ماہِ صفر اور بد شگونی،نحوست

الحمدُ للہ والصلوٰة والسلام علیٰ رسول اللہ وبعد!

ماہِ صفر کے حوالے سے مختلف قسم کے باطل نظریات عوام الناس میں مشہورہیں ۔خصوصاً ماہ ِصفر کو منحوس سمجھنا ،اس سے بد شگونی لینا ،اس ماہ میں شادیوں سے بچنا،اور اس ماہ کی نحوست سے بچنے کے لئے مختلف قسم کے حربے ،من گھڑت عبادات و اذکار اوروظائف، عوام میں مروج نظر آتے ہیں ۔جبکہ اس حوالے سے دینِ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ دِنوں میں سے کوئی دن بھی بُرا  یا منحوس نہیں اور سب اللہ کی طرف سے ہیں ۔بلکہ حدیث شریف میں ہے کہ: جس نے زمانے کو گالی دی ،بُرا کہا،اس نے اللہ تعالیٰ کو گالی دی و بُرا کہا،(والعیاذ باللہ) کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی دن و رات کا لانے والا ہے ۔ (صحیح بخاری :4826 ،صحیح مسلم : 2246)

اور قرآن و سنت نے نہ صرف ہمیں اس طرح کی مختلف قسم کی بد  شگونیوں سےروکا ،بلکہ اس ضمن میں ماضی کی قوموں کا تذکرہ بھی کیا کہ ان میں بھی یہ فعل بد موجود تھا ۔

بد شگونی کی تاریخ :

دورِ حاضر میں موجود مختلف قسم کے توہّمات در اصل کوئی نئے نہیں ،بلکہ یہ سب پرانےزمانوں سے چلتے آرہے ہیں ،ذیل میں اس حوالے سے قرآن و سنت کی روشنی میں مختصر  تاریخ (History)پیش کی جاتی ہے :

بنی اسرائیل کا سیدناموسٰی علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کو منحوس سمجھنا (العیاذ باللہ):

جب ان کے اعمال کی وجہ سےان پر اللہ کی طرف سے عذاب آتے،تو بجائے اس کے کہ اپنا احتساب کرتے ،بلکہ کہہ دیتے کہ یہ موسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کا نتیجہ ہے ۔جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا: 

فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَـٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ۗ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّـهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

الاعراف – 131

یعنی : جب انہیں کوئی بھلائی پہنچتی تو کہتے کہ ہم اسی کے مستحق تھے۔ اور جب کوئی تکلیف پہنچتی تو اسے موسیٰ (علیہ السلام)اور اس کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے۔ حالانکہ نحوست تو اللہ کے ہاں ان کی اپنی تھی۔ لیکن ان میں ا کثر لوگ یہ بات سمجھتے نہ تھے۔

تین انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ  کہ کفار نے انہیں منحوس قرار دیا :

قرآن مجید کی ’’سورہ یٰسٓ‘‘ میں ایک بستی کا تذکرہ ہے ،اللہ نے اس بستی میں تین انبیاءعلیہم السلام کو توحید کی دعوت  دینے کے لئے بھیجا ،مگر اُن کی قوم نے نہ صرف ان کی بات کا انکار کیا بلکہ طرح طرح کے طعن بھی کئے ،اور ان انبیاءعلیہم السلام کو معاذ اللہ منحوس قرار دیا ۔چناچہ قرآن مجید میں ذکر ہے :

قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ

یٰس – 18

ان کی اس گفتگوکا انبیاءعلیہم السلام نے جواب دیا :

قَالُوا طَائِرُكُم مَّعَكُمْ ۚ أَئِن ذُكِّرْتُم ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ

یٰس – 19

یعنی : وہ کہنے لگے:’’تمہاری نحوست تو تمہارے اپنے ساتھ لگی ہے۔ ا گر تمہیں نصیحت کی جائے (تو کیا اسے تم نحوست سمجھتے ہو؟) بلکہ تم ہو ہی حد سے گزرے ہوئے لوگ۔

فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا يُنصَرُونَ

فصلت – 16

یعنی : پھر ہم نے ان پر چند منحوس دنوں میں سناٹے کی آندھی چھوڑ دی تاکہ ہم انہیں دنیا میں ہی رسوائی کا عذاب چکھائیں اور جو آخرت کا عذاب ہے وہ تو اور زیادہ رسوا کرنے والا ہے۔ اور انہیں کہیں سے مدد بھی نہ ملے گی۔

اس آیت میں جو ان ’’دنوں ‘‘کو منحوس کہا جارہا ہے اس کا قطعاً یہ معنیٰ نہیں کہ یہ دن بذاتہ منحوس تھے ،بلکہ اس قوم پر اُن دنوں نزولِ عذاب کی وجہ سے انہیں منحوس کہا گیا۔ورنہ کوئی دن بذاتہ منحوس نہیں ۔کیونکہ جس دن قوم ِعاد کو عذابِ الہی کے ذریعے تباہی کا سامنا کرنا پڑا ۔اب یہی دن صالح علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کے لئےمبارک تھا کہ اس دن عادیوں کے شر سے انہیں پناہ  ملی ۔

اسی طرح جس دن فرعونی لشکر تباہ ہوا ،وہی دن سیدنا موسی علیہ السلام کےلئے مبارک تھا کہ اس دن فرعون کے شر سےپناہ ملی ۔

اسی طرح جن دنوں کو اللہ نے افضل قرار دیا ،جیسے جمعہ  کا دن ،ماہِ رمضان  کے ایام،عشرہ ذوالحجہ کےابتدائی دس دن اور حرمت والے دن ۔اب اگر کسی کو اس دن کوئی تکلیف پہنچے یا کوئی حادثہ یا وفات ہوجائے تواُس سے اُن دنوں کی عظمت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوگا ۔

إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ

القمر – 19

یعنی : ہم نے ایک منحوس دن میں ان پر سناٹے کی آندھی چھوڑ دی جو مسلسل چلتی رہی۔

اس آیت میں بھی عذاب کی وجہ سے اللہ نے اس دن کو ان کے لئےاُن کی بد اعمالیوں کی وجہ سے منحوس قرار دیا ،ورنہ بذاتہ یہ دن منحوس نہیں ۔

ان آیات کی روشنی میں واضح ہوا کہ کسی چیز کو منحوس سمجھنا ،پچھلی قو موں میں بھی کفار اور انبیاءعلیہم السلام کے دشمنوں کا شیوہ تھا ،نیز اللہ تعالی نے بھی بعض قوموں کے لئے ان پر عذا ب والے دن کو منحوس قرار دیا ۔(یعنی ایک مومن کا نحوست سے کوئی تعلق نہیں ۔)اور پھر یہی کام دورِنبوی ﷺسےقبل دور ِجاہلیت میں تھا ۔کہ اُلّو کے بولنے ،ماہِ صفر ،بیماریوں کاایک دوسرے کو لگ جانے،اس طرح کے نظریات میں مبتلا تھے ۔اسلام نے اس نظرئیےکی تردید کی اور یہی تعلیم دی کہ نحوست کسی چیزمیں نہیں ۔ چناچہ حدیث  شریف میں ہے کہ اگر نحوست ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی ۔گھر ،عورت اور گھوڑا ۔(صحیح بخاری : 5094،صحیح مسلم : 2225)

اسی طرح فرمایا: بیماری کا ایک دوسرے کو لگ جانا ،بدشگونی لینا  ،الّو کا بولنا ،ماہ ِصفر کو منحوس سمجھنا کوئی چیز نہیں (یعنی یہ سب جاہلیت کی باتیں ہیں اور شرعی اعتبار سے ان باتوں کی کوئی حیثیت نہیں۔)۔ (صحیح بخاری :5757  ،صحیح مسلم : 2220)

خلاصہ کلام!

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اپنے اسلامی عقیدے سے حقیقی طورپر وابستگی رکھنی چاہئے ،جس کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم خود بھی ہر قسم کی توہّم پرستی سے اپنے ذہن و وجود کو پاک رکھیں اور معاشرے کو بھی پاک رکھیں:

معاشرے میں رائج توہّم پرستیاں ،مثلاً:

* کالی بلی کے گزرجانے سے راستہ کٹ گیا ،یہ عقیدہ رکھ کر جس اہم کام سے جارہے تھے اسے چھوڑ دینا ۔

*یہ مشرکین مکہ کے عمل کی طرح ہے وہ بھی ہر اہم کام سے پہلے پرندے اڑا کر یہ اعتقاد رکھتے کہ اگر پرندہ دائیں اڑا تو کام کریں گے اور اگر بائیں جانب اڑا تو کام نہیں کریں گے ۔

* پرندے یا کسی جانور کی آ واز کو برا یا منحوس سمجھنا ۔

*کسی شخص یا عورت یا  کسی چیز یا گھر کو منحوس سمجھنا ۔

*کسی کو کالی زبان والاسمجھنا ا ور اس عقیدے کے پیش نظر اس کی زبان سے جو بات نکل جائے ،اس کے پورا ہونے سے گھبرانا اور اسے اپنے لئے برا سمجھنا ۔

* کسی کو منحوس چہرے والاکہنا کہ جسے دیکھنے سے پریشان ہوجانا ۔

* کسی دن یا مہینے کو منحوس سمجھ کر کوئی بھی اہم کام یا خوشی والا کام اس دن یا مہینے میں نہ کرنا ۔

ان تمام نظریات سے بچنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے ۔کیونکہ ان تمام نظریات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ہندوؤں اور دیگر مذاہب سے پھیلے ہوئے نظریات ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب و سنت کی صحیح فہم عطاء فرماتے ہوئے عمل کی توفیق بخشے۔

حافظ محمد یونس اثری

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ ڈاکٹر حافظ محمد یونس اثری حفظہ اللہ