پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں جس نے ہر چیز کی تقدیر کو مقرر کیا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں. جن کی رسالت کے ذریعے سے زمین منور ہو گئی. درود و سلام نازل ہوں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی آل پر اور آپ کے نیک و کار صحابہ کرام پر۔ اللہ کے بندوں! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالی سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَتَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}
آل عمران102
اے ایمان والوں اللہ تعالی سے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور نہ مرو مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔
حمد و صلاۃ کے بعد!!
انسان جب اس وسیع و عریض کائنات میں اپنی آنکھوں کو پھیرتا ہے تو اس وقت حیران و ششدر رہ جاتا ہے جب وہ اس کے جمال و کمال، جلالت، نظم و نسق اور توازن کو دیکھتا ہے جس کے عجائب ختم ہونے کو نہیں آتے۔ اس کے خفیہ راز اور اسرار، بے حد و بے انتہا ہیں ۔ تو قرآن مجید آسمان و زمین کی اس بادشاہت کے بارے میں غور و فکر اور تدبر کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے بیان کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: اس نے آسمانوں کو اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔ وہ رات کو دین پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے ۔ آپ ہر روز معجزات الہیہ اور پختہ کاریگری کا مشاہدہ کرتے ہیں رات آتی ہے تو دن چلا جاتا ہے۔ دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے جس میں کوئی تعطل و انقطاع نہیں آتا۔ تخلیق کائنات سے لے کر آج تک کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکا کہ رات اپنے وقت سے تاخیر کا شکار ہو گئی ہے یا سورج اپنے مقررہ وقت سے پہلے طلوع ہو چکا ہے۔ تو کون ہے جو اس کی تدبیر کر رہا ہے اور کون ہے جو اس مرتب کارخانے کی تنظیم سازی کر رہا ہے اور بغیر انقطاع کے جگہوں کا تبادلہ کر رہا ہے۔ اگر ساری خلقت مل کر بھی رات کو دن کی جگہ اور دن کو رات کی جگہ لانا چاہے تو نہیں لا سکتی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَیْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِلَیْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِیْهِؕاَفَلَا تُبْصِرُوْنَ
القصص 72
کہہ دیجیے کیا تم نے دیکھا اگر اللہ تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک رات کر دے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے پاس کوئی روشنی لے کے آئے تو کیا تم نہیں سنتے اور کہہ دیجیے کیا تم نے نہیں دیکھا اگر اللہ تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک دن کر دے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے پاس کوئی رات لے کر آئے جس میں تم آرام کر سکو تو کیا تم نہیں دیکھتے ۔
رات جب چھا جاتی ہے تو چاند کی پر لطف اور پرسکون اور پر نرم روشنی عیاں ہو جاتی ہے تاکہ سکون و اطمینان پیدا ہو سکے. اور سورج پوری دنیا کو بے بہا گرم روشنی سے منور کرتا ہے. کائنات کو حیات بخشتا ہے. کام کرنے اور معاش کے حصول کے لیے نفوس میں چستی اور حرکت پیدا کرتا ہے. تاکہ زندگی خوشگوار ہو سکے اور لوگ سعادتوں کو سمیٹ سکیں۔ اس انوکھی اور خرق عادت کاریگری کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
وَ الشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَاؕ
یس 38
اور آفتاب اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے ۔
سورج غیر محسوس طریقے سے انتہائی پرسکون حالت میں گردش کرتا ہے اس میں نہ تو کوئی اضطراب آتا ہے اور نہ ہی جنبش۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ
یس 39
اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں جن سے وہ گزرتا ہے یہاں تک کہ وہ آخر میں کھجور کی قدیم پتلی شاخ کی مانند ہو جاتا ہے۔
چاند کی منزلیں اور اوقات مقرر کر دیے گئے ہیں جن پر چلتا ہوا یہ اس قدر باریک ہو کر ہلال بن جاتا ہے کہ دیکھنے والوں کو بمشکل نظر آنے لگتا ہے۔ اس کا چھوٹا بڑا ہونا پورے انتظام اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہوتا ہے تو کس نے اسے پیدا کیا ہے، اس میں نور و روشنی کو وضیت کرنے والا کون ہے، اس کے راستوں اور مدار کو متعین کرنے والا کون ہے، صبح و شام ان کے معاملے کی تدبیر کرنے والا کون ہے، کس قدر وہ عظیم ذات ہے جو پاک ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: یہ اس اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا. اس کائنات کی دوسری جانب کو بھی دیکھیے جس سے عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں. جو حیرت میں ڈال دیتی ہیں اور سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
وَ هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَاۚ
النخل 14
اور وہی ہے جس نے سمندر کو مسخر کر دیا تاکہ تم اس سے زیادہ گوشت کھاؤ اور اس سے زینت کی چیزیں نکالو.
اور مزید فرمایا :
اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللّٰهِ لِیُرِیَكُمْ مِّنْ اٰیٰتِهٖؕ
لقمان 31
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ بے شک کشتیاں سمندر میں اللہ کی نعمت سے چلتی ہیں. تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے۔
اور مزید فرمایا:
وَ الْفُلْكَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖؕ
الحج 65
اور کشتیوں کو مسخر کر دیا جو سمندر میں اس کے حکم سے چلتی رہتی ہیں.
کشتی کیسے اللہ سبحانہ و تعالی کے حکم سے چلتی ہے؟ اس عظیم خوبی کے ساتھ اللہ تعالی نے سمندر کو پیدا کیا کہ اسے نفع حاصل کرنے کے لیے آسان و ہموار کر دیا ہے. اسے سواریوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل بنا دیا ہے. انسان کو الہام کر دیا ہے کہ وہ ایسی سواریاں تیار کرے جو پانی کی موجوں میں غرق نہ ہو سکیں اور سفر میں انہیں سمندری طوفانوں اور موجوں سے بھی محفوظ رکھ سکیں. یہ اس قادر اور خالق کائنات کا نظام اور منصوبہ بندی ہے. اور آنکھ اس خوبصورت، سر سبز نظارے کو نظر انداز نہیں کر سکتی. جو خشک سالی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے.
ارشاد باری تعالی ہے: اور کھیتوں اور کھجوروں میں، جن کے خوشے نرم و نازک ہیں ہم انگوروں کو اور نباتات کو دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے زمین کو خوبصورت رنگوں سے مزین کر رکھا ہے اور درختوں کو دلربا اور دلکش ٹہنیوں میں ملبوس کر رکھا ہے اور ہم مختلف قسم کے پھلوں کو دیکھتے ہیں جنہیں پانی تو ایک ہی قسم کا دیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالی ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت اور فضیلت دے دیتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّؕ
حم السجدہ 53
عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میں اور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہو جائے گا یقینا یہی حق ہے۔
اس پختہ، انوکھی اور معجزانہ کاریگری کے سامنے انسانیت حیران و ششتر ہے۔ ریسرچ سینٹر، سرچ کرتے رہتے ہیں اور آئے روز ہمارے لیے اس کائنات کے عجوبے، عجائب و غرائب سے ہمیں آشنا کرواتے رہتے ہیں. انسان کے بنائے گئے روبوٹ جو فضا میں گردش کرتے ہیں اور اس کی حقیقت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور غوطہ خور سمندروں کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوتے ہیں تو آپ تعجب خیز اشیاء سے متعارف ہوتے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالی مسلسل لوگوں کے لیے کائنات کے اسرار اور نشانیوں میں سے کچھ نہ کچھ دکھاتا رہتا ہے اور ہر دور میں، ہر امت میں اور ہر جگہ وہ اپنی خوبصورت کاریگری عیاں کرتا رہتا ہے تاکہ حجت قائم ہو سکے اور قیامت کے قائم ہونے تک صراط مستقیم نمایاں رہے اور زمین کی عظیم تخلیق کو تو ہر وہ شخص دیکھتا ہے جو اس پر چلتا اور سکونت اختیار کرتا ہے کہ کتنی وہ نرم، سازگار، وسیع اور مستقل ہے. جس پر نہریں، چشمے، بلند و بالا اور مضبوط پہاڑ ہیں. اس پر چلنے والی صاف شفاف ہوا ہے جس کے ذریعے سانس چلتی ہیں. اگر کچھ لمحات کے لیے وہ رک جائے تو زندگی تباہی کا شکار ہو جائے، مخلوق تباہ و فنا ہو جائے لیکن یہ اللہ سبحانہ و تعالی کی رحمت ہے جو ہمیں گھیرے ہوئے ہے جو ہماری نیند و بیداری میں ہماری حفاظت کرتی ہے. یہ تو وہ ظاہری اشیاء ہیں جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں تو ان باطنی اشیاء کا کیا عالم ہو گا جنہیں ہم دیکھ بھی نہیں رہے وہ انوکھی اور خرق عادت کاریگری میں اس سے بھی بڑھ کر ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت سے زمین کیسے ہماری حفاظت کرتی ہے اور کیسے مستقر اور پرسکون ہے۔ یہ جاننے کے لیے ذرا زلزلوں ، آندھیوں اور طوفانوں کے آثار کو دیکھ لیجیے جو چند لمحوں کے لیے ہی رونما ہوتے ہیں۔ پھر زمین پر غور کیجیے کہ زمانے گزر چکے ہیں. پے در پے نسلیں بیت چکی ہیں. پھر بھی وہ تمام زندگی کے مدار میں ثابت اور قائم ہے. کس ذات نے اسے جھکنے اور مائل ہونے سے بچا کر گاڑھ رکھا ہے. اور اسے ٹائم میں رکھا ہوا ہے. اور کس نے اسے ثابت رکھا ہوا ہے کہ یہ مضطرب اور حرکت میں نہیں آتی. کائنات میں یہ زلزلے، آندھیاں اور طوفان اللہ تعالی کی جاری سنتوں کے نظام کے تحت جاری ہوتے ہیں. جس میں کوئی نہ کوئی ضرور حکمت ہوتی ہے. جن کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں ہوتی. یہ جہانوں کے پالنہار کی رحمت ہوتی ہے. اگرچہ بظاہر مخلوق کو کچھ اور ہی محسوس ہو رہا ہو. اور کبھی اس کے کچھ اسباب و اسرار سائنس کے ذریعے بھی معلوم ہو جاتے ہیں اور سائنس جہاں تک بھی پہنچ جائے پھر بھی وہ قاصر ہے اور جس قدر بھی ترقی کر جائے آخر یہ مخلوق ناتواں اور کمزور ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
بنی اسرائیل85
اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
کسی خاص قوم پر کسی خاص وقت میں ان حوادث کے نازل ہونے پر یہ کہنا کہ یہ ان پرعذاب اور سزا کے طور پر آۓ ہیں۔ یہ تخمینے اور اٹکل ہیں اور شریعت پر زبان درازی ہے کیونکہ ممکن ہے یہ آزمائش ان کے گناہوں کی پاکی، صفائی ستھرائی اور انتخاب و تکریم میں سے کسی ایک کا ذریعہ بن جائیں ،اور یہ بھی ممکن ہے کہ سب ہی چیزیں اس میں اس آزمائش میں مقصود ہوں، آزمائش کی کئ اقسام اور احوال ہوتے ہیں بسا اوقات کچھ لوگوں کو ان گزشتہ مصائب سے بھی سخت مصا ئب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔مثلا: امن و امان کا تباہ ہو جانا ، جنگوں اور لڑائیوں کی وجہ سے گولیوں کے بلند آوازوں کا سنائی دینا ، ظلم وستم کا عام ہوجانا، قتل و غارت، بیماریوں اور وباؤں کا بڑھ جانا وغیرہ وغیرہ، بلاشبہ یہ حوادث بڑے مصائب میں سے ہیں جن پر یہ نازل ہوتے ہیں ان کے لئے تو آزمائش اور ابتلا ہوتیں ہیں اور ان کے علاوہ دیگر مسلمانوں کے لئے بھی کسی آزمائش اور امتحان سے کم نہیں ہوتے جو خوشحال اور آزادانہ زندگی تو بسر کررہے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھ ان کی گردانوں کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہے لیکن خرچہ نہیں کرتے نیز مسلمانوں کے درمیان رحمت کے مقدار کے لحاظ سے بھی یہ آزمائش ہوتی ہے اور نفوس میں اخوت و بھائی چارہ کس قدر ہے اس لحاظ سے بھی یہ ہر دوسرے مسلمانوں کے لئے آزمائش ہوتی ہے۔ یہ الم ناک غم اور گہرئی مصیبتیں جومادی نقصانات سے بڑھ کر نفسانی آثار و نشانات اور جسمانی بیماریوں تک جاپہنجتی ہے ۔جب ہم بکھرے جسموں، تباہ شدہ گھروں ، مشقت زدہ، بے سہارا، لاوارث بچوں اور خاندانوں کو دیکھتے ہیں اور ساتھ میں کچھ ایسے لوگ بھی جنہیں اپنے قریبی، عزیز، والد یا بیٹے کی موت کا بھی سامنا کرنا پڑہتا ہے یا آپ اسے تن تنہا دیکھتے ہیں جو اپنے خاندان کے ختم ہونے کا شکوہ اپنے پروردگار سے کررہے ہوتے ہیں۔ مزید براں کہ یہ خطرناک بیماریں، وبائیں بھی ان پر منڈلا رہی ہوتی ہیں تو ایسے وقت میں کوئی فرار نہیں اور ان جیسے حالات میں اور کوئی شے مقدم نہیں ،اس وقت یہی لازم ہے کہ ان کی مدد کی جائے، مال خرچ کیا جائے، تعاون کیا جائے، ان کا ہاتھ بٹایا جائے، ہر ممکن بھائی چارہ کی فضا قائم کی جائے۔ ان تمام لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھی جائے جو تکلیفوں سے کراہ رہے ہیں، ان نفوس کو اطمینان اور تسلی دی جائے، جو خوف و ہراس میں مبتلا ہیں اور ایسی باتیں کرنا جن کی ہمیں اسلام تعلیم دیتا ہے ۔ مملکت سعودی عرب کی قیادت نے نصرت و مدد اور خرچ کرنے میں ایسی مثال اور نمونہ پیش کیا ہے جو قابل تقلید ہے، انھوں نے رسمی چینل کھولے ، سمندری، خشکی اور فضائی راستوں سے قافلے روانہ کیے اور خرچ کرنے والوں نے ان کا ساتھ دیا ، خرچ کرنے والے لوگوں نے سخاوت اور فراخ دلی سے کام لیا اور ساتھ میں وہ شرعی نصوص کو بھی مت بھولیں ، جو اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اللہ تعالی خرچ کرنے والوں کو کیسے محفوظ رکھتا ہے ۔ مصیبت زدہ لوگوں سے مصائب دور کرنے والوں اور لوگوں کی حاجتیں دور کرنے والوں کی اللہ پریشانیں کیسے دور کرتا ہے۔ ہر زندہ نے آخر مرنا ہے لیکن جو شخص کسی آزمائش سے دو چار ہوا، اس نے صبر سے کام لیا، ثواب کی امید رکھی، اس کا اجر عظیم اجر ہوگا۔ اس کی جزا بہت زیادہ ہوگی۔ اللہ تعالی کی رحمت اسے اپنی تحویل میں لے لیتی ہے ، نیز اس کے لئے قادر و غلبے والے بادشاہ کے ہاں بلند درجا ت میں اعلی مقام ہے ، اس کے رخساروں پر ٹپکنے والے آنسوں قبر میں اس کے لئے روشنی کا باعث ہوں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ لَا یَمَسُّهُمْ فِیْهَا نَصَبٌ وَّ مَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِیْنَ
الحجر 47-48
تختوں پر روبرو بیٹھے نہ انہیں اس میں کچھ تکلیف پہنچے نہ وہ اس میں سے نکالے جائیں۔
اور حدیث پاک میں ہے : المقتولُ في سبيلِ اللهِ شهيدٌ ، والمطعونُ شهيدٌ ، والغريقُ شهيدٌ ، وصاحبُ ذاتِ الجنبِ شهيد ، والمبطونُ شهيدٌ ، وصاحبُ الحريقِ شهيدٌ ، والذي يموتُ تحتَ الهدْمِ شهيدٌ ، والمرأةُ تموتُ بجُمْعٍ شهيدة۔
اللہ کی راہ میں قتل ہونے والا شہید ہے، طاعون کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے، ڈوب کر مرنے والا شہید ہے، پہلو کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے ،
پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے ، جل کر مارنے والا شہید ہے، دب کر مرنے والا شہید ہے اور زچگی سے مرنے والی عورت بھی شہید ہے۔
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کے لئے قرآن کریم کو باعث برکت بنائے ، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے نفع پہنچائے ، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اپنی بات کو مکمل کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے میں استغفار کرتا ہوں تم سب بھی اس سے استغفار کرو یقینا وہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی، محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جنہیں ان کے رب نے انہیں چن لیا ، اللہ تعالی ان پر درود و سلام نازل فرمائے، ان کی آل پر اور تمام صحابہ اکرام پر۔
حمد و صلاۃ کے بعد!!
میں تمہیں اور اپنے آپ کو اللہ تعالی سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ خوف الہی رکھنے والے دل اس بات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی جاری سنتوں میں حکمتیں پنہا ہوتی ہیں۔ پوری امت کے لئے ان میں عبرت اور نصیحت ہوتی ہے ، ان سے انسان کو بیداری اور شعور ملتا ہے ، نفس کی اصلاح کا موقع ملتا ہے ، اللہ تعالی کی طرف پلٹنے اور رجوع کرنے کی فرصت ملتی ہے ، ظلم ومظالم لوٹانے اور سچی توبہ کرنے کے ساتھ گناہوں کو چھوڑنے کا موقع ملتا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًاؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُؕ
لقمان 34
اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔
نصیحت حاصل کرنا اور عبرت پکڑنا واجب ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا
بنی اسرائیل 59
اور ہم ایسی نشانیاں نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کو
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقْبَضَ الْعِلْمُ وَتَكْثُرَ الزَّلَازِلُ وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ وَتَظْهَرَ الْفِتَنُ وَيَكْثُرَ الْهَرْجُ وَهُوَ الْقَتْلُ حَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمُ الْمَالُ فَيَفِيضُ”.
بخاری
قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزرے گا اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور «هرج» کی کثرت ہو جائے گی اور «هرج» سے مراد قتل ہے۔ اور تمہارے درمیان دولت و مال کی اتنی کثرت ہو گی کہ وہ ابل پڑے گا۔
اے اللہ ! ہم سے مصیبتیں ، بیماریوں، زنا کاریوں ، زلزلوں، آزمائشوں، ظاہری اور باطنی برے فتنوں کو دور کر دے۔ تمام مسلم ممالک اور بالخصوص ہمارے اس ملک سے ان آزمائشوں کو دور کر دے۔ اے جہانوں کے پالنہا ر! اے اللہ! فوت شدگان پر رحم فرما ۔ ان کے لواحقین کو صبر کی توفیق عطا فرما۔ تکلیفوں میں مبتلا اور زخمیوں کو شفا یابی عطا فرما ۔ اے اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کے حالات درست فرما ، اے ہمارے پروردگار ہمیں دینا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما۔ ہمیں آگ کے عذاب سے بچا ۔ اے اللہ ہم تجھے سے معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں ، ہم دین و دنیا اور آخرت میں عافیت اور حفاظت الہی کا بھی سوال کرتے ہیں ، اے اللہ ہمارے امام، خادم حرمین شریفین کو ان کاموں کی توفیق عطا فرما جن میں ملک اور بندوں کی صلاح و خیر ہو۔ ان کے ولی عہد کو ہر خیر کی توفیق عطا فرما۔ اے جہانوں کے پالنہار! تمام مسلم حکمرانوں کو کتاب اللہ اور اپنے نبی کی سنت پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ اے اللہ خلفاء راشدین سے راضی ہو جا اور تما م صحابہ اکرام سے راضی ہوجا ۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد ٌ
خطبة الجمعة مسجد النبوی الشریفﷺ
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر: عبدالباری بن عواض الشبیتی حفظه اللہ
14 ربیع الاول 1445 ھ بمطابق 29 ستمبر 2023