پہلا خطبہ :
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، جو صدقہ کرنے والوں کو ثواب سے نوازتا ہے ، خرچ کرنے والوں کو نعم البدل عطا کرتا ہے اور مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ میں اس پاک ذات کی اس کی عظیم نعمتوں، اس کے بھاری احسانات اور اس کی صفات کریمہ پر حمد کرتا ہوں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، جو پروردگار، رحم کرنے والا، فیاض، احسان کرنے والا اور نواز نے والا ہے، اس کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد ﷺاللہ کے بندے ، رسول، نبی امین اور رسول کریم ہیں۔
اللہ درود وسلام اور برکت نازل فرمائے آپ ﷺپر اور آپﷺ کے آل و اصحاب پر جو بھلائیوں میں جلدی کرتے تھے اور طاعتوں میں منافست کرتے تھے اور بہت زیادہ سلامتی نازل فرمائے۔
اما بعد!
مومنوں کی جماعت! میں آپ کو اور خود کو اللہ عزوجل کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں، اللہ آپ پر رحم کرے، آپ اللہ کا تقوی اختیار کریں اور اس دن کے لیے تیاری کریں جس کا ساز و سامان اعمال اور جس کے گواہ اعضا و جوارح ہیں۔
يايها الذِينَ ءَامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ، وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
آل عمران -102
اے ایمان والو! اللہ سے کما حقہ ڈرو اور مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔
امت مسلمہ ! مال دنیوی زندگی کی زینت اور زندگی کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اللہ نے اسے لوگوں کی گزران کا سبب بنایا ہے اور اس سے عام اور خاص مفادات پورے ہوتے ہیں، اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا
النساء – 5
اور تم بے وقوفوں کو اپنا مال نہ دو جسے اللہ نے تمہاری گزران کا ذریعہ بنایا ہے۔
یعنی جس کی مدد سے تمہاری وہ گزران استوار ہوتی ہے جس سے تمہارا گزر بسر ہے، اس لیے شریعت اس کو منظم کرنے کے لیے آئی ہے ، ناحق اسے کمانے کو حرام قرار دیا ہے ، اس کے کمانے اور خرچ کرنے کے مشروع راستوں کو واضح کیا ہے اور اسے پانچ ضروریات میں سے شمار کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے مال کو خون اور آبرو سے جوڑا ہے ، جیسا کہ خطبہ الوداع میں وارد ہوا ہے۔
چوں کہ نفسوں کی تخلیق مال کی محبت و حرص اور اس کی زیادہ طلب پر کی گئی ہے ، اس لیے صدقہ کا بڑا مرتبہ ہے، صدقہ ان عظیم ترین عبادتوں اور تقریبات میں سے ہے ، جنہیں اللہ اور اس کے رسول پسند کرتے ہیں، بندہ جو مال بھی اللہ کی خوشنودی طلب کے لیے خرچ کرتا ہے، اسے وہ قیامت کے دن اپنے سامنے پائے گا، چنانچہ اس کا وہی مال باقی رہے گا، جسے اس نے صدقہ کیا اور اس کا ثواب اپنی آخرت کے لیے مجمع کیا، اس کے سوا جو بھی ہے، وہ فناہونے والا ہے اور اسے وہ دوسروں کے لیے چھوڑنے والا ہے۔
صحیح مسلم میں روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
يَقُولُ ابْنُ آدَمَ مَالِي مَالِي، قَالَ: وَهَلْ لَكَ يَا ابْنَ آدَمَ مِنْ مَالِكَ، إِلَّا مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ، أَوْ لبستَ فَأَبْلَيْتَ، أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ؟
ابن آدم کہتا ہے میرا مال! میرا مال! آدم کے بیٹے! تیرے مال میں سے تیرے لیے صرف وہی ہے جو تم نے کھا کر فنا کر دیا، یا پہین کر پرانا کر دیا، یا صدقہ کر کے آگے بھیج دیا۔
وَمَا تَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ مِنْ خَيْرِ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا
المزمل – 20
جو بھلائی بھی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے ، اسے تم اللہ کے پاس زیادہ بہتر اور زیادہ اجر والا پاؤ گے۔
آپ ﷺ اپنی پوری زندگی میں لوگوں میں سب سے زیادہ فیاض اور سچی تھے ، آپ سوالی کو وہ کپڑا بھی دے دیتے جو آپ کے جسم پر ہوتا اور آپ کو اس کی ضرورت ہوتی، صحیح بخاری میں ہے، سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
جَاءَتِ امْرَأَةٌ بِبُرْدَةٍ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَسَجْتُ هَذِهِ بِيَدِي أَكْسُوكَهَا، فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، فَخَرَجَ إِلَيْنَا وَإِنَّهَا إِزَارُهُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكْسُنِيهَا. فَقَالَ: “نَعَمْ، فَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَجْلِسِ، ثُمَّ رَجَعَ، فَطَوَاهَا ثُمَّ أَرْسَلَ بها إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ القَوْمُ: مَا أَحْسَنْتَ، سَأَلْتَهَا إِيَّاهُ، لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّهُ لا يَرُدُّ سَائِلًا، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَاللَّهِ مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِتَكُونَ كَفَنِي يَوْمَ أُمُوتُ، قَالَ سَهْلٌ -رضي الله عنه : فَكَانَتْ كَفَنَهُ”.
ایک عورت چادر لے کر آئی اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں نے اسے آپ کو پہنانے کے لیے اپنے ہاتھ سے بنا ہے، آپﷺ نے اسے لیا اور آپ کو اس کی ضرورت تھی، آپ اسے بطور تہبند پہن کر ہماری طرف نکلے ، حاضرین میں سے ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! اسے آپ مجھے پہنا دیں، آپ ﷺنے فرمایا: ٹھیک. آپ مجلس میں بیٹھے رہے ، پھر لوٹ گئے، اسے تہہ کر کے اس آدمی کے پاس بھیج دیاتو لوگوں نے اس سے کہا: تم نے اچھا نہیں کیا، تم نے آپﷺ سے وہ چادر مانگ لی، جبکہ تمہیں معلوم ہے کہ آپﷺ کسی سوالی کو واپس نہیں کرتے، اس آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے تو آپ ﷺسے صرف اس لیے مانگا کہ جب میں مروں ، تو وہ میر اکفن بنے۔ سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو پھر وہ(چادر) اُس شخص کا کفن بنی۔
ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا: آپ ﷺکی ملکیت میں جو ہو تا آپ ﷺاس کا صدقہ سب سے زیادہ کرنے والے تھے، اللہ تعالی آپ کو جو بھی دیتا اسے نہ زیادہ سمجھتے تھے اور نہ تھوڑا، آپ ﷺکے پاس جو چیز ہوتی ، اسے کوئی بھی مانگتا، آپ ﷺاسے دے دیتے، چاہے وہ کم ہو یا زیادہ، آپﷺ اس آدمی کی طرح دیتے جسے فقر کا ڈر نہیں ہوتا۔
عطا اور صدقہ کرنا آپ کے نزدیک سب سے محبوب چیز تھی اور جو چیز آپ دیتے اس میں آپ کی خوشی و شادمانی لینے والے سے زیادہ ہوتی ، آپﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ خیر کی سخاوت کرنے والے تھے ، آپ ﷺکا دایاں ہاتھ تیز ہوا کی طرح تھا۔
مومنوں کی جماعت! صدقہ کی فضیلتوں میں سے یہ ہے کہ وہ مال میں بڑھوتری اور برکت کا سبب اور اللہ کی طرف سے بندے کو نوازنے کا باعث ہے، حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے فرمایا:
يَا ابْنَ آدَمَ، أَنْفِقْ، أُنْفِقْ عَلَيْكَ
صحیح بخاری /صحیح مسلم
اے اولاد آدم! خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔
رشتے ہر دن صبح خرچ کرنے والے کے لیے نعم البدل کی دعا کرتے ہیں اور روکنے والے کے لیے تباہی و بربادی کی دعا کرتے ہیں، یہ ایمان کی صداقت کی دلیل ہے اور صدقہ برہان ہے، کیوں کہ صدقہ کرنے والے نے اپنے مال کی محبت پر اللہ کی طاعت کو ترجیح دی۔
وَمَن يُوق شح نفْسِهِ فَأَوْلَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
الحشر – 9
اور جو اپنے نفس کی تھیلی سے بچا لیا گیا، وہی لوگ کامیاب ہیں۔
صدقہ مصائب کے چھٹ جانے اور گناہوں سے بندے کے پاک ہونے کا سبب ہے، صدقہ رب کے غضب وناراضگی کو بجھاتا ہے، بندے سے بلا کو دور کرتا ہے، سینے میں کشادگی پیدا کرتا ہے، دل میں سعادت و شادمانی داخل کرتا ہے اور دل اور جسم کا علاج کرتا ہے، سو آپ اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کریں۔
مسند احمد میں روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی سنگ دلی کی شکایت کی، تو اسے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إنْ أَرَدْتَ أَنْ يَلِينَ قَلْبُكَ، فَأَطْعِمِ الْمِسْكِينَ،وَامْسَحْ رَأْسَ الْيَتِيم.
“اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہو جائے ، تو مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرو”۔
اللہ کے بندو! صدقہ انسان کو بری موت سے بچاتا ہے اور صدقہ کرنے والے کو فائدہ پہنچاتا ہے، یہاں تک کہ اگر اس کی موت کے بعد اس کی طرف سے صدقہ نکالا جائے، تو بھی اسے فائدہ پہنچائے گا۔
فقد أتى سعد بن عبادة رضي الله عنه النبي -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أُمّي مَاتَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ: “نَعَمْ”، قُلْتُ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟، قَالَ: “سَقْيُ الْمَاءِ “۔
سعد بن رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺکے پاس آکر پوچھا : اے اللہ کے رسولﷺ !میری ماں فوت ہوگئیں، تو کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کروں؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں، میں نے عرض کیا: کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: پانی پلانا”۔ (اسے نسائی نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے)
صدقہ آدمی کا آگ سے بچاؤ ہے، صحیح مسلم میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
من اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَثِرَ مِنَ النَّارِ، وَلَوْ بِشِقَ تَمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ
آپ ﷺنے فرمایا: تم میں سے جو شخص آگ سے محفوظ رہنے کی استطاعت رکھے چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے کیوں نہ ہو وہ ضرور (ایسا) کرے۔
قیامت کے دن تمام مخلوقات سورج کی تپش میں (کھڑی) ہوں گی یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے، سوائے ان سات لوگوں کے جن کو اللہ اس دن اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن کوئی سایہ نہیں ہو گا اور ان میں سے آپ ﷺنے اس آدمی کا ذکر کیا :
وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا، حَتَّى لا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ
جو کوئی صدقہ کرے اور اسے اس قدر چھپائے کہ اس کا بایاں ہاتھ بھی جان نہ پائے کہ اس کا دایاں ہاتھ کیا خرچ کر رہا ہے”۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)
جس بندے میں بھی صدقہ کے ساتھ روزہ ، مریض کی عیادت اور جنازہ کے پیچھے چلنا اکٹھا ہو جائے، اس کے لیے اللہ کے فضل ورحمت سے جنت واجب ہو جاتی ہے، صحیح مسلم میں ہے:
مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ صَائِمًا؟” قَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَنَا، قَالَ: “فَمَنْ تَبِعَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ جَنَازَةَ؟”، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَنَا، قَالَ: “فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مِسْكِينًا” قَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَنَا، قَالَ: “فَمَنْ عَادَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مَرِيضًا”، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِئٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ.
نبی اکرم ﷺنے پوچھا: ”آج تم میں سے روزے دار کون ہے ؟“ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ” آج تم میں سے جنازے کے ساتھ کون گیا؟“ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں، آپﷺ نے پوچھا: ” آج تم میں سے کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: میں نے ۔ آپﷺنے پوچھا: ” تو آج تم میں سے کسی بیمار کی تیمار داری کس نے کی؟ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”کسی انسان میں یہ نیکیاں جمع نہیں ہوتیں مگر وہ یقیناً جنت میں داخل ہوتا ہے “۔
ایمانی بھائیو! آپ جان لیں کہ سب سے بہتر صدقہ اس قرابت دار پر صدقہ ہے جس کا خرچہ آپ پر واجب نہیں ہے، کیوں کہ مسکین کو صدقہ کرنا صدقہ ہے اور قرابت دار کو صدقہ کرنا صدقہ اور صلہ رحمی ہے۔
قالت امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ -رضي الله عنه: “يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّكَ أَمَرْتَ الْيَوْمَ بِالصَّدَقَةِ، وَكَانَ عِنْدِي حُلِيٌّ لِي، فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِ، فَزَعَمَ ابْنُ مَسْعُودٍ: أَنَّهُ وَوَلَدَهُ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “صَدَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ، زَوْجُكَ وَوَلَدُكِ، أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتِ بِهِ عَلَيْهِمْ.
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی نے عرض کیا: اللہ کے نبی ﷺ! آپ نے آج صدقہ دینے کا حکم دیا ہے اور میرے پاس کچھ زیور ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اسے خیرات کر دوں ۔ مگر ابن مسعود (رضی اللہ عنہ )کا خیال ہے کہ وہ اور ان کے بچے زیادہ مستحق ہیں کہ انھیں صدقہ دوں، تب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ” ابن مسعود نے صحیح کہا ہے، تمھارے خاوند اور تمھارے بچے اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ تم ان کو صدقہ دو۔“ صحیح بخاری۔
فضیلت سے مختص صدقات میں سے صدقہ جاریہ ہے، جو انسان کی موت کے بعد باقی رہے اور اس کا اجر اس کی نیکیوں کی ترازو میں پڑتا رہے اور سب سے عظیم صدقہ وہ صدقہ ہے جو صدقہ کرنے والوں کے نزدیک سب سے بیش قیمت ہو ، جس کا فائدہ سب سے زیادہ ہو اور جس کا اثر زیادہ باقی رہنے والا ہو اور سب سے بہتر عمل وہ ہے زیادہ پائیدار ہو ۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ: عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ، وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَكَهُ، وَمُصْحَفًا وَرَّثَهُ، أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ، أَوْ بَيْتًا لَابْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ، أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ، أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ، فِي صِحَّتِهِ وَحَيَاتِهِ، يَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ
مومن کو وفات کے بعد جو نیک عمل پہنچتے ہیں، ان میں یہ بھی ہیں: جس علم کی تعلیم دی اور اسے پھیلایا، نیک اولاد جو پیچھے چھوڑی، قرآن مجید کا نسخہ جو کسی کو وراثت میں دیا، مسجد جو اس نے تعمیر کی، مسافر خانہ جو اس نے قائم کیا، نہر جو اس نے جاری کی یا صدقہ جو اس نے اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں نکالا، ان سب کا ثواب اس کی موت کے بعد اسے ملتا رہتا ہے۔ سنن ابن ماجہ۔
لہذامومنو! اپنی استطاعت بھر صدقہ کریں اگر چہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو اور انسان اپنے صدقہ کو حقیرنہ جانے، بسا اوقات ایک روپیہ ہزار روپیوں پر سبقت لے جاتا ہے، اللہ تعالی یقینا ایک ٹکڑا روٹی، ایک مشت کھجور اور اس جیسی چیز کے عوض جس سے مسکین کو فائدہ پہنچے جنت میں داخل کرے گا، صحیحین میں ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
مَنْ تُصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ، مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ، وَلَا يَصْعَدُ إِلَى اللَّهِ إِلَّا الطَّيِّبُ، فَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ، كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فُلُوَّهُ، حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الجَبَلِ
جو حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ حلال و پاکیزہ چیزوں ہی کو قبول کرتا ہے۔ اللہ تعالی اس صدقے کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے، پھر اسے دینے والے کی خاطر بڑھاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کو پال کر بڑھاتا ہے، حتی کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے “۔
انصار کی ایک عورت نے رسول اللہ ﷺکے پاس آکر عرض کیا:
یا رَسُول الله ، إِنَّ الْمِسْكِينَ لَيَقُومُ عَلَى بَابِي، فَمَا أَجِدُ لَهُ شَيْئًا أَعْطِيهِ إِيَّاهُ، فَقَالَ النبيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنْ لَمْ تَجِدِي لَهُ شَيْئًا تُعْطِيهِ إِيَّاهُ، إِلَّا ظِلْفًا مُحْرَقًا، فَادْفَعِيهِ إِلَيْهِ فِي يَدِهِ” (رواه الترمذي).
اللہ کے رسولﷺ! مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور اسے دینے کے لیے میرے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی۔ (تو میں کیا کروں؟) رسول اللہ ﷺنے ان سے فرمایا: ”اگر اسے دینے کے لئے تمہیں کوئی جلی ہوئی کھر ہی ملے تو وہی اس کےہاتھ میں دے دو۔” (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے)
اللہ کے بندو! صدقہ کے وسیع دروازے ہیں، جن میں فرض زکاۃ، واجب نفقہ اور چندے و غمخواری کی اقسام داخل ہیں بشر طیکہ نیت نیک ہو اور شریعت کی موافقت ہو، بلکہ صدقہ ہر اچھے کام کو شامل ہے جس سے خیر مقصود ہو، چنانچہ اچھی بات صدقہ ہے، بے کسی ضرورت مند کی مدد کر نا صدقہ ہے، دو جھگڑنے والوں میں صلح کرانا صدقہ ہے ، بال بچوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے، وہ لقمہ جو آدمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے صدقہ ہے، راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا صدقہ ہے، ہر قرض صدقہ ہے، ہر تہلیل، تسبیح اور تکبیر صدقہ ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر صدقہ ہے، اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے، بھٹکنے والی زمین میں انسان کی رہنمائی کرنا صدقہ ہے ، انسان کا اپنے شر کو لوگوں سے روکنا صدقہ ہے اور یہ سب عظیم عطا، گناہوں کی معافی، بلندی درجات، بلند جنتوں اور زمین و آسمانوں کے رب کی خوشنودی سے سرفراز ہونے کے اسباب میں سے ہیں۔ تو صدقہ کرنے والوں کی کامیابی کا کیا کہنا!۔
اے محمد ﷺ کی امت! آپ اپنے رب کے پاس ذخیرہ اندوزی کریں اور اپنے مال کو لے کر کمزوروں، فقیروں، ضرورت مندوں اور ناداروں کو تلاش کریں۔ آپ ان پر رحم کریں کہ آپ پر رحم کیا جائے، انہیں روزی مہیا کرائیں کہ آپ کو روزی دی جائے، مرنے سے پہلے نیک اعمال میں جلدی کریں اور خلوت و جلوت میں خود کو صدقہ کے ذریعہ اللہ سے جوڑیں، آپ کو رزق دیا جائے گا، آپ کی مدد کی جائے گی اور آپ کی کمی پوری کی جائے گی اور اپنے کمزور لوگوں کی وجہ سے ہی آپ رزق دیے جاتے ہیں اور مدد کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿٩﴾ وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ ﴿١٠﴾ وَلَن يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
المنافقون – 9/10/11
“اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں۔ اور جو ایسا کریں وہ بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں * اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار! مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا؟ کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہو جاؤں * اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہر گز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بخوبی باخبر ہے “۔
اللہ تعالیٰ میرے لیے اور آپ کے لیے قرآن وسنت میں برکت دے اور مجھے اور آپ کو ان کی آیات اور حکمت سے فائدہ پہنچائے ، میں اپنی یہ بات کہہ رہا ہوں اور اللہ سے اپنے لیے اور آپ کے لیے ہر گناہ وخطا کی مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ اس سے مغفرت طلب کریں، بیشک وہ بڑا بخشنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ :
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ
الانعام – 1
” تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا پھر بھی کا فرلوگ (غیر اللہ کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں”۔
میں اللہ سبحانہ کی حمد کرتا ہوں اور اس کا شکر بجالاتا هوں جیساکہ اس کے چہرے کی جلالت اور اس کے عظیم سلطان کے لیے لائق وزیبا ہے، میں اللہ کی حمد کرتا ہوں اور اس کا شکر بجالاتا ہوں اس کی مخلوقات کی تعداد اس کے عرش کے وزن، اس کے نفس کی رضا اور اس کے کلمات کی روشنائی کے برابر ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد ﷺاللہ کے بندے اور رسول ہیں، جن کو اللہ نے حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بنا کربھیجا۔
میرے رب کا درود و سلام ہو آپﷺ پر ، آپ ﷺکے آل و اصحاب پر اور ان لوگوں پر جو تا قیامت آپﷺ کے طریقے سے ہدایت لیں اور آپ کی سنت کی پیروی کریں۔
اما بعد!
مومنوں کی جماعت ! دیکھیں، ہم ان دنوں طاعت، سخاوت، احسان اور تقرب کے کاموں کے موسم کا استقبال کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، جو سخی نفسوں اور فیاض ہاتھوں کا مہینہ ہے، ایسا مہینہ جس میں نیک لوگ باہم منافست کرتے ہیں اور اچھا کام اور احسان کرنے والے باہم سبقت کرتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ فضیلت والے زمانہ میں نیکیاں کئی گنا ہو جاتی ہیں جیسے فضیلت والی جگہ میں ہوتی ہیں، ماہ رمضان میں صدقہ کی فضیلت بڑھ جاتی ہے اور اس کا اجر عظیم ہو جاتا ہے، ہمارے سردار اور قد وہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے سال عطا و سخاوت میں سب سے خوبصورت مثال پیش کی ، جب ماہ صیام آتا، تو آپ کی عطا اور سخاوت میں اضافہ ہو جاتا، آپ تیز ہو اسے سے زیادہ تیز خیر کی سخاوت کرنے والے ہوتے۔
ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا: رمضان میں آپ ﷺ کے طریقہ میں سے تھا کہ آپ ﷺ بکثرت طرح طرح کی عبادت کرتے، رمضان میں جبریلِ امین آپ سے قرآن کا مذاکرہ کرتے، جب جبریل علیہ السلام آپ ﷺ سے ملتے، تو تیز ہوا سے زیادہ تیز خیر کی فیاضی کرتے، آپ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں آپ ﷺ زیادہ سخی ہو جاتے ، اس میں آپﷺ بکثرت صدقہ واحسان کرتے ، قرآن کی تلاوت ، نماز ، ذکر اور اعتکاف کرتے اور رمضان کو ایسی عبادت سے مخصوص کرتے جو اس کے علاوہ دوسرے مہینوں میں نہیں کرتے۔
ایمانی بھائیو! اپنے رشتہ داروں ، ضرورت مند قرابت داروں اور پڑوسیوں کی خبر گیری کر کے اپنے رب کی رحمت طلب کریں، بیشک اللہ بڑا رحم کرنے والا ہے ، وہ اپنے رحم کرنے والے بندوں سے محبت کرتا ہے ، وہ کریم ہے ، کرم کرنے والوں سے پیار کرتا ہے ، فیاض ہے اور فیاضی کو پسند کرتا ہے، معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے۔
آپ ماہ رمضان میں طرح طرح کی عبادت اور صدقہ بکثرت کریں، آپ جستجو کریں کہ صدقہ اس کے مستحق لوگوں کو دیں، یا جو دو احسان پروگراموں کے اجازت یافتہ بھروسہ مند اداروں کے حوالے کریں، جو صدقات کو ان کے مستحقین تک پہنچاتے ہیں اور شرعی جگہوں میں انہیں خرچ کرتے ہیں۔ آپ سماجی رابطے کے وسائل وغیرہ کے توسط سے ان نامعلوم اداروں کے ساتھ تعامل کرنے سے مکمل طور پر بچیں، جنہیں صدقات جمع کرنے کی اجازت نہیں ملی ہوئی ہے۔
مسلمانوں کی جماعت! پھر آپ جان لیں کہ اللہ نے آپ کو ایک معزز حکم دیا ہے، جس میں پہلے اس نے اپنے نفس سے شروع کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلْتِي كَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِي يَتَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب -56
” بیشک اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی پڑھتے رہا کرو”۔
اے اللہ! تو درود نازل فرما محمد ﷺپر اور ان کی بیویوں اور ذریت پر، جیسے تو نے درود نازل فرما یا آل ابراہیم علیہ السلام پر اور تو برکت نازل فرما محمدﷺ پر اور ان کی بیویوں اور ذریت پر ، جیسے تو نے برکت نازل کی آل ابراہیم علیہ السلام پر ، بیشک تو بہت تعریف کے لائق اور صاحب عظمت ہے۔
اے اللہ! تو خلفاے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے اور باقی تمام صحابہ اور تابعین سے اور ان لوگوں سے راضی ہو جا تو تا قیامت ان کا اچھی طرح اتباع کریں اور ان کے ساتھ ہم سے بھی اپنے عفو، کرم اور جو د سے راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، دین کے قلعہ کی حفاظت فرما اور اس ملک کو اور اے اللہ ! ہر جگہ مسلمانوں کے حالات سدھار دے، اپنی رحمت سے یا ارحم الراحمین!
مسلمانوں کے سارے ملکوں کو امن و اطمینان کا گہوارہ بنا۔ اے اللہ ! یا حی یا قیوم! ہم تیری رحمت سے مدد طلب کرتے ہیں، تو ہمارے تمام معاملات کو سدھار دے اور پلک جھپکنے بھر بھی ہمیں ہمارے نفسوں کے حوالے نہ کر۔
اے اللہ! تو تم گین مسلمانوں کا غم دور کر ، مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبت ختم کر ، قرضداروں کا قرض ادا کر اور ہمارے بیماروں اور مسلمانوں کے بیماروں کو شفادے۔
اے اللہ! جو ہمارا، ہمارے ملک کا اور ہماری سلامتی کا برا چاہے، تو اسے اس کے نفس میں الجھا دے، اس کی چال کو اس پر لوٹا دے اور برائی کا گھیرا اس پر ڈال دے، یارب العالمین اے اللہ! تو ہمارے ولی امر خادم حرمین شریفین کو اس کام کی توفیق دے جو تجھے پسند ہو اور تو اس سے راضی ہو اور انہیں نیکی اور تقوی کے راستے پر لگا۔
اے اللہ! تو انہیں اور ان کے ولی عہد کو اس کام کی توفیق دے جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی ہو۔
اے اللہ! تو انہیں حرمین شریفین اور ان کے زائرین کی خدمت پر بہتر بدلہ عطا فرما۔
اے اللہ! تو مسلمانوں کے تمام حاکموں کو ایسے کام کی توفیق دے جو تجھے پسند ہو اور تو اس سے راضی ہو۔
اے اللہ! تو مسلمانوں کے نوجوانوں اور دوشیزاؤں کی حفاظت کر اور انہیں اپنی امت اور ملکوں کے لیے نفع بخش بنا۔
اے اللہ! تو ان کے ہاں ایمان کو محبوب بنا اور ان کے دلوں میں اسے مزین کر دے، ان کے ہاں کفر ، فسق اور نافرمانی کو نا پسندیدہ بنا اور انہیں ہدایت یاب لوگوں میں سے کر دے۔ اے اللہ! تو ہمیں رمضان تک خیر و نیکی، طاعت وسلامتی کے ساتھ پہنچا اور ہم سے ہمارا رروزہ، ہمارا قیام اور ہمارے نیک اعمال کو قبول کر۔
اے اللہ! بیشک تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے ، تو ہمیں معاف کر ۔ ” اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے”۔
اے اللہ! تو ہمارے گناہوں کو بخش دے، ہمارے عیبوں کی ستر پوشی فرما، ہمارے معاملات کو آسان کر دے اور تیری رضامندی کے حصول میں ہمیں ہمارے مقصد تک پہنچا۔
اے ہمارے رب! تو ہم سے قبول فرما، بیشک تو خوب سننے جاننے والا اور ہماری توبہ قبول کر ، بیشک تو تو به قبول کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔
سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿١٨٠﴾ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ﴿١٨١﴾ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
الصافات -180/181/182
پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والاہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں ۔پیغمبروں پر سلام ہے۔ اور سب طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔
خطبہ جمعہ مسجدِ حرام: فضیلۃ الشیخ ماھر المعیقلی حفظہ اللہ
18 شعبان 1444ھ بمطابق 10 مارچ 2023