔

جادوگر سے علاج کرانا حرام ہے

اور جو شخص اس بیماری اور جادو میں مبتلا ہوگیا تو اس کے لئے قطعا یہ جائز نہیں کہ جادو ٹونہ کرنے والوں سےمدد لے، بلکہ نبی علیہ السلام نے ایسے انسان سے براءت کا اعلان کیا ہے، اور اللہ تعالی نے ہمیں  یہ حکم دیا ہے کہ ہم اسی (اللہ ) کی پناہ، مدد اور سہارا مانگیں۔

پانچویں آیت کا مفہوم

حسد کا مفہوم:

وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ

الفلق – 5

اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وہ حسد کرے۔

طبیعت و شریعت کے لحاظ سے حسد  ایک مذموم صفت ہے۔اس کا مطلب ہے: دوسرے کی نعمت کے ختم ہوجانے کی تمنی کرنا۔ اور حاسد کے شر کا نقصان اس وقت  ہوتا ہے  جب وہ حسد میں بڑھ کر یا تو نظر لگائے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، اسی وجہ سے اللہ تعالی نے اس کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ اور فرمایا:

وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ

الفلق – 5

اور اگر لوگ اللہ پر توکل کریں، اور ان آیات کو پڑھ کر اپنے آپ کو محفوظ کرلیں تو حسد  اور نظر بدسے  بچ جائیں گے۔اور سورۃ الفلق تو حسد میں مبتلا فرد کے لئے بہت بڑا علاج ہے۔

کیونکہ اس سورۃ میں یہ چیزیں شامل ہیں: اللہ کا توکل، اللہ سے لو لگانا، اور نعمت کے حاسدین سے نعمتوں کے خالق کی پناہ مانگنا۔کیونکہ  نعمتوں کا خالق ہی توکل  اور بھروسہ کرنے والوں کے لئے کافی ہے۔

سورۃ الناس کی فضیلت اور تفسیر

مسلمانو!

دوسری معوذہ (سورۃ الناس) میں اللہ نے لوگوں  یہ حکم دیا ہے کہ  وہ اپنے رب کی پناہ مانگیں جو ان کی حفاظت کرتا ہے، اور اپنے ملک کی (پناہ مانگیں) جس نے انہیں (نیکی کا ) حکم دیا اورانہیں  (برائی سے)  روکا، اوراپنےمعبود کی (پناہ مانگیں) جس کی وہ عبادت کرتے ہیں  ان شیاطین  کے شر سے جو اللہ کی عبادت میں خلل پیدا کرتے ہیں۔ اور شیطان تو  ہر شر کی جڑ ہے چاہے وہ (شر) ان لوگوں کی طرف سے ہو یا ان پر کسی دوسرے کی طرف سے۔

دوسری اور تیسری آیت کا مفہوم

ان  دو الفاظ کی تفصیل:

مَلِكِ النَّاسِ ﴿٢﴾ إِلَـٰهِ النَّاسِ

الناس – 2/3

 لوگوں کے مالک کی۔ لوگوں کے معبود کی (پناہ میں)۔

کیونکہ لوگوں میں بھی بادشاہ ہوتے ہیں اس لئے ملک کا ذکر کیا کہ  ان کا اصل بادشاہ تو اللہ ہے۔ اور ایسے بھی لوگ ہیں جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں  اسی لئے فرمایا کہ وہی ان کا الٰہ و معبود ہے۔اور وہی ایک ایسی ذات ہے کہ تمام بادشاہوں اور بزرگوں کو چھوڑ کرصرف اسی کی پناہ اور حفاظت مانگی جائے۔ وہی ان کا حقیقی رب اور حقیقی مالک  ہے  اور وہی اکیلا معبود ہے جو عبادت کے لائق ہے،اور اس کے سوا جو کچھ بھی  ہے وہ سب  مخلوق ہےجسے (یعنی مخلوق کو)اپنے  نفع و نقصان کا اختیار نہیں اور نہ ہی موت، زندگی اور قیامت میں دوبارہ اٹھنے پر کوئی کنٹرول ہے۔

چوتھی اور پانچویں آیت کا مفہوم

’’الوسواس الخناس ‘‘ کی تفصیل:

’الوسواس الخناس‘  کا مطلب شیطان ہے جس کے ہر شر سے پناہ اس میں آجاتی ہے،  لیکن یہاں اس کی سب سے خطرناک ، کیفیت ذکر کی ہے جس کا شر بہت زیادہ نقصان دہ ہے اور اس کی تاثیر بہت طاقتور ہے اور اس کا فساد بہت ہی عام ہے۔

اور یہ وہ  وسوسہ ہے جو ابتدائی ارادہ  کی صورت میں ہوتا ہے جبکہ دل میں کوئی برائی اور شر نہیں ہوتا تو شیطان وسوسہ ڈال کر برئی کو مزین کردیتا ہے، اور اس کے سامنے برائی کو خوبصورت بناکر پیش کرتا ہے اور پھر اس برائی کے کرنے پر ابھارتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خیر اور بھلائی کی شکل بگاڑ کر پیدا کرتا ہے یہاں تک کہ وہ بھلائی اسے برائی لگتی ہے۔ اسی حالت میں شیطان  وسوسہ (دلوں میں ) ڈالتاہے اور  پیچھے ہٹ جاتاہے ، اور اولاد آدم کے جسم میں خون کی ڈورتا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں:

الشيطانُ جاثِمٌ على قلبِ ابنِ آدم؛ فإذا سهَا وغفلَ وسوسَ، وإذا ذكرَ اللهَ خنَس”؛ أي: هربَ وتراجَع.

شیطان انسان کے دل سے چمٹ جاتا ہے؛  اگر وہ بھول اور غفلت میں پڑجائے تو شیطان وسوسہ ڈال دیتا ہے،  اور اگر وہ اللہ کا ذکر کرے  تو وہ بھاگ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

جس طرح جنات کی طرف سے وسوسہ ہوتا ہے اسی طرح انسانوں کی طرف سے بھی ہوتا ہے۔

چھٹی آیت کا مفہوم

جن و انس  کے شیاطین :

مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ

الناس – 6

جن و انس  میں سے۔

اور اس میں انسانی شیاطین  کے خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے، اور بہت ہی کم  لوگ اس بات سے آگاہ ہیں  حالانکہ  اس سورۃ میں اللہ تعالی نے  اپنے نبی علیہ السلام کوجن و انس کے شیاطین سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔

مُعَوَّذَتَین  پڑھنے کے مواقع

اللہ کے بندو!

یہ دونوں سورتیں (مُعَوَّذَتَین ) کسی وقت بھی پڑھی جاسکتی ہیں، اور جن مواقع میں ان کا پڑھنا   نبی ﷺ سے ثابت ہے تو ان موقعوں پر پڑھنےکی  سنت سے تاکید ملتی ہے۔

ما رواه عقبةُ بن عامر – رضي الله عنه – قال: “أمرني رسولُ الله – صلى الله عليه وسلم – أن أقرأَ بالمُعوِّذات دُبُر كلِّ صلاة”

أخرجه الإمام أحمد وأبوداود والنسائی، وصححه الحاكم وغره ۔

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے ہر نماز کے بعد معوذات پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ یہ حدیث مسند احمد، ابو داود اور نسائی میں ہے اور اسے امام حاکم اور دیگر ائمہ نے صحیح کہا ہے۔

دوسری  حدیث میں ہے:

ما روَته عائشةُ – رضي الله عنها – أن النبي – صلى الله عليه وسلم – “كان إذا أوَى إلى فِراشِه كلَّ ليلةٍ جمعَ كفَّيه، ثم نفثَ فيهما فقرأَ فيهما: ((قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ)) [الإخلاص: 1]، و((قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ)) [الفلق: 1]، و((قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ)) [الناس: 1]، ثم يمسحُ بهما ما استطاعَ من جسَده، يبدأُ بهما على رأسِه ووجهِه وما أقبلَ من جسَده، يفعلُ ذلك ثلاثَ مرَّاتٍ”.

أخرجه البخاری

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا روایت کرتی ہیں کہ نبی ﷺ ہر رات جب اپنے بستر  پر لیٹتے تو اپنی ہتھیلیوں کو جمع کرتے اور ان میں پھونک مارتے  اور یہ  (تینوں سورتیں)  پڑھتے: سورۃ الإخلاص ، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس۔ پھر وہ جہاں تک ممکن ہوسکے اپنے جسم پر مل لیتے، اپنے سر اور چہرے اور جسم کے سامنے والے حصے سے شروع کرتے۔ایسا تین مرتبہ کرتے۔

مُعَوَّذَتَین  کا صبح و شام تین تین بار پڑھنا سنت ہے

حدیث  میں آتا ہے:

قال النبي – صلى الله عليه وسلم – لعبد الله بن خُبيبٍ – رضي الله عنه -: «قل». قلتُ: ما أقول؟ قال: «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، والمُعوِّذتين حين تُمسِي وتُصبِحُ ثلاث مرَّات، تكفيكَ من كل شيءٍ» .

أخرجه الإمام أحمد وأبوداود والترمذی – واللفظ له – وقال: “حسن صحیح “، وصححه النووی وغیره ۔

اللہ کے نبی ﷺ نے عبد اللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کہہ دیجئے،انہوں نے عرض کیا: میں کیا کہوں؟، فرمایا: کہہ دو کہ اللہ ایک ہے(سورۃ الإخلاص)، اور  مُعَوَّذَتَین  (بھی پڑھیں) صبح و شام تین تین مرتبہ، یہ آپ کو ہر چیز سےکفایت کر جائیں گی۔ یہ حدیث مسند احمد، ابوداود اور ترمذی میں ہے۔اور امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے، اور امام نووی وغیرہ نے اسے صحیح کہا ہے۔

مُعَوَّذَتَین کے ذریعہ خودپر اور دوسروں پر دم کریں

اللہ کے بندو!

موذتان ایک رقیہ (دم)  ہیں، مسلمان خود اپنے اوپر بھی دم کرے اور دوسرے پر بھی۔

عن عائشة – رضي الله عنها – أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – “كان إذا اشتكَى يقرأُ على نفسِه بالمُعوِّذات وينفُث. قالت: فلما اشتدَّ وجعُه كنتُ أقرأُ عليه وأمسَحُ بيدِه رجاءَ بركتِها” .

متفق علیه

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کو جب تکلیف ہوتی تو وہ معوذات پڑھتے اوردم کرتے۔فرماتی ہیں کہ جب تکلیف بہت زیادہ ہوتی تو میں پڑھتی اور  برکت کے لئے انہی کے ہاتھ کو ملتی۔ (صحیح بخاری و مسلم)

اور مسلم کی روایت میں ہے:

“كان رسولُ الله – صلى الله عليه وسلم – إذا مرِضَ أحدٌ من أهلِه نفَثَ عليه بالمُعوِّذات”.

جب بھی نبی علیہ السلام کے گھر کا کوئی فرد بیمار ہوجاتا تو اس پر معوذات پڑھ کر دم کرتے۔

بیماری سے محفوظ رہنے کے لئے یہ سورتیں  پڑھنی چاہئیں

بلکہ بیماری سے پہلے ہی اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے  مُعَوَّذَتَین   پڑھنی چاہئیں۔ جیساکہ حدیث میں ہے:

عن أبي سعيد – رضي الله عنه – “أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – كان يتعوَّذُ من أعيُن الجانِّ وعين الإنسان، فلما نزلَت المُعَوَّذَتَین  أخذَ بهما وتركَ ما سِواهُما” .

رواه الترمذی والنسائی وابن ماجه

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ (شروع میں مختلف الفاظ کے ذریعہ) جن و انس کی نظر سے (اللہ کی ) پناہ مانگا کرتے تھے، مگر جب یہ مُعَوَّذَتَین  نازل ہوئیں تو انہوں نے ان کو پڑھنے کا معمول بنایا اور باقی تمام الفاظ (جو اس مقصد کے لئے پڑھتے تھے)  چھوڑدیئے۔(ترمذی ،نسائی،ابن ماجہ)۔

اجمالی طور پر فضائل کا ذکر

ان دونوں سورۃوں کو پڑھنے کے مواقع یہ ہیں: پانچوں نمازوں کے بعد، سونے سے پہلے، صبح و شام کے اذکار میں، دم کے لئے اور بیماریوں اور پریشانیوں کے آنے سے پہلے  ہی حفاظت کے لئے۔

ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم سب کو ہر برائیوں ، گناہوں، فتنوں اور بیماریوں سے محفوظ رکھے۔

قرآن و سنت کی برکتیں حاصل کرنے کی دعاء

اللہ مجھے اور آپ کو قرآن مجید کی برکتوں سے مالا مال فرمائے،  اور رسولوں کے سردار جناب محمد ﷺ کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، میں اپنی یہ بات  کہنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے مجھ سمیت سب کے لئے مغفرت مانگتا ہوں۔

دوسرا خطبہ

ہر قسم کی بہت ہی زیادہ ، بابرکت و پاکیزہ  تعریف  اللہ  ہی کے لئے ہے ، (وہی اللہ ہے جو) ہر پکارنے والے کی پکارکا جواب دیتا ہے، اور پر حفاظت مانگنے والے کو محفوظ کردیتا ہے، اورہر پناہ مانگنے والے کو اپنے امان میں پناہ دیتا ہے اور  اسکی حمایت کرتا ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ ان پر اور ان کی آل پر اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامی اور درود نازل فرمائے ۔

حمدو ثنا کے بعد،

اے مسلمانو!

سورۃ الفلق کی ایک خوبی

سورۃ الفلق کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کی ابتدا میں فلق کے رب کی پنا مانگنے کا حکم ہے، اور فلق کا مطلب صبح ہے، بلکہ ہر وہ چیز  ہے جو  بھلائی اور خوشخبری کو لے کر  آتی ہے، اور فلق کا خصوصی ذکر کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو ذات صبح کو طلوع کرنے اور رات کے اندھیرے کو ختم کرنے پر قادر ہے  وہی ذات ہر قسم کی تاریکی کو ختم کرنے پر قادر ہے اور ہر مظلوم سے ظلم کو مٹانے پر قادر ہے۔تو اس قوی و قادر ذات سے نا امید  اور مایوس نہیں ہونا چاہئے۔

 إِنَّ اللَّـهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ

الأنعام – 95

 بیشک اللہ تعالٰی دانہ کو اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے ۔

صبر اور بلند حوصلہ ہی کامیابی کا راز ہے

اور صبح  تو تاریخی واقعات سےحاصل شدہ امیدوں کی طرف اشارہ کرتی ہے اور صبح کا نور سخت اندھیرے کے بعد آتا ہے، بالکل اسی طرح جب ظلم کی انتہاء ہوجاتی ہے تو نجات ضرور ملتی ہے اوراس میں  آسانی اور نجات کا اعلان ہوتا ہے۔

اور ان دنوں ہماری یہی  امیدیں اور امنگیں ہیں، اور  اہل شام کے دشمن اور اس کے  ہم مذھب معاونین  کی طغیانی سے کتنی ہی تکلیفیں آجائیں اور  تمام قوتوں نے انہیں رسوا کرنے کی کوشش کی  ہے جوکہ کمزوروں کی مدد کا دعوی کرتی ہیں کیونکہ ان کی مدد مفاد پرستی کی بنیاد پر ہوتی ہے مگر مومنوں کا صبر اور ایک اللہ سے امیدیں ہی  ایک ایسا مضبوط وسیلہ ہیں جس کی بدولت نجات  ’إن شاء اللہ‘  قریب ہے۔اور بیشک  مصیبت کے ساتھ نجات ہے،  صبر کے ساتھ نصرت ہے، اور تنگی کے ساتھ  آسانی ہے۔

استغفار کامیابی اور نجات کی کنجی ہے

اور اہم بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف سچے دل سے رجوع کیا جائے، اور زیادہ سے زیادہ استغفار کیا جائے جو کہ نجات کی سب سے اہم کُنجی ہے، اتحاد کی فضا قائم کی جائے، اختلافات کو ختم کیا جائے۔ اور  بہادری تو  صبر کا نام ہے۔

اور  جو مسلمان مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں انہیں دیگر مسلمان بھائیوں کی مدد کرنی چاہئے، خصوصا حکام کی یہ ذمہ داری ہے، کیونکہ عوام تو انہی کے تابع ہیں، اور اس امت میں بہت ہی بھلائی ہے، تو سرکشی  اور فساد کو روکنے میں کسر نہ چھوڑیں، اور بیشک اسلامی بھائی تو پریشانی کے موقع پر زیادہ حقدار ہے وگرنہ  فوری  طور پر یا مستقبل میں وہ  بھی  مصائب اور سزا ؤں کا شکار ہوجائے گا۔اور شام میں ہمارے بھائیوں کی مصائب دور کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ہم اپنے آپ سے  تمام مصیبتوں کو ٹال رہے ہیں، چاہے وہ مصیبتیں جلد ہی آنے والی تھیں یا دیر سے۔

اور نبی رحمت اور  انمول نعمت محمد بن عبداللہ ﷺ  پر  درو و سلام بھیجیں ۔

پیارے نبیﷺ پر درود و سلام اور دعائیں:

یا اللہ! اپنے نبی اور رسول محمدﷺ پر رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما، اور انکی پاکیزہ آل پربھی، اور تمام صحابہ کرام سے بھی راضی ہوجا، اور ان لوگوں سے بھی جو قیامت تک ان کی پیروی کریں گے۔

اسلام اور مسلمانوں کے لئے دعائیں:

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، اور سرکش، ملحدین اور مفسدین کو رسوا کردے۔

یا اللہ! اپنے دین، کتاب، نبی ﷺ کی سنت اور مومن بندوں کی مدد فرما۔

یا اللہ!  اے تمام جہانوں کے رب! اس امت کی بھلائی کے معاملات کو ترقی عطا فرما جہاں تیرے فرفاں بردار بندوں کو عزت عزت ملے، اور نافرمان لوگوں کو ہدایت نصیب ہو، اور نیکی کا حکم عام ہوجائے اور برائی کی روک تھام کا سلسلہ جاری ہو۔

دشمنانِ اسلام پر بد دعائیں:

یا اللہ! یا رب العالمین! جو بھی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے تو اس کی اس برائی میں اسی کو مبتلا فرمادے، اور اس کےمکر  کے جال میں اسی کی گردن  کو پھنسادے، اور برائی کو اسی کے سر پر ڈال دے۔

مجاہدین  و مظلومین  کے حق میں دعائیں:

یا اللہ!   اے تمام جہانوں کے رب! فلسطین، شام اور ہر جگہ میں جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے مجاہدین کی مدد فرما،

یا اللہ! مسجد اقصی کو ظالموں کے ظلم اور غاصبین کے زیادتیوں سے آزاد فرما۔

یا اللہ! مصر اور ہر جگہ ان کے حالات بہتر فرمادے، اور انہیں ہدایت پر جمع فرمادے، اور شرارتی لوگوں کے مقابلے میں ان کے لئے کافی ہوجا، اور ان کے معاملات درست فرمادے۔

یا اللہ!   اے ہمیشہ رہنے والے!   اے عزت و جلال والے! شام میں ہمارے بھائیوں کی مدد فرما۔ یا اللہ! انہیں حق اقر ہدایت پر متفق فرمادے۔ یا اللہ! ان کے خون کی حفاظت فرما، اور ان کے خوف کو امن میں تبدیل فرمادے، اور ان کی حاجتوں کو پورا فرما، اور بھوک میں مبتلا لوگوں کو کھانا کھلا، انکی عزتوں کی حفاظت فرما، انکے دلوں کو استقامت عطا فرما، اور ان پر ظلم کرنے والوں کے مقابلے میں ان کی مدد فرما۔

حکمرانوں کے لئے دعائیں:

یا اللہ! ہمارے امیر خادمِ حرمین شریفین کو ان کاموں کی توفیق دے جن سے تو خوش اور راضی ہوتا ہے۔ اور انہیں نیکی اور تقوی کےمعاملات میں سرگرم فرمادے۔یااللہ! انہیں مکمل عافیت سے نوازدے۔ یااللہ! انہیں ، ان کے نائب ، ان کے بھائیوں اور معاونین کو ممالک اور باشندوں کی بھلائی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔

یا اللہ! مسلمانوں کے حکمرانوں کو اپنے شریعت اور نبیﷺ کی سنت   کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما، اور انہیں مومن بندون کے لئے رحمت والا بنادے۔

یا اللہ! ہمارے اس ملک اور تمام اسلامی ممالک کو امن و رفراخی کا گہوارہ بنادے، اور دشمنوں اور فاجروں  کے شر  سے محفوظ فرمادے۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

البقرة – 201

اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے  اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

آل عمران – 147

 اے پروردگار! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہم سے ہمارے کاموں میں جو بےجا زیادتی ہوئی ہے اسے بھی معاف فرما اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور ہمیں کافروں کی قوم پر مدد دے۔

یا اللہ! ہمارے گناہوں کی مغفرت فرما، اور عیوب کی ستر پوشی فرما، معاملات آسان فرما، اور ہماری امیدوں کو اپنی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بنادے۔

یا اللہ! ہماری اور ہمارے والدین اور انکے  بھی والدین  کی مغفرت فرما، اور ہماری ازواج اور اولاد کی بھی مغفرت فرما، بیشک تو بہت ہی زیادہ اور بخوبی دعاؤں کو سننے والا ہے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے تیری رضا اور جنت کا سوال کرتے ہیں۔اور تیرے غصے اور آگ سے تیری ہی پناہ مانگتے ہیں۔

ہم اللہ سے مغفرت مانگتے ہیں، ہم اللہ سے مغفرت مانگتے ہیں، ہم اللہ سے مغفرت مانگتے ہیں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہمیشہ رہنے والا ہے اور ہم اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

یا اللہ ! تو ہی ہمارا معبود ہے ، تیرے سوا کوئی نہیں، تو غنی ہے اور ہم  (تیرے) محتاج ہیں، ہم پر  بارش برسا ، ہمیں نا امید نہ کرنا۔

یا اللہ! ہم پر بارش برسا۔ یا اللہ! ہم پر بارش برسا۔ یا اللہ! ہم پر  نفع بخش،  سیراب کرنے والی  بارش برسا جس میں نقصان نہ ہو، جس سے زمینیں آباد ہوجائیں، اور لوگ اس سے فائدہ اٹائیں، اور یہ بارش عذاب، آزمائش، اجاڑ اور غرق کا باعث نہ بنے۔اے ہمارے رب!  ہماری دعا قبول فرما، بیشک تو ہی بخوبی  سننے اور جاننے والا ہے۔اور ہماری توبہ قبول فرما بیشک تو ہی  بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

یا اللہ! تو پاکیزہ ہے،عزتوں کا رب ہے، اور رسولوں پر سلامتی ہو، اور ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کے لئے ہے۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح آل طالب حفظہ اللہ

امام و خطیب کعبہ ڈاکٹر صالح بن محمد ابراہیم آل طالب ایک عظیم عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ مکہ کی ہائی کورٹ کے جج بھی ہیں۔ امام کعبہ نے آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ سے بین الاقوامی دستور میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی دینی خدمات کا ایک گوشہ یہ بھی ہے کہ آپ نے انفرادی طور پ حفظ ِقرآن کی تعلیم کے متعدد اداروں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔