میٹاورس Metaverse

جیسا کہ آپ سب کہ علم میں یہ بات ہوگی کہ ایک معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارم “فیس بک” اپنے نئے ورژن “میٹاورس” کی طرف جارہا ہےجو کہ ورچؤل ریالٹی کی دنیا ہے اور اِس میں بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جو آج کی دنیا میں ہمارے لیے ممکن نہیں ہیں۔ یہ ایک ایسی دنیا ہوگی جس میں ہم وہ تمام کام کرسکیں گے جو ہم حقیقی دنیا میں نہیں کرسکتے ۔جیسے کہ ہم اُن تمامقامات پر باآسانی جاسکیں گے جہاں ہم حقیقی دنیا میں کبھی نہیں گئے یا ہم ایسے لوگوں سے مل سکیں گے جن سے ہم حقیقی دنیا میں نہیں مل پاتے یا پھر یہ کہ وہ مناظر دیکھ سکیں گے جو ہم اپنی حقیقی دنیا میں نہیں دیکھ سکتے۔

ہم اپنی مرضی کے شاپنگ مالز میں اپنی من پسند اشیاء کی خریداری کرسکیں گے ،کاروبار کرسکیں گے ،اور حقیقی دنیا کی طرح اُس دنیا کے خوبصورت مقامات کی سیر و تفریح سے لطف اندوز بھی ہوسکیں گے۔یہ ایک نئی دنیا کا تصور ہے جو ہمارے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔پھر یہ کہ اس ورچؤل ریالٹی کی دنیا میں اس طرح کی بہت ساری  ایکٹیوٹیزبھی ہوں گی جن کا آج کی دنیا میں تصور بھی موجود نہیں ہے۔

virtual realityیعنی کہ غیر محسوس حقیقی ٹیکنالوجی آج کے دور میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ موجودہ دور کی آبادی ،خاص کرمغربی دنیاکا بہت بڑا حصہ اسے اپنے روزمرہ کے معمولات میں ضرورت کے مطابق استعمال کررہا ہے۔ لیکن زیرِ نظر مضمون میں جس virtual reality کا ذکر ہورہا ہے وہ فیس بک کا آنے والا نیا ورژن “میٹا ورس” ہےجسے ٹیکنالوجی کی دنیا کا انقلاب تصور کیا جارہا ہے۔

نوے کی دہائی سے سن 2000  تک اور پھر اُس کے بعد سے اب تک دو عشرےجس طرح ہم نے گزارے ہیں اگر اُن پر ایک نظر ڈالیں تو سمجھ آتا ہے کہ جیسے ہی انٹرنیٹ ایجاد ہوا اور عام عوام کی دسترس تک پہنچا ،دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوگیا۔معلومات کی ترسیل اور تبادلہ اتنا برق رفتار ہوگیا کہ نت نئی ایجادات کے انبار لگ گئے ۔معمولات ِ زندگی میں آسانیاں پیدا ہوگئیں اور نئی جہتیں متعارف ہونے لگیں ، اس انقلاب سے جہاں ہم بہت فیض یاب ہوئے وہیں اس کے کچھ انتہائی تباہ کن نقصانات بھی سامنے آئے۔سرِ فہرست سوشل میڈیا  یعنی عوامی رابطوں کے پلیٹ فرامز جیسے کہ “یوٹیوب ، فیس بک ، واٹس ایپ”اور دیگر اپلیکیشنز ۔

جب سے پاکستان میں سوشل میڈیا عام ہواہم نے اس کے بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ  لاتعداد نقصانات کا بھی مشاہدہ کیا ۔ افکار و نظریات کی جنگ میں اِسے ہتھیار کی طرح استعمال کیا گیا۔اس کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں مختلف نظریات کے بیچ بوئے گئے پھر دین بیزاری اور خودساختہ مذہب کے غلیظ پانی سے اُن کی آبیاری کی گئی ، جب یہ پودے بڑے ہوگئے تو یہ کفریہ عقائد کے جنگل بن گئے اور اِن عقائد کے حامل افراد جنگلوں میں رہنے والے وحشی جانور بن گئے ۔دینی مسائل اور احکامات کے نام پر لوگوں کو جمع کیا جاتا اور پھر شکوک و شبہات  کے کانٹوں سے اُن کے ایمان و عقائد کو تار تار کیا جاتا اورپھر ایک بے نام و نشان راہ پر اُنہیں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔

اس الحاد کا ایک خطرناک  نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے عام لوگوں کے ذہنوں میں  اللہ  تعالیٰ کے رب العالمین ہونے کے تصور کو بھی مشکوک بنادیا۔ آج کی  نوجوان نسل  جو اس ہتھیار کا سب سے زیادہ شکار ہوئی، اپنے مقصد کو بھول گئی ،اپنی راہ سے بھٹک گئی اور منزل سے دور ہوگئی۔

بطورِ امت ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم “ردِ عمل” تو دیتے پر “حفظِ ماتقدم” جیسی اہم تدبیر کو اختیار نہیں کرتے۔کسی مصیبت کے آجانے پر یا کسی فتنے میں مبتلا ہوجانے پر خود کو بچانے لگتے ہیں لیکن اُس مصیبت یا فتنے کی پیشگی اطلاع ملنے پر بچاؤ کی کسی احتیاطی تدبیر کو اختیار نہیں کرتے ۔اگر موجودہ دور  کے جدید فتنوں کے بارے میں بات کی جائے تو “ٹک ٹاک” جیسی اپلیکیشنز کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ایسی بے شمار اپلیکیشنز ہیں کہ جن  کا ایک سیلاب امڈآیا اور لوگ اُس میں ڈوبنے لگے۔اس طرح کی اور مزید جدید ٹیکنالوجیز ہیں جواس قدر تیزی سے ہماری زندگی میں سرایت کرگئیں ہیں کہ اُن کے بغیر اب زندگی کا تصور محال لگتا ہے۔

اسی طرح ایک اور جدید ٹیکنالوجی “میٹا ورس” کے نام سے متعارف کرائی جارہی ہے جس کے یقینا ً فوائد بھی ہوں گے پر چونکہ وہ  ایک عام استعمال کی چیز ہوگی تو یقینا ً اس کے کئی نقصانات بھی ہوں گے۔اس سے پہلے کی ٹیکنالوجی محدود تھی جس کی وجہ سے اُس کے نقصانات بھی اُسی نوعیت کے تھے لیکن یہ ٹیکنالوجی اپنے آپ میں ایک نئی جہت کو متعارف کراتی ہے اور اپنی خود کی ایک دنیا کا تصور پیش کرتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے تصور کو واضح کرنے کے لیے ایک مختصر سا جائزہ لیتے ہیں کہ اس جدید ٹیکنالوجی سے آگاہی رکھنے والے افراد اس ورچؤل ریالٹی کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔

آئی ٹی ایکسپرٹس کے مطابق آپ تصور کیجیے کہ آپ کے بہت قریبی عزیز جواس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں لیکن آپ کی اُن کی کے ساتھ اُنسیت اور قلبی لگاؤکی وجہ سے آپ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرپاتے یا یوں کہ لیں کہ بحیثیت ِ انسان ایک فطری خواہش  کے زیرِ اثر آپ چاہتے ہیں کہ اُن کو پھر سے دیکھ سکیں اُن سے بات کرسکیں۔ تو موجودہ دور کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس ورچؤل ریالٹی کی دنیا میں ایسے تصورات بھی موجود ہے جن میں آپ اپنے اُن پیاروں اور عزیزوں کو اپنے پاس لاسکتے ہیں ۔یعنی اس ٹیکنالوجی کے ذریعے اُن کا ہولوگرام بنایا جاسکتا ہے اور  کمپیوٹر میں اُن سے متعلق ہر چھوٹی سے چھوٹی اور اہم  بات کو ڈیٹا کے طور پر فیڈ کیا جاسکتا ہے۔ جس سے وہ ہولوگرام آپ سے نہ صرف اُس شخص کی آواز میں بات  چیت کرسکے گا بلکہ اپنی میموریز کو بھی شیئر کرسکےگا۔

برطانیہ کے شہر لندن میں ایک بڑی ٹیکنیکل لیب ہے جو مختلف قسم کی ورچؤل ریالٹی کی ٹیکنالوجیز پر تجربات کررہی ہے۔ انہوں نے حالیہ دنوں میں ایک ایسا ورچؤل سیمیولیٹڈ انوائرمنٹ بنایا ہے جس میں کوئی بھی انسان ورچؤل ریالٹی کی دنیا میں جانے کے لیے استعمال ہونے والے گیجٹس جیسے وی آر گلاسسز کو پہن کر ایک ایسی ورچؤل ریالٹی کی دنیا میں جاسکتا ہے جہاں وہ آرٹیفیشل ریالٹی کی مدد سے جنسی تعلقات بھی قائم کرسکتا ہے۔آسان الفاظ میں یوں سمجھئے کہ اِس تصوراتی دنیا میں جانے والا شخص کسی بھی شخص کے ساتھ (چاہے وہ شخص اس حقیقی دنیا میں ہے یا نہیں ہے یا یہ وہ ایک دوسرے کوجانتے ہیں یا نہیں) جنسی تعلقات قائم کرسکے گااورنہ صرف یہ بلکہ وہ اِس عمل کی حرکات و سکنات کو اپنے جسم پر محسوس بھی کرسکے گا۔

یہ تمام تفصیلات جاننے کے بعد یقیناً آپ کو اس بات کا اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ ٹیکنالوجی ہمارے معاشرے میں کس طرح کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہ اس کے ہماری زندگی میں کیا اثرات مرتب ہوں گے، ہمیں کس طرح کی پیچیدگیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے ۔یقینی طور پر اس کے فوائد بھی ہوں گے لیکن ہمارے پیش ِ نظر اس کے  وہ منفی اثرات ہیں جو ہم پر یا ہماری  آنے والی نسلوں پر مرتب ہوں گے۔

گناہ میں آسانی

یوں تو آج کے دور میں بھی بے شمار ذرائع ہیں جو گناہ کو آسان بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص گانے سن رہا ہے، کوئی فلم دیکھ رہا ہے یا کوئی شخص فحش فلمیں دیکھتا ہے تو وہ آنکھوں کے زنا میں مبتلا ہے جسمانی طور پر اس میں شامل نہیں ہے۔ لیکن ورچؤل ریالٹی میں جا کر وہ اس گناہ  میں مکمل طور پر شامل ہوجائےگا۔

آپ اندازہ کیجئے کہ ایک نوجوان جس کے سامنے ایک ایسی دنیا ہے جس میں اُس کے لئے کوئی پابندی نہیں ہے کوئی رکاوٹ نہیں ہے ،اُسے ہر طرح کی آزادی ہے ،وہ جہاں چاہے جاسکتا ہے جو چاہے کرسکتا ہے ۔ اُس  دنیا میں اُس کی حدود اُس کی ذہنی اختراع پر منحصر ہوں گی۔ اپنے ذہن میں وہ جس چیز کا تصور کرے گا اُسے وہاں پائے گا، ایسے میں کسی  گناہ سے بچ پانا کتنا مشکل ہوگا اور اُس میں مبتلا ہونا کتنا آسان ہوگا اور ہماری نوجوان نسل کس قدر تیزی سے اس فتنے میں مبتلا ہوجائےگی اِس بات کو سمجھنے کے لیے کسی اندازے کی ضرورت نہیں۔

اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے:

تجيء فتنة يُرقِّق بعضها بعضًا

فتنے آئیں گے اور اس طرح آئیں گے کہ ایک کے پیچے ایک۔ 1

پے درپے فتنے آئیں گے اور ہر آنے والا فتنہ اپنے پیچے آنے والے فتنے کے لیے آسانی کرےگا۔اگر آج  کے دور کا اور اس دورکے فتنوں کا موازنہ آج  سے بیس یا تیس سال قبل کے وقت اور حالات سے کیا جائے تو  یہ بات  بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔ آج جس قدر ہمارے معاشرے میں فحش فلمیں دیکھنے کی بیماری کسی کینسر کی طرح پھیل گئی ہے اور ہماری ایک نسل کو ذہنی مفلوج کردیا ہے تو آنے والے ورچؤل ریالٹی کے دور میں یہ گناہ کس قدر تباہ کن اور ہلاکت خیز ہوجائے گا۔

اگر تسلسل کا جائزہ لیں تو ٹی وی کا فتنہ آیا پھر کمپیوٹر انٹرنیٹ کا فتنہ آیاپھر اس طرح کی ویب سائٹس آئیں اور اب ہم میٹا ورس کی طرف جارہے ہیں۔ یعنی ایک شخص جو پہلے صرف نظر کے گناہ میں مبتلا تھا اب وہ براہِ راست جسمانی گناہ میں شامل ہوجائے۔ یہ وہ معاملات ہیں جو بحیثیت مسلمان ہمارے لیے ،ہماری آنے ولی نسلوں کے لئے انتہائی قابلِ تشویش ہیں کہ وہ کتنی آسانی سے گناہ میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

غیر حقیقی دنیا

اللہ رب العالمین  نے اس کائنا ت کو بنایا ،اس دنیا کو بنایا پھر اسے انسانوں کےلیے آباد کرکے انہیں اس میں بسایا اور اِسے ان کے لیے مسخر کردیا ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ

آل عمران – 191

اور آسمانوں وزمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائده نہیں بنایا، تو پاک ہے۔

اللہ رب العالمین کی ہر تخلیق با مقصد ہے ۔ یہ دنیا اورا س کا نظام  ایک مقصد کے تحت ہے۔ اسی طرح  اس دنیا میں انسانوں کی موجودگی بھی ایک مقصد کے تحت ہے۔ اللہ رب العالمین کی عبادت کے بعد حقوق العباد کی اہمیت ہے اور اسی وجہ سے لوگ اس حقیقی دنیا میں ایک دوسرے سے مربوط  ہیں پھر چاہے وہ رشتوں  یا ذاتی مفادات کی وجہ سے  ہوں ،رضامندی سے ہوں یا مجبوراً۔

باوجود اس کے کہ دنیا کے ہر معاشرے میں لوگ ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں  لیکن پھر بھی آج کے دور میں آپ کو ایک بڑا طبقہ ایسا نظر آئے گا جواس طرح کی معاشرتی اور اخلاقی ربط سے خو د کو آزاد سمجھتے ہیں۔ آج  کی نوجوان نسل کو دیکھ لیں جن کی اکثریت “پب جی” گیم میں گم ہیں انہیں اپنے اطراف کے لوگوں کا، اُن کی ہلچل کا ،یہاں تک کہ اُن کی موجودگی کا بھی احساس تک نہیں ہوتا۔ یا پھر وہ طبقہ جو ٹک ٹاک بنانے میں، فیس بک میں یا ایسے کسی دوسرے  مشغلے میں مصروف ہیں اور اپنے آس پاس کی دنیا سے بے خبر ہیں۔

اب جب کہ ٹک ٹاک اورا س جیسی دوسری محدود ذرائع کی اپلیکیشنز میں گم رہنے والوں کا یہ حال ہے تو”میٹاورس” کی ورچؤل دنیا میں جانے والا اپنے آس پاس کے لوگوں سے کس قدر باخبر ہوگا۔ جب کہ “میٹاورس” کا دعویٰ یہ ہے “connecting people” یعنی ہم لوگوں کو باہم  جوڑ رہے  ہیں سوشلائز  کررہے ہیں۔ جبکہ ہم یہ کہتے ہیں “connecting people on virtual reality” کیونکہ حقیقی دنیا میں آپ لوگوں کوایک دوسرے سے “Disconnect” یعنی لا تعلق کررہے ہیں۔ اولاد اپنے والدین سے دور ہوگئی ہے، بہن بھائی ایک دوسرے سے دور ہوگئے ہیں، دوست احباب ایک دوسرے دور ہوگئے۔

ایک کمرے میں چار لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور اُن میں سے ہر ایک شخص اپنے موبائل میں موجواپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے اپنے ہزاروں ان دیکھے فالورز سے تو رابطے میں ہوتا ہے لیکن ایک ہی جگہ ایک ساتھ ہونے کے باوجود وہ چاروں آپس میں کوئی بات نہیں کرتے۔ ایک شخص جس کے سوشل میڈیا  اکاؤنٹ میں ایسے بہت سے دوست ہوتے ہیں جن سے وہ کبھی ملا نہیں ہوتا ، انہیں کبھی دیکھا تک نہیں ہوتا  لیکن اُن سے دوستی ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اُس کا ایک حقیقی دوست جو ساتھ ہوتا ہے اُس کی دوستی سے محروم رہتاہے اور یہ ہی حقیقت سے دوری ہے۔

اللہ رب العالمین نے بحیثیت مسلم امہ قرآن مجید کے اندر ایک بات مسلمہ اصول کے طور پر ہمیں سمجھا دی۔فرمایا:

وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ

آل عمران – 185

اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے۔

یعنی یہ زندگی جو ہم اس دنیا میں جی رہے ہیں جس میں غم خوشی، دکھ بیماری،مصیبت پریشانی، دولت شہرت ہر طرح کے حالات دیکھتے ہیں، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بیان کردیا کہ یہ ایک دھوکہ ہے۔ تو ورچؤل ریالٹی تو دھوکے میں ایک اور دھوکہ شامل کرنے جیسا ہوا۔ ایک ایسا دلدل کہ جس میں اگر کوئی شخص گر جائے تو پھر دھنستا ہی چلا جائے۔

ڈپریشن

 سوشل میڈیا استعمال کرنے والے یا ویڈیو گیم کھیلنے والے افراد میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اس کا متواتر اور غیر ضروری استعمال کرتے ہیں اور بعض اوقات یہ کسی نشے کی طرح اُن پر مسلط ہوجاتا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی اس سے جان نہیں چھڑا پاتے۔ اس طرح وہ حقیقت سے بے خبر غفلت میں ڈوبے رہتے ہیں۔ غفلت کی انہیں گہرائیوں سے ڈپریشن ، ناامیدی اور مایوسی جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو انسان کو معاشرتی طور پر بالکل کھوکلا کردیتی ہیں۔

ایک شخص جو کہ ورچؤل ریالٹی میں ہے جہاں وہ کما بھی رہا ہے، کام بھی کررہا ہے ،کھا بھی رہا ہے ،اُس کی صحت، شکل و صورت اچھی دکھتی ہے اور وہ ایک خوشحال زندگی گزاررہا ہے ۔ لیکن جیسے ہی وہ اُس دنیا  سے باہر نکلتا ہے اور اپنے آس پاس کی حقیقی دنیا کو دیکھتا ہے جس کا ماحول بالکل ویسا ہی ہے جیسے اُس کے حالات ہیں ۔ گھر میں مسئلے مسائل ہیں، ناچاقیاں ہیں ،دوستوں رشتے داروں میں جھگڑے ہیں،کاروبار میں نقصان اور آمدنی میں کمی ہے۔ یہ سب چیزیں اُسے ڈپریشن میں مبتلا کردیتی ہیں۔ ایسا شخص یا تو کسی نشے میں مبتلا فرد کی طرح پھر سے اس ورچؤل ریالٹی کی دنیا میں چلا جائے گا اور اپنے آپ کو اس میں گم رکھے گا یا پھر خودکشی جیسے گھناؤنے خیالات کا شکار ہوجائے گا۔

اپنی ذمہ داریوں سے فرار

پھر اسی کے ساتھ ایک خرابی بھی آتی ہے جو ہے اپنی ذمہ داریوں سے فرار۔ آج کی نوجوان نسل جو پب جی یا اس جیسی اور دیگر بے مقصد مصروفیات میں اس حد تک ڈوبے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی روزمرہ کی معاشرتی ذمہ داریوں  کی ادائیگی سے بھی غافل ہوچکے ہیں۔ جو نوجوان آج ٹک ٹاک یا ٹیوٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود ہیں انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اُن کی زندگی کا حاصل و مقصد یہ ہی چیزیں ہیں۔تو کیا یہ نوجوان معاشرے میں اپنے حقیقی مقام کو پہچانیں گے ،یا معاشرے میں اپنے فرض کو ،اپنی حقیققی ذمہ داری ادا کرسکیں گے ، معاشرے کی اصلاح و بہبود کا کوئی کام کرسکیں گے یا وہ کوئی ایسا کام کرسکیں گے جس سے ملک  و ملت کی بھلائی یا ترقی ہوتی ہو۔

ان کی مثال ایک ایسے شخص کی سی ہے جو ہر وقت سویا رہتا ہو اور خواب دیکھتا رہتا ہو تو کیا ایسا شخص حقیقی دنیا میں کوئی کارآمد شخص بن سکے گا یا وہ معاشرے کی بھلائی کا کوئی کام کرسکے گا۔ قطعاً نہیں!۔ تو یہی حال ورچؤل ریالٹی کی دنیا کا ہے جو لوگوں کو حقیقی دنیا سے نکال کر خوابوں کی افسانوی دنیا میں لے جائے گی۔

اس سارے تجزیے کے بعد جو بنیادی سوال ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ بحیثیت ِ مسلمان اس صورتِ حال میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ اس طرح کے جو مسائل ہماری نوجوان نسل کو درپیش ہیں اُن کا حل کیا ہوگا اور ہمیں کس قسم کی تدابیر کو اختیار کرناہوگا،کن امور کو اختیار کر کے ہم ان فتنوں سے خود کو،اپنے نوجوانوں کو اور آنے والی نسلوں کو محفوظ کرسکتے ہیں۔

پہلا حل:

اس طرح کے مسائل سے بچنے کے لیے سب سے پہلی چیز جس کو اختیار کرنے کی ضرورت ہےوہ ہے دین سے جڑجانا ،مساجد سے جڑجانا ،اللہ رب العالمین سے قریب ہوجانا ،قرآن مجید سے جڑجانا۔ کیونکہ یہ ہی وہ راستہ ہے جو اس دنیا کی حقیقت بھی ہمیں بتاتا ہے ،ورچؤل ریالٹی کی خوابی دنیا کی حقیقت بھی ہمیں سمجھاتا ہے اور باقی رہنے والی اخروی دنیا کی راہ بھی ہمیں دکھاتا ہے ۔ یہ قرآن مجید اور علم ِ حدیث ہی ہے جو ان تمام شیطانی مکر و فریب سے ہمیں ہوشیار رکھتا ہے ،ان غفلت بھرے خوبصورت خوابوں سے ہمیں بیدار رکھتا ہے ۔اور آخرت کی باقی رہنے والی زندگی کی تیاری کے لیے ہماری رہنمائی کرتاہے۔

اللہ کے رسول ﷺ  کا فرمان ہے:

قیامت کے قریب فتنے آئیں گے اور مؤمن گھبرائے گا،پھر جیسے ہی کوئی فتنہ اُس کے قریب آئے گا وہ کہے گا:

هذه مُهْلِكَتِي

یہ مجھے ہلاک کردے گا۔2

پھر کوئی فتنہ آئے گا اور مؤمن کہے گا کہ یہ مجھے ہلاک کردے گا۔فتنوں سے ہلاکت کا ڈر اور خوف تب ہی ہوگا جب مؤمن کو اپنے  ایمان کی فکر ہوگی اور ایمان کی فکر تب ہوگی جب وہ دین کے قریب ہوگا۔ اسی لیے اس طرح کے تمام فتنوں سے بچنے کےلئے سب سے ضروری دین سے جڑنا ہے علماء کی صحبت کو اختیار کرنا ہے۔جب تک ہم شریعتِ محمدی ﷺْ کے سائے میں رہیں گے اپنی زندگی میں اسے اپنائیں گے اپنی اولادوں کو سکھائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے حکم و فضل سے ہم ہر طرح کے فتنوں اور اُن کی آزمائشوں سے محفوظ رہیں گے۔

دوسرا حل:

اس کے بعد جو دوسرا حل ہے وہ ہے اپنے بچوں کے لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ فزیکل ایکٹویٹیز یعنی جسمانی  مشق۔ آج کے دور میں ایک بڑی پریشانی یہ بھی ہے کہ ہمارے بچوں کے پاس موبائل اور کمپیوٹر پر کھیلنے کے لیے طرح طرح کے کھیل موجود ہیں جن میں صرف ذہنی توانائی صرف ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے جسم سست اور کاہلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے پاس کھیل کے میدان تو ہیں پریا تو بچو کے پاس کوئی کھیل نہیں ہے یا پھر ہمیں اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ بچوں کی صحیح تربیت کے لئے اُن کی ذہن سازی کے ساتھ ساتھ جسمانی نشونما بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ جس کے لیے اچھی خوراک کے ساتھ جسمانی ورزش بھی بہت ضروری ہے اور بچوں کی جسمانی ورزش کے لئے سب سے بہترین ذریعہ وہ مثبت کھیل ہیں جس میں انہیں تفریح بھی میسر ہوتی ہے اور وہ اُن کی جسمانی نشو نما میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس طرح کے مشاغل بچوں کے حقیقت سے قریب رہنے کا سبب بنیں گے۔

تیسراحل:

تیسرا حل یہ کہ فطرت سے قریب رہنا۔ بچوں کی تفریح کے لئے ایک دوسرا ذریعہ مختلف علاقوں کی سیر ہے۔ خاص طور پر وہ  سرسبز و شاداب علاقے جو زمین پر اللہ رب العالمین کی تخلیق کے شاہکار ہیں۔ جہاں زندگی اپنی فطری طرز پر گامزن نظر آتی ہے۔ اپنے بچوں کو فطرت سے قریب کیجیے، ان کے ساتھ بحر و بر کی سیر کیجیے، باغبانی کیجیے۔ جہاں تک ممکن ہوں خود کو اور اپنے بچوں کو فطرت سے قریب رکھیں۔ کیونکہ جس قدر ہم فطرت سے قریب رہیں گے ہم حقیقت سے آگاہ رہیں گے اور مصنوعیت اور اُس کے فتنوں سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے دور رہیں گے۔

آخری بات بطور ِ نصیحت جو ہر طرح کے فتنوں سے بچاؤ کے لیے کفایت کرتی ہے وہ اللہ کے رسول ﷺ کی وہ حدیث ہے جس کا بیان مندرجہ بالا سطور میں گزر چکا ہے  کہ جب فتنے آئیں گے اور ہر فتنہ اپنے پیچھے آنے والے فتنے کے لئے آسانی پیدا کرے گا یعنی لوگوں کے لیے گناہ میں مبتلا ہونا آسان تر ہوجائےگا۔ اس کی حالیہ مثال چند ماہ قبل کا وہ عرصہ ہے جس میں لاک ڈاؤن رہا۔ پورا ملک بند ہوگیا ،تمام کاروبار بند ہوگئےاور لوگ اپنے اپنے گھروں میں محصور ہوگئے اور موبائل فون کے علاوہ اُن کے پاس کوئی مشغلہ نہ رہا ۔ لوگ غیر محسوس طریقے سے اس ورچؤل ریالٹی میں داخل ہوگئے اور موبائل فون کے عادی ہوگئے۔ اب اس کے بعد “میٹاورس” کو لانچ کیا جارہا ہے۔ اسی طرح فتنے ایک دوسرے کے لئے ہمارے دل کو نرم کرتے ہیں، ہم میں سرایت کرتے ہیں۔

اب اگر ہم میں سے کسی کا مقصد جہنم سے بچنا اور جنت میں داخل ہونا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا:

فمَنْ أحبَّ منكم أنْ يُزَحْزَحَ عنِ النارِ ، ويَدْخُلَ الجنةَ ، فلْتَأْتِهِ منيتُهُ وهوَ يؤمِنُ باللهِ واليومِ الآخرِ

کہ جو تم میں سے چاہتا ہے  کہ جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے تو اُسے موت اِس حال میں آئے وہ اللہ تعالیٰ پر اور یوم ِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔3

پھر آپ ﷺْ نے دوسری چیز یہ بتائی کہ لوگوں کے ساتھ اُس کا معاملہ اس طرح کا ہو جیسا معاملہ وہ اپنے لیے چاہتا ہے ۔تو یہ وہ دو کام ہیں جن کا ذکر آپ ﷺ نے فرمایا۔

آخر میں اللہ رب العالمین سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں ان اُمور کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنی اصلاح کی اور فتنوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین

  1. صحیح مسلم: 1844
  2. صحیح مسلم: 1844
  3. صحیح الجامع: 2403 / صحیح النسائی: 4202

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ عثمان صفدر حفظہ اللہ

آپ کراچی کے معروف دینی ادارہ المعہد السلفی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالشھادۃ العالیہ کی سند حاصل کی، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، نیز اسلامک بینکنگ اور فنانس میں جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی جاری ہے۔ اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی کے مدیر ، الھجرہ آن لائن انسٹیٹیوٹ کے مدیر ہیں ، البروج انسٹیٹیوٹ کراچی میں مدرس کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔