اس دنیائے فانی میں آپ کا ہر گزرتا لمحہ، دن اور گھڑی باعث غنیمت ہے جو نیکی اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزر جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لئے کچھ ایسے اہم ترین مواقع اور چند مخصوص دنوں کوعطا کردیا ہے جس میں بالمقابل دیگر دنوں کے نہ صرف اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرتا ہے بلکہ اس خاص دن اللہ رب العزت بندوں کی عبادات کے بدلے اجر و ثواب میں انتہائی اضافہ کر دیتا ہے. ایسے ہی مخصوص دنوں اور مواقع میں ایک موقع شعبان المعظم کا مہینہ ہے۔ کیونکہ شعبان کا مہینہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کے آغاز ہوتے ہی زندہ دل لوگ تمام مہینوں کے سردار اور افضل ماہ رمضان کی آرزو کرنے لگتے ہیں۔
وجہ تسمیہ
شعبان: من تشعب القبائل وتفرقها للغارة ويجمع على شَعَابين وشَعْبانات1
یہ لفظ تشعب القبائل سے ماخوذ ہے جس کا معنی،بکھرنا ،پھیلنا۔جدا ہونا، شاخ درشاخ ہونا، متفرق ہونا ،فاصلہ اوردوری کے ہیں کیونکہ اہل عرب ماہ شعبان میں لوٹ مار کے لئےادھرادھرمنتشرہوجاتےتھے۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وسمي شعبان لتشعبهم في طلب المياه أو في الغارات بعد شهررجب الحرام 2
یہ بھی پڑھیں:ماہ شعبان شریعت کے آئینے میں
اس مہینے کا نام شعبان اس لئے پڑا کیونکہ اہل عرب اس مہینے میں پانی کی تلاش میں ادھر ادھربکھر جاتے تھے یا حرمت والے مہینے یعنی رجب کے بعد جنگ وجدال کے لئے منتشر ہو جاتے تھے۔
اہل عرب رجب کے مہینےمیں لڑائی جھگڑے چھوڑ دیتے تھے۔کیونکہ عرب حرمت والے مہینوں کی تعظیم کرتے تھے ۔ اور جب رجب کا مہینہ گزرجاتا تو اہل عرب پانی کی تلاش میں یا لڑائی کیلئےٹولیوں کی شکل میں تقسیم ہو کرقبیلوں میں منتشر ہو جاتے ۔لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اس دین اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت سے نوازا، تو اس مہینے کے بارے میں ان کا نظریہ بدل گیا، اور شعبان کا یہ مہینہ عبادات ، کثرت اطاعت اور خیر،برکت اور رحمت سے بھرے ماہ رمضان کی تیاری کا موسم بن گیا۔
ماہ شعبان کے چند خصوصیات
ماہ شعبان کے چند خصوصیات ہیں ۔جن کا جاننا ہمارے لیے ضروری ہے ۔
پہلی خصوصیت۔غفلت دور کرنے کا مہینہ
غفلت سے مراد یہ ہے کہ ماہِ رجب اور رمضان المبارک کے اندر اس کے تقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئےنفلی عبادات اور نیکیوں کا اہتمام کرتے تھے جبکہ ماہِ شعبان کو خالی مہینہ خیال کیا جاتا تھا اور نفلی عبادات کی طرف خاص توجہ نہیں دیتے تھے، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اپنے فرمان مبارک سے اس ماہ کی یہ فضیلت بیان فرمائی کہ شعبان وہ مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کیےجاتے ہیں ۔لہذا مسلمانوں کو نیکی کا کوئی وقت اور موقع ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نےاللہ کے رسول ﷺ سے عرض کیا :
يا رسولَ اللہِ ! لم ارك تَصومُ شَهْرًا منَ الشُّهورِ ما تصومُ من شعبانَ ؟ ! قالَ : ذلِكَ شَهْرٌ يَغفُلُ النَّاسُ عنهُ بينَ رجبٍ ورمضان
(صحيح النسائي: 2356)
اےاللہ کے رسول! جتنا میں آپ کو شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اتنا کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا، آپ نے فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے کہ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان میں آنے کی وجہ سے لوگ اس مہینے سے غفلت کر جاتے ہیں۔
حافظ ابن رجب رحمه الله اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :
دليل على استحباب عمارة أوقات غفلة الناس بالطاعة وأن ذلك محبوب لله -عز وجل3
یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں کی غفلت کے اوقات میں عبادت کرنا مستحب ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ہے۔
ماہِ شعبان غفلت دور کرنے کا مہینہ ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شعبان کاروزہ رکھنا مستحب ہے،جیسا کہ سلف صالحین مغرب اورعشاء کے درمیان نفل کے اہتمام کو مستحب سمجھتے تھے، اس کا مقصد بھی لوگوں سے غفلت کو دورکرنا ہے، اسی طرح سے بازار میں اللہ کا ذکر،اور قیام اللیل کا اہتمام کرنا یہ سب اسی سبب ہے کیونکہ یہ ایسے اوقات ہیں جس میں انسان راحت و آرام اور نیند کی وجہ سے اکثر اللہ سے غافل ہو جاتا ہے۔”
غفلت کے اوقات میں عبادت کی فضیلت
ماہِ رجب حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے اور رمضان سب سے با برکت مہینہ ہے ان دونوں عظیم مہینوں کے درمیان ماہ شعبان آتا ہے اس لئے لوگ اس مہینے پر کوئی توجہ نہیں دیتے اوراس میں عمل کرنے سےغافل ہوجاتے ہیں جبکہ غفلت کےاوقات میں عبادت کی بڑی اہمیت ہے ۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث اسی پر دلالت کرتی ہے کہ آپ غفلت کے اوقات میں عبادت کا بڑا اہتمام کیا کرتے تھے ۔شریعت مطہرہ نے غفلت کے اوقات میں امت کو بکثرت عبادت کرنے پر ابھارا ہے، ساتھ ہی ایسے اوقات وحالات میں عبادت پر اجر کثیر رکھا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔
بازار میں اللہ کا ذکر کرنا
اسمیں کوئی شک نہیں کہ بازار انسان کی صرف ایک ضرورت ہے اسکی فضیلت نہیں ہے کیونکہ بازار شورو شرابا ،جھوٹ ودھوکہ اور فواحش ومنکرات کا مرکز ہوتا ہے،وہاں خوف خداوندی کم اورمادیت پرستی زیادہ دکھائی دیتی ہے، ذکر الہی کا اہتمام بہت کم اورچھوٹی قسمیں کثرت سے کھائی جاتی ہیں، اسی لئے نبی ﷺ نے بازار کو بد ترین جگہ قرار دیا ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَحَبُّ البِلَادِ إلى اللهِ مَسَاجِدُهَا، وَأَبْغَضُ البِلَادِ إلى اللهِ أَسْوَاقُهَا.
( صحيح مسلم : 671)
اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب جگہ مسجد یں ہیں اور سب سے نا پسند یدہ جگہ بازار ہیں ۔
چونکہ بازار میں انسان جھوٹ ،دغا بازی ،دھوکہ دھڑی اورمال کمانے میں حد درجہ منہمک ہوتا ہے لہذا یہ غفلت کی جگہ اور غفلت کا وقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بازار میں داخل ہونے کی دعا پڑھنے پراجرکثیر رکھا گیا ہے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاجو شخص بازار داخل ہوتے ہوئے یہ دعا پڑھ لے :
من قال في السوقِ:لا إلهَ إلَّا اللهُ وحدَه لا شريكَ له،له الملكُ وله الحمدُ يحيي ويميتُ،وهوحيٌّ لا يموتُ،بيدِه الخيرُوهوعلى كلِّ شيءٍ قديرٌ كتب اللهُ له ألفَ ألفِ حسنةٍ ومحا عنه ألفَ ألفِ سيئةٍ وبنَى له بيتًا في الجنَّةِ4
تو اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں ،دس لاکھ گناہوں کی معافی ، دس لاکھ درجات کی بلندی اور جنت میں ایک گھرملے گا ۔
واقعی جب ہم بازارکی قباحت وشناعت اورساری برائیوں اور خرابیوں کے منبع ومرکز پر نظر ڈالتے ہیں تو عقل بآسانی اس بات کو قبول کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ ایسے غفلت کے مقام پر اللہ کی یاد دل میں لانا واقعی اجر کثیر کا متقاضی ہے۔
قیام اللیل کرنا
فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز قیام اللیل ہے آپﷺ نے تین دوسرے اعمال کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا :
يا أيُّها النَّاسُ أفشوا السَّلامَ،وأطعِموا الطَّعامَ، وصِلوا الأرحامَ، وصلُّوا باللَّيلِ،والنَّاسُ نيامٌ، تدخلوا الجنَّةَ بسَلامٍ
(صحيح ابن ماجه:2648)
اے لوگو! سلام عام کرو، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رحموں کو ملاؤ (یعنی رشتہ داریوں کے حقوق ادا کرو) اور اس وقت اٹھ کر ( تہجد کی) نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔“
دراصل قیام اللیل کو فرائض کے بعد سب سے افضل نماز قرار دینے کی جہاں دیگر حکمتیں ہیں وہیں یہ بھی ہے کہ وہ غفلت کے اوقات میں ادا کی جاتی ہے۔
فتنوں کے دور میں عبادت
فتنوں کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوجانا بہت ثواب کا کام ہے ۔ رسول اللہﷺنے فرمایا:
العِبَادة في الهَرْج كهجرة إليَّ
(صحیح مسلم: 2984)
فتنہ وفساد کے وقت عبادت ہجرت کی طرح ہے ۔
کیونکہ فتنہ وفساد کے وقت لوگ اپنی خواہشات کی پیروی میں عمل سے یکسر غافل ہوجاتے ہیں اور ایسے حالات میں عبادت کرنا لوگوں کے لئے پر مشقت بن جاتا ہے۔لہٰذا ایسے وقتوں میں عبادت كی بڑی فضیلت ہے۔
دوسری خصوصیت: اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں
ماہ شعبان کی دوسری خصوصیت ہے کہ اس ماہ کے اندر اللہ تعالیٰ کے پاس اعمال پیش کے جاتے ہیں ۔چنانچہ حضرت اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نےاللہ کے رسول ﷺ سے عرض کیا :
يا رسولَ اللہِ ! لم ارك تَصومُ شَهْرًا منَ الشُّهورِ ما تصومُ من شعبانَ ؟ ! قالَ : ذلِكَ شَهْرٌ يَغفُلُ النَّاسُ عنهُ بينَ رجبٍ ورمضانَ ، وَهوَ شَهْرٌ تُرفَعُ فيهِ الأعمالُ إلى ربِّ العالمينَ ، فأحبُّ أن يُرفَعَ عمَلي وأَنا صائمٌ
(صحيح النسائي: 2356)
اےاللہ کے رسول! جتنا میں آپ کو شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اتنا کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا، آپ نے فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے کہ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان میں آنے کی وجہ سے لوگ اس مہینے سے غفلت کر جاتے ہیں ۔ حالانکہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں“
بندوں کے اعمال اللہ کے پاس پیش کیا جانا
مختلف صحیح احادیث پر نظر ڈالنےکے بعد ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بندوں کے اعمال اللہ کے پاس تین اوقات میں پیش کیے جاتے ہیں۔
پہلی پیشی: روزانہ عصر وفجر کے وقت ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلَائِكَةٌ باللَّيْلِ ومَلَائِكَةٌ بالنَّهَارِ، ويَجْتَمِعُونَ في صَلَاةِ الفَجْرِوصَلَاةِ العَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ، فَيَسْأَلُهُمْ وهوأعْلَمُ بهِمْ: كيفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟ فيَقولونَ: تَرَكْنَاهُمْ وهُمْ يُصَلُّونَ، وأَتَيْنَاهُمْ وهُمْ يُصَلُّونَ.
(صحیح بخاری:555)
کہ رات اوردن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں ۔ اور فجراورعصر کی نمازوں میں ( ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا ) اجتماع ہوتا ہے ۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے ، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا ۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ ( فجر کی ) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ ( عصر کی ) نماز پڑھ رہے تھے ۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ :
يُرْفَعُ إلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهارِ، وعَمَلُ النَّهارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ، حِجابُهُ النُّورُ
(صحيح مسلم: 179)
اٹھایا جاتا ہے، اس کی طرف رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے، اس کا پردہ نور ہے۔
دوسری پیشی : ہفتے میں دو دن سوموار اور جمعرات کو ہوتی ہے ۔ حضرت ابو ہريرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تُعرَضُ الأعمالُ يومَ الاثنينِ والخميسِ فأحبُّ أن يُعرَضَ عملي وأنا صائمٌ
(صحيح الترمذي: 747)
سوموار اور جمعرات کو (اللہ کے ہاں) اعمال پيش کیے جاتے ہيں، لہٰذا مجھے يہ پسند ہے کہ ميرا عمل (بارگاہِ الٰہی میں) پيش کیا جائے تو ميں روزے سے ہوں۔
تیسری پیشی : سال میں ایک بار شعبان میں ہوتی ہے چنانچہ حضرت اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا:
وَهوَ شَهْرٌ تُرفَعُ فيهِ الأعمالُ إلى ربِّ العالمينَ ، فأحبُّ أن يُرفَعَ عمَلي وأَنا صائمٌ
(صحيح النسائي: 2356)
یہ وہ مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں
تاہم شعبان میں کس دن یا کس رات اعمال پیش کیے جاتے ہیں اس کی تفصیل صحیح احادیث میں موجود نہیں ہے لہٰذا اپنی جانب سے کسی رات یا دن کی تخصیص کرنا درست نہیں ہے۔
وضاحت
احادیث سے معلوم ہوا كہ بندوں کےاعمال رب العالمین کے سامنے ہر روز صبح اور عصر کے وقت ، جبكہ ہر ہفتے میں سوموار اور جمعرات کو پیش ہوتے ہیں۔ البتہ شعبان کے مہینے میں اعمال پیش کیا جانا سالانہ پیشی ہے یعنی اجمالی طور پر سارے سال کے اعمال شعبان میں پیش کیے جاتے ہیں۔ ان پیشیوں کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، اللہ تعالیٰ توتمام اعمال سے ذاتی طور پر بخوبی واقف ہے۔
تیسری خصوصیت:ماہ شعبان میں کثرت سے روزے
اس ماہ کی خصوصیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نبی کریم ﷺ نفلی روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ : لَا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ : لَا يَصُومُ. فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ
(بخاری: 1969)
یعنی رسول اللہ ﷺ لگاتار روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے اب آپ روزے نہیں چھوڑیں گے اور آپ لگاتار روزے چھوڑتے جاتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے اب آپ روزے نہیں رکھیں گے اور میں نے کبھی آپ کو سوائے رمضان کے پورا مہینہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں(نفلی) روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔
چوتھی خصوصیت:اللہ تعالیٰ سے قربت بڑھانے کا مہینہ
جن بڑی عبادات اور نیکیوں کےذریعے ایک مسلمان اپنے رب کا تقرب حاصل کرتا ہے ،ان عبادات میں سب اہم عبادت روزہ ہے ۔اور ماہ شعبان نفلی روزوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا مہینہ ہے ۔ احادیث میں نفلی روزوں کی بڑی فضیلت آئی ہے ، حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَن صامَ يَوْمًا في سَبيلِ اللَّهِ، بَعَّدَ اللَّهُ وجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا.
( صحيح البخاري: 2840)
”جو اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس ایک دن کے بدلے اس سے جہنم کی گرمی کو ستر سال کی دوری پر کر دے گا“۔
نفلی عبادات کی فضیلت
وما يَزالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إلَيَّ بالنَّوافِلِ حتَّى أُحِبَّهُ
(صحيح البخاري : 6502)
اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔
رسول اللہ ﷺ کا عمل
چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ ماہ شعبان میں کوئی خاص دن مقرر کیے بغیر کثرت سے نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔ جیساکہ صحیحین میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
كان يصومُ شعبانَ كلَّه
( صحیح البخاری (1970:
رسول کریم ﷺ پورے شعبان کا روزہ رکھتے تھے ۔
یہاں کل سے مکمل ماہ شعبان مراد نہیں ہے بلکہ اکثریت مراد ہے ۔جیساکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
وما صامَ رسولُ اللَّهِ شَهْرًا كاملًا منذُ قدمَ المدينةَ ، إلَّا رمضانَ
(صحيح النسائي: 2348)
نبی ﷺ جب سے مدینہ تشریف لائے ، سوائے رمضان كے آپ ﷺ نے كسی مہینے كے مكمل روزے نہیں ر کھے۔
امام ابن المبارك رحمہ اللہ کا قول :
کلام عرب میں اکثریت کے لیے کُل کا لفط بولا جاتا ہے ، چنانچہ امام ترمذی رحمہ الله امام ابن المبارك رحمہ الله سے نقل فرماتے ہیں :
وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ المُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا الحَدِيثِ: هُوَ جَائِزٌ فِي كَلَامِ العَرَبِ إِذَا صَامَ أَكْثَرَ الشَّهْرِ أَنْ يُقَالَ: صَامَ الشَّهْرَ كُلَّهُ
(سنن الترمذي : 737)
’’کلام عرب میں یہ جائز ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ماہ کے اکثر دنوں کے روزے رکھے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس نے سارے ماہ کے روزے رکھے ‘‘
جبکہ مسلم کی روایت میں آتا ہےام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كانَ يَصومُ شعبانَ إلَّا قَليلًا
(صحیح مسلم :1156)
رسول ﷺ ماہ شعبان میں بہت کم روزے رکھتے تھے ۔
یعنی آپ ﷺ بعض اوقات شعبان کےبہت کم روزے رکھتے تھے اور بعض اوقات زیادہ تر روزے رکھتے تھے۔
ماہ شعبان میں روزوں کی حکمت
حافط ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أن صيامه كالتمرين على صيام رمضان؛ لئلا يدخل في صوم رمضان على مشقة وكلفة، بل قد تمرن على الصيام واعتاده، ووجد بصيام شعبان قبله حلاوة الصيام ولذته، فيدخل في صيام رمضان بقوة ونشاط5
شعبان کا روزہ رمضان کے روزوں کی مشق کرنے جیسا ہے۔ تاکہ انسان مشقت اور بھاری طبیعت کے ساتھ رمضان کے روزوں میں داخل نہ ہو، بلکہ وہ شعبان کے کچھ روزے رکھ کر ، روزوں کا عادی ہوکر، روزوں کی مٹھاس اور لذت پاکر رمضان میں داخل ہوں ،اس طرح وہ بھر پور طاقت، تیاری اور نشاط کے ساتھ رمضان کے روزوں میں داخل ہوگا ۔
پانچویں خصوصیت:رسول اللہ ﷺ کا محبوب مہینہ
ماہ شعبان کی ایک خصوصیت یہ ہے یہ مہینہ رسول اللہ ﷺ کا نہایت محبوب مہینہ تھا ، چنانچہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :
كان أحبَّ الشُّهورِ إلى رسولِ اللهِ أن يَصومَه شعبانُ ، ثمَّ يَصِلُه برمضانَ
(صحيح الترغيب: 1024)
کہ رسول اللہ ﷺ کو مہینوں میں سب سے زیادہ محبوب یہ تھا کہ آپ شعبان میں روزے رکھیں، پھر اسے رمضان سے ملا دیں۔
چھٹی خصوصیت:ماہ شعبان کا خاص خیال
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ:
كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ يتحفَّظُ من شعبانَ ما لا يتحفَّظُ من غيرِهِ ثمَّ يصومُ لرؤيةِ رمضانَ فإن غُمَّ عليْهِ عدَّ ثلاثينَ يومًا ثمَّ صامَ
(صحيح أبي داود: 2325)
نبی ﷺ شعبان کے چاند کا اتنے اہتمام کے ساتھ خیال رکھتے تھے کہ کسی دوسرے مہینے کا اتنے اہتمام کے ساتھ خیال نہیں رکھتے تھے اور چاند دیکھ کر روزہ رکھ لیتے تھے اور اگر آسمان ابر آلود ہوتا تو تیس دن کی گنتی پوری کر کے پھر روزہ رکھتے تھے۔
ساتویں خصوصیت:شعبان کے چاند اور تاریخ کا اہتمام
نبی كریم ﷺ شعبان كے مہینے كے چاند اور تاریخ یاد رکھنے كا نهایت اہتمام فرماتے تھے چنانچہ آپ ﷺ نے امت کو یہ حکم فرمایا کہ:
أحصوا هلالَ شعبانَ لرَمضانَ
(صحيح الترمذي : 687)
رمضان کے لیے شعبان کے چاند کو اچھی طرح یاد رکھو۔
آٹھویں خصوصیت:رمضان کے استقبال کےلیے روزہ رکھنا
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَا يَتَقَدَّمَنَّ أحَدُكُمْ رَمَضَانَ بصَوْمِ يَومٍ أوْ يَومَيْنِ، إلَّا أنْ يَكونَ رَجُلٌ كانَ يَصُومُ صَوْمَهُ، فَلْيَصُمْ ذلكَ اليَومَ.
(صحيح البخاري: 1914)
تم میں سے کوئی بھی رمضان سے ایک یا دو دن قبل روزہ نہ رکھے الا کہ اگر کوئی شخص کسی دن کا روزہ رکھتا ہو تو وہ اس دن کا روزہ رکھ لے ۔
یعنی مثلا اگر کوئی شخص سوموار اور جمعرات کا روزہ باقاعدگی سے رکھتا ہے اور سوموار یا جمعرات کا دن رمضان سے متصل ایک دن قبل آجائے تو ایسے شخص کے لیے یہ روزہ رکھنا جائز ہے ۔ لیکن رمضان کے استقبال کی غرض سے شعبان کے آخری ایک یا دو دن کا روزہ رکھنا ممنوع ہے۔
نویں خصوصیت:نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع
البتہ امت کے لئے آپ ﷺ نے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع فرما دیا چنانچہ حدیث میں آتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلا تَصُومُوا 6
یعنی جب شعبان آدھا ہو جائے تو تم روزہ مت رکھو۔
البتہ کوئی شخص پیراور جمعرات کو روزہ رکھتا ہو اورشعبان کا آخری دن پیر کوآجائے تو وہ یہ نفلی روزہ رکھ سکتا ہے اسے اس روزہ رکھنے سے منع نہیں کیا جائےگا ۔جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَتَقَدَّمَنَّ أحَدُكُمْ رَمَضَانَ بصَوْمِ يَومٍ أوْ يَومَيْنِ، إلَّا أنْ يَكونَ رَجُلٌ كانَ يَصُومُ صَوْمَهُ، فَلْيَصُمْ ذلكَ اليَومَ.
( صحيح البخاري: 1914)
تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے ( شعبان کی آخری تاریخوں میں ) ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھے البتہ اگر کسی کو ان میں روزے رکھنے کی عادت ہو تو وہ اس دن بھی روزہ رکھ لے ۔
اس تفصیل سے یہ بات تو طے ہے کہ روزے کے لئے پندرہ شعبان کو خاص کرنے کی کوئی خصوصیت اور دلیل نہیں ہے بلکہ شعبان کے مہینہ میں بلا کسی تاریخ کی قید اور اہتمام کے بغیر، پندرہ شعبان تک روزے رکھے جا سکتے ہیں یا صرف ایام بیض (13/14/15 تاریخ) کے روزے رکھے جائیں تو یہ بھی سنت سے ثابت ہے پندرہ شعبان کی الگ سے کوئی خصوصیت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے۔
دسویں خصوصیت:نصف شعبان کا روزہ
اگر آپ نبی ﷺ کی سنت کے مطابق ایام بیض کے روزوں کی نیت کرکے ماہِ شعبان کی پندرہویں تاریخ کو روزہ رکھتے ہیں تو یہ درست ہے ۔کیونکہ نبی کریم ﷺ ایام بیض کے روزے کبھی ترک نہ فرماتے تھے۔خواہ گھر میں ہوں یا سفر میں۔
ایام بِیض کےروزےکون سے ہیں؟
ایام بیض قمری مہینے کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو کہتے ہیں۔جیساکہ نبی کریم ﷺ نے خود واضح فرمایا:
صيامُ ثلاثةِ أيَّامٍ من كلِّ شَهرٍ صيامُ الدَّهرِ ، وأيَّامُ البيضِ صبيحةَ ثلاثَ عشرةَ وأربعَ عشرةَ وخمسَ عشرة.
( صحيح النسائي : 2419)
ہر مہینے میں تین روزوں کا اجر ایسا ہے جیسے کوئی ہمیشہ روزے رکھے (یعنی ایام بیض کے روزے) اور ایام بیض (چاند کی) تیرہویں چودہویں اور پندرہویں تاریخ کےدن ہیں۔
ایام بیض کے روزوں کی فضیلت
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرماتے ہیں :
أَوْصَانِي خَلِيلِي بثَلَاثٍ لا أدَعُهُنَّ حتَّى أمُوتَ: صَوْمِ ثَلَاثَةِ أيَّامٍ مِن كُلِّ شَهْرٍ، وصَلَاةِ الضُّحَى، ونَوْمٍ علَى وِتْرٍ.
( صحيح البخاري: 1178)
مجھے میرے محبوب دوست ( نبی ﷺ ) نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے کہ موت سے پہلے ان کو نہ چھوڑوں۔ ہر مہینہ میں تین دن کے روزے۔ چاشت کی نماز اور وتر پڑھ کر سونا۔
اس کے علاوہ ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جس سے صرف پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنے کی دلیل بنتی ہو، صحیح احادیث سے شعبان کا اکثر روزہ رکھنے کی دلیل ملتی ہے جیساکہ اوپر متعدد احادیث گزری ہیں ۔ جو لوگ روزہ رکھنے کے لئے شعبان کی پندرہویں تاریخ متعین کرتے ہیں وہ دین میں بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں اور بدعت موجب جہنم ہے ۔ اگر کوئی پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنے سے متعلق كسی حدیث كا دعوی كرےتو وه یقینا گھڑی ہوئی اور بناوٹی ہے۔ جو گھڑی ہوئی روایت کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
علامہ محدث عبید ﷲ رحمانی مبارکپوری فرماتے ہیں:
الحاصل أنه لیس فی صوم یوم لیلة النصف من شعبان حدیث مرفوع صحیح أو حسن أو ضعیف خفیف الضعف ولا أثر قوی أو ضعیف۔7
پندرہ شعبان کے بارے میں کوئی مرفوع حدیث صحیح یا حسن یا ایسی ضعیف روایت جس کا ضعف معمولی ہو مروی نہیں ہے اور نہ کوئی اثر قوی یا ضعیف ہی موجود ہے۔‘‘
ابوبکر بن العربی لکھتے ہیں:
ولیس في لیلة النصف من شعبان حدیث یعول علیه لافي فضلھا و لا في نسخ الآجال فیھا، فلا تلتفتوا إلیھا8
یعنی: نصف شعبان کی رات اور فضیلت کے بارے میں کوئی حدیث قابلِ اعتماد نہیں ہے اور اس رات کو موت کے فیصلے کی منسوخی کے بارے میں بھی کوئی حدیث قابلِ اعتماد نہیں ہے۔ پس آپ ان (ناقابل اعتماد) احادیث کی طرف (ذرہ بھی) توجہ نہ کریں۔
حافظ ابن القیم لکھتے ہیں:
لا یصح منھا شئ9
یعنی پندرہ شعبان کی رات کو خاص نماز والی روایتوں میں سے کوئی چیز بھی ثابت نہیں ہے۔
حافظ ابن القیم مزید فرماتے ہیں:
تعجب ہے اس شخص پر، جس کو سنت کی سوجھ بوجھ ہے، وہ بھی یہ موضوع روایات سن کر ایسی (عجیب وغریب) نماز پڑھتا ہے۔ (ایک سو رکعات ایک ہزار سور ۂ اخلاص کے ساتھ)‘‘10
آخری بات
نصف شعبان کے دن یا اس کی رات سے متعلق کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے ۔قبیلہ کلب کی بکری کے بالوں کے برابر مغفرت والی حدیث، مشرک وبغض والے علاوہ سب کی مغفرت والی حدیث، سال بھر کے موت وحیات کا فیصلہ کرنے والی حدیث،اس دن کے روزہ سے ساٹھ سال اگلے پچھلے گناہوں کی مغفرت کی حدیث ، بارہ –چودہ- سو اور ہزار رکعات نفل پڑھنے والی حدیث یانصف شعبان پہ قیام وصیام اور اجروثواب سے متعلق کوئی بھی حدیث قابل حجت نہیں ہے ۔لہٰذا پندرہ شعبان کے دن میں کوئی مخصوص عمل انجام دینا یا پندرہ شعبان کی رات میں کوئی مخصوص عبادت کرنا جائز نہیں ہے ۔ شعبان کے مہینے میں نبی ﷺسے صرف اور صرف بکثرت روزہ رکھنے کا ثبوت ملتا ہے لہذا مسلمانوں کو اسی عمل پر اکتفا کرنا چاہئے اور بدعات وخرافات کو انجام دے کر پہلے سے جمع کی ہوئی نیکی کوبھی ضائع نہیں کرنا چاہئے ۔