احکام و مسائل

کیا میت کی طرف سے قربانی کرسکتے ہیں؟

 میت کی طرف سے الگ سے جو قربانی کرنا یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اور جمھور علماء اس کی اجازت نہیں دیتے اکثر جو ہمارے سعودیہ کے علماء ہیں جو برصغیر کے علماء ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے الگ سے قربانی کرنا چونکہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اس لیے قربانی نہیں کی جائے گی۔

لیکن بعض علماء اس کی اجادت دیتے ہیں اور واللہ اعلم میرا اپنا بھی اپنی تحقیق کے مطابق اسی طرف رجحان ہے جس کی دو تین وجوہات ہیں:

 ایک وجہ یہ ہے کہ قربانی کی جو عبادت ہے یہ مالی عبادت ہے اور مالی عبادت جو ہے وہ کسی اور کی طرف سے کی جا سکتی ہے، مالی عبادت کسی اور کی طرف سے کر سکتے ہیں۔ جیسے عمرہ ہے، جیسے حج ہے، جیسے صدقہ ہے، جیسے مسجد بنوانا ہے، جیسے کنواں بنوانا ہے۔ تو جتنی بھی مالی عبادات  ہیں وہ میں کسی اور کی طرف سے کر سکتا ہوں جسمانی عبادت نہیں کر سکتا۔ میں کسی اور کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا، میں کسی اور کی طرف سے وہ جس کو ہم کہتے ہیں کہ قرآن کی تلاوت جو ہمارے ہاں ایصالِ ثواب کا تصور بنا ہوا ہے قرآن کی تلاوت کرنا اس کو علماء نے جائز نہیں قرار دیا۔ وہ ایک جسمانی عبادت ہے۔ تو کوئی بھی جسمانی عبادت ہو وہ میں کسی اور کی طرف سے نہیں کر سکتا البتہ مالی عبادت کی اللہ رب العالمین نے اجازت دی ہے۔ جسمانی عبادت میں سے صرف روزہ ہے جو لازم ہے وارث کے اوپر کہ وہ اپنے جو شخص فوت ہوا ہے والد ہے یا والدہ ہے اگر اس کے روزہ رہ گئے تھے اس کی جانب سے جتنے رہ گئے اتنے پورے کر لے۔ بس نفلی نہیں رکھ سکتا۔ نفلی نماز، نفلی روزہ، نفلی عبادت جسمانی وہ نہیں کر سکتا۔ مالی عبادت کر سکتا ہے۔ مالی صدقہ کر سکتا ہے، مالی حج کر سکتا ہے، عمرہ کر سکتا ہے۔ تو یہ عبادت کر سکتا ہے۔ تو قربانی بھی مالی عبادت ہے اور پھر قربانی ایک ایسی مالی عبادت ہے جس میں کسی اور کی نیابت بھی کی جا سکتی ہے مثلاً مجھے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ آپ میری طرف سے قربانی کر دیجئے گا اب نیابت بھی ثابت ہو گئی، تو جب مالی عبادت ہے اور نیابت بھی ہے اور اکثر علماء کہ ہاں یہ ہے بھی سنت، واجب بھی نہیں ہے۔ تو تین چیزیں جمع ہو گئی ہیں ہمارے پاس: مالی عبادت کا ہونا اور اس عبادت میں کسی اور کی نیابت کرنا ٹھیک ہے اور تیسری بات کہ اس کا سنت ہونا یہ واجب عبادت ہی نہیں ہے تو لہذا اگر ان تین امور کو دیکھا جائے تو واللہ اعلم یہ بات کسی حد تک اس میں گنجائش نکلتی ہے کہ فوت شدگان کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے

 اگر کوئی میرے ورثاء ، میرے سرپرستوں میں سے یا کسی شخص کے والدین ہیں اپنے والدین کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو قربانی کی جا سکتی ہے اگرچہ ایک بڑی تعداد علماء کی جو یہ کہتے ہیں کہ یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے میت کی طرف سے قربانی کرنا لیکن صحیح حدیث سے ثابت تو کسی کی طرف سے مسجد بنوانا بھی نہیں ہے کسی کی طرف سے اور کوئی ایسا عمل کرنا بھی نہیں ہے لیکن وہاں پر علماء کچھ اصولوں کو ذکر کرتے ہیں اصول وہی ہے جو میں نے ذکر کر دی کہ مالی عبادت کا ہونا نیابت کا ہونا وہی اصول یہاں پر بھی قربانی میں ہوتے ہیں۔

بہرحال میں پھر وضاحت کر دوں کہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے اور علماء کی ایک بڑی تعداد اس کے قائل نہیں ہیں۔ کوئی شخص اگر کرنا چاہے تو میرے نزدیک اس کے لیے اجازت موجود ہے۔

الشیخ عثمان صفدر حفظہ اللہ

آپ کراچی کے معروف دینی ادارہ المعہد السلفی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالشھادۃ العالیہ کی سند حاصل کی، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، نیز اسلامک بینکنگ اور فنانس میں جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی جاری ہے۔ اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی کے مدیر ، الھجرہ آن لائن انسٹیٹیوٹ کے مدیر ہیں ، البروج انسٹیٹیوٹ کراچی میں مدرس کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

Recent Posts

گالی دینا ایک سنگین جرم ہے

قرآنِ مجید کا حکم "کسی پر عیب نہ لگاؤ" سے کیا مراد ہے، اور اس…

4 hours ago

Pakistan – Afghanistanجنگ اندیشہ درست ثابت ہوا

افغانستان میں طالبان کی فتح پر ظاہر کیا گیا وہ کون سا اندیشہ تھا جو…

2 days ago

اللہ کے حکم کی عظمت اور تخلیق کامل !

دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی معمولی انسان حکم دیتا ہے تو دوسرا…

4 days ago

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور اللہ کی غالب سنت

نبی کریم ﷺ کی دعوت انسانیت کے لیے سب سے عظیم نعمت تھی۔ آپ ﷺ…

5 days ago

جاوید احمد غامدی صاحب حدیث کو کیوں نہیں مانتے؟

کیا جاوید غامدی کے نزدیک حدیث دین کا ماخذ بن سکتی ہے؟ غامدی صاحب کن…

6 days ago

نماز مومن کی شناخت!

حضرت عمر بن خطابؓ نماز کے لیے تشریف لائے، صفوں کو درست کیا، اور نماز…

1 week ago