ماہِ محرّ م میں کی جانے والی بدعات و خرافات

کیا ان سب باتوں کا اسلامی شریعت سے کوئی تعلّق ہے ؟؟

ماہِ محرّم میں بہت سے کلمہ گو مسلمان اپنےطرزِعمل کے اعتبارسےیا تو افراط میں مبتلاء ہیں یا تفریط میں:

بعض لوگ اس ماہ میں بالعموم اور خاص طور پر يومِ عاشوراء كو آنكھوں ميں سرمہ ڈالتے ہیں اورغسل كر كے مہندى وخوشبو وغيرہ لگاتے ہیں اور ایک دوسرے سے مصافحے معانقے كرتے، اور مختلف قسم کے کھانے وشیرنی پكا كر خوشى و سرور كا اظہار وغيرہ كرتے ہيں ، بعض متاخرين اور بعد ميں آنے والوں نے اس كے متعلق كچھ من گھڑت، بلاسند و ضعیف روایات بھی نقل كى ہيں مثلا يہ کہ:

جس نے يومِ عاشوراء ميں سُرمہ لگايا اسے اس سال آنكھ درد نہيں ہو گى، اور جس نے يوم ِعاشوراء كو غسل كيا وہ اس برس بيمار نہيں ہو گا.

اور يومِ عاشوراء ميں نماز ادا كرنے كى فضيلت ميں بھى روايات بيان كرتے ہيں، اور يہ بھى كہ: آدم عليہ السلام كى توبہ يوم ِعاشوراء ميں ہوئى، اور نوح عليہ السلام كى كشتى جودى پہاڑ پر يوم عاشوراء ميں ہى ركى، اورسیدنا يوسف یعقوب علیہما السلام ، كے پاس اسى دن واپس كيے گئے، اور ابراہيم عليہ السلام نے آگ سے نجات بھى اسى دن پائى، اور اسماعيل ذبيح عليہ السلام كے فديہ ميں اسى دن مينڈھا ذبح كيا گيا، وغيرہ، وغیرہ .

اور نبى کریمﷺپر جھوٹ باندھتے ہوئے ایک من گھڑت روایت ميں بيان كيا گيا ہے كہ:” جس نے يوم عاشوراء ميں اپنے گھر والوں كو وسعت وكشادگی دى اللہ تعالى سارا سال اسے آسانى اور كشادگی دے گا”۔

اس کے مقابلے میں ايك دوسرا گروہ افسوس و غم کےنام پر ماتم کرنا اور آہ بكا اور كپڑے پھاڑنا ، اپنے آپ کو زخمی کرنااور نوحہ وغيرہ كا اظہار كرتا ہے۔ اہلِ بیت کی محبّت کے اظہار کے نام پر سبیلیں و کیمپ لگائے جاتے ہیں ، مجلسِ عزاداری منعقد کی جاتی ہیں ، نوحے و مرثیہ پڑھے جاتے ہیں ، جس میں رب تعالیٰ کی گستاخی اور شرک کا پرچار کیاجاتا، اور امّہات المؤمنین و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کنایۃً و صراحۃ ً تبرّاء و لعن طعن کیا جاتا اورجھوٹے و من گھڑت واقعات اور قصوں کے ذریعہ تاریخ کو موڑتڑوڑ کے اپنے ہم عقیدہ لوگوں کی حمایت اور اُن کے حق میں رائے عامّہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اور دیگر اہل السنۃ والجماعۃ اور اُن سے جڑی وسیع فتوحاتِ اسلامیہ پر مشتمل روشن تاریخ سے متعلّق ، طرح طرح کے شبہات پیدا کیے جاتے ہیں۔

 اہل ِ بیت کی محبّت کے جھوٹے و زبانی دعوؤں کے سائے میں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ رسول ِ اکرم ﷺکی وفات کے بعدسے ہی خاندانِ نبوّت کے ساتھ ناانصافی ، ظلم و زیادتی کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھااور اس مزعومہ وجھوٹی ظلم وزیادتی کی نسبت اہلِ بیت کے علاوہ عموماًتمام مہاجرین و انصار صحابہ رضوان  اللہ علیہم اجمعین کی طرف اور بالخصوص شیخین پسرِ رسول سیدنا ابوبکر صدّیق وپسررسول سیدنا عمر فاروق، دامادِ رسول سیدنا عثمانِ غنی، زوجہ رسول وام المؤمنین سیدہ عائشہ صدّیقہ ، زوجہ رسول وام المؤمنین سیدہ حفصہ بنت عمر ،پسرِ رسول سیدنا ابو سفیان ، سالہِ رسول سیدنا معاویہ ، فقیہ صحابی سیدنا عمرو بن عاص ، و فقیہ صحابی سیدنا ابو ھریرۃ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف کرتے ہیں ۔اور عموماً بنو امیہ کا نام لےکر خوب اُن پر لعن و تکفیر کی جاتی اور نفرتوں و عداوتوں کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس طرح جاہل و غافل عوام کے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں ۔

جبکہ یہاں یہ بات بھی انتہائی قابلِ توجّہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺکی ازواجِ مطہّرات میں سے ایک زوجہ سیدہ أُمِّ حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہما کا تعلّق بنو أمیّہ سے ہے یعنی مؤمنوں ماؤں میں ایک ماں کا تعلّق بنو أمیّہ سے ہے اور آپ ﷺنے اپنی چار صاحبزادیوں میں سے تین ۳ عدد صاحبزادیاں قبیلہ بنوأمیّہ سے تعلّق رکھنے والےدو افراد اور ایک صاحبزادی قبیلہ بنو ہاشم سے تعلّق رکھنے والے فرد کے عقدمیں دیں :سیدہ أمّ کلثوم وسیدہ رقیّہ کو سیدنا عثمان غنی کے عقد میں اور سیدہ زینب کو ابو العاص بن ربیع   رضی اللہ عنہم اجمعین کے عقد میں دیا اور مذکورہ دونوں افراد کا تعلّق بنو أمیّہ سے ہے جبکہ ایک صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزّہراء کو سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے عقد میں دیا جوکہ ہاشمی تھے ۔

اس کے علاوہ خاندانِ نبوّت و بنو أمیّہ کے درمیان محبّت و قرابت کا یہ سلسلہ ہر دور میں جاری و ساری رہا جسکا محض اندازہ مندرجہ ذیل چند مثالوں سے لگایا جاسکتا ہے :

نواسہ رسول سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی پوتی سیدہ نفیسہ بنتِ زیدکا عقد ’’اموی‘‘ خلیفہ ولید بن عبد الملک بن مروان سے ہوا ،جنکی والدہ لُبابہ بنتِ عبد اللہ ، رسولِ اکرم کے چچا سیدنا عبّاس رضی اللہ عنہ بن عبد المطّلب کی پوتی تھیں ۔ (طبقات ابن سعدج: 5 ص: 234 .. عمدة الطالب في انساب آل ابي طالب ص: 70 )،

 سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کی صاحبزادی رِملہ کا عقد پہلے ابو الہیاج سے ہوا پھر اُن کے بعد معاویہ بن مروان بن حکم ’’أموی ‘‘ سے ہوا۔( الارشادللمفيد، ص: 186.. نسب قريش ،ص :45 .. جمهرة انساب العرب، ص :87 )،

سیدنا علی کے سگےبھائی سیدنا جعفر الطیار رضی اللہ عنہما بن ابی طالب کی پوتی رِملہ بنتِ محمّد کا عقد سلیمان بن ہشام بن عبد الملک ’’أموی ‘‘ سے ہوا، پھر اُنکے بعد ابو القاسم بن ولید عتبہ بن ابی سفیان سے ہوا۔( كتاب المحبر،ص: 449)،

۴) سیدنا علی کے سگےبھائی سیدنا جعفر الطیار رضی اللہ عنہما بن ابی طالب کی پوتی أُم کلثوم بنتِ عبد اللہ کا عقد سیدنا عثمان بن عفّان رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے أبان ’’أموی ‘‘ سے ہوا۔(المعارف للدنيوري ص: 86)

۵) سیدنا علی کی پوتی اور نواسہ رسول سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی صاحبزادی سیدہ سکینہ کا عقد خلیفہ ثانی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پوتے سیدنازید بن عمرو ’’أموی ‘‘ سے ہوا۔(نسب قريش للزبيري: 4/120 ، لمعارف لابن قتيبہ ص: 94 ،جمهرة انساب العرب لابن حزم: 1/86 ، طبقات ابن سعد:6/349 )

۶) سیدنا علی کی پوتی اور نواسہ رسول سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ کا عقد خلیفہ ثانی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پرپوتے سیدنامحمّد بن عبد اللہ بن عمرو ’’أموی ‘‘ سے ہوا۔( مقاتل الطالبيين للاصفهاني: 202 ،ناسخ التواريخ: 6/ 534 ، نسب قريش: 4/ 114 ،المعارف: 93 )،

۷) سیدنا علی کی پرپوتی اور نواسہ رسول سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہماکی پوتی سیدہ أم القاسم بنتِ حسن کا عقد خلیفہ ثالث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پوتے مروان بن أبان ’’أموی ‘‘ سے ہوا۔(نسب قريش: 2/ 53 ، جمهرة انساب العرب: 1/ 85 ، المحبر للبغدادي: 438)

۸) سیدنا علی کی پرپوتی اور نواسہ رسول سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہماکی پوتی سیدہ زینب بنتِ حسن کا عقد أموی خلیفہ ولید بن عبد الملک بن مروان سے ہوا۔(نسب قريش: 52 ، جمهرة انساب العرب: 108)۔

یہ چند ایک مثالیں ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ:

خاندانِ بنو أمیۃ میں موجود صحابہ ،تابعین و تبع تابعین اور خاندانِ بنو ہاشم میں موجودصحابہ ،تابعین و تبع تابعین کےباہمی تعلّقات انتہائی محبّت ، احترام و عزّت پر قائم تھے ۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ حماد امین چاولہ حفظہ اللہ

آپ نے کراچی کے معروف دینی ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالمعہد الرابع مکمل کیا ، آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔