سوال: کیا حاجی کیلیے عید کی قربانی کرنا واجب ہے؟
الحمد للہ:
بنیادی طور پر عید کی قربانی کے حکم سے متعلق ہی علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ چنانچہ جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ عید کی قربانی سنت مؤکدہ ہے جبکہ دیگر اہلِ علم کہتے ہیں کہ استطاعت رکھنے والے پر واجب ہے۔
نیز یہ اختلاف ان لوگوں کے بارے میں ہے جو حج نہیں کر رہے جبکہ حاجی (حج کرنے والے) کے لیے عید کی قربانی کرنے کے بارے میں بھی اہلِ علم کا اختلاف ہے۔ کچھ اہلِ علم حاجی کیلیے عید کی قربانی کرنا جائز قرار دیتے ہیں، کچھ اسے مستحب یا واجب کہتے ہیں جبکہ کچھ اہلِ علم حاجی کیلیے عید کی قربانی کو جائز نہیں سمجھتے۔
جن اہلِ علم نے حاجی کے لیے عید کی قربانی کو جائز نہیں سمجھا ان کے ہاں عدمِ جواز کے اسباب (وجوہات) میں اختلاف ہے۔ سببِ عدمِ جواز کے لیے ان کے دو موقف ہیں:
1) حاجی نمازِ عید نہیں پڑھتا۔ حاجی کے ذمہ جو حج کی قربانی ہے وہ حجِّ تمتع یا قران کی قربانی ہے جسے ’’ھدي‘‘ کہتے ہیں۔
2) حاجی چونکہ مسافر ہے اور عید کی قربانی مقیم شخص پر ہوتی ہے۔ یہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔ تاہم اگر حاجی اہل مکہ میں سے ہے تو پھر وہ مسافر نہیں ہے اس لیے اہلِ مکہ پر عید کی قربانی واجب ہو گی۔
ذیل میں ان کے فقہی موقف کی تفصیلات ہیں:
1) حنفی فقہائے کرام ” المبسوط ” ( 6 / 171 ) کے مطابق کہتے ہیں کہ:
صاحبِ استطاعت اور مقیم لوگوں پر ہمارے ہاں عید کی قربانی واجب ہے” انتہی
اسی طرح ” الجوهرة النيرة ” ( 5 / 285 ، 286 ) میں ہے کہ: ’’مسافر حاجی پر عید کی قربانی واجب نہیں ہے البتہ اہلِ مکہ حج بھی کریں تو بھی ان پر عید کی قربانی واجب ہوگی‘‘ انتہی
چنانچہ ” المدونة ” ( 4 / 101 ) میں ہے کہ: “مجھے مالک نے کہا: “حاجی کے ذمہ عید کی قربانی نہیں ہے چاہے وہ مِنَی کا رہائشی ہی کیوں نہ ہو”، اس پر میں نے کہا: “اس کا مطلب یہ ہے کہ مالک کے ہاں حجاج کے علاوہ تمام لوگوں پر قربانی واجب ہے؟ ” انہوں نے کہا: “ہاں” انتہی
3) شافعی فقہائے کرام کے مطابق حاجی اور غیر حاجی سب کے لیے عید کی قربانی مستحب ہے۔
چنانچہ امام شافعی کہتے ہیں: “مقامی یا آفاقی حاجی، مسافر، مقیم، مرد و خواتین جنہیں بھی عید کی قربانی میسر ہو : سب کا حکم یکساں ہے کسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر کسی صورت میں ان میں سے کسی ایک پر عید کی قربانی واجب ہوگی تو سب پر واجب ہوگی اور اگر کسی صورت میں ان میں سے کسی ایک سے قربانی ساقط ہوگی تو سب سے ساقط ہو جائے گی۔ ان میں سے اگر کسی پر قربانی واجب ہو اور کچھ پر نہ ہو تو پھر حاجی پر قربانی واجب ہونا زیادہ بہتر لگتا ہے کیونکہ یہ بھی ایک قربانی ہے اور حاجی نے ویسے ہی قربانی کرنی ہوتی ہے دیگر کسی بھی شخص پر قربانی نہیں ہوتی۔ چنانچہ کسی بھی چیز کو لوگوں پر واجب قرار دینے کے لیے دلیل کا ہونا ضروری ہے اور اگر لوگوں کے حکم میں فرق روا رکھنا ہے تو وہ بھی دلیل کی بنیاد پر ہی ہونا چاہیے” انتہی۔1
4) ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:”عید کی قربانی حاجی کیلیے بھی اسی طرح مستحب ہے جیسے کہ دیگر کیلیے مستحب ہے۔
لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ : حاجی عید کی قربانی مت کرے۔۔۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی قربانی کرنے کیلیے ترغیب دلائی ہے ، اس لیے حاجی کو اس فضیلت اور قربِ الہی کے عمل سے بغیر کسی دلیل کے روکنا جائز نہیں ہے” انتہی مختصراً۔2
5) حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ:حاجی کیلیے عید کی قربانی کرنا جائز ہے ۔
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اگر حاجی کے ساتھ حج کی قربانی نہ ہو لیکن حج کی قربانی اس کیلیے کرنا واجب بھی ہو تو وہ حج کیلیے قربانی خریدے گا، لیکن اگر حج کی قربانی حاجی پر واجب نہ ہو تاہم حاجی عید کی قربانی کرنا چاہے تو وہ عید کی قربانی کیلیے جانور خرید سکتا ہے۔” انتہی۔3
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی میں حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی خواتین کی جانب سے عید کی قربانی کی۔4
البتہ کچھ اہل علم کا موقف ہے جن میں ابن قیم بھی شامل ہیں کہ اس حدیث کو دلیل بنانا صحیح نہیں؛ ان کے مطابق اس حدیث کے عربی الفاظ میں “أضحية” سے مراد “هدي” یعنی عید کی قربانی نہیں بلکہ حج کی قربانی مراد ہے۔5
شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہما اللہ نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ حاجی عید کی قربانی نہ کرے۔6
نیز شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو راجح قرار دیا ہے، چنانچہ آپ سے استفسار کیا گیا: “حج اور عید کی قربانی دونوں جمع کر سکتا ہے؟ کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ ” تو انہوں نے جواب دیا: “حاجی عید کی قربانی نہیں کرسکتا بلکہ حاجی کے ذمہ حج کی قربانی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر عید کی قربانی نہیں کی بلکہ حج کی قربانی کی تھی۔ تاہم اگر فرض کریں کہ حاجی اکیلا حج کیلیے آتا ہے جبکہ اس کے اہل خانہ اپنے علاقے میں ہیں تو اسے چاہیے کہ اتنی رقم چھوڑ کر آئے جس سے اس کے اہل خانہ عید کی قربانی کریں۔ اس طرح گھر کا سربراہ حج کی وجہ سے حج کی قربانی یعنی: ہدی ذبح کرے گا اور اس کے اہل خانہ عید کی قربانی کریں گے کیونکہ عید کی قربانی دیگر شہروں میں ہوتی ہے جبکہ مکہ میں ہدی ہوتی ہے” انتہی۔7
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب