[Surrogate Mother]
دوست کا سوال ہے کہ غامدی صاحب نے سروگیسی (surrogacy) یعنی کسی دوسری عورت کی کوکھ یا رحم کرائے پر لینے کو جائز قرار دیا ہے، آپ کی اس بارے کیا رائے ہے؟ میں نے غامدی صاحب کا وہ ویڈیو کلپ دیکھا ہے اور غالبا جو میں نے دیکھا ہے، یہ اس موضوع پر ان کا دوسرا کلپ ہے اور اس کا لنک پہلے کمنٹ میں موجود ہے۔ غامدی صاحب سے سوال یہ ہوا کہ اگر میاں بیوی کے اولاد نہ ہو سکتی ہو اور ان دونوں میاں بیوی کا نطفہ (sperm) کسی اور عورت کا رحم (uterus) کرائے پر لے کر اس میں رکھا جائے تو اس طرح سے بچے کی پیدائش جائز ہے یا نہیں؟
جواب: غامدی صاحب نے اس طرح سے بچے کے حصول کو جائز قرار دیا اور دلیل یہ بیان کی ہے کہ جس طرح سے کسی عورت کی چھاتیاں کرائے پر لی جا سکتی ہیں، اسی طرح سے اس کا رحم بھی کرائے پر لیا جا سکتا ہے۔ یعنی انہوں نے اس کو رضاعت کے مسئلے پر قیاس کیا ہے کہ عربوں میں یہ رواج عام تھا کہ کسی دوسری عورت سے اجرت پر اپنے بچے کو دودھ پلوا لیتے تھے تو یہ اس عورت کی چھاتیاں کرائے پر لینے کے مترادف ہے۔ تو جب میاں بیوی کسی دوسری عورت کی چھاتیاں کرائے پر لے سکتے ہیں تو اسی پر قیاس کرتے ہوئے اس کا رحم بھی کرائے پر لیا جا سکتا ہے۔
اہل علم کی اجتماعی اجتہاد کی علمی مجالس اور کمیٹیوں نے اس طرح بچہ حاصل کرنے کو شرعا حرام قرار دیا ہے۔ تنظیم تعاون اسلامی (OIC) کے تحت اسلامی فقہ اکیڈمی کے مجموعہ علماء نے 1986ء کے اپنے ایک اجلاس میں اس کی سات صورتیں بیان کرتے ہوئے دو کو جائز قرار دیا جبکہ پانچ کو حرام قرار دیا۔ جو دو صورتیں ضرورتا جائز ہیں؛ ان میں سے ایک یہ ہے کہ میاں بیوی کا سپرم لے کر اس کو رحم سے باہر فرٹیلائز کر کے بیوی ہی کے رحم میں انجیکٹ کر دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ شوہر کا سپرم لے کر اس کو بیوی کے رحم میں انجیکٹ کر دیا جائے۔ لیکن جن صورتوں میں بیوی کے علاوہ کسی غیر عورت کے رحم میں میاں بیوی کا سپرم انجیکٹ کیا جاتا ہے تو اس کو حرام قرار دیا گیا۔
اسی طرح رابطہ عالم اسلامی کے تحت اسلامی فقہ اکیڈمی نے بھی اپنے 1985ء کے اجلاس میں صرف اسی صورت کو جائز قرار دیا ہے کہ میاں بیوی کا سپرم، بیوی ہی کے رحم میں انجیکٹ کیا جائے، کسی اور عورت کے رحم میں نہیں۔ اسی طرح مجمع البحوث اسلامیہ، مصر نے بھی اپنی ایک اجتماعی قرار داد میں کرائے پر رحم لینے کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اور یہی عام طور اہل علم کا موقف ہے۔ اگرچہ بعض عربی آرٹیکلز میں اُس رائے اور دلیل کا تذکرہ پڑھنے کو ملا جو غامدی صاحب نے بیان کی ہے لیکن اس کے قائل کا ذکر نہیں تھا۔ تو یہ رائے اگرچہ کافی عرصہ سے موجود ہے لیکن ایک غیر معروف رائے ہے۔
اب ہم دلیل کی طرف آتے ہیں۔ تو اہل علم کا رویہ ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے میں سب سے پہلے کوئی نص تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پھر قیاس کی طرف جاتے ہیں اور قیاس بھی کسی نص ہی سے مربوط ہوتا ہے۔ غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ منصوص نہیں ہے۔ ہماری رائے میں ان کی یہ بات غلط ہے۔ یہ مسئلہ منصوص ہے کہ اس بارے کئی ایک آیات اور احادیث میں رہنمائی موجود ہے۔
منصوص ہونے کے دو مفاہیم ہیں؛ ایک یہ کہ اس مسئلے میں کوئی نص موجود ہے اور یہاں نص سے مراد اصول فقہ کی اصطلاح میں نص ہے یعنی “ما سیق الکلام لاجلہ”۔ تو اس معنی میں یہ مسئلہ منصوص نہیں ہے۔ دوسرا منصوص کا معنی یہ ہے کہ یہ مسئلہ نص میں آ گیا ہے یعنی کتاب وسنت کے متن میں اس کا ذکر موجود ہے تو اس معنی میں یہ مسئلہ منصوص ہے۔ ہمارے فقہاء نے استدلال کا ایک پورا نظام وضع کیا ہے کہ جس کی بناء قواعد لغویہ عربیہ پر رکھی گئی ہے۔ اس نظام استدلال میں “نص” سے نیچے “ظاہر” کی اصطلاح موجود ہے۔ تو وہ نص کے علاوہ ظاہر کلام سے بھی استدلال کے قائل ہیں جب تک کہ وہ نص کے خلاف نہ ہو۔
تو کلام اپنے معنی پر کسی طرح دلالت کرتا ہے، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے فقہاء نے کلام کی اپنے معانی پر دلالت کو پانچ ڈائیمینشنز سے دیکھا ہے یعنی معنی کی وسعت کے اعتبار سے، لفظ کے اپنے معنی میں واضح اور خفی ہونے کے اعتبار سے، لفظ کے اپنے معنی پر دلالت کے اعتبار سے، لفظ کے اپنے معنی پر دلالت کی نوعیت کے اعتبار سے، اور مفہوم مخالف کے پہلو سے۔ پھر ہر ڈائمینشن میں آگے تہیں (layers) ہیں جیسا کہ لفظ اپنے معنی میں واضح ہے یا خفی، اس میں ایک لفظ میں آٹھ تہیں دریافت کی گئیں کہ لفظ کا معنی ان آٹھ تہوں میں سے کسی بھی تہہ میں ہو سکتا ہے۔ یعنی لفظ کی مثال ایک آٹھ منزلہ عمارت کی سی ہے کہ جس کے چار فلورز زیر زمین ہیں اور چار زمین کے اوپر ہیں اور معنی ان میں سے کسی بھی فلور پر ہو سکتا ہے۔ تو یہ لفظ اور معنی میں باہمی تعلق کی گہرائی ہے کہ جس سے قائم ہونے والے نظام استدلال کو ہزاروں نہیں لاکھوں اہل علم نے قبول بھی کیا ہے اور اس میں کانٹری بیوٹ بھی کیا ہے۔ تو قرآن مجید کی آیت:
إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلا اللائِي وَلَدْنَهُمْ
المجادلة – 2
یعنی ان کی مائیں وہی ہیں کہ جنہوں نے ان کو پیدا کیا ہے۔
اس بارے میں ظاہر ہے کہ ماں پیدا کرنے والی ہی ہے اور جس کا سپرم ہے، اس کا کچھ بھی نہیں ہے۔
اسی بات کو اللہ کے رسولﷺ نے یوں ارشاد فرمایا:
الولد للفراش، وللعاهر الحجر
یعنی بچہ اسی کا ہے کہ جس کے بستر پر پیدا ہوا ہے اور زانی کو کچھ نہیں ملے گا۔ یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ہے۔
تو یہ روایت بھی اس معاملے میں ظاہر ہے کہ بچہ اسی کا ہے کہ جس کے بستر پر پیدا ہوا ہے اور ماں بھی وہی ہے۔ تو اس آیت اور اس حدیث کا ایک مفہوم وہ ہے جو کہ نص ہے یعنی سیاق وسباق سے واضح ہو رہا ہے۔ اور ایک مفہوم وہ ہے جو ظاہر ہے۔ تو ظاہر سے استدلال قواعد لغویہ عربیہ کے عین مطابق صحیح اور درست ہے۔ لفظ کا معنی صرف نص یعنی “ما سیق الکلام لاجلہ” ہی نہیں ہوتا بلکہ ظاہر مفہوم بھی اس کا معنی ہی ہوتا ہے اور وہ لفظ اس معنی پر دلالت کر رہا ہوتا ہے اور ہر زبان میں اہل زبان اس دلالت کو قبول کرتے ہیں۔
اس بات کو ایک اور طرح سے سمجھیں کہ قرآن مجید نے مومن مردوں اور عورتوں کو “حفظ فروج” یعنی اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ
النور – 30
مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاﻇت رکھیں۔
اور
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ
المؤمنون – 5/6
جو اپنی شرمگاہوں کی حفاﻇت کرنے والے ہیں۔ بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں۔
حفظ فروج سے یہی مراد ہے کہ کوئی مومن مرد اپنا مادہ منویہ یعنی سپرم کسی غیر محرم عورت کے رحم میں نہ ڈالے اور صرف اپنی بیوی یا لونڈی ہی کے رحم میں اپنا مادہ منویہ ڈالے تا کہ وہ رحم اس کے مادہ منویہ کے لیے ایک کھیتی کا کام دے۔ تو ان آیات کا بھی ظاہر مفہوم یہی ہے کہ ایک مرد کا سپرم صرف اپنی بیوی یا لونڈی کے رحم یعنی کھیت میں ایک بیج کی طرح بویا جا سکتا ہے۔
رہی غامدی صاحب کی یہ دلیل کہ قرآن مجید نے رضاعی ماں کو بھی تو ماں کہا ہے تو پھر آپ کی یہ دلیل کدھر گئی کہ ان کی ماں وہی ہے کہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے؟ تو یہ کمزور استدلال ہے۔ قرآن مجید نے رضاعی ماں کو احتراما ماں کا درجہ دیا ہے اور وہ اس کی حقیقی ماں کی طرح نہیں ہے۔ بس ایک اعتبار سے اس کی ماں کی طرح ہے یعنی حرمت میں جیسا کہ قرآن مجید میں ازواج مطہرات کو اہل ایمان کی مائیں قرار دیا گیا ہے۔ اب اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عام اہل ایمان ازواج مطہرات کو اپنی ماں کی طرح چھو بھی سکتے تھے اور پیار بھی کر سکتے تھے۔ تو یہ مجازا ماں کہا گیا ہے کہ ان دونوں کیسز میں من وجہ یعنی ایک اعتبار سے حقیقی ماں سے مشابہت ہے یعنی ان عورتوں سے نکاح کے حرام ہونے کے اعتبار سے۔
تو قرآن مجید کا یہ اسلوب حصر کا اسلوب ہے کہ ان کی ماں تو وہی ہے کہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔ اور جب کلام میں حصر پیدا ہو جائے تو اس کا مفہوم لاکڈ ہو جاتا ہے۔ تو محل اختلاف یہ تھا کہ جس کا سپرم ہے، وہ ماں ہے یا جس نے پیدا کیا ہے، وہ ماں ہے۔ تو کتاب وسنت اس بارے واضح ہیں کہ جس نے پیدا کیا ہے، وہ ماں ہے یعنی حقیقی ماں وہی ہے۔ البتہ مجازا اس کو ماں کہا جا سکتا ہے کہ جس کا سپرم ہو جیسا کہ رضاعی ماں کو ماں کہہ دیا گیا ہے۔
رہی یہ دلیل کہ جب عورت کی چھاتیاں کرائے پر لی جا سکتی ہیں تو کوکھ کیوں نہیں؟ تو اس پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب کوکھ کرائے پر لی جا سکتی ہے تو عورت کی شرم گاہ کیوں نہیں کرائے پر لی جا سکتی؟ جب استئجار رحم جائز ہے تو استئجار فرج جائز کیوں نہیں ہے یعنی جسے عرف عام میں نکاح متعہ کہتے ہیں؟ تو اصل بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے رضاعت کو جائز قرار دیا ہے، بس بات ختم ہو گئی۔ کسی عورت کا رحم کرائے پر لیا جا سکتا ہے، اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ دلیل اس کے خلاف ہے۔
اور غامدی صاحب کا قیاس، قیاس مع الفارق ہے۔ قیاس کا ایک پورا نظام ہے، اور اصول فقہ میں سب سے گہری بحث قیاس کی بحث ہے۔ آپ کو علت نکالنی پڑتی ہے، پہلے تخریج یا تنقیح المناط کریں گے، پھر تحقیق المناط کا مرحلہ آئے گا، پھر اس علت کی شرائط کو پورا کریں گے کہ جو آپ نے نکالی ہے کہ وہ متعدی بھی ہے یا نہیں، ظاہر وصف ہے یا نہیں، اس کی حکم سے مناسبت ہے یا نہیں، اگر ہے تو کسی طرح کی مناسبت ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسے قیاس تھوڑا کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے تو وہ بھی جائز ہے۔
نہ تو یہ قیاس ہے اور نہ ہی قواعد عامہ سے استدلال ہے۔ قواعد عامہ میں بھی پہلے اس قاعدے کو بیان کریں کہ آپ مصلحت کے اصول سے استدلال کر رہے ہیں، آپ استحسان کے قاعدے کو استعمال کر رہے ہیں یا آپ کی دلیل استصحاب کا قاعدہ ہے۔ بس یہ کہہ دینا کہ یہ قواعد عامہ سے استدلال ہے، یہ کیا بیان ہوا؟ اور یہ کیا استدلال ہوا؟