میرا لہو اب بھی بہہ رہا ہے۔۔!!!

وطنِ عزیز میں عصر حاضر کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کا ہے۔ کہ ہر طرف انسانیت کی تذلیل، قتل و غارت گری دن دہاڑے، مال اور عزت کا لٹ جانا، دہشت کے گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ جبکہ قبل الاسلام دور جہالت میں ، جب ابھی رحمۃ للعالمین کا ظہور نہیں ہوا تھا تو اس وقت بھی معاشرے کا سب سے بڑا اور گھمبیر مسئلہ امن و امان کا تھا۔ نہ کسی کی جان محفوظ تھی، نہ ہی عزت و مال۔

’’لاالہ الا اللہ‘‘ وہ مقدَّس کلمہ کہ جس نے ان تاریک معاشروں میں امن و امید ایک نئی صبح ظاہرکر دی تھی۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ کے آنے بعد ظلم وستم اور دہشت گردی کے بادل چھٹنا شروع ہوگئے اور لوگ اس “امن والے دین” کی امان میں آنے لگے۔ کیونکہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے فرمانِ ربانی سن لیا تھا۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ

المائدة – 32

ترجمہ: ’’جو شخص کسی کو (نا حق ) قتل کرے گا (یعنی )بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا زمین میں فساد کرنے کی سزا دی جائے تو گویا اس (قاتل )نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اورجو شخص کسی ایک شخص کی جان بچا لے گویا کہ اس نے تمام لوگوں کی جان بچالی ۔‘‘

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ احترام آدمیت کا درس دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک انسان کی اتنی قدروقیمت ہے کہ اگر کسی نے ناحق وناجائزکسی انسان چاہے وہ مسلمان نہ بھی ہو خون بہایا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر ڈالا، کیونکہ وہ ایک فرد پر ظلم نہیں  کرتا بلکہ وہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل حیاتِ انسانی کے احترام اور ہمدردئ نوعِ انسانی کے جذبے سے خالی ہے لہذا وہ پوری  انسانیت کا دشمن اور قاتل ہے کیونکہ اس کے اندر وہ درندہ صفت پائی جاتی ہے جو اگر افراد انسانی میں پائی جائے تو پوری انسانیت کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ اس کے برعکس جو شخص انسانی زندگی کے قیام میں مدد کرتا ہے وہ درحقیقت انسانیت کا حامی ہے کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے جس پر انسانیت کی بقا کا انحصار ہے اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ یوں ارشاد فرماتا ہے : 

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ

النساء – 93

ترجمہ: ’’جو شخص کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے تواس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھاہے۔ ‘‘

مندرجہ ذیل  شعرپاکستانی معاشرے  کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے۔ 

بند کر لیا ہے سپیروں نے سانپوں کو یہ کہہ کر

انسان ہی کافی ہے انسان کو ڈسنے کیلئے

قارئین کرام !ذرا غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک مومن کی کیا شان ہے اگراس کو کوئی ناحق قتل کرے تواس کے لئے پانچ سخت ترین وعیدیں بیان کی جارہی ہیں :

1-  اس کی سزا جہنم ہے

2- وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔

3- اور اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے ۔

4- اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے ۔

5-اور اُس کے لئے  اس کی ان سب سزاؤں سے بڑھ کر سخت ترین عذاب تیار کیا گیا ہے ۔

ان آیات کی تصدیق  رسول اکرم ﷺبھی فرما رہے ہیں:

’’کُلُّ ذَنْبٍ عَسَی اللہُ أَ نْ یَغْفِرَ ہُ اِلَّا الرَّجُلَ یَقْتُلُ مُؤمِنًامُتَعَمِّدًا أوِ الرَّجُلُ یَمُوْتُ کَافِرًا۔‘‘

سنن النسائی: کتاب، تحریم الدم، حدیث رقم : 3919

ہر گناہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ معاف فرما دیں گے مگر جس آدمی نے کسی کو ناحق جان بوجھ کر قتل کیا ہو گا اس کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔

ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کے احکامات کو جانتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں اور رسول اکرم ﷺ کی سنت مبارکہ کو بھی سمجھتے ہیں مگر پھر بھی ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے خون کا پیاسا ہے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے اس دورمیں تو یہ کہاوت بھی زبان زد عام ہو گئی ہے کہ:

’’گولی مہنگی ہے جبکہ انسانی جان سستی ‘‘

ہم اس قدر سنگدل اور بے رحم درندے بن گئے ہیں کہ آئے دن سانحات پر سانحات رونما ہو رہے ہیں ،کبھی 12مئی کا دل خرا ش حادثہ ، کبھی 9 اپریل 2008 کا دلسوز واقعہ کہ جس میں زندہ انسانوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا ، اور کبھی معصوم راہیگروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی صحافی برادری کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ معلوم نہیں ابھی اور کتنے سانحات سے واسطہ پڑنا باقی ہے مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ مسلمان اتناپتھر دل ہو گیا ہے اس طرح کی درندگی پر کیوں اتر آیا ہے اور اپنے پیارے پیغمبر مصطفی علیہ الصلاۃوالسلام کے فرمان پاک کو بھی نہیں مانتا :

’’کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وُمَالُهُ وَعِرْضُهُ‘‘

صحیح مسلم ، کتاب البر والصلة، رقم: 4650

’’ ہرمسلمان کا دوسرے مسلمان کیلئے اس کاخون ، اس کا مال اور اس کی عزت حرام ہے ‘‘۔

رسول معظم ﷺ نے یہاں تک فرما دیا کہ:

’’ لَوْ أنَّ أھْلَ السَّمَائِ وَاَہْلَ الْأَرْضِ اِشْتَرَکُوْ ا فِیْ دَمِ مُؤمِنٍ لَأَکَبَّهُمُ اللہُ فِیْ النَّارِ‘‘  ۔

رواه الترمذی فی كتاب الدیات، حدیث رقم: 1318، صححه البانی

’’ اگر زمین وآسمان کے سب لوگ ایک مومن کے قتل میں شریک بھی ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال دیں گے ۔‘‘

آج کا مسلمان اللہ تعالیٰ کے پیارے حبیب کا یہ فرمان بھی بھول گیا ہے کہ آپ ﷺ نے (خطبہ حجۃ الوداع ) میں فرمایاتھا: ’’تم پر ایک دوسرے کے خون ، مال اور آبرو اس طرح حرام کر دی گئی ہیں جس طرح تمہارے اس دن (یوم نحر) کی تمہارے اس شہر (مکہ)کی اور تمہارے اس مہینہ (ذوالحجۃ)کی حرمت ہے ، نیز فرمایاکہ میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کر کافر نہ بن جانا ‘‘ (بخاری کتاب الحدود ، حدیث نمبر: ۶۲۸۷)

گویا مسلمان کا ایک دوسرے کو قتل کرنا کفر کے مترادف ہے اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :

’’ جب دومسلمان تلوار لیکر باہم لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں‘‘ سیدنا ابو بکر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اے اللہ کے رسول ﷺ یہ تو قاتل تھا ،مقتول کا کیا قصور ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس لئے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کے درپے تھا ‘‘ (بخاری ، کتاب الدیات ،حدیث نمبر: ۶۳۶۶)

ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن )تین آدمیوں پر سب سے زیادہ غضب ناک ہو گا ۔

1-   حرم شریف (یعنی مکہ )میں ظلم کرنے والا۔

2-   اسلام میں طریقہ جاہلیت کا متلاشی ۔

3-   اورناحق کسی کا خون بہانے کا طالب ۔ ان مذکورہ بالا نصوص سے احترام انسانیت اور اکرام آدمیت اور انسانی قدرو منزلت روز روشن کی طرح عیاں ہو رہی ہے انسانی جان کو قتل کرنا تو بہت دور کی بات ہے کسی کو اپنے سے کمتراور حقیر جاننا یہ گناہ ہی اس کو جہنم میں لے جانے کیلئے کافی ہے جبکہ رسول اکرم ﷺنے تو مسلمان کی پہچان ہی یہ بتائی ہے کہ :

’’ ألْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهِ وَیَدَہِ ‘‘ ۔

صحیح البخاری ، كتاب الایمان، رقم : 10

’’ مسلمان تو وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان کی تکلیف سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ‘‘۔

آج ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ہماری بندوقوں کا رخ دفاع اسلام کی بجائے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی طرف ہو چکا ہے ، ظلم و زیادتی کا بازار گرم ہے اور نفرتوں کے بیج بوئے جا رہے ہیں اور اپنی عاقبت کو برباد کیا جا رہا ہے جبکہ اسلام تو خدمت ، ایثار اور عدل و احسان کا دوسرا نام اس لیے ہے کہ وہ ایسے انسان تیار کرنا چاہتا ہے جو ان صفات سے متصف ہوں ، جن کی لذت خدمت انسانی میں، دولت قناعت میں، رفعت محبت میں اور مسرت عبادت میں ہو ، جو شرم وحیا اور عدل و فضل کے پیکر ہوں جو بغض اور حسد ، حرص ونفرت اور خود غرضی و عیاشی سے پاک ہوں جو تمام مسلمانوں کو ایک کنبہ سمجھتے ہوںا ور نسل ورنگ کی قیود سے بالا تر ہوں ، یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا کو دارالسلام بنا سکتے ہیں ، اقوام وافرادکے باہمی روابط ، عدل ومیزان کی اساس پر قائم کر سکتے ہیں اور کاروان حیات کو راہ منزل دکھا سکتے ہیں اگرایسے لوگ آگے نہ آئے تو پھر یہی ہو گا جو ہو رہا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے ، اہل حق علمائے کرام اور اہل حل و عقد کو آگے بڑھنا ہو گا ۔ دعوتی واصلاحی عمل کو تیز کرنا ہوگا اس ظلم وبربریت کے خوفناک انجام سے آگاہ کرنا ہو گا ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی قرآن وسنت کے زریں اصولوں کے ذریعے اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

آپ نے جامعہ ام القریٰ مکہ سے گریجویٹ کیا اور جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کیا ، اور جامعہ ابی بکر الاسلامیہ سے منسلک ہوکر دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ، آپ ماہنامہ اسوہ حسنہ کراچی کے مدیر ہیں ،جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کے سینئر مدرس ہیں اور مشہور علماء میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔