کیا غیر عالم کو “اجتہادی غلطی” پر اجر ملتا ہے؟

ایک حدیث نبوی میں مذکورہے کہ جب فیصلہ کرنے والا اجتہاد کرتا ہے اوراس میں درست موقف تک پہنچ جاتا ہے تو اسے دہرا اجر ملتا ہے، اور اگر وہ اجتہاد میں غلطی کرے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔

یعنی اجتہادی غلطی پر بھی وہ گناہ گار نہیں ہوتا بلکہ ماجور ٹھہرتا ہے۔

یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اس حدیث میں اجتہاد کرنے پر جو اجرملنے کی نوید بیان ہوئی ہے وہ ایسے شخص کے لیے ہے جو شرعاً اجتہاد کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ لیکن اگر وہ اجتہاد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا مگر کسی شرعی مسئلے میں اجتہاد کرتا ہے تو وہ گناہ گار ہے۔

حتی کہ اہل علم نے صراحت کی ہے جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے، کہ اگر وہ درست مسئلہ بھی بیان کرے تب بھی اسے اجر نہیں ملتا، کیونکہ اس نے کسی شرعی اساس کے بغیر دین حق میں رائے دی ہے اور یہ بلا شبہہ جرم ہے۔

اسی سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ جو شخص علم شرعی نہیں سیکھتا مگر وہ کسی مسئلے میں اجتہاد کرتا ہے اور غلطی کرتا ہے تو اسے اجر نہیں بلکہ گناہ ملتا ہے۔ کیونکہ ایسا شخص تو امور شرعیہ میں بیان بازی کا مجاز نہیں ہے چہ جائیکہ وہ اجتہاد کرنے لگے اور اپنی رائے دینے لگے۔

اس بات کی وضاحت کے لیے یہ حدیث دیکھیے کہ “جو شخص طب کا علم اور اس میں مہارت نہیں رکھتا لیکن وہ لوگوں کا علاج کرنے لگتا ہے تو کسی کا نقصان کرنے پر وہ ذمے دار ہو گا۔” (ابو داود: 4586)۔

جبکہ ایک ماہر طبیب سے دوران علاج کسی کا نقصان ہو جائے تو شرعا وہ ذمے دار نہیں اور نہ اس پر کوئی جرمانہ عائد ہوتا ہے۔ یہی حال ایک عالم دین اور غیر عالم کا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اجتہاد کی اہلیت اور صلاحیت کا کیا مفہوم ہے؟

واضح رہے کہ شرعی طور پر اجتہاد کرنے کا اہل وہ شخص ہے جو علوم شرعیہ اور عربی زبان میں بنیادی مہارت رکھتا ہو۔ یہ تفصیل تمام علمائے اصول نے اپنی کتابوں میں صراحت سے لکھی ہے۔

ذیل میں ہم اول الذکر حدیث کہ “اجتہاد میں غلطی پر بھی اجر ملتا ہے” کے تناظر میں ائمہ دین کی بعض تشریحات درج کرتے ہے جن سے یہ بات مزید عیاں ہوتی ہے اور حدیث نبوی کا اصل مطلب بھی کھل کر سامنے آتا ہے۔

1۔ امام خطابی رحمہ اللہ( وفات: 388ھ) نے معالم السنن میں لکھا ہے:

یہ حدیث ایسے مجتہد کے متعلق ہے جو اجتہاد کی شروط کا حامل ہے۔ مگر جو اجتہاد کی اہلیت نہیں رکھتا لیکن اجتہاد کرتا ہے اسے غلطی کرنے پر معذور نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اس پر بہت بڑے گناہ کا خطرہ ہے جیسا کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو لا علمی کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے وہ جہنم میں ہے۔” (معالم السنن: 160/4)

2۔ ۔ امام محی الدین نووی رحمہ اللہ (وفات: 676ھ) لکھتے ہیں:

اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ حدیث ایسے فیصلہ کرنے والے کے متعلق ہے جو عالم ہے اور فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ لیکن جو فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کے لیے فیصلہ کرنا ہی جائز نہیں ہے۔ اگر وہ فیصلہ کرے تو اسے کوئی اجر نہیں ملتا بلکہ وہ گناہ گار ہےخواہ وہ درست فیصلہ کرے یا غلط، کیونکہ اگر وہ اپنی رائے میں درست موقف تک پہنچ بھی گیا تو یہ ایک اتفاق ہے، کسی شرعی اساس پر وہ حق تک نہیں پہنچا۔ اس لیے وہ اپنے تمام احکام میں گناہ گار ہے خواہ حق کے مطابق ہوں یا مخالف، وہ سبھی قابل رد ہیں، ان میں وہ معذور نہیں سمجھا جائے گا۔ کیونکہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو فیصلہ کرنے والا لا علمی کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے وہ جہنم میں ہے۔” (شرح صحيح مسلم: 14/12)

۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (وفات: 852ھ) امام بخاری کا موقف بیان کرتے ہوئے یہی بات ذکر کرتے ہیں کہ اگر کوئی علم نہیں رکھتا تو اسے اجتہاد کرنے پر گناہ ہوتا ہے جیسا کہ امام ابن منذر فرماتے ہیں: اجتہاد میں غلطی پر اجر اسے ملتا ہے جو عالم ہو کر اجتہاد کرے، لیکن اگر وہ عالم نہیں ہے تو پھر وہ اس حدیث کا مصداق نہیں ہے۔” (فتح الباري: 319/13)

4۔ علامہ شمس الحق عظیم آبادی (وفات: 1329ھ) ایک حدیث نبوی: “جو قاضی لا علمی کے ساتھ لوگوں میں فیصلے کرتا ہے وہ جہنم میں ہے” کی شرح میں فرماتے ہیں:

“اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لا علمی سے فیصلہ کرے وہ جہنم میں ہے کیونکہ نبی علیہ السلام نے اسے مطلقا بیان کیا ہے، لہذا یہ وعید اس بندے پر بھی صادق آتی ہے جس کا فیصلہ برحق ہو مگر لا علمی پر مبنی ہو، کیونکہ اس کی اساس عدم علم ہے۔” (عون المعبود: 353/9)

یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر کوئی قاضی اور جج دنیوی معاملات کا فیصلہ لا علمی کی بنیاد پر کرتا ہے، خواہ وہ صحیح فیصلہ بھی کر دے تو جہنم میں ہے، تو اگر کوئی شخص دین کے مسائل اور احکام شریعت میں، جن کی اہمیت اور قدر ومنزلت دنیوی معاملات سے کہیں زیادہ ہے، علم شرعی حاصل کیے بغیر رائے زنی کرتا ہے، کبھی تفسیر میں، کبھی عقیدہ میں، کبھی فقہ وحدیث میں بیان بازی کرتا ہے اور فتوے دینا شروع کر دیتا ہے تو یہ شخص اس سے کہیں بڑا مجرم اور سخت وعید کا حق دار ٹھہرتا ہے۔

اب ذرا اطمینان سے سوچیے!

اگر کوئی شخص تفسیر یا فقہ وحدیث جیسے اہم امور میں ضروری مہارت حاصل کیے بغیر بیان بازی کرے اور غلطی کرے، پھر رجوع کر لے تو کیا اس کی تحسین کرنی چاہیے یا اسے اس کی بنیادی غلطی سمجھانا چاہیے اور آیندہ کے لیے اسے ایسے اقدام سے باز رہنے کی تلقین کرنی چاہیے تا وقتیکہ وہ اس علم میں بنیادی قابلیت پیدا نہیں کر لیتا۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

حافظ شاہد رفیق