میرا خیال ہے کہ ثقافت کو اگر ہم طرز معاشرت کے الفاظ سے تعبیر کریں تو بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی اور طرز معاشرت کا تعلق انسا ن کے اندر سے بھی ہے اور باہر سے بھی یعنی ظاہر و باطن سےاس بات سے ہی یہ مترشح ہوتا ہے کہ عمل اور عقیدہ طرزمعاشرت کا اہم اور بنیادی عنصر ہیں۔ عقیدے کی صحت اور خرابی عمل کی صحت اور خرابی کا باعث ہوتی ہے۔ عربوں کے طرز معاشرت کا جو حال مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی مسدس میں منظوم کیا ہے۔ وہ عربی ثقافت کو سمجھنے میں ہماری مدد کرے گا۔
وہ ایک جگہ لکھتے ہیں
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا
اور عبادت کا معاملہ آتا تھا تو ہر قبیلے کا علیحدہ علیحدہ ایک بت تھا اور ان کے طرز فکر میں جمود تھا آسمانوں پر کمندیں ڈالنا ان کی سوچ میں نہ تھا اس لئے کہ ان کی سوچ ترقی پسند نہ تھی جبکہ اس دور میں قیصر و کسری روم اور ایران کی بڑی منظم حکومتیں موجود تھیں ۔ وہ ترقی پسند سوچ اس لئے بھی نہیں رکھتے تھے کہ ان کے اباؤاجداد نےبھی کبھی ایسا سوچانہ تھا کہ جس مورتی کو ہم بنا رہے ہیں اور پھر اس کے آگےمنتیں مانگتے ہیں یہ تو خود اپنے وجود کے محتاج ہیں یہ اتنی کمزور ہیں کہ اس کو اگر کوئی توڑناچاہےتو اپنے آپ کو بچانے پر قادر نہیں ہیں لھٰذا ہم یہ کیا کر رہے ہیں ؟ ہمیں یہ نہیں کرنا چاہیے۔
بدکاری کی باتیں اپنی مجلسوں میں فخر سے کرتے وہ اس حد تک وحشی تھے کہ کھڑے جانور کا گوشت کاٹ لیتے اور پکا کر کھا جاتے اور تڑپتے جانور کو چھوڑ دیتے ، لوٹ مار ان کا پیشہ بنا ہوا تھا ۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا ان کے ہاں کوئی بری بات نہ تھی۔
یعنی عرب قوم برائیوں کی ساری حدود پھلا نگ چکی تھی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی قوم کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بنایا سنوارا ان کو مہذّب بنایا ان کے مجمعوں میں گئے ان کو اللہ تعالیٰ کا تعارف کرایا ان کے دل کی دنیا جگانے کی انتھک کوشش کی مگر وہ حق قبول کرنے میں ایسے تھے جیسے پتھر ہوں آپ کی بات کو سننے کے بجائے آپ سے لڑتے جھگڑتے گڑے کھودتے آپ کو دیوانہ کہتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کچھ برداشت کیا آپ ان کی زندگی بدلنے کے لئے مگن رہے ان کے عقائد بدلنے کی کوشش کرتے رہے ان کو مل جل کر رہنے کی تلقین کرتے رہے، انہیں جانوروں پر رحم کرنے کا درس دیتے رہے بیٹیوں سے محبت کرنے کی تلقین کرتے رہے ،یہ کرتے کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو 13 سال کا عرصہ بیت گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجڈ گنوار قوم کومہذّب بنانے میں اپنی ساری صلاحیتیں ، تمام تر کوششیں بروئے کار لائیںاوراپنا آرام سکون بھی داؤ پر لگا دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھروں سے ہیرے تراشے لعل ویاقوت بنائےمیں اسی بنیاد پر کہتا ہوں کہ کائنات کا سب سے ترقی یافتہ نفع مند روشن خیال اور قیمتی ترین علم ،علم نبوت ہے علم الوحی ہےجس نے اس کی حفاظت نہ کی وہ قوم قبائل اور ملکوں کے ملک موت کے راستے پر چل پڑے اور اگر اس آسمانی علم کو خود جلایا اس کی توہین اور تذلیل کی یا اس میں ردّ بدل کرنے کی کوشش
کی تو ایسے لوگ تخریب کار وحشی اور دہشتگرد ہیں ، انسانیت کے دشمن ہیں ۔
قارئین کرام !
اس با ت سے اندازہ کر لیں کہ جو عقیدہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا وہ دیگر اقوام کے مروجہ سب عقیدوں سے اعلیٰ ترین تھا۔
یعنی سب انسان صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں مگر اس وقت صورتحال یہ تھی کہ خود انسان انسان کا خدا بنا ہوا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ توحید کی دعوت کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوںکوانسانی آزادی کا تحفہ دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامانہ زندگی کی حکیمانہ انداز سے نفی کی، غلاموں کو بہت سارے حقوق دیدئے ان کو آزاد کرنے میں جنت کی بشارت سنائی۔
مگر افسوس کہ آج کتنے جاگیردار وڈیرے سردار اور خانزادے ہیں جنہوں نے لوگوں کو غلام بنا کر رکھا ہوا ہے اور آئے دن اخبارات اور ٹی وی چینلز ان کی رپورٹیں نشر ہوتی رہتی ہیں ۔
اے قارئین کرام!
لوگ بتوں کی عبادت کرتے تھے ایسے حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بتوں اور مورتیوں کی عبادت کی نفی کی یہ ایک ایسا اقدام تھا جس سے وہ مشتعل ہو جاتے تھے اور سیخ پا ہوجاتے آپے سے باہر ہوجاتے یہ کام جان جوکھوں میں ڈالنے والا تھا مگر حق اور سچ کا بول بالا کرنے والا تھا ۔
آخر ایک وہ وقت بھی آگیا ۔جب آپ نے اپنے چچا ابو طالب سے کہہ ہی دیا چچا جان اگر میری قوم میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی رکھ دے تو میں پھر بھی دعوت توحید سے باز نہیں آؤں گا۔
آپ کے اس بیان نے آپ کے چچا کو مضبوط ترین کردیا اور چچا اتنا مضبوط ہوگیا کہ زبان سے کہہ دیا میرے بھتیجے اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو مشن دیا ہے وہ پورا کرو تمھارے دشمن میرے لاش سے گزر کر ہی تم تک پہنچ سکیں گے۔گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان انسان نما پتھروں کے سامنے پتھروں سے زیادہ طاقتور پیغام دیا جس نے ان کے عقیدے اور فکر میں تبدیلی کی ایک شمع جلا دی اور تبدیلی کے ماحول کا آغاز ہوگیا۔
اے قارئین کرام!
اس کے بعد آپ سیرت صحابہ رضی اللہ عنھم کا مطالعہ کریں آج انٹرنیٹ کا دور ہے ایک دنیا ہے جو بدل چکی ہے۔بڑی معذرت کے ساتھ۔۔۔۔۔
ہم نے بھی اپنے آپ کو بدل لیا ہے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھنا چھوڑ دیا،سننا چھوڑ دیا ہے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر کتابیں خریدناتو دور کی بات اگر گھر میں رکھی ہوں تو کباڑیے کو ردی میں دیتے ہیں الا ما شاءاللہ سیرت صحابہ رضی اللہ عنہ پڑھیں آپ کو پتہ چلے گا اسلامی ثقافت کیا ہے دنیا میں بڑی ثقافتیں ہیں۔
آفاق احمد صدیقی نے ’’سیرت البشر ۔ تہذیب انسانی کا سفر‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی ہے اس کتاب میں بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی تہذیبوں کا ذکر ہے۔ آپ اس کا مطالعہ کریں۔
میں اس ضمن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس طرح آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام پر نبوت کا باب اللہ تبارک وتعالیٰ نے بند کر دیا ۔ بعینہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو اعلیٰ ترین تہذیب و طرزمعاشرت دے کر تہذیب انسانی کا دروازہ بند کردیا ہے۔
فماذا بعد الحق الا الضلال
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثقافت اور طرز معاشرت جیسی کوئی معاشرہ طرز معاشرت اور تہذیب پیش نہیں کرسکتا۔ اس ضمن میں
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيرًا﴾
[ الاحزاب : 21 ]
ترجمہ:یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔‘‘ اور
﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾
[ الشرح : 04 ]
ترجمہ:’’ہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا۔‘‘ کا فرمان لاجواب ہے ۔ ثقافت کے مسئلے پر اور خصوصاً اسلامی ثقافت کے مسئلے پر میں یا دہانی کراناچاہتا ہوں کہ اسلامی ثقافت نہ عربی ہے نہ عجمی ہے اسی طرح ہی نہ مشرقی ہے نہ مغربی ، شاید یہی بات علامہ اقبال نے کہی
اپنی ملت کو اقوام مغرب پر قیاس نہ کر
خاص ہےترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اور پھر
اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناحوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
غیر مسلموں نے اسلامی طرز معاشرت پر تابڑ توڑحملے کئے اس کا مذاق اڑایا کبھی پردے کا، کبھی داڑھی کا ،کبھی جہاد کا ،کبھی کسی چیز کا کبھی کسی عمل کا اور اس پر اپنی بہادری کا اور اپنے مہذّب ہونے کا تمغہ بھی لینے کی سعی کی میڈیا کو استعمال کیا کتابیں بھی جھوٹ سچ جمع کر کے لکھیں ۔مسلمانوں کو قدامت پسند کہا گیا دہشت گرد کہا گیا میری ان باتوں سے غیروں کو تو تکلیف ہوگی۔ مگراپنوں کا حال یہ ہے کہ یہ شریعت کی بات کرنے والوں کو تجدد پسند کبھی کچھ اور کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی برقعے کا مذاق اُڑاتے ہیں
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ایسے ہی اسلامی طرز معاشرت سے دور مسلمانوں کی تصویر کشی کرتے ہوئےکہا تھا
وضع میں تم ہو نصارٰی تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں کہ جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
یعنی نصارٰی کی طرح توحید کو چھوڑ کر تثلیث جیسا عقیدہ اختیار کر لیا اور شادی بیاہ کی رسومات میں ہندوانہ رسموں کے بغیرمسلم گھرانوں کی شادیاں ہی نہیں ہوتیں شعبان کے مہینے میں پٹاخوں کی جو صورتحال ہوتی ہے بڑی خوفناک ہوتی ہے اسی طرح شادیوں میں آتش بازی ، فائرنگ اور پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں جو ہندوانہ رسومات کے مشابہہ ہیں۔
یہ اُن لوگوں کی رسومات ہیں جنہوں نے 1965 کو پاکستان پر جارحانہ جنگ مسلّط کی پھر 1971 میں پاکستان کو دولخت کیا اور 1947 میں مسلمانوں کو مسلمان ہونے کی سخت ترین سزائیں دیں ان کو ہجرت پر مجبور کیا ان کے گھروں پر قبضہ کیا گیا اور آج ہماری عدالتیں اُس برطانوی سامراج کے بول بول رہی ہیں جو مکّار اور عیّار تھا جس نے ہندوستان پر مسلمانوں کے نہ صرف اقتدار کو چھینا بلکہ مسلم حکمرانوں کی آزادی کو بھی سلب کیا ،مسلمانوں کی شناخت کو بھی چھیننے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا یا اور اسلامی ثقافت کو بھی اپنی طاقت کے زور پر ملیامیٹ کیا عربی زبان کو ختم کیا فارسی کو ختم کیا جن مسلمانوں نے جذبہ حریت کے تحت انگریزوں کے اس اقدام کو روکنے کی کوشش کی انھیں چوکوں اور چوراہیوں پر سر عام پھانسیوں پر لٹکا کر دہشت گردی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے باوجود بھی وہ اپنے آپ کو متمدّن اور مہذب گردانتے ہیں اور اپنے دفاع میں لڑنے والے کو اپنے ملک اورآزادی کی خاطر لڑنے والوں کو دہشت گرد اور باغی کہتے ہیں۔
یہ عجیب انگریزی ڈکشنری ہے جس میں لفظ کا معنیٰ کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے (یعنی جس میں قاتل منصف بھی ہوتا ہے اور دہشت گرد مہذب ہوتا ہے) جبکہ مسلمانوں نے تو حالتِ جنگ میں بھی غلبہ پانے کے باوجو د مغلوب قوموں کے ساتھ عدل و احسان اور رواداری کے اعلیٰ نقوش چھوڑےہیں۔
الحرب العادلۃ کے زیر عنوان محمودشیت خطاب نے اپنی کتاب[ بین العقیدۃ والقیادۃ ] الطبعۃ الثالثہ 1983 م میں ص 106 پر لکھا ہے
وحرّم الاسلام قتل الشیخ الکبیر والعاجز والمرأۃو الصبی ورجل الدّین المنقطع للعبادۃ والفلاح الذی لم یشترک فی القتال
پھر اس نے ہمارے ناپ تول کے پیمانے بدلے اس نے ہماری کرنسی بدلی اس نے ہمارے مِیل کو اپنے کلومیٹر سے تبدیل کیا ، اس نے ہمارالباس بدلا زبان بدلی اور ہمارے بچّے ڈیڈی ،پپّا ، ممّا اور کزن بولنے لگے۔
ہائے افسوس!
ہماری ثقافت میں کئی رنگ درآئے ہیں ویسے ہی جیسے اردو زبان میں، ترکی ، ہندی ، پنجابی، فارسی اور انگریزی زبان کے الفاظ جمع ہو گئے ہیں اسی طرح مسلمانوں کی تہذیب میں بھی کئی تہذیبیں آکر شامل ہوگئیں ۔ شاید ان بدلتے ہوئے حالات کو دیکھ کر علامہ اقبال نے یہ پیغام دیا تھا۔
بتان ِ رنگ و بُو کو توڑ کر ملّت میں گم ہو جا
نہ تو رانی رہے باقی یہ ایرانی نہ افغانی
مگر افسوس کہ آج ہمارے پاکستانی معاشرے میں مہاجر، پنجابی ، پختون ، بلوچی ، سندھی ، سرائیکی کے نعرے بھی لگے اسکی بنیاد پر لسانی جھگڑے ہوئے نفرتیں پیدا ہوئیں اور خونریزی ہوئی۔
جبکہ صورتحال یہ ہے کہ یہ سبھی ایک معبود کے ماننے والے ایک ہی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے والے ایک ہی پیغمبر کے پیروکار اور ایک ہی قرآن کی تلاوت کرنے والے ہیں ۔
مگر کیونکہ انھوں نے لسانی عصبیت ، صوبائی و علاقائی عصبیت کو دل و جان سے تسلیم کیا تو خونریزی کے اژدھے نے انھیں دبوج لیا۔ یہ وہی کام تھا جس کی نفی اور ممانعت محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمائی تھی اسی عصبیت نے جب عالمی صورتحال اختیار کی اور عربی اور عجمی حکمرانی کے مسئلے نے سر اٹھایا تو عالم اسلام کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا۔ جن کا غیر مسلم دنیا نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پھر بھی نہیں سمجھو گے تم مٹ جاؤ گے۔۔۔۔۔
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
یہ بات بھی یاد رہے کہ
اسلامی ثقافت کا دائرہ کار مسلمان کی پیدائش سے موت تک پھیلا ہوا ہے اس میں اسکی خوشی ، غمی کے طور طریقے،معاشی معاملات ،شادی بیاہ کے مسائل اورعدالتی قضیے بھی ہیں سیاسی حالات بھی ہیں سب کچھ ہے۔
مسلمانوں نے اپنے سیاسی نظام کو خلافت و شورائیت سے بدل کر جمہوریت و آمریت سے بدل لیااسلامی عدالت کے بدلے غیر مسلم عدالت کا سہارا لے لیا معیشت میں سُود جیسے دیگر خطرناک معاملات وقوانین و نظام کو اختیار کر لیا شادی بیاہ کے مسئلے میں غیر مسلم قوموں کے نقشِ قدم پر چل پڑے جس کا نتیجہ ہم اخلاقی تباہی ، معاشی بربادی ، مایوسی ، ظلم وستم کے طوفان اور منشیات کی طرف نسلِ نوع کےمیلان اور رجحان کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
یہ سب کچھ ہونے کی کچھ وجوہات ہیں ، مثلاً
(1) اسلامی تہذیب سے غفلت و لاپرواہی و بے توجہی
(2) اسلامی تعلیمات سے لا علمی
(3) مغربی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب سے متعلق احساسِ محرومی کا تصّور
میں اس ضمن میں چند گزارِشات کرنا چاہتا ہوں
(1) اسلامی تہذیب و ثقافت کی جان عربی زبان ہے ۔ اس لئےکہ اللہ تعالیٰ کا قرآن اور محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا فرمان عربی زبان میں ہے۔ لھٰذا کائنات کے اندر عالم اسلام کی سب سے اہم ضرورت عربی زبان کا جانناہے۔ اور یہ زبان عالم اسلام کے اتحاد کی بھی ضامن ہے۔
مگر حیرت کی بات ہے کہ خود اہلِ عرب انگریزی زبان کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔
اس لئے ضرورت ہے ہمیں ایک عالمی ، تعلیمی ۔ معاشی نظام کی جو تمام عالم اسلام میں مشترک ہو۔اور اسی طرح ہی ایک عالمی نظام حکومت ہونا چاہیے اوروہ نظام خلافت شورائیت کے تحت وجود میں لایا جائے۔
مگر افسوس کہ ہم تو جمہوری عمل کو ہی کافی سمجھ بیٹھےیہ دھوکہ ہےاس فرسودہ نظام حکومت سے کبھی اسلام غالب نہیں ہوسکتا عالمی سطح پر تو درکنار کسی ایک ملک میں بھی اس قسم کے طرز حکومت سے مسلمانوں کی تقدیر نہیں بدل سکتی یہ طرز حکومت غلبہ اسلام کے معاملے میں مسلمانوں کے مقدّر میں روڑا ہے۔ کیونکہ اسلامی ثقافت کے اندر ایک وقت میں ایک ملک کا ایک ہی حکمران ہوسکتا ہےاور وہ تا حیات ہوتا ہے جب تک کہ وہ کفر کا مرتکب نہ ہو جائےیا وفات نہ پاجائے یا ذمہ داری ادا کرنے کے قابل نہ رہے ۔ جب کہ جمہوری طرز حکومت میں تو سینکڑوں پارٹیاں حکمرانی کی امیدوار ہونے کے ناطے رجسٹرڈ ہوسکتی ہیں ایسے میں تو خود ملک کے ہی چیتھڑے اڑ سکتے ہیں اور ملک میں طوائف الملو کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ جس سے خود ملک بھی صفحہ ہستی سے مٹ سکتا ہے ۔
پاکستان کے اندر کلچر ڈیپارٹمنٹ کس قسم کے کلچر کو فروغ دے رہا ہے ہر پاکستانی اس کا غور سے مطالعہ کر سکتا ہے۔
میڈیا جس ثقافت کا پر چار کار رہا ہے اس کو روکنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ TV کو ہی گھر سے باہر نکال دیں نہیں توبیوی گھر سے باہر ہوگی۔ شاید آپ کو یہ بات مذاق معلوم ہو ۔ مگر جب آپ غیر مسلموں کے ہاں طلاق کی شرح کا موازنہ اپنے ملک سے کریں گے تو آپ کا اندازہ ہوگا کہ عائلی قوانین کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں سب سے بڑا کردار TVکا ہے جس سے خاندانی نظام اس حد تک غیر مستحکم اور متزلزل ہوا ہے کہ طلاق کا سلسلہ روز افزوں ہے۔
ہماری قوم کے اخلاق کا برباد کرنے میں سینما بینی، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا اور منشات کے گھناؤنے کاروبارنے انتہا پسندانہ کردار ادا کیا ہے۔
اگر آج ہم TV دیکھنا چھوڑ دیں اور مسلم عورتیں پردہ کرنا شروع کردیں ہمارے نوجوان ڈاڑھی رکھنا شروع کردیں اور اسلامی لباس پہننا شروع کردیں تو غیر مسلم دنیا تو کہے گی ہی کہ مسلمان قدامت پسند ہوگئے بنیاد پرست ہوگئے ۔ جبکہ بہت سارے مسلمان کہلانے والے بھی ایسے مسلمانوں کو برا اور دقیانوس سمجھنا اور کہنا شروع کر دیں گے۔
گویا کہ
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ایسے حالات میں ان مسلمانوں کا کیا علاج کیا جائے جو غیر مسلم تہذیب پر نازاں اوراسلامی تہذیب سے نالاں ہیں ؟
اور آخر میں ان عرب فاتحین کو اور عجمی محدثین عظام کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جن کی اسلامی ثقافت کی اشاعت اور تحفظ میں وقیع خدمات ہیں۔
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین