پہلا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مکارم و فضائل کا حکم دیا اور ان پر ثواب اور بخشش کا وعدہ کیا، فحش اور گھٹیا کاموں سے منع کیا ،اور ان پر برے انجام اور خسارے کی دھمکی دی۔
میں اللہ تعالی کی حمد و شکر کرتا ہوں اور اس سے پناہ اور مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس پر ایمان رکھتا ہوں، ہر وقت اور ہر لمحہ اس پر توکل کرتا ہوں، جسے وہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے، جسے وہ گمراہ کردے اسے عذاب و رسوائی سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ ان پر، ان کے معزز و باشرف آل اصحاب اور تابعین پر اور جو قیامت تک انکی اچھے سے پیروی کرے ان سب پر درود نازل کرے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت وہ نیک بخت اور کامیاب ہوا اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ خائب و خاسر ہوا ۔
اما بعد !
اللہ کے بندوں! پوشیدہ و اعلانیہ اللہ کا تقوی اختیار کرو، تمام اوقات اور مواقع پر اس کی بات مانو، بڑی چھوٹی ہر چیز میں اس کے حق کی حفاظت کرو، قرآن و سنت میں بیان کردہ اس کی شریعت کو مضبوطی سے پکڑ لو، دنیاوی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے،اور دھوکے باز شیطان تمہیں اپنے فریب میں مبتلا نہ کرے ۔ اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ اللہ نے تمہاری عمروں میں کشادگی رکھی تاکہ تم اپنے پچھلے بگڑے ہوئے اعمال کی اصلاح کر سکو۔ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، آپ ﷺ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے کہا: جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، گناہ کے بعد نیکی کرو، یہ گناہ کو ختم کردے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آو ۔( اس حدیث کواحمد ، ترمذی نے روایت کیا ہے )۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا: اے ابن خطاب ! اللہ کا تقوی اختیار کر، ورنہ وہ تجھے عذاب دے گا ۔
امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: مجھے پتہ چلا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ مومن کا شرف اس کا تقوی ہے، اس کا دین اس کا حسب و نسب ہے اور اس کی مروت اس کا اخلاق ہے ۔
اے مسلمانوں! یقینا اسلام بلند اخلاق کا دین ہے۔ اس نے فضائل سے سنورنے، رذائل سے دور رہنے کی دعوت دی، مکارم اخلاق اور قابل تعریف صفات اور اچھی خوبیوں پر ابھارا ہے۔ نبی ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا: میری بعثت اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے ہوئی ہے
اسے ( احمد، بیھقی ) نے روایت کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ ان دونوں کے ہیں۔
اس حدیث کا مطلب کہ مجھے مخلوقات کی طرف بھیجا گیا ہے تاکہ اچھے اخلاق کی کمی کو پورا کروں۔ اس کی بنیاد اللہ سبحانہ کی توحید اور اخلاص ہے۔ شرک کو ترک کرنا ہے ،اس کے بعد پانچوں نمازوں کا نمبر آتا ہے، توحید کی بجا آوری اور شرک کے ترک کے بعد یہ سب سے بڑا اور اہم اخلاق ہے۔ اس کے بعد ان اچھے افعال کا نمبر آتا ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں ودیعت کی ہے۔ جیسے وفا، مروت ،حیاء، پاکدامنی ، تو ان میں سے جو صفت بندے کے پاس اچھی حالت میں ہو اسے اور اچھا کرے، جو بری ہے اسے کم کر ے اور روک دے۔
امام احمد نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے جب حبشہ کی طرف ہجرت کی تو جب نجاشی نے دین اسلام کی حقیقت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اے بادشاہ ! ہم جاہلیت والی قوم تھے ، بتوں کی عبادت کرتے، مردار کھاتے، بد فعلی کرتے ، رشتے کاٹتے ، پڑوسی کے ساتھ غلط رویہ رکھتے، ہم میں سے طاقتور کمزور کو کھا جاتا تھا، ہم اسی حالت پر تھے کہ اللہ نے ہم میں سے ہماری طرف ایک رسول بھیجا جس کے حسب و نسب، سچائی اور امانت داری اور پاکدامنی سے ہم سب واقف ہیں۔
اس رسول نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا کہ ہم اس کی توحید کو بجالائیں اور اس کی عبادت کریں اور اللہ کو چھوڑ کر جن پتھروں اور بتوں کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد عبادت کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اس نے ہمیں سچی بات، امانت کی ادائیگی، صلہ رحمی، پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک ، حرام کاموں اور خون ریزی سے رکنے کا حکم دیا ۔ اسی طرح اس نے ہمیں فحش کاری ، دروغ گوئی، یتیم کا مال ہڑپنے اور پاکیزہ عورت پر تہمت لگانے سے منع کیا ۔ اس جملے میں انہوں نے پورے دین کا خلاصہ پیش کردیا ، جس کا بڑا عنوان مکارم اخلاق ہے اور پورے دین کا نچوڑ چنیدہ بندے محمد( ﷺ) کی ذات میں ہے جن کی تعریف ان کے رب نے اس چیز کے ذریعے کی جو آپ (ﷺ) کی ذات میں سب سے بلند اور خوب صورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ
(سورہ القلم: 4)
اور یقینا آپ بڑے اخلاق پر فائز ہیں۔
اللہ درود سلام اور برکت نازل فرمائے ہمارے نبی اور حبیب پر۔ اچھے فضیلت والے اخلاق، کریمانہ پاکیزہ خصلتیں، بلند قابل تعریف اوصاف دین کی بنیادوں اور ثابت و راسخ اصولوں میں سے ہیں بلکہ حسنِ اخلاق اسلامی عقیدہ اور عمل کی بنیاد ہے۔ اصلاح اور درستگی کا ثمرہ ہے۔ اس عقیدے اور عمل کی کیا قیمت ہے جس کے ساتھ ایسا اعلی اور نیک اخلاق نہ ہو، جو صاحب اخلاق کو عفت و حکمت ، عزت نفس اور بلند عزم کی طرف لے جائے، اسے برے مقامات اور طبیعت کی رذالت سے روکے اس چیز کے درمیان آڑ بن جائے جو مروت کو بگاڑتی ہے، عزت کو داغ دارکرتی ہے اور عقیدہ اور دین کی حرمت کو پامال کرتی ہے ۔
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک سال تک رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ میں مقیم رہا۔ مجھے سوالات کرنے کے سوا کوئی اور بات ہجرت کرنے سے نہیں روکتی تھی کیونکہ کہ ہم میں سے جب کوئی ہجرت کرلیتا تو رسول اللہ ﷺ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کرتا۔ میں نے آپ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: نیکی حسن خلق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم ناپسند کرو کہ لوگوں کو اس کا پتہ چلے (مسلم شریف میں یہ روایت ہے )
نیکی کا مطلب ہے لوگوں کے ساتھ احسان کرنا، اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ۔ یہ حسن اخلاق کے بغیر نہیں ہوسکتا ، بدی سے مراد قبیح صفات اور گھناؤنے کام ہیں، جن کو انسان چھپانے کی کو شش کرتا ہے اور وہ پسند نہیں کرتا کہ لوگوں کو ان کی خبر لگے، اس لیے کہ یہ اثر انداز ہوتے ہیں، سینے میں گھر کر جاتے ہیں، دل انکی باتیں کرتا ہے ، شیطان ان کا وسوسہ دلاتا ہے اور عمل ان کو جرائم و گناہ میں بدل دیتا ہے۔
لہذا اے مسلمانوں! ضروری ہے کہ آپ کے اخلاق اچھے، نیک اور کریمانہ ہوں۔ ایذا رسانی اور جارحیت سے پرہیز کرو، لوگوں کی سختی اور ان کے برے برتاؤ پر صبر کرو، ان کی تمام غلطیوں اور رنجشوں کو کشادہ دلی سے برداشت کرو۔ یوں تم غصے کو پی جاؤ گے، کوتاہی کو معاف کردو گے اور لغزش کو بخش دو گے، غلطی معاف کردو گے، عذر قبول کرو گے، شریفانہ درگزر سے کام لو گے اور تمہارے مسلمان بھائی تمہاری زبان کی تکلیف سے محفوظ اور تمہارے ہاتھ کی زیادتی سے مامون رہیں گے۔ اللہ کے بندوں! عظیم اخلاق ہدایت اور لوگوں کے درمیان اصلاح کے اصولوں میں سے ایک عظیم اصول ہے اور دیگر نفسیاتی مکارم اس کے تحت آتے ہیں۔ تمام اخلاقی فضائل اس کے تحت آتے ہیں جیسے عفت، امانت، وفاداری، صدق ، سخاوت، حیا، شجاعت، آپسی رحم دلی اور اخوت یہ ساری چیزیں اخلاق میں شامل ہیں۔ حیا اچھے اخلاق میں سب سے افضل ہے کیونکہ یہ فضائل کی اصل اور خیر و ایمان کا محرک ہے، شرعی نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ایمان اور حیا سے آراستہ ہوا جائے اور فحاشی اور برے اخلاق سے دور رہا جائے ۔
رسول اللہ ( ﷺ ) نے فرمایا: حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان کا ٹھکانہ جنت ہے اور بد کلامی بد اخلاقی کا حصہ ہے اور بد اخلاقی کا ٹھکانہ جہنم ہے
(ترمذی، احمد اور ابن حبان نے اسے روایت کیا ہے )
حیا کا مطلب قبیح چیز سے رکنا اور ان چیزوں سے پرہیز کرنا جو حلال یا جائز نہیں اور یہ انسان کی ان خصوصیات میں سے ہے جو اسے حیوانوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ لوگوں میں جو حیا اختیار کرنے اور اس پر کاربند رہنے کا سب سے زیادہ سزوار ہے وہ مسلمان عورت ہے۔ حیا مسلمان عورت کا تاج، اس کا ناقابل تسخیر قلعہ اور اس کی مضبوط باڑ ہے۔ اے مسلمان عورت! تمہارے لیے گذشتہ لوگوں اور سلف صالحین میں اچھا نمونہ ہے ۔
مومنوں کی ماں عائشہ رضی اللہ جو رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں انہوں نے کہا: میں اپنے اس گھر میں داخل ہوتی تھی جس میں رسول اللہ ﷺ اور میرے والد مدفون تھے تو میں بلا روک ٹوک دوپٹہ وغیرہ اتار لیتی تھی اور کہتی تھی یہ میرے شوہر اور والد ہیں اور جب عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ دفن کیا گیا تو اللہ کی قسم میں اپنے گھر میں عمر رضی اللہ عنہ سے شرم کرتے ہوئے کپڑے باندھ کر داخل ہوتی تھی۔ یہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کی حالت ہے کہ ان کے گھر میں نبی (ﷺ) اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ بھی مدفون ہیں، ان کی وجہ سے دوپٹہ باندھے رکھتی تھیں حالانکہ وہ وفات پا چکے تھے رضی اللہ عنھم وارضاھم ۔
ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو حیاء، حجاب و عفت اور پردہ پوشی کا حکم دے اور اچھی بات اور شائستہ طریقے سے ان اخلاق کو ان کے نزدیک محبوب بنائے تاکہ اللہ کی رضا اور ثواب حاصل ہو کیونکہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم سب سے اس کے ماتحت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اے مسلمانوں! اسلام اچھے اخلاق کی ترغیب دیتا ہے ، اچھا اخلاق نام ہے کشادہ روی، خندہ پیشانی، سیدھی اور صاف زبان، حرام کاموں سے اجتناب، باعزت کاموں کی بجا آوری ، سینے کی کشادگی ، قوت برداشت اور صبر کا ۔
آپﷺ نے فرمایا: سارے لوگوں کو تم اپنے مال میں شامل نہیں کرسکتے لیکن تمہاری کشادہ روی اور اچھا اخلاق سب کو شامل ہو ۔ اسے طبرانی اور حاکم اور بیھقی نے روایت کیا ہے۔
اس زمانے میں اخلاق بگڑ گئے، ناچاکی اور نفاق پھیل گیا، برائی اور گناہ بڑھ گئے، فحاشی اور بد زبانی زیادہ ہوگئی، ایمان اور حیا میں کمزوری آگئی، لوگ غداری اور خیانت سے کام لینے لگے، ان کے درمیان ہمدردی اور بھائی چارے کے رابطے ٹوٹ گئے، ازدواجی تعلقات اور خاندانی رشتے بگڑ گئے ہیں ۔ اس کا سبب برے اخلاق، غلط تربیت اور شھوت و مادیت کی کھائی میں نفسوں کا گر جانا ہے۔ اللہ کے بندوں! بد خلقی شر اور قابل مذمت صفت اور قبیح ترین عیب ہے۔ چنانچہ یہ معاشرے اور لوگوں پر پھیلی ہوئی برائی ہے اور زندگی میں یقینی نحوست ہے۔ یہ اعمال کو برباد کردیتی ہے۔ گناہ کی طرف گھسیٹتی ہے۔ شرافت و شجاعت، سخاوت کی صفات کو نیست و نابود کرتی ہے۔ بد اخلاق کو شر اور غضب تک جلد پہنچا دیتی ہے اور اسے ایذا رسانی اور جارہیت میں دھکیل دیتی ہے۔ انسان کو ایسے اخلاق سے آراستہ ہونا چاہیئے جو عزت و سربلندی کے باعث بنیں، مکارم کے حصول پر توجہ دینا چاہیئے، ہمت، عزم اور ایمان کے ساتھ بلند امور کے حصول میں کوشاں ہونا چاہیئے اور اپنے نفس کی تربیت، حسن اخلاق، شفاف طبیعت اور دل و ضمیر کی تزکیہ پر کرنا چاہیئے ۔
رسول اللہ ( ﷺ ) نے فرمایا: میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں اور میرے نزدیک تم میں سب سے قابل نفرت اور قیامت کے دن مجھ سے دور بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو باتونی، بلااحتیاط بولنے والے، پرتکلف باتیں کرنے والے اور تکبر کرنے والے ہیں ۔ میرے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اچھے اخلاق والے ہیں ۔
پس اے مسلمانوں! اللہ سے ڈرو، مکارم اخلاق سے آراستہ ہو جاؤ ، برے اخلاق سے بچو، اگر تم ایسا کروگے تو نبی کی سنت کو پا جاؤ گے اور تمہیں دنیا و آخرت کی سعادت ملے گی۔ اللہ مجھے اور آپ کو اچھے کاموں کی توفیق بخشے اور ہمیں اور آپ کو سچا قول و فعل عطا فرمائے اور ہمیں برے اخلاق و اعمال اور خواہشات و بیماری سے محفوظ رکھے ،میں اللہ سے اپنے اور آپ کے لیئے اور تمام مسلمانوں کے لیئے ہر گناہ سے بخشش مانگتا ہوں۔ اس سے استغفار کرو اور اس سے توبہ کرو۔ بیشک وہ بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے ۔
دوسرا خطبہ
تمام حمد اللہ ہی کے لیئے ہے، بہت زیادہ پاک اور برکت والی حمد جیسا کہ ہمارا رب پسند کرتا ہے اور راضی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ درود نازل ہو ان پر اور ان کےآل و اصحاب پر بہت زیادہ سلامتی ہو۔
اللہ تعالیٰ کا کما حقہ تقوی اختیار کرو۔ اسلام کی کڑی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو ۔ اور جان لو متقیوں کے عظیم اخلاق میں سے تمام خطاؤں سے توبہ و استغفار کرنا ہے۔
اللہ نے فرمایا: جب ان سے کوئی نا شائستہ کام ہوجائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فورا اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیئے استغفار کرتے ہیں۔ فی الواقع اللہ تعالی کے سوا کون گناہوں کو بخش سکتا ہے اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے۔ ان کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنت ہے۔
اے مسلمانوں! دعوت کے راستے پر چلتے ہوئے ہمیں کس قدر اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں اپنا اور اپنے طرزعمل کا جائزہ لیں اور اپنی اخلاقی حالت پر غور کریں اور جان لیں کہ اخلاق کے بغیر عبادت روح کے بغیر ایک جسم ہے اور اس عبادت گذار شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو برے اخلاق والا ہو۔ اسی طرح اچھے اخلاق والے شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو عبادت میں برا ہو بلکہ تمام بھلائیاں دونوں کے اکھٹا ہونے میں ہیں ۔
پس اے مسلمانوں! اللہ سے ڈرو۔ اچھی عبادت کو اچھے اخلاق کے ساتھ جمع کرو ۔ تم دنیا و آخرت میں سعادت اور کامیابی سے سرفراز ہوگے اور زیادہ سے زیادہ دورد و سلام بھیجو اس ہستی پر جس کی طرف قیامت کے عظیم موقف میں مخلوقات رجوع کریں گی ۔ ہمارے نبی، ہمارے شفیع محمدﷺ پر اللہ درود و سلام نازل کرے۔ آپ پر اور آپ کی آل پر۔ اے اللہ! ہدایت یافتہ خلفاۓ راشدین اور تمام صحابہ و تابعین سے راضی ہو جا اور قیامت تک ان کی اچھے سے پیروی کرنے والے سے۔ ان کی محبت سے ہمیں فائدہ پہنچا اور اے اللہ! ہمیں ان کے گروہ میں جمع کر اور ان کی سنتوں سے ہمیں منحرف نہ کر۔ اے اکرم الاکرمین۔ اے اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کی مدد فرما۔ اپنے فضل و کرم سے کلمہ حق اور دین کو بلند فرما۔ ہمارے امام اور ولی امر خادم حرمین شرفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کو توفیق و درستگی عطا فرما۔ اے اللہ! اپنی عزت و جلال سے رعایا کے امور پر ان کی نصرت و مدد کر، ان کے ذریعے اسلام کا پرچہ بلند فرما۔ ان کے ولی عہد شھزادہ محمد بن سلمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ کے ذریعے ان کی تائید کر۔ تمام مسلمان حکمرانوں کو ان چیزوں کی توفیق دے جن میں وطن کے لیئے عباد و بلاد کی بھلائی ہو۔ اے اللہ! ہمارے ملک اور تمام مسلم ممالک پر پردہ ڈال دے۔ اے اللہ! دشمنوں کے خلاف ہمارے مومن بھائیوں کو کلمہ حق اور دین کے دشمنوں پر ہر جگہ غلبہ عطا فرما ۔ اے ہمارے مولا! مسلمانوں کو متحد کردے، ان کے دلوں کو حق پر جوڑ دے اور باطل کو بھجا دے اور مومنوں کو اپنے فضل و کرم سے فتح عطا فرما ۔ہماری توبہ قبول فرما لے تو سننے والا جاننے والا ہے ۔
سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۔ وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَ۔ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔
خطبة الجمعة، مسجد الحرام
فضیلۃ الشیخ: د۔ عبداللہ بن عواد الجھنی حفظہ اللہ تعالی
16 جمادی الاخری 1445 بمطابق 29 دسمبر 2023