یکم محرم یومِ شہادتِ سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ
یکم محرم خلیفہ دوم، رسول الله ﷺ کے سسر حضرت عمر، فاروق رضی اللہ عنہ کا یومِ شہادت ہے اور افسوس کی بات ہے کہ محرم کی آمد کے ساتھ محلوں ، گلیوں ، کوچوں ، چوراہوں اور بازاروں میں حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا نام لے کر ان لوگوں پر طعن و تشنیع کے تیر چھوڑے جاتے ہیں جن کا اس واقعہ کے ساتھ دُور دُور تک کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اس واقعے کے رونما ہونے سے نصف صدی پہلے اس کائنات سے رخصت ہو چکے تھے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اس واقعے سے چالیس برس پہلے اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اس واقعہ سے انچاس برس پہلے رخصت ہو چکے تھے۔ حضرت عثمان ذو النورین رضی اللہ تعالی عنہ کربلا کے اس واقعے سے تیس سال پہلے اپنے رب کے پاس جا چکے تھے۔ طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف، ابو عبیدہ ابن جراح، سعد ابن ابی وقاص ،خالد ابن ولید حتی کہ امیر معاویہ رضوان اللہ علیھم اجمعین وہ بھی جب یہ واقعہ رونما ہوا ہے اس کائنات میں موجود نہیں تھے۔
اور پھر لوگوں کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اہل، بیت کے اصلی پیروکار ہیں اور مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے حق کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ چنانچہ درجِ ذیل سطور میں مختصرً ا یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ کیا شیعہ واقعی اہلِ بیت سے محبت کے دعوی میں سچے ہیں ؟ کیا شیعہ اہلِ بیت کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتے ہیں ؟ کیا شیعہ واقعی اہلِ بیت کی اطاعت کرتے ہیں ؟ کیا شیعہ اہلِ بیت کے احکامات اور تعلیمات پر عمل کرتے ہیں ؟ کیا شیعہ اہلِ بیت کے اقوال اور خیالات کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں ؟ ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کے لئے شیعہ حضرات کے مستند کتابوں سے حضرت عمر کے فضائل و مناقب پر مشتمل یہ چند سطور قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں ۔
نام و نسب :
عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوّیٰ بن فہربن مالک۔1
آپ کا لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب و کنیت دونوں محمدﷺ کے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسولِ اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ آپ ﷺ کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ ﷺمرہ کی اولاد میں سے ہیں جبکہ عمر عدی کی اولاد میں سے ہیں۔2 حضرت عمر کا خاندان ایامِ جاہلیت سے نہایت ممتاز تھا۔ آپ کے جدِ اعلیٰ عدی عرب کے باہمی منازعات میں ثالث مقرر ہوا کرتے تھے اور قریش کو کسی قبیلے کے ساتھ کوئی ملکی معاملہ پیش آ جاتا تو سفیر بن کر جایا کرتے تھے۔3
ولادت:
شیعہ مجتہد ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں :
ولد عمر فی مكة بعد عام الفيل بثلاثة عشرة سنة
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں عامُ الفیل کے تیرہ سال بعد پیدا ہوئے۔4
كنيت:
حضرت عمر کی کنیت أبو حفص اور آپ کے والد کا نام الخطاب بن نُفَيل تها جو خاندانِ قریش سے تعلق رکھتے تھے۔5
والدہ :
والدہ کا نام خنتمہ تھا جو عرب کے مشہور سردار ہشام بن مغیرہ کی بیٹی تھیں۔6
حضرت عمر كا قبولِ اسلام
قریش کے سر بر آوردہ اشخاص میں ابو جہل اور عمر اور بہادری میں سب سے مشہور تھے اس لیے نبی کریم ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی دونوں کے لیے اسلام کی دعا فرمائی :
اللَّهمَّ أعزَّ الإسلامَ بأحبِّ هذينِ الرَّجُلَيْنِ إليكَ بأبي جَهْلٍ أو بعُمرَ بنِ الخطَّابِ قالَ: وَكانَ أحبَّهما إليهِ عمرُ7
حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی : اے اﷲ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں میں اللہ کو محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے ۔
اس دعائے مستجاب کا اثر یہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد عمر کا دامن دولتِ ایمان سے بھر گیا اور اسلام کا یہ سب سے بڑا دشمن اس کا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا جاں نثار بن گیا۔
ملا باقرمجلسی نے بھی اپنی کتاب میں محمد باقر سے اس دعا کی روایت نقل کی ہے۔8
مشہور شیعہ مؤرخ مسعودی لکھتے ہیں :
اعتنق عمر للإسلام بعد إسلام 45 رجلا و11 امرأة، في سنة 6 أو 9 للبعثة النبوية9
یعنی حضرت عمرؓ نے نبوت کے چھٹے یا نویں سال اسلام قبول کیا۔ آپؓ سے پہلے 45 مرد اور 11 خواتین اسلام قبول کر چکی تھیں۔
صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعے کے بیان میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے یہ الفاظ موجود ہیں:”حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ مشرکین بکثرت ان کے مکان پرجمع ہو گئے اور کہنے لگے “صبا عمر” عمر بے دین ہو گئے. حضرت عمرؓ خوف زدہ گھر کے اندر تھے اور میں مکان کی چھت پر تھا۔10
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ بنے۔ تقریباً 11 سالہ دورِ حکومت میں حضرت عمر نے اسلامی سلطنت کا دائرہ 22 لاکھ مربع میل تک پھیلا دیا۔ آپ کے دورِ حکومت میں ہی پہلی بار مسلمانوں نے بغیر لڑائی کے یروشلم کو فتح کیا۔11
دین اسلام کا غلبہ اسلام ِ عمر ؓ میں
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے دینِ اسلام ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ اگرچہ حضرت عمرؓ سے قبل عرب کے مشہور بہادر حضرت امیر حمزہ ؓ بھی مسلمان ہو چکے تھے مگر مسلمان اپنے فرائضِ مذہبی اعلانیہ طور پر ادا نہیں کر سکتے تھے۔ اسلامِ عمر ؓ کے بعد حالات یکسر بدل گئے اور مسلمانوں نے بیت اللہ میں جا کر نماز ادا کی ۔
چنانچہ شیعہ مجتہد اپنی کتاب ’’غزواتِ حیدری‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ جب دروازہ کھلا تو عمر ؓ بصدِ عذر خواہی خدمتِ رسالت پناہی میں حاضر ہوا ۔ حضرت نے بعد از تلقینِ مراتب ِاسلام اُس کو مرحباً کہا اور باعزاز پاس اپنے بٹھایا تب حضرت عمرؓ نے عرض کی: یا نبی اللہ ! اب ہم کو اجازت دیجئے اور بے تکلف فرمایئے تاکہ حرمِ محترم میں جا کر آشکارا نماز پڑھیں اور اطاعتِ الہی بجماعت بجا لاویں ۔ ہرگاہ اصحابِ فضیلت انتساب نے جماعت پر اتفاق کیا ۔ محبوبِ ایزد خلّاق نے بھی شاداں و فرحاں طرفِ سجدہ گاہ آفاق کے قدم رنجہ فرمایا اور آگے سب کے عمرؓ تیغِ بکمر بجماعت وافر اور پیچھے اصحاب بصدِ کرّ وفرّ ہنستے اور باتیں کرتے بے خطر داخلِ خانہ وارد ہوئے ۔ یکبار جدارِ حرم نے بصدِ افتخار سر اپنا بعرشِ کود گار پہنچایا۔ کفارِ نا ہنجار نے جس وقت یہ حال دیکھا اور جاہ و جلال یاورانِ نیک افعال کا اس مرتبہ مشاہدہ کیا اور اس خود سر نے عمرؓ کے آگے کہا کہ ’’ اے عمر ؓ یہ کیا فتنہ دگر ہے اور اس گروہ پُرشکوہ میں کیوں تیغِ بکمر ہے ؟ عمر ؓ نے یہ بات سن کر پہلے اپنا اسلام ظاہر کیا اور بصدِ طیش کہا : ’’ اے نابکار، ہفوت شعار، اگر تم میں سے ایک نے بھی اس وقت اپنی جگہ سے حرکت کی یا کوئی بات بے جا زبان پر آئی بخدا لایزال ایک کا سر بھی بدن پر نہ ہوگا ‘‘ پس دلاورانِ دین، اصحابِ سیدُ المرسلین مسجد میں آئے اور صفِ اسلام کو نبیتِ اقتداء جما کر برابر کھڑے ہوگئے ۔ خطیبِ مسجد اقصیٰ حبیبِ کبریا ﷺ نے قصدِ امامت کیا اور واسطے نیت ِنماز کے دست تا بگوش پہنچایا ۔
نبی گفت تکبیر چوں در حرم
فتادند اصنام بر رُوئے ہم
اور اہلِ شریر ہر چند دیکھتے تھے لیکن کسی کو مجالِ مقاومت نہ تھی۔12
مناقبِ عمر رضی اللہ عنہ از مصادرِ شیعہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مدح
جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ جناب فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں :
لِلهِ بِلَاد فُلَانٍ ، فَقَدْ قَوَّمَ الْأَوَدَ، وَدَاوَي الْعَمَدَ ، وَأَقَامَ السُّنَّةَ وَخَلَّفَ الْفِتْنَةَ، ذَهَبَ نَقِيَّ الثَّوْبِ ، قَلِيلَ الْعَيْبِ ، أَصَابَ خَيْرَهَا وَسَبَقَ شَرَّهَا ، أَدَّي إِلَي اللهِ طَاعَتَهُ وَاتَّقَاهُ بِحَقِّهِ13
“فلاں آدمی تعریف کے مستحق ہے کہ اس نے ٹیڑهے پن کو سیدھا کیا، مرض کو دور کر دیا ، فتنہ کو پیچھے چھوڑ دیا ، سنت کو قائم کیا، بہت کم عیوب والا تھا ، پاک دامن رخصت ہوا ، شر سے اجتناب کیا ، خیر کو پا لیا ، اللہ کی اطاعت کا حق ادا کر دیا، اس کے حق کو ادا کرنے میں ہمیشہ تقوی سے کام لیا۔
نہج البلاغہ کے شارح ابن ابی الحدید کہتے ہیں :
’’وفلان المكنّى عنه ، عمر بن الخطاب، وقد وجدت النسخة التي بخّط الرضي أبي الحسن جامع نهج البلاغة وتحت فلان: عمر، وسألت عنه النقيب أبا جعفر يحيى ابن زيد العلوي، فقال لي: هو عمر، فقلت له : أثنى عليه أمير المؤمنين ؟ فقال: نعم)14
یعنی یہاں فلاں آدمی سے مراد عمر بن خطاب ہیں۔ مجھے رضی ابو الحسن کے ہاتھوں کا لکھا ہوا نہج البلاغہ کا نسخہ مل گیا اس میں فلاں کے تحت عمرؓ لکھا ہوا تھا۔ میں نے اس کے بارے میں ابو جعفر یحیٰ بن ابی زید علوی سے پوچھا تو اس نے مجھ سے کہا : فلاں سے مراد عمر ؓ ہیں۔ میں نے پوچھا: پھر تو امیرُ المؤمنین نے عمر کی تعریف کی ہے ؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں۔ امیرُ المؤمنین نے عمرؓ کی تعریف کی ہے
حضرت عمر ؓکو غزوۂں روم میں شریک نہ ہونے کا مشورہ
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ حضرت فاروقں اعظم ؓ کو اسلام کی قرار گاہ ، مرکز اور مسلمانوں کی جائے پناہ سمجھتے تھے چنانچہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غزوہِ روم میں جانے کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا تو آپ ؓ نے حضرت عمر ؓ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
إنك متى تسر إلى هذا العدو بنفسك، فتلقهم فتنكب، لا تكن للمسلمين كانفة دون أقصى بلادهم. ليس بعدك مرجع يرجعون إليه، فابعث إليهم رجلاً محرباً، واحفز معه أهل البلاء والنصيحة، فإن أظهر الله فذاك ما تحب، وإن تكن الأخرى، كنت ردأ للناس ومثابة للمسلمين”15
اگر آپ بنفسِ نفیس دشمن كی طرف چلے گئے تو آپ اپنے مركز سے دور ہو جائیں گے ۔ مسلمانوں كے دوسرے شہروں كا محافط و نگہبان كوئی نہیں رہے گا ، آپ كے بعد كوئی نہیں جس كی طرف مسلمان جائیں ، آپ دشمن كی طرف كسی اور جنگجو كو قائد بنا كر بهیج دیجیئے ۔ ان كے ساتھ شجاع اور نصیحت قبول كرنے والواں كو روانہ كر دیجئے اگر الله نے انہیں غلبہ دیا تو یہی آپ كی منشا ہے۔ بصورتِ دیگر آپ لوگوں كو سہارا دینے والے اور مسلمانوں كی جائے پناه ہوں گے۔
حضرت عمر ؓکو جنگِ فارس میں نہ جانے کا مشورہ
جنگِ فارس میں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود لڑائی میں جانے کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ فرماتے ہوئے روک دیا :
وعندما استشاره عمر بن الخطاب رضي الله عنه في الشخوص لقتال الفرس بنفسه، قال الإمام علي عليه السلام: «إن هذا الأمر لم يكن نصره ولا خذلانه بكثرة ولا قلة، وهو دين الله الذي أظهره، وجنده الذي أعده وأمده، حتى بلغ ما بلغ، وطلع حيث طلع، ونحن على موعود من الله، والله منجز وعده وناصر جنده، والعرب اليوم -وإن كانوا قليلاً، فهم- كثيرون بالإسلام، وعزيزون بالاجتماع، فكن قطباً، واستدر الرّحى بالعرب، وأصلهم دونك نار الحرب، فإنك إن شخصت – أي خرجت – من هذه الأرض انتقضت عليك العرب من أطرافها وأقطارها، حتى يكون ما تدع وراءك من العورات أهمّ إليك مما بين يديك. إن الأعاجم إن ينظروا إليك غداً يقولوا: هذا أصل العرب فإذا قطعتموه استرحتم، فيكون ذلك أشد لكَلَبِهم عليك، وطمعهم فيك»16
ایسے امور میں فتح و شکست کا دار و مدار قلت و کثرت پر نہیں ہوتا۔ یہ اللہ کا دین ہے اسی نے اسے غالب کیا ہے۔ یہ اللہ کا لشکر ہے اسی نے اسے آمادہ و تیار کر لیا ہے جو پہنچ چکا سو پہنچ چکا ، جو ظاہر ہوچکا سو ظاہر ہوچکا۔ ہمارے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالٰ اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے۔ وہی اپنے لشکر کو کامرانی بخشنے والا ہے۔ نگران کا کام موتیوں کی لڑی جیسا ہے جو سب موتیوں کو پرو لیتی اور جمع رکھتی ہے ۔ اگر لڑی ٹوٹ جائے تو موتی بکھر جاتے ہیں ( یعنی قوموں کا نظم و ضبط تباہ ہو جاتا ہے ) پھر ان سب كو کبھی ایک رُخ پر جمع نہیں کیا جاسکتا۔ آج عرب اگرچہ تھوڑے ہیں لیکن اسلام کی برکت سے بہت ہیں۔ آج سب عرب اجتماع چاہتے ہیں آپ قائد بنیں، عرب کو اپنے گرد جمع کر لیں ، جنگ کی آگ میں دوسروں کو جانے دیں۔ اگر آپ نے یہ جگہ چھوڑ دی تو عرب کے اطراف و اکناف میں بغاوتیں اٹھ کھڑی ہوں گی۔ آپ اپنے پیچھے جن خطرات کو چھوڑ کر جائیں گے وہ پیش آمدہ خطرے سے زیادہ اہم اور توجہ کے قابل ہیں ۔ کل جب عجمی آپ کو دیکھیں گے تو کہیں گے: یہی عرب کی بنیاد اور جڑ ہے۔ اگر تم اسے کاٹ ڈالو تو آرام پا جاؤ گے۔ وہ سب جمع ہو کر آپ پر ٹوٹ پڑیں گے، آپ کے درپے ہو جائیں گے ۔ باقی آپ نے جو ذکر کیا ہے کہ دشمن مسلمانوں سے جنگ و قتال کے لیے نکل پڑا ہے ۔
خلاصہ
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی کو حضرت عمر ؓکی زندگی نہایت عزیز تھی اس لیے ایسے نازک موقع پر آپ ؓ نے صائب مشورہ دیا کیونکہ کوئی بھی نا مناسب مشورہ مسلمانوں کے لیے بڑی مصیبت کا باعث ہو سکتا تھا مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امانت سمجھ کر دیانت داری کے ساتھ مسلمانوں کے مفادِ عامہ کے مطابق مشورہ دیا ۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا حضرت عمرؓ کی مدح
اہلِ بیت کے مشہور ترین اور ممتاز فرد نبی علیہ السلام کے چچا زاد بھائی حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما آپ رضی اللہ عنہ کی مدح و ثنا کرتے ہوئے کہتے ہیں:
رحم الله أبا حفص كان والله حليف الإسلام، ومأوى الأيتام، ومنتهى الإحسان، ومحل الإيمان، وكهف الضعفاء، ومعقل الحنفاء، وقام بحق الله صابراً محتسباً حتى أوضح الدين، وفتح البلاد، وآمن العباد”17
’’اللہ ابو حفص (حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے والد عمررضی اللہ عنہ) پر رحم کرے۔ اللہ کی قسم وہ اسلام کے حلیف تھے، یتیموں کی جائے قرار تھے، احسان کرنا آپ پر ختم تھا، صاحبِ ایمان تھے، کمزوروں کی جائے پناہ اور موحدین کا سہارا تھے، آپ نے اللہ کے حق کو صبر اور ذمہ داری سے پورا کیا حتی کہ دین نکھر گیا، ممالک فتح کر لیے گئے اور بندوں کو امن نصیب ہوا۔‘‘
امت کے افضل ترین لوگ
شیعہ کی ایک مشہور کتاب میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان منقول ہے:
إن خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر وعمر18
کہ اس امت میں نبی ﷺ کے بعد بہترین لوگ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔
کوڑوں کی سزا
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے منبر پر لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
لو أوتي برجل يفضلني على أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري19
اگر میرے پاس کوئی ایسا شخص لایا گیا جو مجھے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس پر حدِ قذف لاگو کروں گا۔
ابو بکرؓ میری سماعت اور عمرؓ میری بصارت
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إن أبا بكر مني بمنزلة السمع، وإن عمر مني بمنزلة البصر20
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابو بکررضی اللہ عنہ کا درجہ میرے نزدیک ایسا ہے کہ گویا یہ میری سماعت ہیں اور عمر رضی اللہ عنہ کا درجہ میرے ہاں ایسا ہے کہ گویا میری بصارت ہیں۔
ابو بکر ؓ و عمر سے بغض رکھنا کفر ہے
مشہور شیعہ محقق و عالم ابو عمرو محمد بن عبد العزیز الکشی بیان کرتے ہیں :
’’ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے کہا: مجھے سفیان ثوری محمد بن المنکدر کے حوالے سے یہ روایت بیان کی کہ حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ میں منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: اگر میرے پاس ایسا شخص لایا گیا جو مجھے ابو بکر ؓ اور عمرؓ پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور سزا دوں گا جو بہتان لگانے والے کو دی جاتی ہے۔ ابو عبد اللہ نے کہا: ہمیں مزید حدیث بیان کریں تو سفیان نے جعفر کے حوالے سے بیان کیا : ابو بکر ؓ اور عمر ؓسے محبت رکھنا ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے۔21
حضرت عمر رضی الله عنہ كو كن وجوہات كی بنا پر فضیلت ہے
ساتویں ہجری کے معروف بزرگ شیخ ابن أبی الحدید لکھتے ہیں :
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضرت عمر ؓکو جن وجوہات کی بنا پر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے ان میں سےایک سبب یہ ہے کہ قرآنِ کریم نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں حضرت عمر ؓکی رائے کی توثیق ان کلمات میں فرمائی :
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ
سورۃ الانفال – 67
کسی نبی کے لیے یہ لائق نہیں کہ اس کے قبضہ میں قیدی ہوں حتی کہ وہ زمین میں ( کافروں کا ) اچھی طرح خون بہا دے ‘‘ ۔
ان کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج کے حجاب کے متعلق ان کی رائے کے موافق یہ آیت نازل ہوئی :
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ
الاحزاب – 53
اور جب تم نبی ﷺ کی ازواج سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے پیچھےسے مانگو۔ ایسا کرنے سے تمہارے اور ان کے دل زیادہ پاکیزہ رہیں گے۔
ان کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے اسلام لانے کی دعا کی: اے اللہ ! ابنِ ہشام یا عمر بنِ خطاب میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔22
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی اسی دعائے مستجاب کی برکت سے حضرت عمر ؓ ایمان لائے اسی لیے آپ ؓ کو مرادِ رسول ﷺ کہا جاتا ہے۔
شارحِ نہجُ البلاغہ ابنِ ابی الحدید کہتے ہیں کہ: فلاں شخص سے حضرت عمر ؓکی ذات مراد ہے۔23
نہج البلاغہ کے اردو مترجم رئیس احمد جعفری کہتے ہیں کہ یہ خطبہ حضرت عمر کے متعلق ہے۔24
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی گواہی
مِسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓ قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے تو وہ بہت بے قرار تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا: امیر المؤمنین پریشانی والی کوئی بات نہیں آپؓ رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے ، آپؓ نے نبی ﷺ کی صحبت اچھی طرح نبھائی پھر رسول اللہ ﷺ رضامندی کی حالت میں آپؓ سے رخصت ہوئے پھر آپ حضرت ابو بکر ؓکی صحبت میں رہے اور آپؓ نے ان کی صحبت اچھی طرح نبھائی وہ بھی آپؓ سے راضی ہو کر رخصت ہوئے پھر آپ مسلمانوں کے ساتھ رہے آپ نے ان کا اچھا ساتھ نبھایا اور اب آپ ان سے اس حال میں رخصت ہو رہے ہیں کہ وہ آپ سے راضی ہیں ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: آپ نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کی صحبت کا ذکر کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے کہ جو آپ میری بے قراری دیکھ رہے ہیں تو بخدا اگر میرے پاس تمام روئے زمین کے برابر سونا ہوتا تو میں اس کو اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے دے دیتا۔ ایک روایت میں ہے : حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا: امیر المؤمنین آپ کیوں گھبراتے ہیں بخدا آپ کا اسلام لانا مسلمانوں کا غلبہ تھا ، آپ کی حکمت مسلمانوں کی فتح تھی ، آپ نے روئے زمین کو عدل سے بھر دیا ۔ حضرت عمرؓ نے کہا : ابنِ عباس ! کیا تم اس کی گواہی دیتے ہو ؟ حضرت ابنِ عباس نے توقف کیا تو حضرت علی ؓ نے فرمایا: کہو ہاں ! میں بھی تمہارے ساتھ گواہی دیتا ہوں پھر انہوں نے فرمایا: ہاں! میں گواہی دیتا ہوں۔25
عمر رضی اللہ عنہ محبوب شخصیت
شیعہ حضرات کے امام محمد بن باقر بیان كرتے ہیں كہ حضرت جابر بن عبد الله ؓنے بیان كیا:
لما غسل عمر وكفن دخل علي عليه السلام فقال: ما على الأرض أحد أحب إلي أن ألقى الله بصحيفته من هذا المسجى(أي المكفون) بين أظهركم26
جب شہادت كے بعد حضرت عمر ؓ كو غسل دے كر كفن پہنایا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمانے لگے : ان پر الله تعالیٰ كی رحمت ہو میرے نزدیك تم میں سے كوئی شخص ان سے زیاده محبوب نہیں كہ میں ان جیسا نامہ اعمال لے كر بارگاهِ الہی میں حاضر ہوں۔
الہامی اور پاکیزہ نفس والے شخص
علامہ باقر مجلسی نے اپنی کتاب میں حضرت ابو بکر و عمر کی تعریف میں امیرُ المومنین علیہ السلام کے ارشادات کی چند مثالیں نقل کی ہیں۔ لکھتے ہیں :
«فاستخلف الناس أبابكر ثم استخلف أبوبكر عمر، فأحسنا السيرة و عدلا في الأمة … »27
یعنی لوگوں نے ابو بکرؓ کو جانشین مقرر کیا پھر ابو بکرؓ نے عمرؓ کو جانشین بنایا چنانچہ ان دونوں نے امت کے اندر عمدہ اخلاق کا نمونہ پش کیا اور عدل و انصاف قائم کیا۔
و قال أیضا: «فتولی ابوبکر تلک الأمور ، و سدّد و یسّر ، و قارب و اقتصد … و تولی عمر الأمر فکان مرضی السیرة میمون النقیبة»28
امیر المؤمنین نے یہ بھی فرمایا کہ پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام امور اپنی نگرانی میں لے لیے اور سب امور آسانی، درستگی، میانہ روی اور عمدہ طریقے پر سرانجام دینے لگے پھر عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے. آپ پسندیدہ سیرت اور پاکیزہ نفس والے شخص تھے۔
ابو بکرؓ و عمرؓ سے محبت کا حکم
شیعہ حضرات کے چھٹے امامِ معصوم جعفر بن محمد نہ صرف شیخین یعنی ابو بکر و عمر سے محبت رکھتے تھے بلکہ محبت کی وجہ سے آپ دونوں کے احکامات کی تعمیل بھی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ابو بصیر بیان کرتا ہے کہ:
كنت جالساً عند أبي عبد الله عليه السلام إذ دخلت علينا أم خالد التي كان قطعها يوسف بن عمر تستأذن عليه. فقال أبو عبد الله عليه السلام: أيسرّك أن تسمع كلامها؟ قال: فقلت: نعم، قال: فأذن لها. قال: وأجلسني على الطنفسة، قال: ثم دخلت فتكلمت فإذا امرأة بليغة، فسألته عنهما (أي أبي بكر وعمر) فقال لها: توليهما، قالت: فأقول لربي إذا لقيته: إنك أمرتني بولايتهما؟ قال: نعم”29
’’میں ابوعبداللہ علیہ السلام کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک عورت امِ خالد جسے یوسف بن عمر نے علیحدہ کر دیا تھا وه آئی اور آپ کے پاس آنے کی اجازت مانگنے لگی۔ ابو عبداللہ علیہ السلام نے کہا: اس کی باتیں سننا چاہتے ہو؟ میں نے کہا ہاں! کہنے لگے کہ پھر اسے اجازت دے دو۔ اور مجھے آپ نے چٹائی پر بٹھا لیا پھر وہ آئی اور گفتگو شروع کی۔ وہ نہایت فصیح و بلیغ انداز میں گفتگو کر رہی تھی۔ میں نے ابو عبداللہ سے ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا آپ نے اس عورت سے کہا: ان دونوں سے محبت رکھو کہنے لگی: میں جب اپنے رب سے ملوں گی تو کہوں گی تُو نے مجھے ان دونوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے؟ ابو عبداللہ نے کہا: ہاں۔‘‘
عمر رضی اللہ عنہ کی تابعداری
حضرت علی رضی اللہ عنہ اچھی طرح جانتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکی روایات کے بہت بڑے محدث ہیں اس لیے آپ چھوٹے چھوٹے اور معمولی و غیر اہم کاموں میں بھی آپ کی سیرت و عمل کی مخالفت نہیں کیا کرتے تھے۔ شیعہ مصنف دینوری بیان کرتا ہے کہ :
وعندما نزل الإمام علي عليه السلام الكوفة، فقيل له: يا أمير المؤمنين، أتنزلُ القصر؟، قال: “لا حاجة لي في نزوله، لأنَّ عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان يبغضُه، ولكنِّي نازل الرحبة”، ثم أقبل حتى دخل المسجد الأعظم، فصلَّى ركعتين، ثم نزل الرحبة30
جب علی رضی اللہ عنہ کوفہ آئے تو ’’آپ سے پوچھا گیا، یا امیر المومنین! کیا آپ محل میں ٹھہریں گے؟ آپ نے کہا: مجھے وہاں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں جسے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ناپسند کرتے تھے۔ میں کھلے میدان میں ٹھہروں گا پھر آپ سب سے بڑی مسجد میں گئے، دو رکعت نماز ادا کی اور اس کے بعد کھلے میدان میں ٹھہرے۔ .
خلافتِ عمر رضی اللہ عنہ کی پیشن گوئی
خود نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے متعلق اللہ تعالی کی طرف سے خوشخبری سنا دی تھی جو شیعہ کی مختلف کتابوں سے ثابت ہے۔ چنانچہ شیعہ تفسیرِ قمی ، مجمعُ البیان اور تفسیرِ صافی میں موجود ہے کہ رسولِ کریم ﷺ کی اہلیہ محترمہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ایک دفعہ پریشان تھیں ان کو خوش کرنے کے لئے نبی کریم ﷺ نے یہ خوش خبری سنائی :
إن أبا بکر یلي الخلافة بعدي ثم بعده أبوك، فقالت من أنباك هذا ؟ قال نبأني العلیم الخبیر31
ضرور بضرور میرے بعد خلافت کا والی ابو بکر ہوگا اور ابو بکر کے بعد تیرا باپ ( حضرت عمر) خلیفہ ہوگا تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آپ کو اس بات کی خبر کس نے دی ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے دی ہے جو بہت جاننے اور باخبر ذات ہے ۔
عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اپنے ایک خط میں جو آپ نے مصر کے دوستوں کی طرف اپنے عامل مصر محمد بن ابی بکر کے قتل کے بعد لکھا اس بات کا اقرار کر رہے ہیں۔ آپ رسول اللہ ﷺکی وفات کے بعد کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے امورِ (سلطنت) سنبھال لیے … جب آپ اس دنیا سے چلے گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنی ذمہ داری میں لے لیا۔ ہم نے آپ کی بات سنی، اطاعت کی اور خیر خواہ رہے۔‘‘ اس کے بعد حسبِ عادت آپ رضی اللہ عنہ کی بے حد تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں… ’’اور عمر رضی اللہ عنہ نے اقتدار سنبھال لیا۔ آپ پسندیدہ سیرت اور بابرکت شخصیت کےمالک تھے۔ یعنی ہم نے آپ کی بیعت کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا کیونکہ آپ کی سیرت بہت پاکیزہ اور اعلیٰ تھی، آپ کی ذات بابرکت و متبرک تھی، آپ اپنے امور میں کامیاب رہے، اپنے مقاصد میں کامرانی حاصل کی۔ ہم نے آپ کی بیعت اسی طرح کی جیسے تم نے عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی پھر میں نے اس بیعت کو پورا کیا اور نبھایا پھر جب آپ رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے تو آپ رضی اللہ عنہ کی نامزد کردہ چھ افراد کی کمیٹی میں چھٹا نام میرا تھا۔
شیعہ کے شیخ طوسی نے بھی اپنی کتاب ’’الآمالی‘‘ میں یہی بات علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
فبايعت أبا بكر كما بايعتموه ، وكرهت أن أشق عصا المسلمين ، وأن أفرق بين جماعتهم ، ثم أن أبا بكر جعلها لعمر من بعده فبايعت عمر كما بايعتموه ، فوفيت له ببيعته حتى لما قتل جعلني سادس ستة ، فدخلت حيث أدخلني
چنانچہ میں نے ابو بکر کی اسی طرح بیعت کی جس طرح تم نے بیعت کی تھی اور مجھے مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی لاٹھی کو توڑنا گوارا نہیں تھا پھرمیں نےعمرؓ کی اسی طرح بیعت کی جس طرح تم نے بیعت کی پھر میں نے اس بیعت کو پورا کیا اور نبھایا پھر جب آپ ؓ قتل کر دیے گئے تو مجھے چھ میں سے چھٹا فرد بنایا گیا ۔ میں اسی طرح شامل ہوگیا جیسے مجھے شامل کیا گیا تھا۔32
شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ حضرت فاروقِ اعظمؓ نے حضرت علیؓ کی خلافت چھین لی تھی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جس نے خلافت چھینی ہو ، ظلم کیا ہو امیر المؤمنین اس شخص کی تعریف کرے؟
اہلِ تشیع سے ایک سوال ہے؟
اگر اصحابِ ثلاثہ مومن اور خلفائے برحق نہیں تھے تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے جو شیرِ خدا ہیں ان کی بیعت کیوں کی؟
اگر کوئی شیعہ کہے کہ انہوں نے ’’ تقیّہ ‘‘ کیا یعنی خوف کے باعث بہ امر مجبوری تو اوّل تو یہ حضرت علی جیسے ’’ اَشْجَعُ النَّاسِ ‘‘، ’’ فاتحِ خیبر‘‘ اور ’’ شیرِ خدا ‘‘ کی شان کے خلاف ہے۔
دوسرا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ اگر ایک ’’ فاسق، غاصب اور خائن ‘‘ کی مجبوراً بیعت کر لینا ایک مستحسن فعل تھا تو پھر حضرت امام حسین ؓنے اپنے جلیل القدر والد کی اس اچھی سنت پر عمل کر کے کیوں یزید کی بیعت نہ کی؟ اپنی اور خاندانِ نبوت کے بیسیوں معصوموں کی جانیں کیوں قربان کروا ڈالیں؟
حالانکہ جہاں تک شجاعت اور مردانگی کا سوال ہے اس کے لحاظ سے حضرت حسین ؓ حضرت علی سے بڑھ کر نہ تھے۔ پس ثابت ہے کہ چونکہ حضرت امام حسینؓ کے نزدیک یزید خلیفہ برحق نہ تھا اس لئے انہوں نے جان دے دی لیکن ایسے شخص کی بیعت نہ کی لیکن چونکہ حضرت علیؓ کے نزدیک حضرات ابو بکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ خلفائے برحق تھے اس لئے انہوں نے ان کی بیعت کرلی۔
اصحاب ِرسول ﷺ کو گالی نہ دو
ملا باقر مجلسی نے طوسی کی سند سے علی بنِ ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ایک معتبر روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
أوصيكم في أصحاب رسول الله ، لا تسبوهم، فإنهم أصحاب نبيكم، وهم أصحابه الذين لم يبتدعوا في الدين شيئاً، ولم يوقروا صاحب بدعة، نعم! أوصاني رسول الله في هؤلاء33
میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں ان کو گالی نہ دو کیونکہ وہ تمہارے نبی کے اصحاب ہیں اور نبی کے وہ اصحاب ہیں جنہوں نے دین میں کوئی بدعت ایجاد نہیں کی اور کسی بدعتی شخص کی تعظیم نہیں کی۔ ہاں! رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں مجھے وصیت کی۔
شہادت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ 26 ذو الحجہ کو معمول کے مطابق نمازِ فجر کی ادائیگی کے لیے مسجدِ نبوی میں تشریف لائے جہاں نمازِ فجر میں مسجد کی حالت میں ابو لولو نامی مجوسی غلام نے جو قتل کے ارادے سے محراب میں چھپا ہوا تھا تین بے دردی سے وار کیے۔ پہلا ہی وار بہت گہرا تھا جس سے آپ کا خون اتنا بہہ گیا کہ مسجدِ نبوی کے منبر و محراب خونِ فاروقی سے سرخ ہوگیا۔ تین روز یہی کیفیت رہی جو دوا دی جاتی وہ کٹی ہوئی آنتوں سے باہر آ جاتی تھی۔ یکم محرم سنہ 24 ہجری کو آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ آپ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضہ مبارک میں دفن کیا گیا۔
تاریخِ وفات
حضرت عمر فاروق رضي الله عنہ کی وفات محرم کی پہلی تاریخ کو ہوئی تھی اور یہی بات مشہور ہے.
ابنِ اثير جزرى اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ “حضرت عمر رضي الله عنہ کو جب زخمی کیا گیا تو وہ دن بدھ کا دن تھا اور ماهِ ذو الحج ختم ہونے میں تین دن باقی تھے اور آپ کی تدفین اتوار کی صبح ہوئی اور اس دن محرم کا پہلا دن تھا۔34 نوٹ: ابنِ اثیر نے آگے ایک اور روایت ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ “و الاول اصح ما قيل في عمر” کہ پہلی بات جو حضرت عمر رض کے بارے میں کہی گئی ہے وہ زیاہ صحیح ہے (یعنی آپ کی تدفین یکم محرم کو ہوئی تھی)۔
ابو حفص الفلاّس کی روایت ہے کہ “ذو الحجة کی چند راتیں باقی تھیں کہ حضرت عمر رضي الله عنہ حملے میں زخمی کیے گئے اس کے بعد آپ تین راتیں زندہ رہے اور سنہ 24 ہجری کے محرم کی پہلی تاریخ کو آپ کی وفات ہوئی۔35
“حضرت عبدالله بن زبير رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : حضرت عمر رضي الله عنہ کو بروز بدھ جب ذو الحج کے تین دن باقی تھے زخمی کیا گیا پھر آپ تین دن تک زندہ رہے پھر اس کے بعد آپ کی وفات ہوئی”۔36
اور امام ابن الجوزیؒ نے “مناقبِ عمر رضی اللہ عنہ “میں لکھا ہے کہ:
طعن عمر رضي الله عنه يوم الأربعاء لأربع ليالٍ بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين، ودفن يوم الأحد صباح هلال المحرم سنة أربع وعشرين، فكانت ولايته عشر سنين وخمسة أشهر وإحدى وعشرين ليلة
یعنی 23 ہجری کے ذوالحجہ چھبیس تاریخ بدھ کے روزحضرت عمر ؓپر قاتلانہ حملہ ہوا اور اتوار کے دن یکم محرم چوبیس ہجری کو دفن کیے گئے۔ آپ کی مدتِ خلافت دس برس پانچ ماہ اور اکیس دن تھی ۔
ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر سلام
سید مرتضی اپنی کتاب ’’ الشافی‘‘ میں شیعہ اثنا عشری کے چھٹے امام جعفر بن محمد یعنی امام جعفر صادق علیہ السلام کا عمل نقل کرتے ہیں :
ويروي السيد المرتضى عن جعفر بن محمد عليه السلام أنه «كان يتولاهما – أي أبا بكر وعمر رضي الله عنهما – ويأتي القبر فيسلم عليهما مع تسليمه على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم»37
یعنی سید مرتضی اپنی کتاب ’’ الشافی‘‘ میں جعفر بن محمد کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ وہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بڑی محبت کرتے تھے چنانچہ جب نبی کریم کی قبرِ مبارک پر آتے تو رسول اللہ ﷺ پر سلام پڑھنے کے ساتھ ابو بکر و عمر ؓ پر بھی سلام پڑھتے تھے۔
دعا ہے کہ جس طرح اہلِ بیتِ نبوت اور ائمہِ کرام خلفاءِ ثلاثہ اور دیگر صحابہ کرام سے پیار و محبت کرتے تھے ، عزت واحترام کرتے تھے اللہ پاک اسی طرح تمام مسلمانوں کو بھی محبت اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
- (كتاب المعارف، ابن قتيبةالدِّينَوري، ص : 179)
- ( الفاروق از شبلی نعمانی)
- (، الاستيعاب، ج 3، ص 145)
- (بحار الأنوار ج31 ، ص:116)
- (الإصابة، ج 4، ص 484)
- ( الإصابة، ج 4، ص: 484)
- (صحيح الترمذي: 3681) وأحمد (5696)
- دیکھئے ! (بحارالانوار‘‘ ج 4کتاب السماء والعالم)۔
- ( مروج الذهب، ج 1، ص 299؛ الطبقات لابن سعد ، ج 4، ص 269؛ تاريخ الأمم والملوك، للطبری ج 3، ص: 270)
- (صحیح بخاری اسلام عمر ؓ)
- ( الدولة العربية الإسلامية الأولى، دكتور عصام شبارو ،ص: 279 )
- ( غزوات ِ حیدری، ص: 42 وقائع دوم )
- ( نہج البلاغۃ ، تحقیق محمد عبدہ ، ج2 ص: 322 )
- (شرح نهج البلاغة – ابن أبي الحديد – ج 12 ، ص: 3)
- (نهج البلاغة، تحقيق صبحي صالح، ص : 193)
- (نهج البلاغةج : 2 ، ص : 320- 321)
- (مروج الذهب،ج : 3، ص: 51، وناسخ التواريخ، ج : 2 ص:144، ط إيران)
- (كتاب الشافي، ج : 2، ص : 428)
- (بحار الأنوار 10/344 ، رجال الكشي : 393 ، عيون أخبار الرضا، 2/187 )
- (عيون أخبار الرضا، لابن بابويه القمي، ج : 1، ص : 313 ، ومعاني الأخبار، للقمي ص:110 )
- ( رجال الکشی ، ص: 338 طبع مؤسسة الأعلمی ، کربلا )
- ( شرح نہج البلاغة ، ج : 12، ص : 57، 58)
- ( شرح نہج البلاغة، ج : 12، ص : 3 )
- ( نہج البلاغہ مترجم اردو ، ص:541 )
- (شرح نہج البلاغہ ، لابن أبی الحدید ، ج : 12، ص : 191 ، 192 )
- (کتاب الشافي، لعلم الهدى ص:171، وتلخيص الشافي للطوسي ج : 2، ص : 428 ط إيران، ومعاني الأخبار للصدوق، ص: 117 ط إيران)
- (بحار الأنوار، ج : 32، ص : 456)
- بحار الانوار، ج32، ج33، ص:568-569
- (الروضة من الكافي ، ج8 ، ص:101 ط إيران )
- (الأخبار الطوال -ابنُ قتيبة الدينوري، ص: 152)
- ( تفسیر قمی ، ص: 354 ، تفسیر مجمع البیان ، ج 5 ، ص: 314 ، اور تفسیر صافی ، ص: 522 )
- (الأمالي- الشيخ الطوسي، ص: 507)
- (حياة القلوب للمجلسي” ج : 2 ، ص :621)
- (اسد الغابة في معرفة الصحابة ، ج 4 ص 166)
- (تاريخ مدينة دمشق يعني تاريخ ابن عساكر ،ج 44 ص 478)
- (كتاب المحن ، صفحه 66)
- (كتاب الشافي، ص:238)