خطبہ اول:
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جو حالات کو پھیرنے والا اور معاملات کی تدبیر کرنے والا ہے، جو مشرق و مغرب کا رب ہے۔ اس غالب و بخشنے والے کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ میں اس پاک ذات کی حمد کرتا ہوں جو زمانوں کے گزرنے اور صدیوں کے بیتنے کے باوجود زندہ و جاوید اور تمام امور کا مدبر ہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار و نبی محمد ﷺاللہ کے بندے اور رسول ہیں جو تمام لوگوں کی طرف ہدایت اور نور کے ساتھ بھیجے گئے۔ اے اللہ! تو اپنے بندہ اور رسول محمد پر درود و سلام نازل کر، ان کے آل و اصحاب پر جنہوں نے ایسی تجارت کی امید رکھتے ہوئے اللہ کے لیے اخلاص برتا جو ہرگز نقصان نہیں اٹھائے گی۔ تابعین پر اور لوگوں پر جو قیامت، بدلہ پانے اور دوبارہ اٹھائے جانے کے دن تک ان کی اچھی طرح پیروی کریں۔
اما بعد:
اللہ کے بندو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اس کی توحید، اس کے ذکر و شکر، اس کی اچھی عبادت، اس کے حکم کی تعمیل کے ذریعے اس کی قربت طلب کرو۔ تمہیں دنیوی زندگی دھوکہ نہ دے اور اللہ کے معاملے میں دھوکہ دینے والا شیطان تمہیں دھوکہ میں نہ رکھے۔
مسلمانو! الوداع کہنے کا لمحہ سوز و غم کو بھڑکاتا ہے کیونکہ وہ رخصتی کے وقت ہوتا ہے اور اختتام کا پتا دیتا ہے۔ اللہ کے بندو! گردش ایام کا پورا ایک سال ختم ہو گیا۔ اس میں حالات ادلتے بدلتے رہے، عمریں فنا ہوئیں، امت نت نئے مسائل سے دوچار ہوئی۔ اگر شب و روز کا جانا غافل و لاپرواہ لوگوں کے نزدیک ایک دن جانے اور دوسرے دن کے آنے کے سوا کچھ نہیں تو اہل بصیرت کے ہاں عبرت لینے کے محرکات میں سے ایک زندہ محرک اور نصیحت لینے کے وسائل میں سے ایک تجدد پذیر وسیلہ ہے۔
اس کی تصویر کشی اور پوری وضاحت ابو درداء رضی اللہ عنہ کا قول ہے جسے حسن بصری رحمہ اللہ نے روایت کی ہے۔ اے ابن آدم! تو بس چند دنوں سے عبارت ہے، جب ایک دن چلا گیا تو تمہارا ایک حصہ بھی چلا گیا۔ اسی طرح اس کی تصویر کشی بعض سلف کا یہ قول کرتا ہے: وہ شخص سال گزرنے پر کیسے خوشی منا سکتا ہے جس کا ہر دن اس کے مہینے کو، اور ہر مہینہ اس کے سال کو اور ہر سال اس کی زندگی کو ختم کرتا جا رہا ہو؟ وہ کیسے خوش ہو سکتا ہے جس کی عمر اسے اس کے اختتام تک اور اس کی زندگی اسے موت کی طرف کھینچ کر لے جا رہی ہو؟ نیز بعض سلف کا یہ قول بھی اس کی تصویر کشی کرتا ہے کہ جس کے لیے راتیں اور دن سواری بن جائیں وہ اسے لے کر چلتے رہتے ہیں، چاہے وہ خود نہ چلے۔
اللہ کے بندو! عقلمند سال کو رخصت کرتے وقت خود کا جائزہ لینے اور نفس کا محاسبہ کرنے کے لیے رکتا ہے۔ جیسے سمجھدار تاجر اپنی تجارت کا جائزہ لیتا ہے، وہ دیکھتا ہے کہ اسے کتنا منافع ہوا ہے اور کتنا نقصان، جبکہ وہ اس کے اسباب کی تلاش کرتا ہے اور غلط اور صحیح پر غور و فکر کرتا ہے۔ باشعور مسلمان کا اس دانشمندانہ راستے پر چلنا اس وقت اور اہم ہو جاتا ہے جب اس کے مقاصد و اہداف شریف، معزز اور بلند ہوں، کیونکہ یہ ان سچی کمائیوں کی حفاظت کے لیے کوشش ہوتی ہے جن کی تجارت برباد نہیں ہوتی، نہ ہی ان کا بازار مندی کا شکار ہوتا ہے اور نہ ان کا منافع ختم ہوتا ہے۔ جو اعمال کے خزانوں اور ان باقی رہنے والی نیکیوں میں سے ہیں جن کے لیے اللہ نے بلند مرتبہ اور باعزت مقام رکھا ہے اور جنہیں دوسری چیزوں پر فضیلت بھی دی ہے،
چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:
الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا 1
مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں ثواب میں بہتر اور امید کی رو سے زیادہ اچھی ہیں۔
اسی لیے اس جائزے پر توجہ اور اس محاسبہ کا حرص بیدار لوگوں کا شیوہ اور دانشمندوں کا وطیرہ رہا ہے۔ اس سے انہیں زندگی کے لہو و لعب، فضول چیزیں، آسائش، چمک اور زیب و زینت غافل نہیں کرتی ہیں۔ پھر وہ زندگی کی مسافتیں بھرپور توفیق کے ساتھ طے کرتے ہیں جس سے وہ آرزوؤں کو حاصل کرتے ہیں، امیدوں تک پہنچتے ہیں، مقاصد سے سرفراز ہوتے ہیں، لغزشوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
ان کے برخلاف وہ غافل لوگ ہیں جو اپنی بے راہ روی اور غفلت میں گم ہیں، وہ اپنے نشے اور غفلت سے بیدار نہیں ہوتے ہیں کہ اپنے منافع اور نقصان پر غور کریں، اپنی کوتاہیوں کو سدھاریں، مصیبتوں سے عبرت لیں، آفتوں سے نصیحت حاصل کریں۔ وہ ایسے لوگوں کے زمرے میں ہیں جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں وہ کام بھلا دیا جس میں ان کی دنیوی و اخروی درستی اور کامیابی ہے۔
جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ2
اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جنہوں نے اللہ (کے احکام) کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کردیا (١) اور ایسے ہی لوگ نافرمان (فاسق) ہوتے ہیں۔
اللہ کے بندو! بےشک جائزہ لینے، خود احتسابی کرنے کا تعلق بہترین اور کامل ترین تبدیلی سے مضبوطی کے ساتھ جڑا ہوا ہے، کیونکہ جائزہ اور خود احتسابی انسان پر اس کی کمی اور خرابی کے مقامات، عیبوں کے پوشیدہ پہلوؤں کو ظاہر کر دیتے ہیں۔ جب اس کا عزم سچا ہوگا، نیت درست ہوگی، راستہ واضح ہوگا، عمل اس کی تصدیق کرے گا تو اللہ کی طرف سے پائیدار مدد آئے گی جس سے وہ اچھے انجام اور بہتر بدلے سے سرفراز ہوگا۔
“اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں، ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھائیں گے۔”
اللہ کے بندو! جائزہ اور محاسبہ کی روش پر چلنا لوگوں میں کچھ افراد یا کسی گروہ کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ امت مسلمہ کو مجموعی اعتبار سے اس کی ضرورت ہے اور اس سے اس کو بے نیازی نہیں۔ جبکہ وہ ایک رخصت ہونے والے سال کو الوداع کہہ رہی ہے اور ایک نئے سال کا استقبال کر رہی ہے۔ امت کے حق میں یہ ایک ایسا جائزہ ہے جس کے مقاصد وسیع ہیں، جس کا دائرہ عام ہے، جس کا فائدہ عظیم ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ3
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کر رہے ہو۔
اللہ مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کے طریقے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے فائدہ پہنچائے۔ عظمت و جلال والے اللہ سے اپنے لیے، آپ کے لیے، تمام مسلمانوں کے لیے ہر گناہ کی مغفرت طلب کرتا ہوں۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جو راتوں اور دنوں کو پھیرنے والا ہے۔ میں اس کے مسلسل انعام اور پیہم اکرام پر اس کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر درود و سلام بھیج اور ان کے نیکوکار، پرہیزگار اور نشان راہ آل و اصحاب پر۔
اما بعد:
اللہ کے بندو! بے شک نفس کا محاسبہ کرنا انسان کی عقل کے کمال اور اس کی اپنی سعادت کے اسباب کی پوری فکرمندی کے واضح ترین دلائل اور ہر اس کام میں فلاح یابی کے محرکات میں سے ہے جسے وہ انجام دے یا چھوڑ دے۔ اور یہ ایسا ضروری کردار ہے کہ ہر عقلمند کو چاہیے کہ ہر عمل کے بعد، ہر مرحلے کے اختتام پر، ہر منزل کی تکمیل پر اپنے نفس کے تئیں اپنائے۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کا معاملہ استوار ہو جائے، اس کا حال سنور جائے، اس کا خاتمہ و انجام کار سلامت رہے۔ تاکہ وہ دنیا کی زندگی میں عظیم کامیابی حاصل کرے اور اس دن بھی کامیاب ہو جب گواہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اس سچی اور مضبوط نگرانی پر کاربند رہنے کی کوشش کرو، خصوصا جب کہ تم اپنے اعمال کے ایک نئے مرحلے کا استقبال کرنے جا رہے ہو، اپنی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے جا رہے ہو، جس میں تم اس بات سے بے نیاز نہیں ہو کہ گزرے دنوں پر بھروسہ اور انحصار کرو اور باقی ماندہ دنوں کی اصلاح اور ان کے لیے منصوبہ بندی کرو۔ اور درود و سلام بھیجو اللہ کی مخلوقات میں سب سے افضل محمد بن عبداللہ پر، کیونکہ تمہیں اللہ کی کتاب میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 4
“بے شک اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام پڑھتے رہا کرو۔”
اے اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر درود و سلام بھیج۔ اے اللہ! ان کے چاروں خلفائے راشدین ابوبکر، عمر، عثمان و علی سے راضی ہو جا اور تمام آل، صحابہ و تابعین، ان کی ازواج مطہرات جو مومنین کی مائیں ہیں، ان سب سے بھی راضی ہو جا اور ان سب سے بھی جو قیامت تک نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کریں، اپنے عفو و کرم، احسان کے ذریعے ہمیں بھی ان کے ساتھ شامل فرما اے اکرم الاکرمین۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، دین کے قلعہ کی حفاظت فرما، اپنے موحد بندوں کی مدد فرما، مسلمانوں کے دلوں میں باہمی محبت پیدا فرما، ان کی صفوں کو متحد کر دے، ان کے حکمرانوں کی اصلاح فرما، ان کے کلمہ کو حق پر جمع فرما اے رب العالمین۔
اے اللہ! اس ملک کو اور تمام مسلم ممالک کو پرامن اور اطمینان والا بنا دے۔ اے اللہ! ہمارے وطنوں کو امن و امان والا بنا دے۔ ہمارے اماموں، حکمرانوں کی اصلاح فرما اور حق کے ساتھ ہمارے امام و حکمران خادم حرمین شریفین کی تائید فرما اور ان کے لیے نیک اور صالح مشیر فراہم فرما اور انہیں ان کاموں کی توفیق دے جو تجھے پسند ہوں، جن سے تو راضی ہو، اے دعاؤں کے سننے والے۔
اے اللہ! انہیں اور ان کے ولی عہد کو اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور ان امور کی بھی جو ملک و ملت کی اصلاح کا باعث ہوں، اے وہ ذات جس کی طرف قیامت کے دن لوٹ کر جانا ہے۔
اے اللہ! اس ملک کی حفاظت فرما، اسے ہر بھلائی کا حامل، ہر برائی سے محفوظ رکھ اور تمام مسلمانوں کے ملکوں کی بھی حفاظت فرما۔ اے اللہ! مسجد اقصی کو آزاد فرما۔ اے اللہ! فلسطین کے مسلمانوں کی حفاظت فرما، ان کی حفاظت فرما ان کے آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے اور اوپر سے۔ اے اللہ! ہم تیری عظمت کی پناہ میں آتے ہیں کہ انہیں نیچے سے اچانک ہلاک کر دیا جائے۔ اے اللہ! تو ان کا مددگار اور پشت پناہ بن جا، ان کی تائید فرما، ان کی نصرت فرما، ان کے دشمن اور تیرے دشمن کے خلاف تو ان کے لیے کافی ہو جا اے ذوالجلال والاکرام۔
اے اللہ! ہمارے دین کو سنوار دے جو ہمارے معاملات کی بنیاد ہے۔ ہماری دنیا کو سنوار دے جس میں ہمارا گزر بسر ہے۔ ہماری آخرت کو بہتر بنا دے جس کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ اے اللہ! ہماری زندگی کو ہر بھلائی میں اضافے کا ذریعہ بنا اور موت کو ہر برائی سے راحت کا ذریعہ بنا۔ اے اللہ! ہمارے دلوں کو تقوی عطا فرما، انہیں پاک کر دے، تو ہی سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے۔ تو ہی ان کا مالک اور نگہبان ہے۔ اے اللہ! ہمارے تمام کاموں کے انجام کو بہتر بنا، ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا۔ اے اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال، تیری عطا کردہ عافیت کے بدلنے، تیری اچانک گرفت اور تیرے تمام غضب سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تجھ سے نیک کام کرنے، برے کاموں سے بچنے، مسکینوں سے محبت رکھنے کی توفیق مانگتے ہیں۔ اور یہ کہ تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔ اے اللہ! تو اپنے بندوں پر اگر کوئی آزمائش لانے والا ہو تو ہمیں اپنے پاس بلا لے اس حال میں کہ ہم فتنوں سے محفوظ ہوں۔
اے اللہ! ہمیں اپنے اور اپنے دشمنوں سے، اپنے طریقے کے مطابق تو ہمارے لیے کافی ہو جا اے رب العالمین۔ اے اللہ! ہم تیرے دشمنوں اور ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں تجھے ان کے مقابلے میں کھڑا کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہمارے مریضوں کو شفا دے دے۔ اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ و صلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین والحمد للہ رب العالمین۔
خطبہ جمعہ مسجد الحرام،
تاریخ: چ24 ذی الحجہ 1446 ہجری بمطابق ب20 جون 2025 عیسوی۔
خطیب: فضیلۃ الشیخ اسامہ خیاط حفظہ اللہ