اسلام بین الاقوامی مذہب ہے اور اس کی تعلیمات بھی اس امر کا مظہر ہیں کہ ان کا تعلق صرف اہل اسلام سے نہیں بلکہ غیر مسلم حضرات کے لیے بھی اس میں باقاعدہ رہنمائی موجود ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ غیر مسلم حضرات نے جب بھی اسلام قبول کیا اس میں سب سے بڑی وجہ قرآن مجید کا مطالعہ اور دوسری اہم وجہ اہل اسلام کا مثالی کردار رہا ہے چنانچہ انسانیت نے ان کے عمل اورکردار سے متاثر ہوکر اسلام کو گلے لگایا۔
لیکن افسوس اپنے اسلاف کی شاندار تاریخ سے قطع نظر اگر ہم عصر حاضر کے اہل اسلام کی طرف دیکھیں تو صد افسوس اسلام کے ماننے والے اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں، اور سچی بات تو یہ ہے کہ تعلیمات اسلامی پر عمل تو ایک طرف رہا ہماری اکثریت نے تعلیمات اسلامی کو من مانی تشریحات دیکر اسے اسلام کا نام دینا شروع کر دیا ہر فرقہ اور ہر مسلک اپنے نظریات کے مطابق اسلام کی آفاقی تعلیمات کو اپنے فرقہ کی مزعومہ حقانیت بیان کرنے میں استعمال کر رہا ہے یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کے ہرشعبے میں ہم نے اسلامی تعلیمات کو نظرانداز کررکھا ہے اس کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے یا پھر معاملات سے ہو یا اخلاقیات سے متعلق، معاشرت ومعیشت الغرض زندگی کا ہرشعبہ اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح سے خالی نظر آتا ہے۔
وہ دین جس کی اساس توحید ہے اور رسول اللہ ﷺنے اپنی مکمل پیغمبرانہ زندگی اثبات توحید اور بطلان شرک کے بیان میں صرف کردی، یہاں تک کہ زندگی کے آخری ایام میں انبیاء کی قبروں کوعبادت گاہ بنا لینے پر یہودونصاری کو مطعون کرتے ہوئے دعا کی تھی کہ’اے اللہ میری قبرکوعبادت گاہ نہ بنانا-لیکن آج دیکھا جائے تو اسی دین کے ماننے والے اور اسی رسول کے پیروکاروں کا عمل دیکھیں اور پاکستان کے ہر شہر میں ایسے مناظر کثرت سے نظر آئیں گے جس کی نفی اور تردید کے لیے پیغمبر اسلام نے اپنی پوری زندگی صرف کی یعنی دن رات قبروں پر نذریں چڑھانا مردوں کومشکل کشا، حاجت روا اور غوث اعظم تصورکرنا۔
اور توحید اور رسالت کے تصور کا حسن تو مسخ ہوا ہی عبادات کی عالمگیریت کو بھی اپنے مزعومہ نظریات کے تحت محدود کر دیا یعنی وہ دین جس میں نماز، زکاۃ، روزہ اور حج بنیاد اور اساس تھی اور اگر ہم نماز کی ہی بات کریں تو اس کی یہی اہمیت کافی تھی کہ اسے عطا کرنے کے لیے خالقِ کائنات نے اپنے حبیب کو اپنے پاس بلایا تھا لیکن صد افسوس ہماری اکثریت نے اس کی عالمگیریت کو مسخ کردیا کہ اب نماز ایک نہ رہی بلکہ حنفی نماز ، شافعی نماز ، حنبلی نماز اور مالکی نماز بلکہ اب تو فقہ جعفریہ کی نماز بھی سامنے آ چکی ہے آخر کیا امر مانع ہے کہ نماز جیسی عبادت میں ہم ایک نہیں اختلافات کی عملی شکل بن چکے ہیں سارا دن وطن عزیز میں اذانیں ہوتی رہتی ہیں ٖفلاح کی طرف بلایا جاتا ہے لیکن نہ فلاح نظر آتی ہے اور نہ ہی خیر یہی وجہ ہے کہ مساجد صرف نماز کی ادائیگی کی جگہ بن چکی ہیں اور جبکہ دین اسلام میں مساجد ہماری مکمل زندگی کا محور اور مرکز ہے۔ اور یہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک ہم اپنی نمازیں ایک نہیں کریں گے اور ایک ہونے کا طریقہ صرف ایک ہے اور وہ ہے کتاب و سنت کی براہ راست رہنمائی جس میں کوئی شخصیت پرستی نہ ہو اور تقلید کی وجہ سے دین اسلام کی آفاقی تعلیمات کو مشرف بہ مسلک نہ کیا جاتا ہو۔
وہ دین جس کی حقیقی پہچان اخلاقیات عظیم باب تھا اور جس کی تکمیل کے لیے رسول اللہ ﷺمبعوث کیے گئے تھے وہ دین جس نے معاملات کو اصل دین قرار دیا تھا، آج اسی دین کے ماننے والے اخلاقیات اور معاملات میں اس پستی تک گر چکے ہیں کہ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے کہ ججز حضرات کم پڑ رہے ہیں۔ ہر کاروباری محض دنیاوی فوائد کے حصول کے لیے جھوٹ کو اپنی کاروباری مہارت گردانتا ہے فائدہ ہو تو بہت فخر سے اپنا کارنامہ بتایا جاتا ہے اور نقصان ہو تو وہ اللہ تعالی کے کھاتے میں کہ اللہ تعالی کی مرضی۔ الاماں والحفیظ۔ منشیا ت کے بازار، ہوس کے اڈے ، شراب خانے ، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت گری،رشوت خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کو ن سی اخلاقی بیماری ہے جو ہم میں نہیں پائی جاتی؟
اوراگر معاشرتی زندگی کی طرف دیکھا جائے تو جہیز کی لعنت، لڑکیوں کی وراثت کا مسئلہ، طلاق کا غلط استعمال اورہندوانہ رسم ورواج کا اختیار کرنا ذات پات کے مسائل اورمسلکی تعصب ونفرت نے ہمیں تباہ برباد کر کے رکھ دیا ہے بقول کسے :
تن ہمہ داغ داغ شد
پنبہ کجا کجا نہم
”پورا جسم زخم آلود ہے، مرہم کہاں کہاں لگائیں“
اور صاف بات ہے کہ آج مبلغین کی کثرت کے باوجود اسلام کی اشاعت محدود ہوگئی ہے اغیار کی اسلام پر انگشت نمائی نے اسلامی تعلیمات کی عالمگیریت اور آفاقیت کو مشکوک بنا دیا ہے۔
یہ ہماری داخلی پستی کا حال ہے تو اس سے دشمنان اسلام کیوں نہ فائدہ اٹھائیں انہوں نے ہمہ جہتی یلغار کے ذریعے دین اسلام کی حقانیت اور مسلمانوں کو دہشت گرد بنانے کا عمل انتہائی شد و مد سے جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر امت کے نونہالوں کے ساتھ فکری جنگ جو نصاب کے ذریعے کی جا رہی ہے ہمارے ارباب حکومت کو اس امر کا علم ہی نہیں کہ ہمارے نصاب کی ترجیحات کیا ہونی چاہیے اور یہ مستقبل کے معماروں کی تربیت اور نشوونما میں اس اساس کی صورت ہے اور اس میں تخریب کاری خارجی سطح پریہود و ہنود اور ان کے ناجائز بچے اورداخلی سطح پر قادیانیت اور مختلف این جی اوز جن کا مقصد ہی وطن عزیز کو ختم کرنا ہے۔
حیران کن امر تو یہ ہے کہ سیادت عالم کے دعوی دار اس امر کی اہمیت کو ہی نہیں جان سکے کہ بین الاقوامی سطح پر انہیں مرکزیت کی کس قدر ضرورت ہے میڈیا، معیشت اور سیاست اگر ان تین نکات پر ہی اگر امت مسلمہ فکری اور عملی طور پر اپنے اصل اور حقیقی محور پر گردش شروع کر دے تو ممکن ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو دھرا سکیں لیکن عالمی میڈیا یہودیوں کے ہاتھ میں اور عالمی معیشت گر یہود اور طرز حکمرانی یہودیانہ ﴿ لفظ یہودی۔ الکفر ملۃ واحدۃ۔ کے پس منظر میں دیکھا جائے ﴾
کیا ان حالات میں بھی اصلاح معاشرہ کی ضرورت نہیں ہے ؟
المیہ تو یہ ہے کہ اس بات کا اعتراف تو سب کرتے ہیں لیکن حاملان اصلاح خود محدودیت کے راہی نتیجتاً مصلحین خود عاجز وقاصرنظر آرہے ہیں یا انہیں جزئیات میں الجھا دیا گیا کہ ایک فرد ایک جزئی فقہی حکم کے اثبات میں مکمل کتاب تصنیف کر دیتا ہے اور اسے اپنی زندگی کا عظیم کارنامہ قرار دیتا ہے پھر جواب آں غزل کے طور پر کچھ لکھا جاتا ہے پھر اس کا جواب اور محض اسے ہی حق کی نشر واشاعت سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے بعض علماء ترجیحاتِ دین کو نظر انداز کرکے فروعی مسائل میں مناظروں اور مباحثوں میں مشغول ہیں جس کی وجہ سے علم کا استحصال ہورہا ہے اورمعاشرہ دن بدن پستی کا شکارہوتا جارہا ہے۔
اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اصلاح کی کوششیں نہیں کی جا رہی۔ اصلاح معاشرہ کی کوششیں ہر سطح پر ہو رہی ہیں، اجتماعات، کانفرنسیں، جلسے اورسیمینارز یہ سب اصلاح احوال کے لیے کی جانے والی مختلف جہود کے مناظر ہیں لیکن نتائج اس مقدار میں نہیں ظاہر ہو رہے جس مقدار میں یہ جہود کی جا رہی ہیں۔
اگر میں یہ کہوں کہ مطلوبہ اھداف حاصل نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مناظر محض ہماری جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں اور ہماری جہود کا محورصرف اپنی جماعت کی خدمت ہوتاہےیہی وجہ ہے کہ روحِ اخلاص سے خالی ہوتے ہیں۔ اب اصل سوال تو یہ ہے کہ کیا کوئی ایسا لائحہ عمل بنانا ممکن ہے جو امت مسلمہ کے فکری جمود کو توڑ سکے اور اصلاح معاشرہ کے لیے کی جانے والی جہود کے فوائد نظر بھی آئیں ؟
بالکل ہمارے پاس ایسا مکمل حل موجود ہے جو مردہ دلوں کو زندگی بخش سکتا ہے اس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ہم اصلاح امت کے لیے اسی نسخہ کیمیا کو اپنائیں جسے اپناکر ہمارے اسلاف کامیاب ہوئے تھے۔ اس ممکنہ حل کا تعلق تین جہات سے ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
اول: اولین مدرسہ یا تربیت گاہ کی تربیت کا مکمل اہتمام یعنی علاقائی سطح پر ماں اور باپ کی فکری تربیت کیا جائے کہ ان کی گود اور آغوش بنیاد اور اساس ہے۔
دوم : سکول میں معماران مستقبل کی نظریاتی تربیت کا اہتمام ابتدائی سطح سے کیا جائے۔
سوم: مساجد کو اس کا حقیقی مقام دیا جائے یعنی صرف دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی طرح اسے محض ایک عبادت گاہ نہ بنایا جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب علماء وخطباء اورداعیانِ دین فروعی معاملات پر تحقیق کرنے اور مناظروں ومباحثوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ترجیحاتِ دین پر توجہ دیں۔ اور اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ان تینوں میں سے سب سے اہم کون سا مرحلہ ہے جس کے بغیر اصلاح معاشرہ ممکن ہی نہیں تو میں بلاجھجھک نکتہ نمبر تین کا انتخاب کروں گا۔
1 اور اس حوالے سے مساجد کے عملی کردار کے صرف ایک پہلو یعنی خطبہ جمعہ کی فعالیت کو بحال کرنا
2 اس کے لیے ضروریہ ہے کہ مساجد میں امام وخطیب کے تعیین میں مسلکانہ تعصب سے کام نہ لیا جائے اور ایسے ائمہ وخطباءکا انتخاب کیاجائے جو نیک اور صالح ہونے کے ساتھ عصری علوم پر دسترس نہیں تو کم از کم واقفیت ضرور رکھتے ہوں تاکہ عوام کی صحیح رہنمائی کرسکیں۔
3 اس کے بعد ناظرہ قرآن اور قرآن فہمی کے لیے ہر محلہ کی مسجد میں حلقے قائم کیے جائیں،
4 عوامی دروس کا بکثرت اہتمام کیا جائے
5 ناخواندہ حضرات کو ضروریاتِ دین سے واقف کرانے کے لیے تعلیم بالغان کا اہتمام کیا جائے۔
6 اصلاح معاشرہ میں خواتین کے بنیادی کردار کوبحال کرنے کے لیے علیٰحدہ خواتین کے لیے دینی اجتماعات کا نظم کیاجائے،
7 گھر کے اندر ماں کے کردار کوفعال کیاجائے ،
8 گھرمیں بچوں کو دینی ماحول فراہم کیاجائے،
9 دینیات پرمشتمل کتابوں کی چھوٹی لائبریری بنائی جائے۔
0 عیسائی مشینریزکے زیراہتمام چلنے والی درسگاہوں میں بچوں کو تعلیم دلانے کی بجائے ایسے سکولز کے انتظامات کیے جائیں جہاں دینی ماحول ہو۔
تلک عشرۃ کاملۃ لیکن ان سب کی بنیاد وہ ندائے ربانی ہے کہ اے ایمان والو وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود تمہارا اپنا عمل نہیں۔ تو ہرشخص کودوسروں کی اصلاح کے لیے فکرمند ہونے سے پہلے اپنا احتساب کر نا ہو گا، خود کو بدلنا ہو گا۔کیونکہ افراد سے ہی معاشرہ بنتا ہے۔ فرد کی جب تک اصلاح نہ ہوگی معاشرے کی اصلاح کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا