’’ مرزا غلام قاد،یانی اور امتِ مرزائیہ کے ’’ کُ ف ر اور ت ک ف ی ر ‘‘ پر سب سے پہلا مُتفقہ فتویٰ ‘‘ اور مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ

سرخیلِ اہلِ حدیث مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ ان ابتدائی علمائے ملت میں سے ہیں جنہوں نے ناصرف مرزا غلام قادیانی کا ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ اس کے خلاف ’’سب سے پہلے متفقہ فتویٰ‘‘ بھی حاصل کرکے شایع کیا۔

یہ 1891ء کی بات ہے کہ جب مرزا نے اپنی کتاب ’’فتح الاسلام ‘‘ میں ’’مسیح موعود‘‘ ہونے کا دعوی کیا۔ کتاب ابھی پریس ہی میں تھی کہ مولانا بٹالوی کو اس کے مندرجات کا علم ہوگیا اور مرزا کی مکمل حقیقت ان پر آشکار ہوگئی کہ یہ تو اسلام کے نام پر بغل میں چھری لئے پھر رہا ہے اور مسلمانوں کے مسلمہ عقائد کی بیخ کنی پر تلا ہوا ہے تو مولانا رحمہ اللہ،  مرزا کے مدِّ مقابل کھڑے ہوگئے۔

انہوں نے سب سے پہلے ’’براہِ راست خط وکتابت کے ذریعے‘‘ مرزا کو راہ راست پرلانے کی کوش کی، اس کے افکار و نظریات کا بھرپور مدلّل رد کیا، اسے بہت سمجھایا، اس کے شبھات کے مدلل جوابات دیے، نیز علمِ کلام کے دلائل تک کا پوسٹ مارٹم کیا، پھر جب ہر طرح دلائل کے ذریعہ اُس پر حجت قائم کردی اور مرزا اپنی اصلاح کے لیے تیار نہ ہوا تو انہوں نے مرزا کو مُباہلہ کا چیلینج بھی دیا جسے بھی اُس نے مختلف بہانوں سے رد کردیا۔

اور جب مرزا نے ان تینوں محاذوں (علمی مُباحثہ، دلائلِ علمِ کلام اور مُباہلہ) میں سے ہر محاذ پر پسپائی اختیار کی اور بجائے تائب ہونے اور رجوع کرنے کے وہ اپنی گمراہیت و فتنہ میں مسلسل بڑھتا ہی چلا گیا۔

تو مولانا بٹالوی رحمہ اللہ نے مرزاء غلام احمد قاد،یانی علیہ ما یستحقہ، کے تمام عقائد و افکار کو اُس کی اپنی کتابوں سے باحوالہ جمع کرکے ایک مفصّل استفتاء (حصولِ فتوی سے متعلق سوالات کا مجموعہ) تیار کیا اور اسے سب سے پہلے مرجع علم و علماء شیخ الکل میاں نذیر حسین محدّث دھلوی رحمہ اللہ (جو مولانا بٹالوی کے اپنے استاد بھی تھے) کی خدمت میں پیش کیا جس کا انہوں نے مفصّل و مدلّل جواب لکھا۔

جس میں انہوں نے یہ واضح کیا کہ:

’’استفتاء میں درج عقائد کا حامل اور اس کے پیروکار اہل سنت سے خارج ہیں۔ نہ ان کی نمازِ جنازہ جائز ہے‘ اور نہ مسلمانوں کے قبرستانوں میں انہیں دفن کیاجائے‘‘۔

پھر اس فتویٰ کی تائید و تصویب مولانا بٹالوی رحمہ اللہ نے برِّصغیر (پاک و ہند) کے تمام سر بر آوردہ اور ممتاز علماء سے کرائی۔ اور تقریبا دو صد (200) علماء کے مواہیر (مہروں) اور دستخطوں کے ساتھ اس فتویٰ کو شائع کیا۔

(یہ استفتاء، فتاویٰ بمع اہلِ علم و فتویٰ کے دستخط و مواہیر، مولانا حسین بٹالوی علیہ الرحمۃ کے مایہ ناز رسالہ ماہنامہ ’’ اشاعۃ السنۃ النبویۃ ‘‘ کی 13ویں جلد کے صفحہ 101 تا 110 پر موجود ہیں جس ک اسرورق اور اہم تصاویر راقم نے اپنی اس پوسٹ کے ساتھ اٹیچ بھی کردی ہیں)

’’مرزا غلام احمد قاد،یانی اور امتِ مرزا،ئیہ کی ’’ تک ف ی ر ‘‘ پر یہ ’’ سب سے پہلا متفقہ فتویٰ ‘‘ ہے۔ جو مولانا بٹالوی اور حضرت شیخ الکل سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہما اللہ کی مشترکہ مساعی (کاوشوں) کے نتیجہ میں ظہور میں آیا‘‘۔(دیکھیے: پاک و ہند میں علمائے اسلام کا متفقہ فتویٰ مطبوعہ لاہور 1986

خود مرزا غلام قاد،یانی نے بھی اپنی کئیں تحاریر میں بارہا اس فتویٰ کا ذکر بھی کیا اور اس پر اپنے خُبثِ باطن کا اظہار بھی کیا۔۔۔ چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:

“ویکے ازا عتراض کنند گان شیخ گمراہ ساکن بٹالہ است کہ ہمسایہ  گمراہ ماست اورا محمد حسین می گوئند واز ہمہ دردروغ وناراستی سبقت بردہ است وازاانکار کردہ وتکبرنمود وتکبررائع شائع کردہ وظاہر ساخت تاآنکہ گفتہ شد کہ او امام متکبراں است ورئیس تجاوز کنندگان وسرگمراہان است او ہماں شخصی است کہ پیش از ہمہ مرا کافرگفت۔”[ انجام آتھم ص 241]

ترجمہ:مرزا لکھتا ہے: “میرے معترضین میں میرا ایک گمراہ ہمسایہ ’’محمد حسین بٹالوی‘‘ ہے جو مجھ پر جھوٹ بولنے میں سب سے آگے ہے یہ میرا منکر اور اتنا بڑا متکبر ہے کہ امام متکبراں بن چکا ہے۔ یہ شخص تمام گمراہوں کا سردار ہے۔ ’’ اور اسی نے سب سے پہلے مجھے کافر کہاتھا ‘‘۔

پھرسید نزیر حسین محدّث دھلوی، مولانا عبدالحق حقانی، مولانا احمد علی سہارنپوری اور مولانا رشید احمد گنگوہی وغیرہم جیسے کل آٹھ افراد کا ذکر کرکے مرزا قادیانی، مولانا محمّد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کو یوں مخاطب کرتا ہے:

“پس اے شیخ من می دانم کہ تو رئیس ایں ہشت کس ہستی وادیں گروہ باغی راہ مثل امام قائم شدی وایں مردم ترامثل شاگرداں در گمراہی ہستند یاہچو کسانے کہ برایشاں جادو کردہ باشد۔”۔ [ انجام آتھم ص 245]

مرزا لکھتا ہے: “اے شیخ (محدمد حسین بٹالوی) تو ان کا آٹھواں رئیس ہے۔ ’’ اوراس باغی گروہ کا امام ہے‘‘ یہ تمام لوگ گمراہی میں تیرے شاگر د ہیں۔ یاتو نے ان پر جادو کررکھا ہے۔”

اسی طرح ایک اور مقام پر مرزا غلام قاد،یانی، حضرات محدّثین محمد حسین بٹالوی ، میاں نذیر حسین محدّث دھلوی اور مولانا عبد المنّان محدّث وزیرِ آبادی رحمہم اللہ کے بارے میں یوں لکھتا ہے کہ:

“کسی شخص کو حضور رسالت مآب ﷺ کی بارگاہ میں بحالت خواب حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس نے دیکھا کہ علماء ہند بھی حاضر دربار ہیں۔ پھر مجھے (مرزا قاد،یانی کو) بھی حاضر کیاگیا۔ علماء نے میرے بارے میں بتایا کہ یہ شخص خود کومسیح کہتاہے۔ حضرت رسول اکرم ﷺ نے میری تکف،یر (کا،فر قرار دینے) پرعلماء کو مبارک باد دی اور مجھے جوتے لگوائے۔”

اس خواب کاتذکرہ کرنے کے بعد مرزا نے اس کا مضحکہ اڑاتے ہوئے اور حاضرینِ مجلس کا بأنداز تحقیر یوں ذکر کیا ہے:

“مولوی محمد حسین کی کرسی کے قریب ایک اور کرسی تھی جس پر ایک بڈھا نودسالہ بیٹھا ہوا تھا۔ جسے لوگ نذیرحسین کہتے تھے۔۔۔ اور سب سے پیچھے ایک نابینا وزیرآبادی تھا۔ جس کو عبدالمنان کہتے تھے۔ اور اس کی کرسی سے “انا المکفر” کی زور سے آواز آرہی تھی”۔[مرزا غلام احمد ،تحفہ غزنویہ مطبوعہ ضیاء السلام پریس قادیان 2۔19ص7۔85]

یہ فتویٰ مرزا غلام احمد قاد،یانی کی موت (مئی 1908ء) سے کئی سال قبل شائع ہوا تھا۔ اور نایاب تھا۔ نومبر1986ء میں مشہور عالم دین اور محقق شارح مولانا محمد عطاءاللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ (م1987ء) نے اس فتویٰ کو دوبارہ شائع کیا۔ (جس کے صفحات کی تعداد 188 ہے)۔ اور آج بھی یہ اشاعۃ السنۃ کے مذکورہ بالا جلد میں موجود ہے۔

اس تحریر کے مندرجات جناب عبد االرشید عراقی کی تحریر اور محمّد سلیمان اظہر صاحب کے مضمون بعنوان: ’’تحریک ختم نبوت میں مولانا محمد حسین بٹالوی کی خدمات‘‘ (ماہنامہ محدّث جولائی 1985ء) سے جمع کیے گئے ہیں۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ حماد امین چاولہ حفظہ اللہ

آپ نے کراچی کے معروف دینی ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالمعہد الرابع مکمل کیا ، آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔