کیا علامہ وحید الزمان کے تفردات کی بنا پر مسلک اہل حدیث پر اعتراض کیا جاسکتاہے ؟

سوال :       مولاناوحیدالزمان کے بارےمیں معروف ہےکہ وہ اہل حدیث تھےاور بعض مسائل ان کی کتب کے حوالے سے بیان کیےجاتے ہیں جوظاہراً بالکل غلط ہیں،کیاان مسائل کی وجہ سے مسلک اہل حدیث پراعتراض کیاجاسکتاہے؟

الجواب:            برصغیرپاک وہند میں جوطبقہ ’’ اہل حدیث‘‘ کےنام سے معروف ہے،ان کانظریہ ہےکہ عقائدواعمال میں جوعقیدہ یاعمل قرآن مقدس یاحدیث سے ثابت ہےاسے اپنایاجائے،چاہےوہ مجتہدین امت میں سے کسی کےعقیدہ یاعمل کےمطابق ہویامخالف۔جبکہ قرآن وحدیث کے فہم میں وہ اوائل امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کےفہم کوترجیح دیتےہیں۔اورہرقسم کے مسائل میں ان کامستدل قرآن وحدیث ہوتاہےصراحۃً مذکورہویااشارۃً،ایماءً ہویااقتضاءً۔

جیساکہ امام بخاری رحمہ اللہ نےاپنی عظیم کتاب ’’الجامع الصحیح‘‘ میں اس کی ترویج کی ہے۔

مولاناوحیدالزمان کے تحریرکردہ بعض مسائل اگرواضح طور پرغلط ہیں تواہل حدیث کے مسلک ومعیار کے مطابق بھی غلط ہیں اہل حدیث کوان مسائل کی وجہ سے مطعون قراردیناقرین انصاف نہیں ہے۔

مسلک اہل حدیث کے حوالےسے ان کے مسلک کی توضیح کےلیے مولاناابراہیم میرسیالکوٹی، مولانامحمداسماعیل سلفی،مولاناپیربدیع الدین شاہ راشدی،مولاناحافظ زبیرعلی زئی رحمہم اللہ کی کتب کامطالعہ کیاجائے۔

مولاناوحیدالزمان رحمہ اللہ جیدعالم دین تھے اورلغت عرب پر انہیں مکمل دسترس حاصل تھی جیساکہ ان کے تراجم قرآن وکتب احادیث و فقہ سے واضح ہوتاہے،البتہ ان کے بیان کردہ کسی بھی مسئلہ کی ذمہ داری اہل حدیث مکتب فکرپرنہیں ہے،وہ حنفی گھرانے کے ایک فردتھے ،اسی ماحول میں انہوں نے نشو ونما پائی ہے اوراسی بنیادپرانہوں نے کتب فقہ حنفیہ کے اردو ترجمے کیے، بلکہ ابتداءً وہ فقہی معاملہ میں غالی حنفی تھے ۔ایک حنفی عالم مولانا عبدالحلیم چشتی لکھتےہیں:’’ مولانا وحیدالزمان کاخاندان چونکہ حنفی تھا اس لیے اوائل عمر میں مولانا کوحنفی مسلک سے بڑا شغف رہایہی وجہ ہے کہ شیخ مسیح الزمان کے ایماء سے جس کتاب کا پہلے ترجمہ کیا وہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’شرح الوقایہ‘‘ تھی۔تعلیم سے فراغت کے بعد حیدرآباد دکن میں اس کی اردو میں مبسوط شرح لکھی،جس میں غیرمقلدین کے تمام اعتراضات کا تاروپود بکھیرا اور مسلک احناف کو نہایت محکم دلائل سے ثابت کیاہے،اوراسی غرض سے اصول فقہ کی مشہور کتاب ’’نورالانوار‘‘ کی حدیثوں کی تخریج پرایک رسالہ لکھاجس میں بتایاہے کہ اصول فقہ کادارومدار حدیث پرہےمحض قیاس پرنہیں ہے۔

عقائد میں بھی ماتریدی تھے چنانچہ علامہ تفتازانی کی ’’شرح العقائدالنسفیہ‘‘ کی احادیث کی تخریج کی مگربعدمیں آپ کے برادربزرگ مولانابدیع الزمان کی صحبت اورحدیث کی کتابوں کے ترجمہ کی وجہ سے غیرمقلدبن گئے‘‘۔

حنفی مسلک توانہوں نےترک کردیامگر ترک تقلید کے نتیجے میں وہ اس روش پہ قائم نہ رہ سکے جو فقہاء اہل حدیث کا طرہ امتیاز ہے ، چشتی صاحب تحریر فرماتے ہیں :’’ آپ نے جب ’’ھدیۃ المہدی ‘‘تألیف کی تو اہل حدیث میں مخالفت کی ایک عام لہر دوڑ گئی ، ان کو ایک دوست نے لکھا کہ جب سے تم نے ’’ھدیۃ المہدی‘‘ لکھی ہے تو اہل حدیث کا ایک بڑا گروہ جیسے مولوی شمس الحق مرحوم عظیم آبادی ، مولوی محمد حسین لاہوری ، مولوی عبد اللہ غازی پوری ، مولوی فقیر اللہ پنجابی اور مولوی ثناء اللہ امرتسری وغیرہم تم سے بد دل ہوگئے ہیں اور عامہ اہل حدیث کا اعتقاد تم سے جاتارہا ‘‘۔ أھ  

مولانا وحید الزمان نے اپنے دوست کو اپنے انداز میں جواب تحریر کردیا۔ البتہ اس سے یہ واضح ہوگیاہے کہ مولانا کے زمانہ میں ہی ان کے بیان کردہ بعض مسائل کو اہل حدیث کی ترجمانی کرنے والے عظماء نے قبول نہیں فرمایا جس کے نتیجے میں عام اہل حدیث نے بھی ان کی فکر کو قبول نہیں کیا تھا ، بلکہ مسترد کردیا ۔ بالخصوص متعدد اہم ترین مسائل کے حوالے سے ۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین محدثین عظام اور اہل سنت کے تقریباً سب ہی مکاتب فکر کا اتفاق ہے کہ قرآن مقدس کی آیات مبارکہ کی ترتیب توقیفی ہے یعنی رسول اللہﷺنے خود آیات مبارکہ کی ترتیب ارشاد فرمائی اور وہ اللہ کے حکم کے مطابق تھی۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا وعدہ ہے:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

الحجر -9

ہم نے قرآن اتارا ہے اور ہم اس کی حفاظت کریں گے۔

اسی ترتیب پر رسول اللہ ﷺنے جبریل علیہ السلام کو قرآن سنایا اور صحابہ کرام کو حفظ کرایا، اسی ترتیب پر وہ قرأت کرتے رہے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، سوا ئے شیعہ کے ۔ان کا کہنا ہے کہ قرآن مقدس کی آیات میں تقدیم و تاخیر ہوئی ہے اور بعض آیات موجودہ قرآن مقدس سے ہٹا دی گئی ہیں !جیسا کہ اصول کافی اور تحریف کلام رب الارباب وغیرہ کتب اثنا عشریہ میں مرقوم ہے۔ اور یہ نظریہ درست نہیں جبکہ مولانا وحید الزمان رحمہ اللہ بھی اس نظریے کے قائل ہیں آیت تطہیر کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ــ’’ ایک جماعت محققین نے اس مذہب کو ترجیح دی ہے کہ آیت میں آپ کی بیبیاں اور حضرت فاطمہ اور حضرت علی اور حسن اور حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین سب داخل ہیں اور بعضوں نے اس کو خاص رکھا ہے نسبی گھر والوں سے یعنی حضرت فاطمہ اور حضرت علی اور حسن اور حسین سے۔

مترجم کہتاہے صحیح مرفوع حدیثیں اس کی تائید کرتی ہیں اور جب آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نےخود بیان کردیا ہے کہ میرے گھر والے یہ لوگ ہیں تو اس کا قبول کرنا واجب ہے اور ایک قرینہ اس کا یہ ہے کہ اس آیت کے اول اور آخر جمع مؤنث حاضر سے خطاب ہےاور اس میں جمع مذکر کی ضمیرسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت ان آیتوں کے بیچ میں رکھ دی گئی ہے جن میں ازواج مطہرات سے خطاب تھا او ر  صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد سے ایسا کیا ‘‘ اھ۔

مولانا کو اس جگہ کئی ٹھوکریں لگی ہیں۔

 اولاً:رسول اللہﷺکا فرمانا :

اللھم ھؤلاءأھل بیتی فأذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیرا

یعنی اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے رجس ہٹا اور انہیں پاک کردے۔ اس سے انھوں نے سمجھا کہ آیت تطہیر کو نسبی گھر والوں کے ساتھ مختص فرما رہے ہیں حالانکہ آپ نے دعا کہ طور پر ان کو شامل کئے جانے کی اللہ جل مجدہ سے عرض کی۔ جس کا قرینہ یہ بھی ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے جب فرمایا کہ میں بھی ان میں آجاؤں تو آپ  ﷺ  نے فرمایا:

أنت علی مکانک وأنت إلی خیر

تو اپنی جگہ ہے اور تو بہتری میں ہے۔(کہ یہ آیت نازل ہی تمہارے لئے ہوئی ہے)

ثانیا ً: مولانا کو جمع مذکر کے تخاطب سے مغالطہ ہوا جبکہ قرآن مقدس میں جمع مذکرکے ساتھ عورتوں کو مخاطب کرنا ثابت ہے۔ سورۃ طہ، آیت:10  میں ہے:

فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا 

طٰه – 10

 یعنی( موسی علیہ السلام )نے اپنی بیوی کو کہا تم ٹھہرومیں آگ دیکھ رہا ہوںـ‘‘۔

اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ کو ملائکہ نے خطاب کیا سورہ ہود آیت ۷۳ میں ہے

قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ ۖ رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ

هود – 73

یعنی ’’ اللہ کے امر سے تعجب کرتی ہو اے اہل بیت تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں وہ تعریف والا ، بزرگی والا ہے‘‘ ۔

 اس طرح احادیث مبارکہ میں ہےکہ رسول اللہﷺنے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جمع مذکر کے لفظ سے تخاطب فرمایا۔ نیز کلام عرب میں بھی عورت کو جمع مذکر سے تخاطب عام ہے جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ ایک حماسی شاعر کہتاہے۔

 لاتحسبی أنی تخشعت بعدکم

لہذا مولانا وحید الزمان کا یہ فرمانا کہ ’’  شاید صحابہ نے اپنے اجتہاد سے ایسا کیا‘‘ باطل اور غلط ہے۔  أعاذنا اللہ عنہ

(2) اہل سنت کے تمام مکاتب فکر اس پر بھی متفق ہیں کہ صحابہ کرام میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ      شان و مرتبت میں سب سے افضل ہیں ان کے بعد سیدنا عمر بن خطاب اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنھم۔ تفصیل کےلیے دیکھیے امام شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’ تفضیل شیخین‘‘ مگر اس کے برعکس مولانا وحید الزمان لکھتے ہیں:’’ اس مسئلہ میں قدیم سے اختلاف چلا آیا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ دونوں میں کون افضل ہیں، لیکن شیخین کو اکثر اہل سنت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل کہتے ہیں اور مجھ کو اس پر بھی کوئی دلیل قطعی نہیں ملتی ‘‘ ۔ 

(3)سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کاشمار کاتبین وحی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں ہوتاہے،فتح مکہ کے موقع پرایمان لائے اورپھرپوری زندگی خدمات اسلام میں گزاری،امت کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے عادل ہونےکا اجماع ہےکہ قرآن مقدس میں فتح مکہ سے پہلے اسلام لانے والے اور بعدازاں اسلام قبول کرنےوالوں سے ’’ حسنیٰ‘‘ وعدہ کیاگیاہے،نیزرسول اللہﷺنے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیے دعافرمائی:

 اللھم اجعله ھادیا مھدیا

 اورسیدناحسن رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ صلح کرکے ان کے ہاتھ پربیعت کی اور دومسلمان جماعتوں کے مابین مصالحت کے اعزاز سے نوازے گئے۔اورانہی کے دورمیں سمندری غزوات کی ابتدا ہوئی۔

ان اعزازات کے باوجود مولاناوحیدالزمان لکھتےہیں:’’ ایک سچے مسلمان کا جس میں ذرہ برابر بھی پیغمبرصاحب کی محبت ہودل یہ گوارا کرےگاکہ وہ معاویہ کی تعریف وتوصیف کرے،البتہ ہم اہل سنت کایہ طریق ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین سے سکوت کرتےہیں، معاویہ سےبھی سکوت کرنا ہمارا مذہب ہے اوریہی اسلم اورقرینِ احتیاط ہے مگران کی نسبت کلماتِ تعظیم مثل حضرت،   ورضی اللہ عنہ کہناسخت دلیری اور بے باکی ہے،اللہ محفوظ رکھے‘‘۔

جبکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے بارے فرماتاہے:

أُولَـٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَـٰئِكَ حِزْبُ اللَّـهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

المجادلة – 22

یعنی ’’ان کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیاہےاوراس کی طرف سے روح کی تائیدانہیں حاصل ہے،انہیں باغات میں داخل کرے گاجن میں نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہاکریں گے،اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی ہیں یہ لوگ اللہ کی جماعت ہیں اوریاد رکھو اللہ کی جماعت ہی کامیاب رہےگی‘‘۔درحقیقت سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے بارےمولاناکایہ فرماناہی بہت بڑی بےباکی اورسخت دلیری ہے۔ سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے بارے بھی صاحب موصوف کے خیالات درست نہیں ہیں۔جبکہ اہل حدیث تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے بارے قرآن مقدس اوراحادیث مبارکہ کی مطابقت میں رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ کاعقیدہ رکھتے ہیں اورانہیں امت میں سب سے افضل قرار دیتےہیں۔مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین میں اعتدال کاراستہ اپناتےہیں۔تفصیل کےلیے مطالعہ فرمائیے ’’العواصم من القواصم‘‘ اورامام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب’’منہاج السنہ‘‘۔

جبکہ مولاناصاحب اعتدال کےاس راستہ سے ہٹ گئے ہیں۔بناءبریں ان کی آراء چاہے عقائد کے حوالہ سے ہوں یافقہی مسائل کے بارےمیں، ان کاذاتی خیال قراردیاجائےگا۔ان کے یہ فرمودات فکراہل حدیث کی ترجمانی نہیں قراردیےجاسکتے اورنہ ہی وہ خود ایساسمجھتےتھے۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ مولانا محمد رفیق اثری حفظہ اللہ

آپ 1937ء میں مشرقی پنجاب کے ایک قصبے رشیداں والا میں پیدا ہوئے ، آپ 1959ء سے تاحال ( فروری 2021ء) تک جامعہ دارالحدیث محمدیہ جلالپور پیروالا میں تدریس کی خدمت جاری رکھےہوئے ہیں ، یعنی کم و بیش 60 سال سے تدریسی سلسلہ جاری ہے اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس خدمت دین کے سلسلہ کو مزید طویل بنادے۔ آمین۔ آپ متعدد کتب کے مصنف ہیں ، جن میں مؤطا اور مشکوۃ کی شرح شامل ہیں۔