بسم اللہ والصلوٰۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔
ہمارے دین کی جامعیت ہی اس کا میزہ ہے نیز صاحب قرآن دین ِمتین کے شارح محمد رسول اللہ ﷺ خود منجانب اللہ جامع الکمالات قرار دیئے گئے ۔
فرمایا گیا:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا
سبا – 27
ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبریاں سنانے والااور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
حدیث:
بعثت الی الناس کافة
اور کبھی ارشاد ہوا:
أعطیت جوامع الکلم و في روایة مفاتح الکلم و فواتح الکلم و أواخر الکلم
یہ سب ادلہ جامعیت کلام ِ محمدی ﷺ کو متضمن ہیں ۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ
المائدۃ – 3
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا۔
اور
وما من شيءٌ يُقَرِّبُكُمْ إلى الجنةِ إلَّا قد أَمَرْتُكُمْ بهِ ، وما من شيءٌ يُقَرِّبُكُمْ إلى النارِ إِلَّا قد نَهَيْتُكُمْ عنهُ
اور
ترکتکم علی البیضاء لیلها ونهارھا سواء
جیسے ادلۃ قطعیہ و براہین قاطعہ کے بعد اب کسی کو اجازت نہیں کہ وہ ’’لا مشاحۃ فی الاصطلاح‘‘ کا خود ساختہ نعرہ لگا کر خاتم النبیین اورالنبی الخاتم کو تختہ مشق بنا کر اس کا مفہوم بگاڑے اور نہ ہی قواعد و گرامر کے نام پر صوم و صلاۃ کی خود ساختہ تشریح کر کے روزہ و نماز کے الفاظ پر سیخ پا ہو۔
بحمداللہ دین ایسی جامعیت کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے کہ یہاں کلونجی کے دانے تک کی وضاحت و تعیین ہوچکی ہے کہ اس سے مراد کیا ہے؟ والحمد للہ علی ذٰلک۔
جدید مفاہیم ،جدید اصطلاحات،تحریف معنوی و لفظی اور فہم ِ سلف سے رو گردانی جیسے عناصر نے آج بہت فساد و فتنہ بپا کیا ہواہے۔اہلِ علم حضرات بحمداللہ ایسے نام نہاد مصلحین اور ان کے خود ساختہ قواعد و ضوابط کے تعاقب میں رہتے ہیں اور کما حقہ امت کی رہنمائی کا فريضہ سرانجام دیتے رہے ہیں اور دے رہے ہیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے۔
اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ قرآن حکیم کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کا ایک مشترکہ اور اصل نام ’’المسلم‘‘رکھا ہے۔مگر اسی رب نے امتیازی نام بھی دیا ہے اور اس نام کے ساتھ مدح بھی کی ہے ۔مثلاً
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ
التوبة – 100
اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں۔
نیز فرمایا:
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ
الحشر – 8
(فیء کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے ہیں۔
احادیثِ مبارکہ میں بھی اس طرح کے نام وارد ہوئے ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کے رکھے ہوئے امتیازی نام دس ہیں انہیں بوقتِ ضرورت اختیار کیا جاسکتا ہے مگر فقط جواز اور وہ بھی بطور پہچان و شناخت کےوگرنہ بصورتِ تعصب و افتخار ان ناموں کا استعمال بھی غلط قرار پاتا ہے اگرچہ یہ اللہ تعالیٰ کے رکھے ہوئے نام ہیں۔
صحیح بخاری میں ہے کہ جب ایک مہاجر نے ایک انصار کو لات ماردی تو اس نے کہا یا للانصار اور مہاجر نے کہا یا للمھاجرین۔ اس موقع پر یہ خوبصورت نام بوجہ تعصب پکارےگئے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ما بال دعوة الجاھلية
دورِ جاہلیت کی پکار کیا ہوگیا ہے تم لوگوں کو؟
دعوھا فانھا فتنة
چھوڑ دو اس نعرے کو یہ بدبو دار ہے۔
اللہ اکبر ، غور کیجئے ! اتنے مبارک نام اتنی مبارک اصطلاح بھی قابل ِ ترک۔
موقع محل کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ نتیجہ اتنا خطرناک بھی ہوسکتاہے۔ ایک اور حدیث میں آتاہے کہ یہ اپنے آباء و اجداد کا فخر ترک کردو (میں فلاں اور میں فلاں)وگرنہ تم عند اللہ نجاست آلود کیڑے سے بھی بدتر ہوجاؤ گے۔بالکل اسی طرح ایک تابعی کے سامنے عثمانی ،علوی وغیرہ کی اصطلاحِ جدید آئی اور وہ بھی مذہبی پہچان بن کر تو انہوں نے کہا :
أنا محمدي المذھب
بھائی میں تو محمدی مذہب پر ہوں۔
حدیثِ مبارکہ و آثار سلف میں ایسی پکار و جدید اصطلاح کی مذمت کے باوجود دورِ حاضر میں حسینی اور یزیدی کی تعصب بھری اصطلاح سامنے آرہی ہے اور جماعت حقہ بلکہ مجموعی طور پر پوری امت ِ مسلمہ اسی بنیاد پر تقسیم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
حکم تو یہ ہے :
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا
آل عمران – 103
اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو۔
اور ہٹ دھرمی یہ ہے کہ لوگ اپنی اس خود ساختہ اصطلاح کے لئے حدیث ِ رسول میں تحریف ِ معنوی کے مرتکب ہورہے ہیں۔حالانکہ انا من الحسین کا ترجمہ و معنی 1400سال کے طویل عرصے میں کسی نے یہ نہیں کیا کہ میں حسینی ہوں ، اور یہ ممکن بھی نہیں کیونکہ ایسے ہی کچھ الفاظ کسی اور جگہ دوسروں کے لئے بھی استعمال ہوئے ہیں۔
مثلاً :
العباس مني وأنا من العباس
بنو اسد وبنو اشعد کو کہا :
هم مني وأنا منھم
علی رضی اللہ عنہ کو کہا :
أ نت مني و أنا منك
امراء عدل کی تائید و نصرت کرنے والوں کو کہا:
ھم مني وأنا منھم
اب بتایئے کہ جدید مفاہیم و جدید تراجم میں اس کا معنی ٰ کیا کیا جائےگا؟ کیااسی بنیاد پر امت کو مزید تقسیم کردیا جائے؟؟
نعوذ باللہ من شرور أنفسنا
لہٰذا ضروری ہے کہ ہر عام و خاص آگاہ رہے کہ یہ جدید اصطلاحات ہرگز ہرگز قابلِ قبول نہیں اور یہ جدید عمل محدثات کی قبیل سے ہے اور سبیل المؤمنین سے انحراف کی راہ ہے کہ جس پر رب تعالیٰ نے :
وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
النساء – 115
اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔
کی وعید سنائی ہے۔
أعاذنا اللہ منھا