اہل اسلام کا خوش قسمت قافلۂِ حج دینِ اسلام کے پانچویں عظیم رکن کی ادائیگی کے لیے دنیا بھر سے بیت اللہ کی طرف عازمِ سفر ہے۔ یقیناً یہ ایک ایسا عمدہ اور قابلِ رشک سفر ہے کہ جس کی آرزو اور خواہش ہر صاحبِ ایمان کو رہتی ہے لیکن اس کے باوجود اس فریضہ کی ادائیگی کی استطاعت نہ رکھنے والے معذور یا حالات سے مجبور بہت سے مسلمان اس سعادت سے محروم رہتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں بلکہ وہ صدقِ دل اور پختہ یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے توفیق اور وسائل مانگتے رہنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو شریعت نازل فرمائی ہے اسکا یہ حسن ہے کہ اس میں کسی بھی بڑے عمل کے ثواب کو حاصل کرنے کے لیے دیگر اعمال کی صورتوں میں بھی امتِ مسلمہ کو مواقع فراہم کیے گئے ہیں کہ جن پرعمل کر کے با آسانی عظیم اعمال کے عظیم فضائل کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہی مواقع میں سے ایک موقع دیگر اعمال کی صورتوں میں “حج کا ثواب” پانے کا ہے۔ اگر آپ وسائل کی کمی یا دیگر وجوہات کی بناء پر اس سال ادائیگی حج سے محروم ہیں تو کم از کم حج کے ثواب کو حاصل کرنے سے تو اپنے آپ کو محروم نہ رکھیں۔ یقینا اجر کو پانے میں ہمارے لیے اس قدر وسعت کا معاملہ ہونا یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہونے کے ساتھ اس کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس رحمت، فضل اور احسان کی قدر دانی کرتے ہوئے اسے حاصل کرنے کی جستجو کریں۔
حج کرنے کا کیا ثواب ہے؟
قبل اس کے کہ ہم وہ اعمال بیان کریں کہ جو اجر و ثواب میں حج کے برابر ہیں۔ ہم چاہیں گے کہ حج پر ملنے والے اجر و ثواب کو مختصرا بیان کیا جائے۔
احادیث میں بیان کردہ فضائل کو مندرجہ ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے:
1- حج دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے کہ جس کی ادائیگی صاحب حیثیت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔1
2-حاجی اللہ تعالیٰ کے خاص مہمان ہوتے ہیں۔2
3- حج کرنے سے زندگی بھر کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ حاجی گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے کہ گویا اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو۔3
4- حجِ مبرور کی جزاء جنت ہے۔4
5- حج کرنے سے گناہ کے ساتھ ساتھ ساتھ فقر و محتاجگی بھی دور ہو جاتی ہے۔5
6- حاجی کے ہر ہر قدم پر اللہ تعالیٰ اجر و ثواب میں اضافہ، درجات میں بلندی اور گناہ کی معافی فرماتا ہے۔6
7- ادائیگی حج کو اللہ تعالیٰ کا قرض قرار دیا گیا ہے۔ حج فرض ہونے کی صورت میں اگر کسی شخص کا حج رہ گیا ہو تو اس کی طرف سے یہ فریضہ ادا کیا جائے گا۔7
وہ اعمال کہ جو ثواب میں حج کے برابر ہیں:
نبی ﷺ کے فرامین کی روشنی میں ذیل میں چند ایسے اعمال پیش کیے جا رہے ہیں کہ جو ثواب میں حج کے برابر ہیں جو یقیناً حج جیسی عظیم نعمت سے محروم لوگوں کے لیے بہترین تحفہ ہیں!
1- صدقِ دل سے حج کی خواہش رکھنے پر حج کا ثواب:
نبی ﷺ کی بیشتر احادیث سے یہ مضمون ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھی نیکی کے کام کے لیے پختہ ارادہ رکھتا ہو لیکن بیماری یا کسی بھی شرعی عذر کی وجہ سے وہ نیکی کے کام کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اسے اس کی نیت کی وجہ سے اجر مل جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی ﷺ جب غزوۂِ تبوک سے واپس ہوئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا:
مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو مدینہ میں رہ کر بھی ہر جگہ تمہارے ساتھ رہے۔ لوگوں نے تعجب سے عرض کیا : اللہ کے رسول ﷺ! مدینہ میں رہ کر بھی وہ ہمارے ساتھ تھے؟ فرمایا ہاں ! وہ عذر کی وجہ سے رہ گئے تھے۔8
ایک اور روایت میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“جو شخص بستر پر لیٹتے ہوئے نیت کرے کہ رات کو قیام کرے گا لیکن اس پر نیند غالب آ جاتی ہے اور وہ صبح تک اٹھ نہیں پاتا تو اس کے لیے وہ کچھ لکھ دیا جاتا ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے۔ نیز اسے آنے والی نیند اللہ تعالی کی جانب سے صدقہ ہوتی ہے”۔9
اس طرح کی اور بھی روایات ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بندے کی خلوصِ نیت کی وجہ سے اللہ تعالی عمل نہ ہوسکنے کے باوجود بھی ثواب عطاء فرما دیتا ہے۔
2- نمازِ فجر کے بعد سورج نکلنے تک مسجد میں ٹھہرنا اور دو رکعات ادا کرنا:
نبی ﷺ نے فرمایا:
“جس نے جماعت سے فجر کی نماز پڑھی پھر اللہ کے ذکر میں مشغول رہا یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا پھر دو رکعت نماز پڑھی تو اس کے لیے مکمل حج اور عمرے کے برابر ثواب ہے”۔10
3- با جماعت فرض نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد چل کر جانا:
نبی ﷺ نے فرمایا:
“جو آدمی با جماعت فرض نماز ادا کرنے کے لیے نکلتا ہے تو اس کا ثواب حج کے برابر ہے اور جو نفلی نماز کے
لیے نکلتا ہے تو اسے عمرہ کا ثواب ملتا ہے”۔11
4- مساجد میں قائم علمی حلقات میں شریک ہونا:
نبی ﷺ نے فرمایا:
“جو مسجد کی طرف علم حاصل کرنے یا علم سکھلانے کے لیے نکلتا ہے تو اسے مکمل حج کے برابر ثواب ملتا ہے”۔12
5- نماز کے بعد ذکر و اذکار کرنا:
اس عمل سے حج، عمرہ اور جہاد و صدقہ کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
“نادار لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ امیر و رئیس لوگ بلند درجات اور ہمیشہ رہنے والی جنت حاصل کر چکے حالانکہ جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں اور جیسے ہم روزے رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں لیکن مال و دولت کی وجہ سے انہیں ہم پر فوقیت حاصل ہے کہ اس کی وجہ سے وہ حج کر تے ہیں۔ عمرہ کرتے ہیں۔ جہاد کرتے ہیں اور صدقے دیتے ہیں ( اور ہم محتاجی کی وجہ سے ان کاموں کو نہیں کر پاتے ) اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ لو میں تمہیں ایک ایسا عمل بتاتا ہوں کہ اگر تم اس کی پابندی کرو گے تو جو لوگ تم سے آگے بڑھ چکے ہیں انہیں تم پالو گے اور تمہارے مرتبے تک پھر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور تم سب سے اچھے ہو جاؤ گے سوائے ان کے جو یہی عمل شروع کر دیں۔ ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ تسبیح ( سبحان اللہ ) تحمید ( الحمدللہ ) تکبیر ( اللہ اکبر ) کہا کرو۔ پھر ہم میں اختلاف ہو گیا کسی نے کہا کہ ہم تسبیح تینتیس مرتبہ، تحمید تینتیس مرتبہ اور تکبیر چونتیس مرتبہ کہیں گے۔ میں نے اس پر آپ سے دوبارہ معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سبحان اللہ اور الحمدللہ اور اللہ اکبر کہو۔ تا آنکہ ہر ایک ان میں سے تینتیس مرتبہ ہو جائے”۔13
6- والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا:
ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں جہاد کی خواہش رکھتا ہوں مگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہیں تو اس نے کہا کہ ہاں میری والدہ زندہ ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ ان کی خدمت کرو تم حاجی ، معتمر (عمرہ کرنے والا) اور مجاہد کہلاؤ گے۔14
7- رمضان میں عمرہ کرنے پر حج کا ثواب:
نبی ﷺ نےفرمایا:
”رمضان میں کیا گیا عمرہ حج کے برابر ہے۔ یا (آپ ﷺ نے فرمایا کہ:) میرے ساتھ کیے گئے حج کے برابر ہے“۔15
8: حجاج کی معاونت اور ان کے اہل و عیال کی نگہداشت کرنا:
نبی ﷺ نےفرمایا:
“جس نے کسی مجاہد کو جہاد پر بھیجا یا کسی حاجی کی مدد کی یا اس کے حج پر جانے کے بعد اس کے اہل خانہ کی خبر گیری کی یا کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اسے ان کے ثواب کے مثل ثواب دیا جائے گا اور ان کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ کی جائے گی۔”16
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
- ( سورۃ آل عمران, آیت: 97، صحیح مسلم:1337)
- (سنن ابن ماجہ: 2893)
- (سنن ابن ماجہ: 2889)
- (سنن ابن ماجہ: 2888)
- (سنن نسائی: 2631)
- (صحيح الجامع: 5596)
- (سنن نسائی:2640)
- (صحیح بخاری: 4423)
- (سنن ابن ماجہ: 1344)
- (سنن ترمذي: 586)
- (سنن ابن ماجہ: 1412)
- (صحیح الترغیب:86)
- (صحیح بخاری 843)
- (مسند ابی یعلی: 2760, اسنادہ جید)
- (صحیح بخاری و مسلم)
- (صحيح ابن خزيمہ: 2064)