موسم گرما: فوائد، نقصانات اور اسلامی تعلیمات

Garmi ka Mosam aur islamic taleemat

موسمِ گرما  سال کے چار موسموں میں سے ایک ہے۔ اس میں دن بڑے ہوتے ہیں اور راتیں چھوٹی ہوتی ہیں۔ درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے۔  موسمِ گرما میں سال کا سب سے بڑا دن 21 جون کو ہوتا ہے۔ پاکستان میں گرمیوں کا آغاز اپریل سے شروع  ہو جاتا ہے اور بعض علاقوں میں ستمبر تک  جاری رہتا ہے ۔ جون اور جولائی سخت گرم مہینے ہوتے ہیں ۔ موسم گرما میں گرمی کی شدت سے چھپے ہوئے کیڑے مکوڑے کثرت سے  نکلنے لگتے ہیں۔ اس لیے گھر اور گھر کی اطراف کی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیئے ۔

موسمِ گرما کے فوائد

  موسمِ گرما کے ان گنت فائدے ہیں سب سے اہم دھوپ جو کہ پودوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسی گرم موسم کی وجہ سے فصلیں اور پھل پکتے ہیں۔ دھوپ کی مدد سے ہمارے جسم میں وٹامن ڈی بنتی ہے جو کہ ہمارے جسم کے لیے بہت مفید ہے ، جسم کے بہت سے زہریلے جراثیم بھی مر جاتے ہیں۔

ہر موسم کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں، اسی طرح ہر موسم کے اپنے ذائقے دار اور رسیلے پھل بھی ہوتے ہیں، موسم گرما کے پھلوں میں آم، تربوز، آلوچے، فالسے، جامن، لیچی، اسٹرابیری، پپیتے اور آڑوقابل ذکرہیں ۔ موسم گرما کے یہ چند خاص پھل جسم کو ٹھنڈک دینے کے ساتھ ساتھ زہریلے مواد کو خارج کرنے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ آپ کی توانائی بڑھانے ، جسم کوہائیڈریٹ رکھنے، سورج کی تپش سے محفوظ اور ضروری غذائیت فراہم کرنے کے حوالے سے خاص اہمیت کی حامل ہیں ۔ ان پھلوں کو گرمیوں کے موسم میں اپنی خوراک کا حصہ بنا کر آپ اس موسم کا بہتر طور پر مقابلہ کرسکتے ہیں ۔موسم گرما میں پھلوں کے ساتھ چند مشہور اورخاص سبزیاں کریلہ، گھیا کدو، کالی توری، بھنڈی توری، بینگن ، ٹماٹر ، سبز مرچ، شملہ مرچ ، تر اور کھیرا اہم ہیں۔

موسمِ گرما کے نقصانات

موسم گرما کے کئی نقصانات ہیں  جو انسان کے لئے  بعض حالات میں کافی مشکلات پیدا کر تے ہیں  ،شدید گرمی  اورچمکتی دھوپ میں گھر سے باہر وقت گزارنا انتہائی تکلیف دہ ہے اور نہایت خطرناک بھی ہے ۔ موسم گرما میں ہیٹ اسٹروک ، پانی کی کمی وغیرہ عام خطرات ہیں ، جبکہ نقصانات یہ ہیں کہ موسم گرما کی آمد سے درج ذیل مختلف بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں ۔

  • پیٹ کی بیماریاں
  • جلد کی بیماریاں
  • ٹائیفائید
  • ہیضہ
  • ہیپاٹائیٹس اے 
  • فوڈ پوائزننگ
  • درد شقیقہ اور سر درد
  • سن سٹروک

موسمِ گرما اور ارشاداتِ نبویﷺ

گرمی کیوں آتی ہے ؟

گرمی جہنم كے سانس لینے كی وجہ سے آتی ہے جیسا كہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اشْتَكَتِ النَّارُ إلى رَبِّهَا فَقالَتْ: رَبِّ أكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فأذِنَ لَهَا بنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ في الشِّتَاءِ ونَفَسٍ في الصَّيْفِ، فأشَدُّ ما تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وأَشَدُّ ما تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ.

صحیح البخاری : 3260

”جہنم نے اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا کہ میرے رب! میرے ہی بعض حصے نے بعض کو کھا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی۔ ایک سانس جاڑے میں اور ایک گرمی میں۔ تم انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جو ان موسموں میں دیکھتے ہو اس کا یہی سبب ہے۔“

ذیل میں موسم گرما کے حوالے سے چند شرعی آداب اور طبی ہدایات پیش خدمت ہیں:

دھوپ میں مت بیٹھیئے !

بلا وجہ گرمی یا دھوپ میں بیٹھنا اچھا عمل نہیں ہے کیونکہ گرمی جہنم کی تپش سے ہے لہذا بلا وجہ دھوپ میں بیٹھنا اپنے آپ کو زندگی میں ہی جہنم کی تپش چکهانے کے مترادف ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس گرمی کی وجہ سے بعض بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں چنانچہ اسلام نے انسان کو تکلیف سے دور رکھنے کے لئے خیر خواہی کے طور پر دھوپ اور گرمی میں بیٹھنے سے منع فرمایا۔ چنانچہ سیدنا قیس بن ابی حازم رضی اللہ عنہ اپنے والد گرامی سے بیان کرتے ہیں :

عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيْهِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: رَآنِي النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَنَا قَاعِدٌ فِي الشَّمْسِ، فَقَالَ: تَحَوَّلْ إِلَى الظِّلِّ.

السلسلة الصحیحة : 324

قیس بن ابی حازم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ نبی كریم ﷺ نے مجھے دھوپ میں بیٹھا ہوا دیکھا آپ ﷺ نے فرمایا: سائے میں آ جاؤ۔

سایہ دار جگہ کی حفاظت کیجئے۔

گرمیوں کے موسم میں لوگ سایہ دار جگہوں میں بیٹھ کر گرمی کی تپش سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں لیکن بعض ناداں اور جاہل لوگ سایہ دار جگہوں پر بول و براز کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہاں بیٹھنا محال ہو جاتا ہے ۔ رسولِ کریم ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ: (اِتَّقُوْا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَ۔ قِیْلَ: مَا الْمَلَاعِنُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ:أَنْ یَقْعُدَ أَحَدُکُمْ فِیْ ظِلٍّ یُسْتَظَلُّ فِیْهِ أَوْ فِیْ طَرِیْقٍ أَوْ فِیْ نَقْعِ الْمَاء)

مسند أحمد : 2715

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہ بیان كرتے ہیں كہ رسول اللہ ﷺ‌ نے فرمایا: لعنت والے تین كاموں سے بچو۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! وہ لعنت والے كام كون سے ہیں؟ آپ  ﷺ نے فرمایا:  ایسی سایہ  دار جگہ پر قضائے حاجت كرنا جہاں لوگ آرام كرتے ہوں یا لوگوں كی گزرگاه یا پانی کے گھاٹ میں پیشاب کرنا۔

اس مضمون کی ایک حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ» قَالُوا: وَمَا اللَّعَّانَانِ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ فِي ظِلِّهِمْ

صحیح مسلم : 418

لعنت کے دو کاموں سے تم لوگ بچ کر رہو (یعنی جن کی وجہ سے لوگ تم پر لعنت کریں) صحابہ کرام نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! وہ لعنت کے دو کام کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک تو راستے میں(جدھر سے لوگ گزرتے ہوں) قضائے حاجت کرنا۔ دوسرا یہ کہ سایہ دار جگہ میں(جہاں لوگ بیٹھ کر آرام کرتے ہوں) قضائے حاجت كرنا۔

گرمی کی شدت کے وقت کیا کرے ؟

گرمی کی شدت کے موقع پراگر آپ یہ جملہ ہزار بار بھی دهرائیں کہ گرمی بہت ہے تو آپ كے یہ كہنے سے موسم ٹھنڈا نہیں هوگا لیکن اگر آپ سنتِ نبوی ﷺ پر عمل کرتے ہوئے تین بار اللہ سے جنت کا سوال اور تین بار اللہ سے جہنم سے پناہ مانگیں تو جنت اور دوذخ دونوں آپ کے لئے دعا گو ہوں گے۔ جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ سَأَلَ اللَّهَ الْجَنَّةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتِ الْجَنَّةُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنِ اسْتَجَارَ مِنَ النَّارِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتِ النَّارُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ أَجِرْهُ مِنَ النَّارِ

صحیح الترمذی : 2572

”جو اللہ تعالیٰ سے تین بار جنت مانگتا ہے تو جنت کہتی ہے: اے اللہ! اسے جنت میں داخل کر دے اور جو تین مرتبہ جہنم سے پناہ مانگتا ہے تو جہنم کہتی ہے: اے اللہ اس کو جہنم سے نجات دے“۔

  نبی ﷺ نے قیامت کی گرمی سے بچنے کے لئے اور بھی کچھ اعمال بتلائے ہیں۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : (سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالی اپنے (عرش کے) سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا ۔

  • انصاف کرنے والا حکمران
  • وہ نوجوان جو اللہ تعالی کی عبادت میں جوان ہوا ہو
  • وہ جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہے
  • دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں، اسی پر وہ جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے
  • ایسا  شخص جسے کسی خوبصورت اور عزت دار عورت نے (برائی کی طرف) بلایا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں
  •  وہ انسان جو صدقہ کرے اور اسے اس درجہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا
  • وہ شخص جو اللہ کو تنہائی میں یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بہنے لگ جائیں۔1

 یہ قیامت کے دن کام آنے والے سات اعمال ہیں۔ ان سات میں سے کسی ایک کا تو اہتمام تو کرنا چاہیے ۔

پانی كا صدقہ

گرمی کے موسم میں سب سے فرحت بخش اور پر لطف نعمت ٹھنڈا پانی ہے۔ قیامت کے دن نعمتوں میں سب سے پہلا حساب ٹھنڈے پانی کا ہو گا۔ چنانچہ سیدنا ابو ھریرۃ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: 

إنَّ أوَّلَ ما يُسأَلُ عنه يومَ القيامةِ -يعني العَبدَ- من النَّعيمِ أن يُقالَ له: ألم نُصِحَّ لك جِسْمَك ونَروِيَك من الماءِ الباردِ

صحیح الترمذی : 3358

یعنی قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے جن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا ( وہ یہ ہوگا )  کہ اس سے کہا جائے گا: کیا میں نے تمہارے لیے تمہارے جسم کو تندرست اور ٹھیک ٹھاک نہ رکھا اور تمہیں ٹھنڈا پانی نہ پلاتا رہا؟“۔

پانی صدقہ جاریہ ہے ۔

پانی ایک عظیم نعمت ہے لہذا اس نعمت کا احساس اور اس کا کما حقہ شکر ادا کرتے ہوئے کوشش کریں کہ اس موسم میں بڑے پیمانے پر پانی کے صدقے کا اہتمام کریں۔ جیسے نہر جاری کروانا، کنواں کھدوانا، فلٹریشن پلانٹ لگوانا، مساجد و مدارس میں کولر نصب کروانا وغیرہ۔اسی طرح چھوٹے پیمانے پر جیسے مزدوروں، مسافروں، طالبعلموں بلکہ چرند پرند اور جانوروں تک کے پانی کا انتظام کرنا، عوامی مقامات اور ٹریفک اشاروں پر پانی کا انتظام کرنا وغیرہ۔ کیونکہ یہ صدقہ جاریہ شمار ہوگا ۔

سبعٌ يَجري للعبدِ أجرُهُنَّ ، وهوَ في قَبرِه بعدَ موتِه : مَن علَّمَ علمًا ، أو أجرَى نهرًا ، أو حفَر بِئرًا ، أوغرَسَ نخلًا ، أو بنَى مسجِدًا ، أو ورَّثَ مُصحفًا ، أو ترَكَ ولدًا يستغفِرُ لهُ بعد موتِه2

 سات چیزوں کا اجر و ثواب بندے کو مرنے کے بعد قبر میں بھی پہنچتا رہتا ہے۔ کسی کو علم سکھائے ، نہر کھودے ، کنواں کھودے ، کھجور کا درخت  لگائے ، مسجد تعمیر کرائے ، قرآنِ کریم کا نسخہ چھوڑ کر جائے یا ایسی اولاد چھوڑ کر جائے جو اس کے مرنے کے اس کے لئے مغفرت کی دعا کرے ۔

پانی پلانا باعثِ مغفرت ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أنَّ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قالَ: بَيْنا رَجُلٌ يَمْشِي، فاشْتَدَّ عليه العَطَشُ، فَنَزَلَ بئْرًا، فَشَرِبَ مِنْها، ثُمَّ خَرَجَ فإذا هو بكَلْبٍ يَلْهَثُ يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ العَطَشِ، فقالَ: لقَدْ بَلَغَ هذا مِثْلُ الذي بَلَغَ بي، فَمَلَأَ خُفَّهُ، ثُمَّ أمْسَكَهُ بفِيهِ، ثُمَّ رَقِيَ، فَسَقَى الكَلْبَ، فَشَكَرَ اللَّهُ له، فَغَفَرَ له، قالوا: يا رَسولَ اللَّهِ، وإنَّ لنا في البَهائِمِ أجْرًا؟ قالَ: في كُلِّ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أجْرٌ.

صحیح البخاری : 2363

یعنی ایک شخص جا رہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی اس نے ایک کنویں میں اتر کر پانی پیا۔ پھر باہر آیا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا ہے۔ اس نے ( اپنے دل میں ) کہا یہ بھی اس وقت ایسی ہی پیاس میں مبتلا ہے جیسے ابھی مجھے لگی ہوئی تھی۔ ( چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور ) اپنے چمڑے کے موزے کو ( پانی سے ) بھر کر اسے اپنے منہ سے پکڑے ہوئے اوپر آیا اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس کام کو قبول کیا اور اس کی مغفرت فرمائی۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہمیں چوپاؤں پر بھی اجر ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر جاندار میں ثواب ہے۔

اسی طرح ایک دوسری حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :

غُفِرَ لِامْرَأَةٍ مُومِسَةٍ، مَرَّتْ بكَلْبٍ علَى رَأْسِ رَكِيٍّ يَلْهَثُ، قالَ: كَادَ يَقْتُلُهُ العَطَشُ، فَنَزَعَتْ خُفَّهَا، فأوْثَقَتْهُ بخِمَارِهَا، فَنَزَعَتْ له مِنَ المَاءِ، فَغُفِرَ لَهَا بذلكَ.

صحیح البخاری : 3321

”ایک فاحشہ عورت صرف اس وجہ سے بخشی گئی کہ وہ ایک کتے کے قریب سے گزر رہی تھی جو ایک کنویں کے قریب کھڑا پیاسا ہانپ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ابھی مر جائے گا۔ اس عورت نے اپنا موزہ نکالا اور اس میں اپنا دوپٹہ باندھ کر پانی نکالا اور اس کتے کو پلا دیا تو اس کی بخشش اسی ( نیکی ) کی وجہ سے ہو گئی۔“

امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

وقد قال بعض التابعين : من كثرت ذنوبه فعليه بسقي الماء. وقد غفر الله ذنوب الذي سقى الكلب ، فكيف بمن سقى رجلا مؤمنا موحدا وأحياه3

بعض تابعین سے یہ منقول ہے کہ جس کے گناہ زیادہ ہوں تو وہ لوگوں کو پانی پلائے۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو معاف کردیا جس نے ایک کتے کو پانی پلایا تھا تو اللہ ایسے شخص کو کیسے معاف نہیں کرے گا جو ایک موحد مؤمن کو پانی پلائے اور اسے زندہ کرے ۔

فوت شده كی طرف سے پانی پلانا

احادیث میں فوت شدگان کی طرف سے صدقہ و خیرات کی ترغیب موجود ہے ۔چنانچہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا :

يا رسولَ اللهِ ! إنَّ أمي ماتت ، أفأتصدقُ عنها ؟ قال : نعم . قلتُ : فأيُّ الصدقةِ أفضلُ ؟ قال : سقْيُ الماءِ

صحیح النسائی : 3666

اے اللہ کے رسول ! میری والدہ محترمہ فوت ہو گئی ہیں ۔ کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں ؟  آپ نے فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ میں نے عرض کیا : کون سا صدقہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے؟ آپ نے فرمایا :’’ پانی پلانا ۔‘‘

پانی پلانا باعثِ شفا ہے۔

پانی پلانا ایک ایسی نیکی ہے کہ جس کے باعث انسان کو جسمانی بیماریوں سے بھی شفا حاصل ہوتی ہے۔امام الذھبی رحمہ اللہ علی بن حسن بن شقیق رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ :

سمعت ابن المبارك وسأله رجلٌ عن قرحةٍ خرجت في ركبته منذ سَبْعِ سنين، وقد عالجها بأنواع العلاج، وسأل الأطباء فلم ينتفع بما أعطوه، فقال له ابن المبارك: اذهب فاحفر بئرًا في مكان يحتاج الناس فيه إلى الماء، فإني أرجو أن ينبع هناك عين ويمسك عنك الدم، ففعل الرجل فبرأ بإذن الله4

کہ ایک شخص نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ سے اپنے گھٹنے کے متعلق سوال کیا جو سات سال سے زخمی تھا اور اس سے خون رس رہا تھا. اس شخص نے کہا : میں کافی اطباء سے علاج کروا چکا ہوں لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا. امام رحمہ اللہ نے کہا: کسی ایسی جگہ پر کنواں کھدواؤ جہاں لوگوں کو پانی کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ اُدھر پانی کا چثمہ پھوٹ نکلے گا اِدھر تیرے گھٹنے کا خون رک جائے گا۔ پس اس شخص نے امام صاحب کے مشورے پر عمل کیا اور اس طرح اس کے گھٹنے کا خون رک گیا ۔

جانوروں كو بھی پانی پلائیے۔

گرمی سے صرف انسان متاثر نہیں ہوتے بلکہ جانور بھی شدید متاثر ہوتے ہیں چنانچہ انسانوں کی طرح جانور بھی شدید پیاس محسوس کرتے ہیں اور بعض اوقات  پانی نہ ملنے کی وجہ سے جانور مر بھی جاتے ہیں ۔ پاکستان کے ریگیستانی علاقوں میں پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے جانوروں کی اموات بکثرت ہوتی ہیں ۔ حضرتَ انسان اور خاص کر مخیر حضرات کو چاہیئے کہ نادار لوگوں کی بھوک اور پیاس کا احساس کرنے کے ساتھ ساتھ ان بے چارے اور بے زبان جانوروں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا برتاؤ کریں ۔رسولِ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

من حفر ماءً لم يشرَبْ منه كَبِدٌ حَرَّى من جِنٍّ ، ولا إنسٍ ولا طائرٍ ، إلا آجَره اللهُ يومَ القيامةِ

صحیح الترغیب : 271

جس نے کوئی کنواں کھدوایا اور اس سے کسی پیاسے انسان، جن یا چرند پرند نے پیا تو اس کا اجر قیامت کے دن اسے ضرور ملے گا ۔

تربوز کھایئے۔

تربوز انسانی صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ گرمیوں کے موسم میں آنے والا یہ پھل نہ صرف صرف ذائقے میں مزیدار ہوتا ہے بلکہ کئی بیماریوں سے بچاتا ہے۔ گرمی کے موسم میں سب سے بڑا مسلہ ڈی ہائیڈریشن ہے لیکن تربوز اس مسلے سے نمٹنے میں مدد کرتا ہے۔ اس پھل میں 92 فیصد پانی موجود ہوتا ہے جس كی وجہ سے جسم کو مناسب مقدار میں ہائیڈریشن ملتی ہے اور آپ کئی طرح کے جسمانی مسائل سے محفوظ رہتے ہیں ۔ یہ پانی سے بھرپور پھل ہے جو اس گرمی کے موسم میں جسم کو پانی فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ تربوز میں وٹامن سی، وٹامن اے، پوٹاشیم، وٹامن من بی 1، وٹامن بی 5، وٹامن بی 6 جیسے غذائی اجزاء کے ساتھ اینٹی آکسیڈینٹ خصوصیات بھی یوتی ہیں جو کہ جسم کی ضروریات کے لیے اچھی ہیں۔

حدیث میں آتا ہے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  يَأْكُلُ الْبِطِّيخَ بِالرُّطَبِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ نَكْسِرُ حَرَّ هَذَا بِبَرْدِ هَذَا وَبَرْدَ هَذَا بِحَرِّ هَذَا  .

صحیح أبی داؤد : 3836

 رسول اللہ ﷺ تربوز یا خربوزہ پکی ہوئی تازہ کھجور کے ساتھ کھاتے تھے اور فرماتے تھے: ہم اس ( کھجور ) کی گرمی کو اس ( تربوز ) کی ٹھنڈک سے اور اس ( تربوز ) کی ٹھنڈک کو اس ( کھجور ) کی گرمی سے توڑتے ہیں ۔

بارش میں نہایئے !

عَنْ أَنَسٍ قَالَ:  قَالَ أَنَسٌ أَصَابَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَطَرٌ قَالَ فَحَسَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَهُ حَتَّى أَصَابَهُ مِنْ الْمَطَرِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا قَالَ لِأَنَّهُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِرَبِّهِ تَعَالَى

صحیح مسلم : 898

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ ہم پر بارش برسنے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا ( سر اور کندھے کا کپڑا ) کھول دیا حتیٰ کہ بارش آپ ﷺ کے جسم پر پڑنے لگی ۔ ہم نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا : کیونکہ یہ نئی نئی اپنے رب کی طرف سے آرہی ہے ۔

نمازِ ظہر اور نمازِ جمعہ ٹھنڈے وقت میں ادا کرنا۔

گرمی کی شدت کی وجہ سے نمازِ ظہر ٹھنڈے وقت پر پڑھنا نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:

أَذَّنَ مُؤَذِّنُ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ الظُّهْرَ، فقالَ: أبْرِدْ أبْرِدْ أوْ قالَ: انْتَظِرِ انْتَظِرْ وقالَ: شِدَّةُ الحَرِّ مِن فَيْحِ جَهَنَّمَ، فإذا اشْتَدَّ الحَرُّ فأبْرِدُوا عَنِ الصَّلاةِ حتَّى رَأَيْنا فَيْءَ التُّلُولِ.

صحیح البخاری : 353

نبی کریم ﷺ کے مؤذن ( بلال ) نے ظہر کی اذان دی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ٹھنڈا کر، ٹھنڈا کر یا یہ فرمایا کہ انتظار کر، انتظار کر اور فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جائے تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو پھر ظہر کی اذان اس وقت کہی گئی جب ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لیے۔

دوسری حدیث میں مزید وضاحت کے ساتھ آپ ﷺ نے فرمایا:

أَبْرِدُوا بالظُّهْرِ؛ فإنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِن فَيْحِ جَهَنَّمَ

صحیح البخاری : 538

کہ( گرمی کے موسم میں )  ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔

اسی طرح نمازِ جمعہ بھی تاخیر سے پڑھنا بھی جائز ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ۔

كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ إذَا اشْتَدَّ البَرْدُ بَكَّرَ بالصَّلَاةِ، وإذَا اشْتَدَّ الحَرُّ أبْرَدَ بالصَّلَاةِ، يَعْنِي الجُمُعَةَ

صحیح بخاری : 906

نبی کریم ﷺ سردی کے موسم میں نماز جمعہ جلدی پڑھ لیتے تھے اور گرمی کے موسم میں نمازِ جمعہ تاخیر سے ادا فرماتے تھے ۔

نمازِ استسقاء پڑھیئے۔

موسمِ گرما میں بعض شہروں اور مقامات پر بارشیں نہیں ہوتیں تو ایسے حالات میں تعلیماتِ نبوی ﷺ یہ ہے کہ نمازِ استسقاء پڑھی جائے ۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی جب بارشیں نہیں ہوئیں تو آپ ﷺ نے نمازِ استسقاء ادا فرمائی ۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے ۔

رَأَيْتُ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَومَ خَرَجَ يَسْتَسْقِي، قالَ: فَحَوَّلَ إلى النَّاسِ ظَهْرَهُ، واسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ يَدْعُو، ثُمَّ حَوَّلَ رِدَاءَهُ، ثُمَّ صَلَّى لَنَا رَكْعَتَيْنِ جَهَرَ فِيهِما بالقِرَاءَةِ.

صحیح البخاری : 1025

حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کے لیے باہر نکلتے دیکھا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اپنی پیٹھ صحابہ کی طرف کر دی اور قبلہ رخ ہو کر دعا کی۔ پھر چادر پلٹی اور دو رکعت نماز پڑھائی جس میں آپ ﷺ نے اونچی آواز میں قرآت کی تھی۔

نمازِ استسقاء​ كا مقصد

گرمی کا موسم ہو ، خشك سالی ہو اور بارشیں بھی نہیں ہو رہی ہوں تو اللہ تعالیٰ سے بارانِ رحمت طلب کرنے کے لئے شہر سے باہر یا كسی کھلے میدان میں نمازِ استسقاء ادا کی جاتی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ سے عاجزی و انکساری سے گڑ گڑاتے ہوئے بارش طلب کی جائے اورنماز کے لئے نکلتے وقت پرانے کپڑے پہننے چاہئیں۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی اس نماز کے بارے میں کہتے ہیں:

خرجَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ متبذِّلًا متواضعًا متضرِّعًا حتَّى أتى المصلَّى

صحیح أبی داؤد : 1165

’’آپ ﷺ پرانے کپڑے پہنے، آہستگی سے چلتے ہوئے اور گڑ گڑاتے ہوئے نکلے اور نماز کی جگہ پر پہنچے۔‘‘

نمازِ استسقاء کا طریقہ عید کی نماز کی طرح کا ہے یعنی تکبیرات کے ساتھ لیکن اس میں خطبہ نماز سے پہلے ہوتا ہے اور اس خطبہ میں زیادہ تر اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش اور عاجزی و انکساری سے گڑ گڑاتے ہوئے بارش طلب کی جاتی ہے۔ خطبہ میں دعا کے دوران امام منبر پر ہی الٹے ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتا ہے اور پھر دعاؤں کے بعد اپنا رُخ قبلہ کی جانب کر لیتا ہے اور اپنی چادر کے دونوں کونے پیٹھ پر ہی دائیں بائیں پلٹ دیتا ہے ۔ اس عمل کے بعد امام منبر سے اتر کر دو رکعت نماز پڑھائے گا ۔ سورج جب نکل رہا ہو تو خطبہ شروع کیا جائے اور نماز سورج نکلنے پر ادا کی جائے۔

نمازِ استسقاء کا طریقہ

نماز استسقاء کا طریقہ درج ذیل احادیث میں مذکور ہے ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:

شَكا النَّاسُ إلى رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ قُحوطَ المطرِ فأمرَ بمنبرٍ فوُضِعَ لَه في المصلَّى ووعدَ النَّاسَ يومًا يخرُجونَ فيهِ قالت عائشةُ فخرجَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ حينَ بدا حاجبُ الشَّمسِ فقعدَ علَى المنبرِ فَكَبَّرَ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ وحمدَ اللَّهَ عزَّ وجلَّ ثمَّ قالَ إنَّكم شَكَوتُمْ جدبَ ديارِكُم واستئخارَ المطرِ عن إبَّانِ زمانِهِ عنكُم وقد أمرَكُمُ اللَّهُ عزَّ وجلَّ أن تدعوهُ ووعدَكُم أن يستجيبَ لَكُم ثمَّ قالَ (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ) لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ يفعلُ ما يريدُ اللَّهمَّ أنتَ اللَّهُ لا إلَهَ إلَّا أنتَ الغَنيُّ ونحنُ الفقراءُ أنزِلْ علينا الغيثَ واجعل ما أنزلتَ لَنا قُوَّةً وبلاغًا إلى حينٍ ثمَّ رفعَ يدَيهِ فلم يزَل في الرَّفعِ حتَّى بدا بياضُ إبطيهِ ثمَّ حوَّلَ إلى النَّاسِ ظَهْرَهُ وقلبَ أو حوَّلَ رداءَهُ وَهوَ رافعٌ يدَيهِ ثمَّ أقبلَ علَى النَّاسِ ونزلَ فصلَّى رَكعتَينِ فأنشأ اللَّهُ سحابةً فرعَدَت وبرِقَتْ ثمَّ أمطرَتْ بإذنِ اللَّهِ فلم يأتِ مسجدَهُ حتَّى سالتِ السُّيولُ فلمَّا رأى سرعتَهُم إلى الكِنِّ ضحِكَ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ حتَّى بدَت نواجذُهُ فقالَ أشهدُ أنَّ اللَّهَ علَى كلِّ شيءٍ قديرٌ وأنِّي عبدُ اللَّهِ ورسولُهُ

صحیح أبی داؤد : 1173

’’لوگوں نے آپ ﷺ سے بارش نہ ہونے کی شکایت کی آپ ﷺ نے عید گاہ میں منبر نصب کرنے کا حکم دیا جو کہ رکھ دیا گیا پھر آپ ﷺ نے ایک دن مقرر کر لیا کہ لوگ وہاں جمع ہوں ۔ اس دن جب سورج کا ایک کونہ نمودار ہوا تو آپ (گھر) سے نکلے آپ ﷺ منبر پر بیٹھ گئے پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور حمد بیان کی اور فرمایا: تم نے اپنے علاقوں میں خشک سالی اور بروقت بارش نہ ہونے کی شکایت کی جبکہ اللہ تعالیٰ کا تمہیں حکم ہے کہ تم اس کو پکارو اور اس کا وعدہ ہے کہ وہ تمہاری دعا قبول کرے گا پھر فرمایا: ’’سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے بہت رحم کرنے والا نہایت مہربان جزا کے دن کا مالک ہے۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اے اللہ ! تو (برحق) معبود ہے تیرے سوا کوئی (برحق) معبود نہیں تو سخی اور بے پرواہ ہے اور ہم تیرے فقیر ہیں ہم پر بارش برسا اور اس بارش کو ہمارے لئے ایک مدت تک قوت اور (مقاصد تک) پہنچنے والی بنا۔

پھر نبی ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھانے شروع کیے حتیٰ کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی پھر آپ لوگوں کی جانب اپنی پشت کرکے کھڑے ہوگئے اور اپنی چادر کو پھیر کر پلٹایا آپ اس وقت اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے پھر لوگوں کی جانب منہ کرلیا اور منبر سے نیچے اتر آئے اور دو رکعت نماز پڑھائی اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آسمان پر بدلی پیدا کی وہ بدلی گرجی چمکی اور اللہ کے حکم سے برسنا شروع ہوگئی۔‘‘ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْقَى فَأَشَارَ بِظَهْرِ كَفَّيْهِ إِلَى السَّمَاءِ

صحیح مسلم : 894

کہ نبی اکرم ﷺ نے بارش مانگنے کے لیے دعا فرمائی تو اپنے ہاتھوں کی پشت کے ساتھ آسمان کی طرف اشارہ کیا ۔

یہ دو رکعتیں عید کی نماز کی طرح ہیں۔ عبداللہ بن عباس سے روایت ہے:

خرجَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ متبذِّلًا متواضعًا متضرِّعًا حتَّى أتى المصلَّى زادَ عثمانُ فرقى على المنبرِ ثمَّ اتَّفَقا ولم يخطُب خطبَكم هذِهِ ولَكِن لم يزل في الدُّعاءِ والتَّضرُّعِ والتَّكبيرِ ثمَّ صلَّى رَكعتينِ كما يصلِّي في العيدِ

صحیح أبی داؤد : 1165

رسول اللہ ﷺ پھٹے پرانے لباس میں عاجزی کے ساتھ گریہ و زاری کرتے ہوئے عید گاہ تک تشریف لائے۔ عثمان بن ابی شیبہ کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ منبر پر چڑھے۔ آگے دونوں راوی روایت میں متفق ہیں: آپ ﷺ نے تمہارے ان خطبوں کی طرح خطبہ نہیں دیا بلکہ آپ ﷺ برابر دعا، گریہ و زاری اور تکبیر كہنے میں لگے رہے پھر آپ ﷺ نے دو رکعتیں عید کی نماز کی طرح پڑھائیں۔‘‘

نمازِ استسقاء جامع مسجد میں۔

اگر کھلا میدان موجود نہ ہو تو کسی بھی جامع مسجد میں نماز استسقاء پڑھی جا سکتی ہے ۔ جیساکہ حدیث میں آتا ہے کہ :

أَصَابَتِ النَّاسَ سَنَةٌ علَى عَهْدِ رَسولِ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَبيْنَا رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَخْطُبُ علَى المِنْبَرِ يَومَ الجُمُعَةِ قَامَ أعْرَابِيٌّ، فَقالَ: يا رَسولَ اللَّهِ، هَلَكَ المَالُ، وجَاعَ العِيَالُ، فَادْعُ اللَّهَ لَنَا أنْ يَسْقِيَنَا، قالَ: فَرَفَعَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَدَيْهِ فَقالَ: اللَّهُمَّ اسْقِنَا، اللَّهُمَّ اسْقِنَا، اللَّهُمَّ اسْقِنَا.۔۔۔۔

صحیح البخاری : 1033

رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگوں پر ایک دفعہ قحط پڑا تو انہی لمحات میں جب آپ ﷺ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ دے رہے تھے ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! جانور مر گئے اور بال بچے فاقے پر فاقے کرر ہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ پانی برسائے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سنتے ہی اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھا دیئے اور فرمایا:

  اللهم اسقنا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏اللهم اسقنا،‏‏‏‏ اللهم اسقنا

کہ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔

بارش كے لئے خاص دعائیں

بارش کے لئے مندرجہ ذیل دعائیں آپ ﷺسے ثابت ہیں۔

اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا غَیْثًا مُّغِیْثًا مَّرِیْئًا مَّرِیْعًا نَافِعًا غَیْرَ ضَارٍّ عَاجِلًا غَیْرَ آجِلٍ

صحیح أبی داؤد : 1034

’’اے اللہ! ہمیں پانی پلا ایسا پانی کہ جو ہماری پیاس بجھا دے ہلکی پھواریں بن کر غلہ اُگانے والا، نفع دینے والا ہو نہ کہ نقصان پہنچانے والا جلد آنے والا ہو ناکہ دیر سے آنے والا۔‘‘

اَللّٰھُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَھَائِمَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیْتَ

صحیح أبی داؤد : 1043

’’اے اللہ! اپنے بندوں اور جانوروں کو پانی پلا اور اپنی رحمت کو پھیلا اور اپنے مردہ شہروں کو زندہ کردے۔‘‘

اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا، اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا،اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا

صحیح البخاری : 1013

’’اے اللہ! ہمیں پانی پلا، اے اللہ! ہمیں پانی پلا، اے اللہ! ہمیں پانی پلا۔‘‘

آخرت کی گرمی کو یاد کیجیئے ۔

دنیا میں گرمی کی شدت آخرت کی گرمی کی شدت یاد کرانے کا سبب ہونا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

نَارُكُمْ جُزْءٌ مِن سَبْعِينَ جُزْءًا مِن نَارِ جَهَنَّمَ، قيلَ: يا رَسولَ اللَّهِ، إنْ كَانَتْ لَكَافِيَةً، قالَ: فُضِّلَتْ عليهنَّ بتِسْعَةٍ وسِتِّينَ جُزْءًا، كُلُّهُنَّ مِثْلُ حَرِّهَا.

صحیح البخاری : 3265

تمہاری یہ آگ جسے تم جلاتے ہو، جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے صرف ایک حصہ ہے ۔کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! ( کفار اور گنہگاروں کے عذاب کے لیے ) یہ ہماری دنیا کی آگ بھی بہت تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا ”دنیا کی آگ کے مقابلے میں جہنم کی آگ انہتر گنا بڑھ کر ہے۔“

آج سورج ہزاروں میل دور هونے كے باوجود ہمیں جھلسا رہا ہے اور ہم ہزاروں میل دور سورج سے بچنے کے لیے کولر، اے سی وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں لیکن اُس دن کیا حال ہوگا جب روزِ قیامت یہ ایک میل کی مسافت پر آ جائے گا۔  حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے :

تُدْنَی الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْہُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ

صحیح مسلم : 2846

’’ قیامت کے روز سورج کو مخلوق سے قریب کر دیا جائے گا حتی کہ وہ ان سے ایک میل کے فاصلے پر رہ جائے گا۔

آج  بہت سے مسلمان گرمی کو بنیاد بنا کر کئی اعمال (جیسے با جماعت نماز ، روزہ ، پردہ) چھوڑ دیتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ جہنم کی آگ کہیں زیادہ جلانے والی ہو گی !۔

الله تعالیٰ ہم سب كو دنیا و آخرت كی تمام پریشانیوں ، مصیبتوں اور تكلیفوں سے محفوظ ركھے اور نیك اعمال كرنے كی توفیق عطا فرمائے۔

وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم

  1. (صحيح البخاري : 1423  )
  2. صحیح الجامع : 3602 / صحیح الترغیب : 2600
  3. تفسیر القرطبی : 215/7
  4. سیر أعلام النبلاء : 408/8

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ