الحمد للہ وحدة والصلاة والسلا م علی نبینا محمد وعلی آله وصحبه أجمعین وبعد:
محترم قارئین!
دینِ اسلام سے قبل کے مختلف قسم کے باطل عقائد، شرک وبدعات، رسم و رواج، نحوست وبدشگونی اور توہم پرستی میں مبتلا تھے،چنانچہ پرندوں کواڑاکرسفر کرنے کا فیصلہ کرتے تھے ۔اگرپرندہ دائیں سمت کی طرف جاتا تو اس کام یاسفرکو اچھا فال تصورکرکے جاری رکھتے اور اگر بائیں کو جاتا تو اس کا م یا سفرسے نحوست اور بدشگونی سمجھ کر ترک کردیتے ۔اسی طرح بعض ایا م اور مہینوں کو بھی نحوست وبد شگونی کی نظرسے دیکھتے تھے۔
رب العالمین نے اپنی رحمت سے محمد عربیﷺ کو مبعوث کرکے جاہلیت کے تما م شرکیہ اعتقادات ،فاسد خیالات اورتوھمّات وخرافات وغیرہ کو ختم کرکے صحیح عقیدۃ اوردرست منہج عطا کیا اورآپ ﷺکے ذریعہ دین کی تکمیل کردی گئی اور یہ اعلان کردیا گیا کہ اب دین اسلام سارے غلط عقائد وأفکار اورتوہمات وخرافات اورباطل پگڈنڈیوں سے پاک ا ورصاف ہوگیا ہے ،کسی مہینے اور دن کے سلسلے میں کوئی بدشگونی اورنحوست لینا درست نہیںاوراس دین میں قیامت تک کسی تبدیلی وزیادتی کی گنجائش باقی نہ رہی اورآپ ﷺنے صحابہ کرام سے فرمادیا کہ: لوگوں میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑےجا رہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے گمراہ نہ ہوگے ،ایک کتاب اللہ، دوسری میری سنت۔اور دوسری جگہ فرمایا کہ میں تمہیں ایسی روشن شاہراہ پرچھوڑے جارہا ہوں جسکی راتیں بھی دن کے مانند ہیں،اس سے وہی شخص انحراف و رو گردانی کریگا جس کے مقدر میں ہلاکت وتباہی لکھ دی گئی ہو۔
آپ ﷺکے انتقا ل کے بعد لوگ کچھ صدیوں تک دین اسلام پر صحیح طریقے سےقائم رہے یہان تک کہ خیرالقرون کا زمانہ گزرگیا، پھر مختلف قسم کے باطل فرقے جنم لینا شروع ہوگئے، اعداء اسلام خاص کریہود و نصاری نے اپنی ریشہ دوانیوں کاسلسلہ تیزکردیا، عہد رسالت سے دوری ہوتی گئی، دین سے بے توجہی اور جہالت عام ہوتی گئی، اور لوگوں میں شرک وبدعات، باطل اعتقادات، غیردینی رسم ورواج، اور مختلف قسم کے اوہام وخرافات پیدا ہونے لگے اور وہ دین اسلام جس کو محمدعربی ﷺنے ہرطرح کی خرافات سے پاک وصاف کردیا تھا وہ مکدر اورگدلا ہوتا نظرآنے لگا ، چنانچہ انہیں باطل اعتقادات ،اوہام وخرافات اوربدعات میں سے ماہ صفر کی نحوست وبدعات ہیں ، جو موجودہ دورمیں بعض نام نہاد مسلمانوں میں دین سے جہالت اور اندھی تقلید کی وجہ سے درآئیں ، جبکہ اسلام نے دورجاہلیت کے اس عقیدہ کوباطل قراردیا تھا اوریہ فرمایا تھا کہ اسلام میں کوئی مہینہ نحوست وبدشگونی کا نہیں اور زمانے اور مہینے یہ اپنے اندرکوئی تاثیرنہیں رکھتے،نہ ہی تقدیرالہٰی میں انکا کچھ دخل ہے جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے :
لا عدوی ولا طیرة ولا ھامة ولاصفر
اخرجاه وزاد مسلم (ولانوءولاغول) (بخاری ك/ الطب10/265 مسلم باب لا عدوة 007/471
سیدنا ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ ایک کی بیماری د وسرےکو نہیں لگتی،نہ بدفالی ونحوست کوئی چیز ہے،نہ ألّو کا بولنا کوئی أثر رکھتا ہے،نہ صفر کوئی چیز ہے ، یہ بخاری ومسلم کی روایت ہے اورصحیح مسلم میںیہ بھی ہے کہ’’نچھتر نہ بھوت کوئی چیز‘‘
اس حدیث کے ذریعے نبی کریم ﷺنے اہل جاہلیت کے اس فاسد عقیدےکی تردید کی ہے جو وہ ان مذکورہ بالا چیزوں میں بذات خود تاثیر کا اعتقاد رکھتے تھے اور یہ ثابت کیا کہ مؤثر حقیقی تو صرف اللہ کی ذات ہے اوراسلام میں کسی دن اورمہینہ کو منحوس نہیں قراردیا گیا ہے اورنہ ہی کسی دن اورمہینے کی تقدیر الہٰی میں کوئی تاثیر ہے ۔
ماہ صفرسے نحوست وبدشگونی
عرب د ور جاہلیت میں ما ہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے ،کیونکہ ذی الحجہ اور محرم حرمت والے مہینے تھے جس میں وہ جھگڑا اور لڑائی حرام سمجھتے تھے ،لیکن صفر کا مہینہ شروع ہوتےہی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا –رسول اللہ ﷺنے اپنے اس قول(ولاصفر) کے ذریعے اس کی تردید فرمائی،اور بتایا کہ ماہ صفر بذات خود منحوس نہیں ہے – اس میں جو کچھ بھی لوگوں کے لئے مصیبت اور پریشانی ہے وہ ان کے اعمال قتل وخونریزی اورلوٹ مار کی وجہ سے ہے (فتح ص/308)
اوردنوں اور مہینوں کو گالی یا برا بھلا کہنے کو اللہ کو سب وشتم کرنے کے مترادف قراردیا جیسا کہ حدیث قدسی ہے:
یقول اللہ عزوجل یؤذینی ابن آدم یسب الدہر وأنا الدہر بیدی الامر أقلب اللیل والنھار
صحیح بخاری ، كتاب التفسیر، 8/738
یعنی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہی ہوں میرے ہی ہاتھ میں سارے امورہیں میں ہی رات اوردن کوپھیرتا ہوں ۔
الشیخ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ رسول ﷺکے قول ولاصفر کی توجیہ میں فرماتے ہیں :
اوروقت اورزمانے کواللہ تعالی کی تقدیر پر کوئی تاثیر نہیں، لہذا یہ بھی باقی اوقات اورزمانوں کی طرح ہے جن میں خیر وشر مقدرکیا جاتا ہے اوراس میں صفر کے وجودکی نفی نہیں ہے بلکہ اسکی تاثیرکی نفی مراد ہے اسلئے کہ موثرحقیقی توصرف اللہ تعالی ہے، لہٰذا جوسبب معلوم ہو وہ سبب صحیح ہے اور جو سبب صرف وہم پر ہو وہ سبب باطل ہے اور بنفسہ اس کے سبب اورتاثیر کی نفی ہو گئی ۔ (مجموع فتاوی الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ:/113-115)
ماہ صفر کی نحوست و بدعات اورموجودہ مسلمان
قائین کرام! کتا ب وسنت کی روشنی میں کچھ مہینے ایام اور راتیں ایسی ہیں جن کو دوسرے مہینوں، ایام اور راتوں کے مقابلے میں زیادہ فضیلت حاصل ہیں،جیسے یوم عرفہ، شب قدراور یوم عاشوراء وغیرہ ،مگرکسی ماہ یا دن یارات کے بارےمیں صحیح احادیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ منحوس ہے اور اس سے بدشگونی لینی جائزہے ۔
لیکن افسوس کہ موجودہ دورکے بہت سے مسلمان ما ہ صفر کے بارے میں بڑی بد عقیدگی کا شکار ہیں اوراہل جاہلیت کی روش پر ابھی بھی قائم ہیں ، وہ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ:
1- اس ماہ میں مصائب وآلام کی ہوائیں پوری تیزی کے ساتھ چلنے لگتی ہیںاور غم وتکلیف کے دریا تندی وروانی کے ساتھ بہنے لگتے ہیں –یعنی سال میں دس لاکھ اسّی ہزار بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ان میں صرف ایک مہینہ (صفر) میں نولاکھ بیس ہزاربلائیں نازل ہوتی ہیں ۔
2-بعض بد عقیدہ مسلم خواتین اس مہینے کو(طیرۃ طیری) یا (تیرۃ تیری) کے نام سے موسوم کرتی ہیں چنانچہ وہ اس مہینہ کو منحوس خیال کرتی ہوئیں چنے ابال کر اس مہینہ میں صدقہ کرتی ہیں تاکہ اس نحوست سے محفوظ رہیں ۔
3-بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ مہینہ رحمتوں اوربرکتوں سے خالی رہتا ہے اسی لئے اس سے نحوست پکڑتے ہیں ۔
4-بعض لوگ جب صفرکی پچیس تاریخ کو اپنے کسی کام سے فارغ ہوتے ہیں تو اسکی تاریخ لکھتے ہوئے کہتے ہیں : خیر کے مہینہ پچیس تاریخ کو یہ کا م ختم ہوا ،(یہ بدعت کا علاج بدعت کےذریعے ہے ،یہ مہینہ نہ تو خیرکا ہے اور نہ ہی شر کا) ۔
5-بعض لوگوں کے یہاں نئے شادی شدہ جوڑوں کو اس ماہ کے ابتدائی تیرہ دنوں میں ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا ہے، انہیں ایک دوسرے کی صورت تک نہیں دیکھنے دی جاتی ہے،حتی کہ عام شوہر اور بیوی کو بھی تین دن تک ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا ہے ، تاکہ وہ نحوست کا شکار نہ ہوجائیں ۔
6-بعض مسلمان ماہ محرم میں اورصفر میں اس بنا پر شادی اورکوئی خوشی کا کا م نہیں کرتے کہ محرم میں سیدناحسین رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے اورصفر میں سیدناحسن بن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا- ان دونوں واقعات کی بنا پر دونوں مہینوں کو شادی اورخوشی کیلئے غیر مناسب اورمنحوس سمجھتے ہیں ، حالانکہ کسی کی وفات اور شہادت کا دنوں اور مہینوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، ورنہ ما ہ ربیع الاول اس بنا پر منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں رسول ﷺکی وفات ہوئی – جمادی الاول کو اس لئے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ اول، یار غاررسول سیدناابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا – اور ذی الحجہ اسلئے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ ثانی سیدناعمر فاروق اور خلیفہ ثالث سیدناعثمان رضی اللہ عنہما کی شہادت ہوئی اورماہ رمضان اس واسطے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ چہارم سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی – اس طرح تما م انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام اورائمہ اسلام کی وفات اور شہادت کے ایام ومہینوں کو منحوس قراردیں ، تو کوئی مہینہ، بلکہ کوئی دن نحوست سے خالی نہ رہے ، اس لئےسیدناحسین کی شہادت کی وجہ سے محرم کو اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے انتقال کی وجہ سے صفر کو منحوس سمجھنا اور ان میں شادی بیاہ نہ کرنا سراسر باطل اورغلط ہے ۔
کوئی مہینہ اور دن منحوس نہیں ہوتا منحوس آدمی کا اپنا نا جائز عمل اور غلط عقیدہ ہوتا ہے ۔
7- ماہ صفر کی بدعات میں سے ایک بدعت یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ اس ماہ کے آخر میں مغرب وعشاء کے درمیان مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں ، اور ایک ایسے کاتب کے پاس حلقہ بناکر بیٹھتے ہیں جو انھیں کاغذ پرانبیاء علیہم السلام کے اوپر سلام والی آیتوں کو لکھ کر دیتا ہے وہ آیا ت یہ ہیں :
سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ
یٰس – 58
سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ
الصافات – 79
سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ
الصافات – 109
سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ
الصافات – 120
سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ
الزمر – 73
سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ
القدر – 5
اس کے بعد یہ اسے پانی کے برتن میں ڈالتے ہیں اورپھراسے اس اعتقاد کے ساتھ پیتے ہیں کہ اس سے انکی تمام مصیبتیں دورہوجاتی ہیں ،اسی طرح وہ اس پانی کو ایک دوسرے کو ہدیہ کے طور پر بھی بھیجتے ہیں۔
بدھ کےدن سےنحوست، اورماہ صفر کے آخری بدھ کی تاریخی حیثیت
أ- بدھ کے دن سےعمومی نحوست
دمشق میں بعض لوگ بدھ کے روز مریض کی عیادت کو منحوس اور بد فال سمجھتے ہیں ،چنانچہ بدھ کے دن عوام اور خواص اوررشتہ داروں کے لئے عیادت مریض ممکن نہیں – بظاہر ان لوگوں کی دلیل یہ حدیث ہے کہ :
یوم الاربعاء یوم نحس مستمر
بدھ کا دن مسلسل نحوست کا دن ہوتاہے اس روایت کے بارے میں امام صاغانی اور امام ابن جوزی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے –امام سخاوی فرماتے ہیں کہ بدھ کے دن کی فضیلت میں متعدد احادیث مروی ہیں مگر سب کی سب ضعیف اور ساقط الاعتبار ہیں –(المقاصد الحسنۃ للسخاوی 1/574)
اسی طرح لوگوں میں رائج خرافات میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جس نے بدھ کے روزکسی مریض کی عیادت کی تو جمعرات کو وہ اس مریض کی عیادت کرے گا – انکا مطلب یہ ہے کہ بدھ کے روز اگر مریض کی عیادت کی جائے گی تو وہ مریض اس کے بعد دوسرے دن جمعرات کو مرجائے گا جس کی زیارت جمعرات کو قبرستان میں ہوگی۔ –
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سےپوچھا گیا کہ کیا بدھ جمعرات یا سنیچر کے روزسفر کرنا مکروہ ہے ؟ یا ان ایام میں کپڑوں کی کانٹ چھانٹ اور کپڑوں کی سلائی سوت کی کتائی یا اس قسم کے کاموں کا کرنا مکروہ ہے یافلان فلان تاریخوں کی راتوں میں جماع کرنا مکروہ ہے ، کیونکہ ایساکرنے سے پیدا ہونے والے بچوں کے لئے خوف وخطرہ لگا رہتا ہے – اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا : کہ سؤال میں مذکورہ عقائدوخیالات باطل اوربے اصل ہیں اورآدمی جب استخارہ کرکے کوئی مباح عمل کرے جس وقت بھی کرنا آسان ہو قطعی طورپر وہ کام کرسکتا ہے – کسی دن بھی کپڑے کی کاٹ چھانٹ یا سلائی یا سوت کی کتائی مکروہ نہیں ہے رسول ﷺ نے بدفالی سے منع فرمایا ہے :
عن معاویة بن الحکم السلمی قال قلت یارسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ان منا قوما یأتون الکهان ؟ فلاتأتوهم قال منا قوم یتطیرون ؟ قال وذالک شئی یجدہ احدکم من نفسه فلا یصدنکم
صحٰیح البخاری ، كتاب الاستسقاء 2/522، صحیح مسلم، کتاب السلام، 7/481،
سیدنامعاویہ بن حکم سلمی سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ؟ ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس آتے ہیں –آپ ﷺنے فرمایا تم لوگ کاہنوں کے پاس مت جاؤ انہوں نے عرض کیا ہم میں سے کچھ لوگ بدفالی لیتےہیں – ﷺنے فرمایا کہ یہ ایسی چیز ہے جس کو تم میں سے بعض لوگ اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں مگراسکی وجہ سے کوئی کام کرنے سے تمہیں باز نہیں رہنا چاہئیے –
آگے چل کر شیخ الاسلام اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں جب رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ جس کام کا آدمی نے عزم کیا اس کا م کو بدفالی کے سبب کرنے سے بازنہیں آنا چاہئے –تو ،رات اوردن میں سے کسی کو منحوس سمجھنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ بلکہ جمعرات اورسنیچر اوردوشنبہ کو سفر کرنا مستحب ہے اورتما م ایام میں کسی دن سفر کرنے یا کسی کام سے روکا نہیں گیاہے –البتہ جمعہ کے بارے میں اختلاف ہے اگرسفر کے سبب نماز جمعہ فوت ہوجانے کا خطرہ ہو تو اس دن جمعہ سے پہلے سفر کرنے سے بعض علماء منع کرتے ہیں، اور بعض علماء کرام جائز بتاتے ہیں لیکن کاروبار اورجماع تو کبھی اورکسی دن مکروہ وممنوع نہیں (واللہ أعلم) (دیکھئیے خانہ ساز شریعت ص/174)
ب –-ماہ صفر کے آخری بدھ کی تاریخی حیثیت ماہ صفرکے آخری بدھ کے بارے میں عام تصور یہ پایا جاتا ہے کہ اس روز رسول ﷺنے بیماری سے شفا پائی اور آپ ﷺنے غسل صحت فرمایا اسی لئے بعض لوگ ما ہ صفر کے آخری بدھ کو کاروبار بند کرکے عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں ،اورسیروتفریح کے لئے شہر سے باہر نکلتے ہیں اور آپ کی صحت یابی کی خوشی میں جلوس نکالتے ہیں – حالانکہ اس کا ثبوت نہ احادیث کی کتابوں سے اور نہ تاریخ وسیر کی کتابوں سے ملتا ہے – بلکہ تاریخ وسیر کی کتابوں سے اس کے خلاف ثبوت ملتا ہے چنانچہ اسد الغابہ( 1/41) میں ہے :
بدأ برسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم مرضه الذی مات منه یوم الاربعاء لیلتین بقیتا من صفر سنة احدی عشرة فی بیت میمونة ثم انتقل حین اشتد مرضه الی بیت عائشة وقبض یوم الاثنین ضحی فی الوقت الذی دخل فیه المدینة لاثنتی عشرة من ربیع الاول
رسول ﷺکی اس بیماری کا آغاز جس میں آپ ﷺاس دنیا سے تشریف لے گئے سن11ھ میں صفرکے مہینے کی جب دوراتیں باقی رہ گئی تھیں بدھ کے روز سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں ہوا پھر جب آپ ﷺ کی بیماری شدت اختیارکر گئی تو آپ ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر منتقل ہوگئے اور 12ربیع الاول سوموار کے دن چاشت کے وقت جس وقت آپ مدینہ میں داخل ہوئے تھے آپ کی روح اقدس کو قبض کرلیا گیا –
یہی عبارت الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (1/20) میں بھی ہے اور تاریخ خمیس (2/161) میں ہے:
ابتدأبه صداع فی اواخرصفرلیلتین بقیتا منه یوم الاربعاء فی بیت میمونة
یعنی رسول ﷺکی بیماری کی ابتداء بدھ کے روز سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں صفرکے آخرمیں ہوئی۔
حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری (8/164)ترجمۃ الباب با ب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ کی شرح میں لکھا ہے کہ بیماری کا آغازصفر کے آخر میں ہوا
اورطبقات ابن سعد (2/377) میں سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 29 صفر سن 11ھ یو م چہار شنبہ کو بیمار ہوئے اور 12ربیع الاول سن 11ھ بروزدوشنبہ آپ ﷺنے وفات پائی – اور (البدایہ والنہایۃ (5/224)میں ہے :
ابتدأرسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بشکواہ الذی قبضه اللہ فیه الی ارادہ اللہ من رحمته وکرامته فی لیال بقین من صفر وفی أول شهر ربیع الاول
رسول ﷺکی اس بیماری کا آغاز جس میں اللہ نے ان کی روح مبارک کو قبض فرمایا تاکہ ان کو اپنی رحمت وکرامت سے نوازے –صفر کی چند راتیں باقی رہ گئی تھیں یا ربیع الاول کی ابتدا میں ہوا تاریخ الکامل (2/215)میں ہے:
ابتدأ برسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم مرضه اواخرصفر
رسول ﷺکی اس بیماری کا آغاز صفر کے اواخر میں ہوا۔
سیرت ابن ہشام (5/224) میں ہے :
ابتدأرسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بشکواہ الذی قبضه اللہ فیه الی ارادہ اللہ من رحمته وکرامته فی لیال بقین من صفر او فی شهر ربیع الاول
رسول ﷺکی اس بیماری کا آغاز جس میں اللہ تعالی نے ان کی روح مبارک کو قبض فرمایا تاکہ ان کو اپنی رحمت وکرامت سے نوازے صفر کی چند راتیں باقی رہ گئیں یار بیع الاول کی ابتداء ہو چکی تھی اس وقت ہوا۔
بدأہ الوجع لیلتین بقیتا من صفر وتحاوی به وجعه
صفرکی دو راتیں باقی رہ گئیں تھیں آپ ﷺکی بیماری شروع ہوئی پھر آپ ﷺبیمار ہی رہے۔
تاریخ طبری (2/161)
بدأ رسول صلی اللہ علیه وسلم وجعه لیلتین بقیتا من صفر
رسول ﷺکی بیماری کا آغاز اس وقت ہوا جب صفر کی دوراتیں باقی رہ گئی تھیں۔
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ (سیرت النبی 2/172) لکھتے ہیں کہ زیادہ تر روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺکل تیرہ دن بیمار رہے – اس بنا پر اگریہ تحقیقی طورپر متعین ہوجائے کہ آپ نے کس تاریخ کو وفات پائی تو تاریخ آغاز مرض بھی متعین کی جاسکتی ہے –سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھربروایت صحیح آٹھ روز (دوشنبہ تک) بیمار رہے، وہیں وفات ہوئی، اسلئےایام علالت کی مدت آٹھ روزیقینی ہے عام روایت کے رو سے پانچ دن اور چاہئیں، اوریہ قرائن سے بھی معلوم ہوتا ہے اس لئے مدت علالت 13 دن صحیح ہے علالت کے پانچ دن آپ ﷺنے ازواج مطہرات کے حجروں میں بسر فرمائے – اس حساب سے علالت کا آغاز چہارشنبہ سے ہوتا ہے –
بہرحال محققین کے نزدیک آپ ﷺکی بیماری کا آغاز صفر میں آخری بدھ کو ہوا کچھ لوگوں نے دن اورتاریخ میں تھوڑا اختلاف کیا ہے – مگر یہ بات تقریباً متفق علیہ ہے کہ آ پ ﷺکی مرض الموت کی ابتدا صفر کی آخری تاریخوں میں ہوئی – پھر بتائیے کہ مسلمانوں کو یہ کہاں زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے نبی فداہ ابی وامی کی بیماری کے دن خوشیاں منائیں – زیب وزینت کرکے باغوں پارکوں اور سیر گاہوں میں تفریح کے لئے جائیں ،قسم قسم کے کھانے مٹھائیاں اورمیوے وغیرہ کھائیں اور کھلائیں ، خصوصاً عورتیں عیدین سے بڑہ کر خوشیاں منائیں ، اورخوب بن سنور کر سیر کے لئے نکلیں – ذرا غور کیجئے کیا آپ میں کوئی اپنے ماں باپ، بھائی بہن، رشتہ دار،یا عزیز دوست کے مرض میں مبتلا ہونے کی تاریخ کو خوشی منائے گا ؟ اچھے اچھے اورلذیذ کھانوں کا اہتمام کرے گا؟ گھر میں آپ کا کوئی عزیز جاں کنی کی حالت میں ہوتو آپ سیروتفریح کو جائیں گے ؟ جب آپ اپنے ایک عزیز دوست اوررشتہ دار کی بیماری کے دن ایسا نہیں کرسکتے ، تو محمد عربیﷺ کی علالت کے آغاز کے دن کیسے کرسکتے ہیں جن کے بارے میں فرمان نبوی ﷺ ہے :
لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب الیه من والدہ وولدہ والناس أجمعین
فتح الباری، کتاب : الایمان باب حب رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم من الایمان80/1
تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جبکہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ سے بیٹے سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
مستقل فتوی کمیٹی کا اس ماہ کے بدعات کے سلسلے میں جواب:
سوال :ہمارے ملک میں بعض علماء کا خیال ہے کہ اسلام میں ایک ایسی نفل نماز ہے جو ماہ صفر کے آخری بدھ کو چاشت کے وقت ایک ہی سلام کے ذریعہ چاررکعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے جس میں ہررکعت کے اندر 17بار سورہ فاتحہ و کوثر ،50بارسورہ اخلاص اور ایک ایک بارمعوذتین
(قل أعوذبرب الفلق وقل أعوذ برب الناس)
پڑہی جاتی ہے اوریہ عمل ہررکعت میں کیا جاتا ہے اور سلام پھیر دیا جاتا ہے ، پھر سلام کے فورابعد
(اللہ غالب علی أمرہ ولکن أکثر الناس لا یعلمون)
و 360بار پڑھا جاتا ہے ،اسکے بعد جوہرالکمال کو3بار پڑھا جاتا ہے اورپھر
سبحان ربک رب العزة عما یصفون، وسلام علی المرسلین، والحمد للہ رب العالمین
کے ذریعہ نماز ختم کردی جاتی ہے ۔ پھر فقراء ومسکین میں روٹی وغیرہ کا صدقہ کیا جاتا ہے ، خاص کرکے اس مذکورہ آیت کا صدقہ ،یہ سب ماہ صفرکے آخری بدھ میںنازل ہونے والی مصیبت وپریشانی کو دورکرنے کے اعتقادسے کیاجاتا ہے ۔
اوران کا کہنا کہ ہرسال 3لاکھ بیس ہزار آفتیں نازل ہوتی ہیں اورسب کے سب ماہ صفرکے آخری بدھ کو ہوتی ہیں تو اس اعتبارسے یہ دن سال کا سب سے مشکل دن ہوتا ہے توجوشخص مذکورہ نماز کو اسکے بیان کردہ کیفیت کے ساتھ پڑہےگا تواللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے اس نمازکے ذریعہ اس دن کو تما م نازل ہونے والی پریشانیوں سے محفوظ رکھے گا اور اس سال اس کے گرد کوئی بھی مصیبت وآفت چکّرنہیں لگائے گی ۔۔۔ الخ؟
جواب : اللہ ورسول اوران کے آل وأصحاب پر درود و سلام کے بعد کمیٹی نے کہا کہ سؤال میں مذکورنفل نماز کے بارے میں کتاب وسنت سے ہم کوئی أصل نہیں جانتے اورنہ ہی سلف صالحین اورخلف میں سے کسی سے یہ فعل ثابت ہے بلکہ یہ ناپسندیدہ بدعت ہے ۔
اورنبی ﷺنے فرمایا ہے :
من عمل عملا لیس علیه أمرنا فهو ردّ وقال من أحدث فی أمرنا هذا ما لیس من فهو ردّ
جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے اور دوسری روایت میں یوں فرمایا کہ جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے
اورجس نے اس نمازاوراسکے ساتھ جو کچھ ذکرکیا گیا ہےاسکی نسبت نبی ﷺیا کسی صحابی کی طرف کی تو اس نے بہت بڑا بہتان باندھا ،اوراللہ کی طرف سے جھوٹے لوگوں کی سزا کا مستحق ہوگا ۔(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ2/354)
اورشیخ محمد عبد السلام شقیری فرماتے ہیں کہ جاہلوں کی یہ عادت بن چکی ہے کہ وہ سلام کی آیتوں جیسے سلام علی نوح فی العالمین …الخ۔ کوصفرکے آخری بدھ کو لکھ کرپانی کے برتن میں ڈا لتےہیں پھراس پانی کو پیتے، اوراس سے تبرک حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے کو ہدیہ بھی دیتے ہیں ’اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس سے شراورمصیبتیں دورہوجاتی ہیں ۔جبکہ یہ فاسد اعتقاد اوربری نحوست ہے اور قبیح بدعت ہے جو شخص بھی کسی کویہ عمل کرتا دیکھےاسکے لئے اس سے روکنا ضروری ہے ۔۔(السنن والمبتدعات :ص/111-112)
ما ہ صفر میں واقع ہونے والے غزوات وسرایا
اس ماہ میں غزوات وسرایا کی تعداد بہت زیادہ ہے جیساکہ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اسکی جانب اشارہ کیا ہے جیسے غزوۃ ابواء ،بئرمعونۃ، اورخیبر کا صفرہی میں فتح ہونا ،اسی طرح قبیلہ خثعم کی جانب صفر 9ھجری میں قطبہ بن عامر کی قیادت میں سریہ کا بھیجنا وغیرہ۔
ماہ صفرسے متعلق کچھ ضعیف وموضوع حدیثیں
1- اس ماہ سے متعلق یہ حدیث مشہور ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جوکوئی صفر کے مہینہ کے گزرنے کی خوشخبری دے،میں اسکو جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری سناتا ہوں لیکن حدیث صحیح سند سے ثابت نہیں ہے بلکہ اس ما ہ یا آخری بدھ کے نحوست کے سلسلے میں جتنی بھی حدیثیں ہیں سب ضعیف اورموضوع ہیں
(دیکھئے :الموضوعات لابن الجوزی 3/73-74 )
2-علامہ ابن القیم رحمہ اللہ ضعیف وموضوع روایت کی معرفت کے اصول وقواعد کے ضمن میں لکھتےہیں :
فصل : ان احادیث کے بارے میں جو آنے والی تاریخ سے متعلق ہیں
اسی میں سے یہ کہ : حدیث میں فلاں فلاں تاریخ کا ذکرہو جیسے انکا قول :جب فلاں فلاں سال ہوگا توایسا ایسا ہوگا اورفلاں مہینہ ہوگا تو یہ حادثہ واقع ہوگا
اور اسی طرح سخت جھوٹے کا قول :جب محرّم میں چاند گرہن لگے گا تو مہنگائی ،قتل وغارتگری اوربادشاہ وحکمران کی مشغولیت بڑہ جائیگی اورجب صفر میں چاند گرہن لگے گا توایسا ایساہوگا ، اس طرح اس کذاب نے سال کے ہرماہ کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی حدیث گڑھی ۔ اور اس باب میں جتنی بھی حدیثیں بیا ن کی جاتی ہیں سب کے سب موضوع اور جھوٹی ہیں( دیکھئے المنارالمنیف ص/64)
مذکورہ بالا کتاب وسنت اورعلمائے کرام کے اقوال وفتاوی کی روشنی میں یہ بات واضح اورواشگاف ہوگئ کہ دین اسلام میں کوئی دن اورمہینہ منحوس نہیں، نہ ہی ان ایام اور مہینوں کا تقدیر الہی میں کوئی تاثیرہے اورنہ ہی انکا کسی کی وفات سے کوئی تعلق ہے
لہذا ہم تما م راہ راست سے بھٹکے مسلمانوں سے التماس کرتے ہیں کہ وہ ماہ صفر سے متعلق بدعات، اور نحو ست وبدشگونی سے توبہ کریں اورصحیح عقیدہ کو اپنا کررب کریم اوررسول اکرم ﷺکی رضا وخوشنودی کا مستحق بنیں اللہ سے ہماری یہی دعا ہے کہ ہم سب کو ہر طرح کی بدعت ونحوست سے محفوظ رکھے اورسچا مومن بنائے آمین۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وبارک وسلم