نام و نسب :
مولانا کا اسم گرامی ثناء اللہ بن خضر اور کنیت ابو الوفا ہے “شیر پنجاب “اور”رئیس المناظرین “کے القاب سے ملقب ہیں ۔
ولادت :
آپ جون 1868ء (بمطابق 1287 ہجری ) میں ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے، اسی مناسبت سے امرتسری کہلائے۔
کم سنی ہی میں والدین کی مفارقت کا غم سینے سے لگانا پڑا ، سات سال کے تھے کہ والد اور چودہ سال کی عمر میں والدہ کے سایہ شفقت و محبت سے محروم ہوگئے۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم امرتسر ہی میں مولانا احمداللہ صاحب (متوفی 1916ء ) سے حاصل کی ، ان کے حلقہ درس میں علم نحو کی جامی ، علم منطق کی قطبی تک کی کتابیں پڑھیں ، بعد ازاں استاد پنجاب مولانا عبدالمنان وزیر آبادی رحمہ اللہ سے احادیث کی کتابیں پڑھیں اور 1889ء میں سندفراغت حاصل کی ، اس کے بعد حصول علم کے لیے دہلی آئے اور محدث وقت میاں سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ سے صحیحین کی کتابیں پڑھیں ، اس کے ساتھ ساتھ حصول علم کے لیے متحدہ ہندوستان کے مختلف شہروں کا سفر کیا ،جن میں دہلی، وزیر آباد، کان پور اور دیو بند شامل ہیں ۔ مختلف مشارب میں علم حدیث کی تدریس کے فرق کو خوب سمجھا بھی اور بعض تحریروں میں اس جانب اشارہ بھی کیا۔1902ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے اس کی سند حاصل کی۔
اساتذہ :
آپ کے اساتذہ میں سید نذیر حسین دہلوی، حافظ عبد المنان وزیر آبادی اور محمود الحسن دیو بندی جیسی نامور شخصیات کے اسما ءملتے ہیں ۔
تدریس :
تعلیم سے فراغت پاکر چھ سال مدرسہ تائید الالسلام امرتسر اور اس کے بعد دوسال مالیر کوٹلہ میں صدر مدرس کی حیثیت سے تدریس کی،پھر واپس امرتسر لوٹ آئے ۔
مناظرے :
تدریس کے بعد تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ مناظرے و مباحث میں مشغول ہو گئے ،اس وقت ہندوستان میں عیسائی، آریہ سماج، سناتن دھرمی اور مرزائی وغیرہ متعدد مذاہب باطلہ موجود تھے جو دن رات اسلام اور اہل اسلام کے خلاف زہر اگلتے رہتے تھے مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے ہر محاذ پر ان مذاہب باطلہ کا مقابلہ کیا اور خوب کیا ۔اللہ تعالی نے ہر محاذ پر آپ کو کامیابی سے نوازا ۔
بانی مرزائیت مرزا غلام احمد قادیانی سے کثرت سے مناظرے ہوئے اور مرزا کے حصے میں مسلسل رسوائیاں آتی رہیں بالآخر مرزا کی ان رسوائیوں کی ایک کڑی اس کی وہ بد دعا تھی جس کا وہ خود ہی شکار ہوگیا ، اس نے کہا تھا جھوٹا سچے کی زندگی میں مرے گا اور ایسا ہی ہوا بلکہ وہ نہ کہ صرف پہلے مرا بلکہ رسوائے زمانہ ہوکر مرا۔ گویا کہ اس کی موت بھی اہل حق کی حقانیت اور قادیانیت کے بطلان کی واضح دلیل بن گئی ۔
اسی طرح مختلف مقامات پر مختلف مذاہب کے ساتھ کوئی پچاس کے لگ بھگ مناظرے کیے اور ہر مناظرے ہی میں اللہ تعالی نے آپ کو سرخرو کیا ۔
تصانیف :
آپ نے مختلف موضوعات پر 190کے قریب کتابیں لکھیں ، جن میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے ۔
تفسیر ثنائی:
آپ نے 1895 ء میں تفسیر ثنائی کی جلد اول لکھ کر شائع کروادی تھی۔ اور آخری جلد 1931ء میں ، یعنی 36 سال کے عرصے میں مکمل ہوئی ۔ یہ تفسیر آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔
تفسیر القرآن بکلام الرحمن:
عربی زبان میں مطبوع مذکورہ تفسیر میں قرآن کریم کی ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت کے ذریعے کی گئی ہے ۔
برہان التفاسیر :
پادری سلطان محمد خان پال نے سلطان التفاسیر کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کا سلسلہ وار جواب مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اپنے اخبار اہلحدیث میں دیا ، یہ سورہ بقرہ کے 16 رکوع کی تفسیر پر مشتمل ہے ، جس میں پادری کی باطل یاوہ گوئیوں کا مسکت جواب دیا گیا۔
اسلام اور مسیحیت:
عیسائیت کی تین کتابوں (دین فطرت اسلام ہے یا مسیحیت ، مسیحیت کی عالمگیری اور تیسری کتاب توضیح البیان فی اصول القرآن ) کے جواب پر مشتمل ہے ۔
حق پرکاش
سوامی دیانند سرسوتی نے اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش کے 16 ویں باب میں قرآن کریم پر 159 اعتراضات کیے ، جس کے جواب میں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے یہ کتاب لکھی۔
مقدس رسول
رسول کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخیوں پر مبنی بدنام زمانہ کتاب ’’رنگیلا رسول ‘‘ لکھی گئی ، جس کے جواب میں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے بنام مقدس رسول کتاب لکھی۔ اور دوکتابوں کے بارے میں بالخصوص انہوں نے کہا تھا کہ مجھے زیادہ یقین ہے کہ خدا ان کو میری نجات کا ذریعہ بنائے گا۔ ان میں سے ایک کتاب اسلام اور مسیحیت اور دوسری کتاب مقدس رسول ہے۔
بقول علامہ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ ’’ اگر رات کو کوئی فرقہ اسلام کے خلاف پیدا ہوجائے تو مولانا ثناء اللہ صبح اس کا جواب دے سکتے ہیں ۔ ‘‘
علاوہ ازیں آپ ہفت روزہ “اہل حدیث “کے نام سے ایک رسالہ بھی شائع کیا کرتے تھے جو ہر خاص و عام میں معروف تھا ۔
بہرحال اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ آپ وقت کے بہت بڑے عالم تھے ، آپ بیک وقت دین حق اسلام اور پھر مسلک حق اہل حدیث کے لیے آپ کی ان گنت خدمات ہیں۔
وفات :
3جمادی الاولی 1367ھ مطابق 15مارچ 1948ء کو پیر کے دن صبح کے وقت سرگودھا میں وفات پائی۔ رحمہ الله رحمۃ واسعاً
مصادرکے لیے سیرت ثنائی، چالیس علماء اہل حدیث وغیرہ کتب ملاحظہ کریں، محمد ارشد کمال۔