شعبان کی وجہ تسمیہ
شعبان ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے۔ لفظ شعب اس وقت کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں علیحدگی اختیار کی جاتی ہو۔ اہل عرب اس ماہ میں پانی کی تلاش میں دور نکل جاتے تھے اور انھیں ایک دوسرے سے علیحدہ ہونا پڑتا تھا۔ شعبان کو مکرم بھی کہا جاتا ہے۔ شعبان کی پندرہویں شب کو عرف عام میں شب برات بھی کہا جاتا ہے۔
ماہ شعبان میں جائز عمل
1-ماہ شعبان کا روزہ
ماہ شعبان بڑی عظمت والا ہے اور اس کی فضیلت اس لیے مسلم ہے کہ یہ مہینہ رمضان کے مقدس مہینہ کے لیےپیشگی تیاری کا مہینہ ہے،اور اسی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کے رسول ﷺ اس مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھا کرتے تھے۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:
مارایتہ اکثر صیاما منہ فی شعبان 1
’’میں نے نبی ﷺ کو کسی ماہ میں شعبان سے زیادہ روزہ رکھتے نہیں دیکھا
ایک اور روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں
ما رأیت النبی ﷺ فی شہر اکثر صیاما منہ فی شعبان کان یصومہ الا قلیلاً بل کان یصومہ کلہ 2
میں نے نبی ﷺ کو کسی ماہ میں شعبان سے زیادہ روزہ رکھتے نہیں دیکھا اس ماہ میں چند دنوں کے علاوہ بقیہ دنوں میں روزہ رکھتے بلکہ پورے شعبان کا روزہ رکھتے
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے آپﷺ سے شعبان میں کثرت سے روزر رکھنے کی وجہ دریافت کی تو آپﷺ نے فرمایا:لوگ اس ماہ (میں روزہ )سے غافل رہتے ہیں ،یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں میں چاہتاہوں کہ میرے عمل بھی روزے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں 3
لیکن ہمارے لیے حکم یہ ہےکہ نصف شعبان کے بعد روزہ نہ رکھا جائے،منع کا حکم دیاہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے
اذا انتصف شعبان فلا تصوموا4
جب شعبان آدھا گزر جائے تو روزہ مت رکھو
ان احادیث سے معلوم ہواکہ نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا ممنوع ہے،پہلے نصف میں رکھاجاسکتاہے
2-ماہ شعبان میں سلف صالحین کی حالت
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ماہ شعبان میں اصحاب رسول ﷺ کی حالت کوبیان کرتےہوئے فرماتے ہیں کہ جب شعبان کا مہینہ شروع ہوتا تو سب کے سب تلاوت قرآن کی طرف متوجہ ہوجاتے۔
عمرو بن قیس رحمہ اللہ شعبان کی آمد کے ساتھ ہی اپنی دکان بند کرلیتے اور تلاوت قرآن کےلیے اپنے آپ کو مکمل طور پر فارغ کرلیتے۔
سلف صالحین کےاس قسم کے واقعات امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’لطائف المعارف‘‘ میں ذکرکیے ہیں۔
اس ماہ میں کی جانے والی بدعات و خرافات کا تذکرہ
اسلامی تعلیمات سے غافل بعض مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اس رات میں گناہوں کی بخشش ہوتی ہے، عمراوررزق میں اضافہ ہوتاہے۔ بعض مسلمان پوری رات جاگ کر بلند آواز سے دعائیں کرتے ہیں۔ یہ دعائیں بھی من گھڑت ہوتی ہیں ۔اس ماہ کی پندرہ تاریخ کی رات میں قبروں کی زیارت اور روشنی و چراغاں کرتے ہیں، حلوے کا اہتمام ہوتاہے اور قبروں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ بیوہ عورت کا یہ عقیدہ ہوتاہے کہ اس کے شوہر کی روح پندرہویں شعبان کی رات میں آتی ہے، اس لیے اس کے استقبال کےلیے اس کے پسندیدہ کھانا پکاتی ہے۔ بعض زر پرست مولوی اس رات کی فضیلت کو لیلۃ القدر جیسی بتاکر سخت قسم کی ضعیف وموضوع احادیث کا سہارا لے کر لوگوں کی ذہن سازی کرتےہیں کہ شب قدر میں جس روح کے نزول کا ذکر قرآن مجید میں ہے اس سے مراد مُردوں کی روحیں ہیں۔ اس رات میں لوگ شب بیداری کا اہتمام کرتے، مسجدوں میں جمع ہوکر رات بھر باجماعت نوافل پڑھنے کا اہتمام ہوتاہے ۔
اس پندرہویں کے رات کے قیام سے متعلق جتنی بھی روایات ہیں ان کی بابت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ علمائے حجاز و فقہائے مدینہ نےپندرہویں شعبان کی رات کی بابت وارد ساری روایات کو ضعیف موضوع اور اس رات کو ہونے والے اعمال و افعال کو بدعت قرار دیاہے5
1-شب برات
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قرآن کریم میں سور دخان کی آیت:
اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ، فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ6
ہم نے اس قرآن کو مبارک رات میں اتارا ہے ہم لوگوں کو ڈرانے والے ہیں اسی مبارک رات میں ہر محکم معاملہ طے پاتا ہے۔
میں جو رات مذکور ہے یہ پندرہ شعبان کی رات ہے اور اسی میں قرآن کا نزول ہواہے ،جبکہ یہ رائے درست نہیں ،وہ اس لیے کہ سورہ بقر ہ میں ہے کہ قرآن مجید کا نزول رمضان ہے میں ہواہے
شَہرُ رَمْضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنَ7
رمضان کا مہینہ ایک بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا
اور سورہ قدر میں مزید وضاحت ہوگئی کہ وہ رات لیلۃ القدر ہے جوکہ رمضان کے آخری عشرے میں آتی ہے
اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ8
ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا۔
تو ان آیات نے واضح کردیا کہ سورہ دخان کی آیت میں ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ مذکور ہے اس سے مراد رمضان المبارک کی ’’لیلۃ القدر‘‘ ہے، ناکہ شعبان کی پندرہویں رات۔
اسی حوالے سےعلامہ شوکانی رحمہ اللہ اپنی تفسیر فتح القدیر میں تحریر فرماتے ہیں:’’لیلۃ المبارکۃ سے مراد شب قدر ہے اس سے مراد پندرہ شعبان کی رات نہیں اس لیے کہ سورہ دخان والی آیت میں اگرچہ اس رات کی وضاحت نہیں لیکن سورہ بقرہ کی آیت میں اس رات کو وضاحت ہوگئی کہ یہ رات رمضان کے مہینہ میں ہوتی ہے
2-پندرہ شعبان کا روزہ
پندرہ شعبان کے دن کو روزہ کےلیے خاص کرنا اس حوالے سے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
فاما صوم یوم النصف مفردا فلا اصل لہ بل افرادہ مکروہ وکذلک اتخاذہ موسما تصنع فیہ الاطعمۃ و تظہر فیہ الزینۃ وہو من المواسم المحدثۃ المبتدعۃ التی لا اصل لہ9
البتہ صرف پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنے کی روایت بے اصل ہے، بلکہ محض اس دن کا روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ اسی طرح اس دن کو ایسے تہوار کے طور پر منانا کہ جس میں خاص کھانے تیار کیے جائیں اور زیب و زینت کا اظہار کیا جائے تو یہ ان بدعات میں سے ہے جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
3-پندرہ شعبان کی شب میں قبرستان جانا
پندرہ کی رات کو قبرستان جانے کا خاص اہتمام کرنا یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ،بلکہ حدیث میں زیارت قبور کے حوالے سے عمومی حکم یہ آیاہے کہ
کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروھا فانھا تذکرالآخرۃ10
میں نے پہلے زیارت قبور سے منع کیاتھا اب اجازت دیتاہوں یہ(زیارت)آخرت کی یاد دلاتی ہے۔
اس سے علم ہوا کہ زیار قبور کسی بھی وقت ہوسکتی ہے کسی دن یارات کے ساتھ اسے سنت سمجھ کر خاص کرنا اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
اس رات کو خاص اہتمام کے ساتھ زیارت قبور کے حوالے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی ایک روایت نہایت شد ومد کے ساتھ پیش کی جاتی ہے جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:’’ایک شب میں نے رسول اﷲ ﷺ کو موجود نہیں پایا۔ میں آپ ﷺ کی تلاش میں نکلی سو آپ ﷺ بقیع میں تھے تو فرمایا: کیا تمھیں اندیشہ تھا کہ اﷲ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کرے گا۔ میں نے کہا: یا رسول اﷲ! میں نے جانا آپ ﷺ اپنی کسی بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ اترتا ہے پندرہ شعبان کی رات میں آسمان دنیا کی طرف، اپنے بندوں کو بخشتا ہے قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کے عدد سے زیادہ‘‘۔11
اس حدیث کی صحت کے بارے میں اسی حدیث کے بعد امام ترمذ ی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کا قول نقل کرکے اس کے ضعیف ہونےکوبیان کیاہے،اس سے واضح ہواکہ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔
دوسری بات اگر اس رات کو خاص قبرستان میں جانے کی کوئی فضیلت ہوتی تو آپ ﷺ اپنے صحابہ کو اس فضیلت سے ضرور آگاہ کرتے۔
4-چراغاں کرنا مجوسی سازش ہے
اس رات کو چراغاں کیا جاتاہے، جوکہ بدعت بھی ہے اور مجوسیوں(غیر مسلوں) کا طریقہ اور مشابہت ہے،اور ہمیں ان کی مشابہت سے روکاگیاہے،12
مولانا عبدالسلام ندوی رحمہ اللہ امام شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے حوالے سے اپنے ایک مضمون بعنوان’’بدعت میں تغیر مذہبی کے سبب اختلاط مذاہب‘‘ میں اس چراغاں سے متعلق لکھتےہیں:’’—-اس زمانہ میں شعبان کی پندرہ شب کو ایک مبتدعانہ نماز پڑھی جاتی تھی اور اس کے لیے نہایت اہتمام کیا جاتا تھا۔ برامکہ پہلے مجوسی مذہب رکھتے تھے اور آگ مجوس کا معبود ہے۔ اس طرح انھوں نے قدیم مذہب کی محبت میں آگ کو روشنی اور چراغاں کی صورت میں اسلام کا بھی ایک شعار قرار دے دیا۔‘‘13
——————————————————————————————
- (صحیح بخاری:1969 ، صحیح مسلم:782)
- (سنن ترمذی:736)
- سنن نسائی:2357،مسند احمد:21753)
- (سنن ابی داؤد :2337، سنن ترمذی :738۔ )
- ( اقتضاء الصراط المستقیم ،ازشیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ 2/126)
- ( الدخان3-4)
- ( سورة الأنفال: 17)
- ( سورة القدر آیت 1)
- ( اقتضاءالصراط المستقیم،ص:302)
- (سنن ترمذی:1054 )
- سنن ترمذی: 739
- (سنن ابی داؤد:4031۔ )
- (رسالہ الندوہ، جلد 8، شمارہ 11، ص: 8،ماہ نومبر 1911ء۔ )