متفرقات

خودکشی کی خبر اور ہمارا المیہ!

ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ جب کسی شخص کی خودکشی کی خبر آتی ہے تو ہم فورا جذباتی ہمدردی میں ڈوب جاتے ہیں۔ زبانوں پر فورا یہی جملے آتے ہیں:
کتنا مجبور ہوگا!
کتنا تنہا ہوگا!
کتنی تکلیف میں ہوگا!
اسے سہارا دینے والا کوئی نہ ہوگا! وغیرہ وغیرہ۔
لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ یہ سوچ اور یہ انداز خودکشی جیسے سنگین گناہ کو غیر محسوس انداز میں جواز فراہم کر رہا ہے، حتیٰ کہ ہمارا ذہن اس طرف مائل ہو چکا ہے کہ شاید یہ حرام موت نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کوئی گھناؤنا جرم نہیں بلکہ محض مظلومیت کی داستان رکھنے والے ایک شخص کا ذاتی اور قابل تعریف فیصلہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم اپنے اس رویے سے نئی نسل کی کیا تربیت کر رہے ہیں؟
کیا وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو کر حرام موت کا راستہ اختیار کرے، واقعی ہمدردی یا تعریف کا مستحق ہے؟
یا پھر ایسے گھناؤنے عمل پر سختی سے رد اور حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے، تاکہ معاشرہ اس جرم کو کبھی معمولی نہ سمجھے؟
یقیناً ہر عقل مند یہی جواب دے گا کہ ایسے شخص کے عمل پر ہمدردی نہیں، بلکہ واضح اور دو ٹوک انداز میں رد اور حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، تاکہ یہ پیغام عام ہو جائے کہ حرام موت کسی تعظیم یا ترحم کی مستحق نہیں، بلکہ ایک انتہائی برا خاتمہ ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ پناہ مانگنی چاہیے۔کیونکہ اس عمل پر ہمدردی کا اظہار کرنا گویا دوسرے پریشان حال لوگوں کو یہی پیغام دینا ہے کہ:
“اگر تم بھی خود کو ختم کر لو گے تو لوگ تمہیں مظلوم کہیں گے، یاد کریں گے، ہمدردی کریں گے۔”
یہی طرزِ عمل ہمیں اس مقام تک لے آتا ہے جہاں ہم حرام موت مرنے والے کے حق میں جذباتی پوسٹیں لکھتے ہیں، اور اسے “ہیرو” یا “مظلوم” کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ سارے امور درحقیقت ایک جرم کی حوصلہ افزائی ہے۔ ہماری یہی ہمدردی، دوسرے پریشان حال لوگوں کے لیے اس جرم کو اختیار کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ لہٰذا ایسے مواقع پر ہمیں وہ الفاظ کہنے چاہییں جو خودکشی کی سنگینی کو اجاگر کریں، جو سننے والوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیں، تاکہ ہر شخص جان لے کہ خودکشی کوئی بہادری نہیں، بلکہ انتہائی بزدلی، کم ہمتی، اور اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت “زندگی” کی ناقدری ہے۔ یقیناً یہ راستہ وہی اختیار کرتا ہے جو اللہ کی رحمت سے ناامید ہو جاتا ہے اور دنیا و آخرت دونوں کو برباد کر بیٹھتا ہے۔ حالانکہ اسلام نے تو ہمیں مایوسی کی کیفیت میں بھی خود کو سنبھالنے کا راستہ دکھایا ہے۔دین نے تو دکھ، پریشانی اور تنگی کے وقت صبر، نماز، دعا اور اللہ سے رجوع کا سبق دیا ہے، نہ کہ خودکشی کا!
لہٰذا ایسے حالات میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم خودکشی کرنے والوں کو مظلوم سمجھنے کے بجائے ان زندہ اور پریشان حال لوگوں کی فکر کریں جو مایوسی کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ ہمیں ان کا سہارا بننا چاہیے، ان کے دکھ بانٹنے چاہییں، ان کی دلجوئی اور رہنمائی کرنی چاہیے، تاکہ وہ اس انتہا تک نہ پہنچیں جہاں خودکشی جیسے ہولناک فیصلے جنم لیتے ہیں۔ اصل ہمدردی کے مستحق تو یہ لوگ ہیں۔انہیں امید دلائی جائے کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ضرور آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
بےشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔”1

لوگوں کی تربیت اس سوچ پر کی جائے کہ دنیا کی پریشانی عارضی ہے۔ اسے بنیاد بنا کر خودکشی کرنا بے وقوفی ہے۔ زندگی اللہ کی امانت ہے، اور اس پر صرف اسی کو اختیار ہے۔ اپنے آپ کو مارنا ایسا ہی ہے جیسے کسی اور کو ناحق قتل کرنا۔ یہ مظلومانہ موت نہیں بلکہ ایک حرام موت ہے، جو اللہ کی دی ہوئی زندگی کی ناقدری اور اس کی تقدیر سے انکار کے مترادف ہے۔ یہ وقتی تکلیف سے بچنے کی کوشش میں دائمی تباہی کو دعوت دینا ہے۔
پیارے نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
“جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خودکشی کر لی، وہ جہنم کی آگ میں ہو گا اور اس میں ہمیشہ پڑا رہے گا، اور جس نے زہر پی کر خودکشی کر لی، وہ زہر اس کے ساتھ ہو گا اور جہنم کی آگ میں وہ اسے اسی طرح ہمیشہ پیتا رہے گا، اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خودکشی کر لی تو اس کا ہتھیار اس کے ساتھ ہو گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔”2

یاد رکھیں! دنیا کی پریشانیاں اور آزمائشیں محض مصیبت نہیں ہوتیں، بلکہ بندۂ مؤمن کےلیے یہ اللہ کی رحمت، گناہوں کی بخشش، اور آخرت کی نجات کا ذریعہ بنتی ہیں۔
نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے:
“مسلمان جب بھی کسی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہوتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔”3
لہٰذا ایک سچے مسلمان کو چاہیے کہ ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہے، اور یہ یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو ضائع نہیں کرتا۔ جو مشکلات آج ہمیں توڑنے کا باعث بن رہی ہیں، وہی کل ہمیں سنوارنے اور بلند کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
ہمارا کام یہ ہے کہ ہم صبر کا دامن تھامے رکھیں، دل سے دعا کریں، اور ہر گھڑی اللہ کی رحمت سے امید لگائے رکھیں۔
یقین رکھیے! جو اللہ پر بھروسا کرتا ہے، اللہ اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں زندگی کی ہر آزمائش میں صبر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان اور خیر پر فرمائے، آمین۔

___________________________________________________________________________________________

  1. (سورۃ الانشراح: 5، 6)
  2. (صحیح بخاری: 5778)
  3. (صحیح بخاری: 5641)
ظہیر شریف

اصل نام "خلیق الرحمن بن شریف طاہر" ہے۔ المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کے زیر انتظام چلنے والا معروف تعلیمی ادارہ جامعہ البیان کراچی سے متخرج اور کراچی یونیورسٹی میں ایم فل کے طالب علم ہیں۔

Recent Posts

ہم جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کیوں نہیں مناتے؟

کیا امت کے بہترین ادوار میں عید میلاد منائی گئی؟ اس کا آغاز کب ہوا؟…

3 days ago

عشقِ رسول ﷺ کے نام پر گمراہ کُن عقائد

لوگ دعا میں نبی کریم ﷺ کا وسیلہ کیوں دیتے ہیں؟ کون سا وسیلہ جائز…

3 days ago

اللہ کے علاوہ بھی کوئی مشکل کشا ہے

شرک کیا ہے اور اس کی اقسام کون سی ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی صفات کو…

3 days ago

“جشنِ عید میلادُالنبی ﷺ منانے والوں سے سوال”

کیا نبی ﷺ نے اپنا جشنِ میلاد منایا؟ نیز کیا اُمت کے افضل دَور میں…

1 week ago

کھانے کے آداب

الحمد للہ رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء والمرسلین، نبینا محمد ﷺ وعلیٰ آلہ…

1 week ago

ٹیکنا لوجی کو بدعت کہنا کیسا ہے

بدعت کسے کہتے ہیں؟ کیا دنیا میں ہونے والا ہر نیا کام بدعت ہے؟ کسی…

1 week ago