اسلام اور آدابِ معاشرت

دین محض نماز روزے کا نام نہیں۔ یہ سمجھنا غلطی ہے کہ جو زیادہ تسبیح پھیرتا ہے اور لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے، وہ زیادہ دیندار ہے۔ بعض لوگ اللہ کے حقوق کے علاوہ حقوق العباد کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتے ہیں، لیکن ایسے لوگ بہت کم نظر آتے ہیں، جنہیں یہ فہم حاصل ہو کہ آدابِ معاشرت (Manners) کو دین میں ایک مقام حاصل ہے۔ آدھا دین تو تہذیب و شائستگی سے عبارت ہے۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  فرمایا:

علمنی ربی فاحسن تعلیمی و ادبنی ربی فاحسن تادیبی

القوائد العلیلة فی مسلسلات ابن عقیلة، ؟؟؟؟

ترجمہ: ’’میرے رب نے علم عطا کیا اور بہت اچھا علم عطا کیا، میرے رب نے مجھے تہذیب سکھائی اور بہت اچھی تہذیب سکھائی۔‘‘

اس حدیث میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے علم کے علاوہ تہذیب و شائستگی کا ذکر جدا کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تہذیب و شائستگی کو اسلام میں ایک مستقل مقام حاصل ہے۔

عزیزو! یہ بات یاد رکھیے کہ محض کتابیں رَٹنے سے آپ کرمِ کتابی تو بن سکتے ہیں لیکن آپ کی

شخصیت ادھوری اور آپ کا دین بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔ بقولِ مولانا آزاد رحمہ اللہ ’’ادھوری سچائیاں ہمیشہ خطرناک ہوتی ہیں۔‘‘  سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے  ایک مقدمہ پیش ہوا، جس میں مدعی کے پاس دو گواہ تھے، ایک گواہ کے بارے میں تو انہیں علم تھا کہ وہ قابلِ اعتماد ہے، لیکن دوسرے گواہ کی ثقاہت کا انہیں معلوم نہیں تھا۔ آپ نے حاضرین سے پوچھا: تم میں سے کوئی شخص گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص قابلِ اعتماد ہے؟ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ ثقہ آدمی ہے۔سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’تجھے کیسے معلوم ہوا کہ یہ قابلِ اعتماد ہے‘‘ پھر آپ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

ھل جاورته ام صحبت معه فی السفر الذی یسفر عن الحقیقة ام عقدت معه عقداً

’’کیا تو اس کے پڑوس میں رہا ہے؟ یا اس کے ساتھ سفر کیا ہے؟ جو انسان کی قلعی کھول دیتا ہے یا اس کے ساتھ کوئی کاروباری معاملہ کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا’’ ان میں سے تو کوئی بات نہیں‘‘

سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:

لعلک رایته خارجاً من المسجد بعد الصلوٰة فانت لاتعرفه

’’شاید تم نے اسے نماز کے بعد مسجد سے باہر آتے دیکھا ہے۔ تم تو اسے نہیں جانتے ہو‘‘۔

کتاب اللہ اور احادیث رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم میں آدابِ معاشرت کی تمام تفصیلات شرح و بسط سے موجود ہیں۔ آئیے ہم  اس کا ایک مختصر جائزہ لیں۔


مسکرانا نیکی ہے

ارشادِنبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:

تبسمک فی وجه اخیک صدقة

ترمذی:کتاب البر والصلة، باب ماجاء فی صنائع المعروف

’’اپنے بھائی سے ملتے ہوئے مسکرانا بھی نیکی ہے۔‘‘

اسلام دینِ فطرت ہے۔ وہ اسے ایک غیر فطری اور غیر طبعی بات قرار دیتا ہے کہ اس زندہ اور حسین کائنات میں جہاں چہچہاتے ہوئے پرندے، لہلہاتے ہوئے پودے، سرسبز و شاداب وادیاں اور اُبلتے ہوئے چشمے ہیں، ہم ایک روکھا، پھیکا اور بجھا ہوا چہرہ لےکر پھریں۔ عبد اللہ بن حارث  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ

كِتَابُ الْمَنَاقِبِ،بَاب فِي بَشَاشَةِ النَّبِيِّ ﷺ،حدیث:3641

’’میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے زیادہ مسکراتا ہوا چہرہ نہیں دیکھا۔‘‘


شکریہ ادا کرنا

یہ جو ہم لوگ بات بات پر شکریہ ادا کرنے کے عادی ہیں، تو یہ خالص اسلامی بات ہے۔

نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ اللّٰهَ

كِتَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ،بَاب مَا جَاءَ فِي الشُّكْرِ لِمَنْ أَحْسَنَ إِلَيْكَ،حدیث: 1954

یعنی جو انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا۔

اسلام نے آدابِ معاشرت کے جو خطوط متعین کیے ہیں، ان کا مقصد دوسروں کو راحت پہنچانا ہے۔ اور معاشرے میں خوشگواری پیدا کرنا

ہے۔ اسی غرض سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

اَفْشُوا السَّلامُ

مسلم: کتاب الایمان، باب بیان انہ لا یدخل الجنۃ، ترمذی: کتاب الأطعمۃ، باب ماجاء فی فضل اطعام …

   سلام پھیلاؤ

ایک دوسرے کو سلام کرنے میں بخل نہ کرو۔ قرآن مجید میں ہے

﴿وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا﴾

[ النساء : 86 ]

’’جب تمہیں سلام کیا جائے، تو تم اس سے زیادہ گرم جوشی تپاک سے جواب دو یا کم از کم اتنا  تو ضرور لوٹادو‘‘۔(النساء86)

میں نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بعض اساتذہ کو دیکھا ہے کہ اگر کوئی طالب علم انہیں سلام کرے تو فیلٹ کے ساتھ گردن کو ذرا سا جھٹکا دیتے ہیں اور ہونٹوں کو جنبش دینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ان کا یہ عمل غیر اسلامی ہے اور ہرگز لائقِ تحسین نہیں۔ یہ سب (Complexes) کی باتیں ہیں۔ میں نے ایک بار امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ کی کتاب مفردات میں سلام کا معنیٰ دیکھا اس میں لکھا ہے:

السلام التعری من الآفات الظاھرۃ والباطنة

یعنی’’ ظاہری اور باطنی آفتوں سے محفوظ رہنا۔‘‘

پس جب ہم کسی کو السلام علیکم کہتے ہیں، تو اسکا معنیٰ ہوتا ہےکہ جسمانی، ذہنی او روحانی طور پر عافیت میں رہو۔ میں جذبات سے ہٹ کر خالص لغوی اور معنوی اعتبار سے کہتا ہوں کہ دنیا کی کسی قوم کے آداب بجالانے کا طریقہ مسلمانوں کے سلام کا لگّا نہیں کھاتا۔ جوالسلام علیکم کے مفہوم میں وسعت اور جامعیت ہے وہ (Good Morning) یا (Good Evening) میں کہاں؟


مصافحہ

اسلام نے محبت کے اظہار کے لئے سلام کے علاوہ مصافحہ رکھا۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

ما من مسلمین یلتقیان فیتصافحان الا غفر لھما قبل ان یتفرقا

ابوداود:کتاب الأدب، باب فی المصافحۃ، ترمذی: کتاب الاستئذان باب ماجاء فی المصافحة

’’اگر دو مسلمان آپس میں ملتے ہوئے اخوتِ دینی کی بنا پر مصافحہ کریں تو وہ جدا ہونے سے پہلے بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘

معانقہ

جب کوئی شخص مدّت کے بعد ملے یا لمبے سفر سے لوٹے، تو اس کے ساتھ اظہارِ محبت کے لئے معانقہ یعنی آپس میں گلے ملنا ہے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف فرماتھے، انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کرتا اتارا ہوا تھا، آپ اسی حالت میں اُٹھ کھڑے ہوئے اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو گلے لگالیا اور انہیں چوما۔ اسی طرح سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حبشہ سے واپس آئے اور آپ سے ملے تو حدیث میں آتا ہےـ:

فالتزمه و قبّل بین عینیه

ابو داود:کتاب الأدب، باب فی قبلة ما بین العینین،

’’نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم ان سے چمٹ گئے اور آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا‘‘
(شیخ البانی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے)


اسلام میں پرائیویسی کا تصور:

اسلام ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ ہم کسی کے کمرے میں اس کی اجازت کے بغیر داخل ہوں۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ﴾

[ النور : 27 ]

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو ۔ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔‘‘

انسان کبھی ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ وہ پسند نہیں کرتا کہ دوسروں کی نگاہ اس پر پڑے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے صرف اجازت لینے ہی کی تلقین نہیں کی بلکہ اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی کے ہاں جاؤ، تو دروازے کے سامنے کھڑے نہ ہوا کرو۔ دروازے سے ہٹ کر دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہونا چاہیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے دروازے پر کھڑے ہونے کے آداب بھی صحت متعین فرمائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے مستقل باب باندھا: 

بابٌ کیف یقوم عند الباب

 یعنی انسان دروازے پر کس طرح کھڑا ہو؟

ایک شخص نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حجرہ مبارک میں سے اندر جھانکا، نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک کنگھے سے اپنا سر مبارک کھجارہے تھے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے فرمایا: اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہو تو یہ کنگھا تمہاری آنکھ میں چبھودیتا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

انما جعل الإستئذان من اجل البصر

بخاری:کتاب الاستئذان باب الاستئذان من اجل البصر

’’اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لئے دیا ہے کہ اندر نگاہ نہ پڑے‘‘

یعنی جب تم اندر دیکھ رہے ہو تو اس سے میری پرائیویسی میں تم نے خلل ڈال دیا ہے، اب اجازت مانگنے کا کیا حاصل؟ پرائیویسی کا جو مفہوم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کیا تھا، اس دور کی متمدّن قومیں اس میں رَتی بھر اضافہ نہیں کرسکیں۔ ابوداؤد میں ہے:

كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَى بَابَ قَوْمٍ، لَمْ يَسْتَقْبِلِ الْبَابَ مِنْ تِلْقَاءِ وَجْهِهِ، وَلَكِنْ مِنْ رُكْنِهِ الْأَيْمَنِ أَوِ الْأَيْسَرِ

ابوداؤد: کتاب الأدب،باب کم مرۃ سلم الرجل فی الاستئذان

’’جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کسی کے دروازےپر آتے تو دروازے کے سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ دروازے کی دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے تھے۔ ‘‘

قرآن مجید میں ہے:

﴿إِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ۖ هُوَ أَزْكَىٰ لَكُمْ﴾

[ النور : 28 ]

ترجمہ:’’ اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ آؤ۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ‘‘

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی جنجال میں پھنسا ہوتا ہے یا بہت مضمحل ہوتا ہے یا اس پر کوئی ایسی افتاد پڑی ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کے سامنے آنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ جھوٹےبہانے کے بجائے معذرت کرنی چاہئے اور یہ حکم دیا کہ آنے والے کو بھی معذرت قبول کرنی چاہئے۔ اس آیت پر عمل کرنے والے لوگ عنقا ہوئے۔ آج کل کسی بڑے سے بڑے متشرع آدمی کو کہیے کہ دوسرے وقت ملنے آئیے، تو دیکھیے کیسے بھنّاتا ہے۔قرآن مجید نے ہمیں تلقین کی کہ تین اوقات ایسے ہیں کہ ان میں کسی کے ہاں جانا مناسب نہیں حتیٰ کہ بچوں اور غلاموں کو بھی، جو ہر وقت گھر میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ اجازت لینی چاہئے۔

﴿ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ﴾

[ النور : 58 ]

 ترجمہ:’’ لازم ہے کہ وہ (دن میں) تین وقتوں میں اجازت لے کر گھروں میں داخل ہوا کریں ۔ نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب تم کپڑے اتارتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد یہ تین اوقات تمہارے لئے پردہ کے وقت ہیں ۔‘‘


مکان کے باہر کھڑے ہوکر آوازیں دینا:

آپ کسی سے ملنے جائیے، تو اسے باہر کھڑے ہوکر زور زور سے آوازیں دینا اسلامی نقطہ نگاہ سے ناشائستگی ہے۔ قرآن کہتا ہے:

﴿إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ﴾

[ الحجرات : 04 ]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہم احادیث اور مستند تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ وہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا دروازہ ناخنوں سے آہستگی کے ساتھ کھٹکھٹاتے تھے۔ [1]


آدابِ مجلس

    آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے آدابِ مجلس کا بھی تعین اور توضیح فرمادی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جب کسی مجلس میں جاؤ تو لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے بیٹھنے کی کوشش  نہ کرو، محدثین نے مستقل باب باندھا:

باب: یجلس الرجل حیث انتھیٰ

’’ آدمی کو وہیں بیٹھ جانا چاہئے جس جگہ مجلس ختم ہوتی ہو۔‘‘

یہ جو آج کل آپ دیکھتے ہیں کہ محفل سے کوئی عارضی طور پر اٹھ جائے، توواپس آکر وہی اس جگہ بیٹھنے کا حقدار ہوتا ہے۔ یہ خیال نہ کیجئے کہ یہ بات آج کل کی تہذیب کی پیداوار ہے۔

یہ تو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے:

اذا قام الرجل من مجلسہ ثم رجع ھو احق بہ

ابوداوٗد:کتاب الأدب، باب اذا قام الرجل من مجلس ثم رجع

’’جب کوئی آدمی مجلس سے اٹھ جائے، پھر لوٹے تو وہی اُس کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘

اسلام نے مجلس میں بیٹھ کر سرگوشی کرنے کو بھی مذموم قرار دیا ہے۔ سورۂ مجادلہ میں ہے:

﴿إِنَّمَا النَّجْوَىٰ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيْسَ بِضَارِّهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَعَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾

[ المجادله : 10 ]

ترجمہ:’’بلاشبہ سرگوشی کرنا شیطان کا کام ہے تاکہ ان لوگوں کو غمزدہ بنادے جو ایمان لائے ہیں، حالانکہ اللہ کے اذن کے بغیر وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اور ایمان والوں کو تو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے۔‘‘

جب دو آدمی مجلس میں بیٹھ کر سرگوشی کرتے ہیں تو دوسروں کو خیال آتا ہے کہ شاید ہماری ہی نسبت کچھ کہہ رہے ہیں، کم از کم یہ گمان تو ہوتا ہی ہے کہ انہوں نے ہمیں اس قابل نہ سمجھا کہ ہمیں اس راز میں شریک کریں، چونکہ اہل مجلس کو اس سے خفت ہوتی ہے، اس لئے مجلس میں بیٹھ کر سرگوشیاں کرنے کو اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے۔

آج کل کی مہذب اور متمدن قوموں کے افراد گفتگو دھیمی آواز میں کرتے ہیں اور چیخ چیخ کر بات کرنے کو ناشائستگی سمجھتے ہیں۔ یہ خیال نہ کیجئے کہ دھیمی آواز میں بات چیت کرنا نئی تہذیب کی پیداوار ہے۔ قرآن مجید نے اندازِ گفتگو کا سلیقہ بھی ہمیں سکھایا ہے:

﴿وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ﴾

[ لقمان : 19 ]

اور اپنی آواز پست کرو ۔ بلاشبہ سب آوازوں سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔

مجلس نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  میں بیٹھنے کے آداب بھی قرآن مجید نے سکھائے۔

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ﴾

[ الحجرات : 02 ]

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی اس کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو ۔‘‘

اور یہ بھی فرمایا:

﴿إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللّٰهِ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَىٰ﴾

[ الحجرات : 03 ]

 ترجمہ: ’’جو لوگ اللہ کے رسول کے حضور اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے۔‘‘

یہ سمجھنا صریحاً خام کاری ہے کہ قرآن مجید نے مجلس نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  میں جن آداب کو ملحوظ رکھنے کی تلقین کی ہے، ان کا تعلق صرف مجلسِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہی سے تھا۔ کیا مجلسِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اُٹھ جانے کے بعد یہ آیتیں معطل ہوگئی ہیں اور ان کی کوئی افادیت باقی نہیں رہی۔۔۔؟

بزرگوں کی مجلس میں بیٹھنے کے آداب ہمیں مجلسِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہی سے سیکھنا ہیں اور بزرگوں کو اہلِ محفل سے برتاؤ کا ڈھنگ بھی بارگاہِ رسالت  صلی اللہ علیہ وسلم  ہی سے سیکھنا چاہیے۔ ہم شمائلِ ترمذی میں پڑھتے ہیں:

’’آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے ہم نشینوں میں سے ہر ایک کو اس کے حصے سے نوازتے ہیں یعنی ہر ایک کی طرف جدا جدا التفات فرماتے، یہاں تک کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ہر ایک ہمنشیں یہ سمجھتا کہ مجھ سے زیادہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو کوئی عزیز نہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کشادہ رُو اور نرم خو تھے۔ سخت مزاج اور درشت گو نہ تھے، چلّا کر نہیں بولتے تھے، نہ کسی کے عیب نکالتےتھے ، کسی کی تعریف میں مبالغہ نہیں کرتے تھے۔ کسی کی کوئی بات آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو ناگوار ہوتی، تو اس سے تغافل فرماتے یعنی اس پر گرفت نہ فرماتے اور صراحتاً اس سے مایوسی بھی نہ فرماتے بلکہ خاموش ہوجاتے۔‘‘


بے جا مداخلت نہ کیجئے

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد آدابِ معاشرت کا ایک زریں اصول ہے:

من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیه

ترمذی:کتاب الزھد2419، ابن ماجہ کتاب الفتن، باب کف اللسان فی الفتنة

آدمی کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ غیر متعلق بات میں دخل نہ دے۔

دوسروں کے معاملات میں بے جا دخل دینے کی بیماری عورتوں میں نسبتاً زیادہ ہے۔ دوسروں کے ذاتی اور گھریلو معاملات کرید کرید کر پوچھنے میں انہیں لذت آتی ہے۔ چھپی ہوئی باتوں کی ٹوہ لگاتی ہیں۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ چھوٹتے ہی پوچھتے ہیں کہ تمہاری آمدنی کتنی ہے؟ بعض لوگ فریقین کی خواہش اور اور آمادگی کے بغیر خود بخود ہی ثالث بن بیٹھتے ہیں۔ یہ سب باتیں بے جا دخل اندازی میں داخل ہیں اور اسلام انہیں مذموم قرار دیتا ہے۔

قرآن حکیم ہمیں حکم دیتا ہے کہ:

﴿وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾

[ البقرۃ : 83 ]

لوگوں سے بھلی اور خوشگوار بات کہو،

اور مومنوں کا یہ وصف بھی بیان کرتا ہے :

﴿وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ﴾

[ المومنون : 03 ]

اور جو بیہودہ باتوں سے دور رہتے ہیں۔


بات ٹھہر ٹھہر کر کیجئے !

میرے ایک عزیز کہنے لگے کہ جدید رجحان تو یہ ہے کہ بات کرتے وقت ہر لفظ بلکہ ہر حرف کا تلفظ صاف، واضح(Clearly) اور جدا جدا (Distinctly) کیا جائے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ رجحان کیوں کر ہوا؟ اس کی تلقین تو خود رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کی ہے اور خود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں ہم حدیث میں پڑھتے ہیں کہ:

کان کلام رسول اللّٰہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کلاما فصلا یفھمه کل من سمعه

ابوداؤد:کتاب الأدب، باب الھدی فی الکلام

’’رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  گفتگو کرتے تو ہر لفظ جدا جدا بولتے۔ تمام لوگ جو اسے سنتے وہ سمجھ جاتے۔‘‘

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پہلو میں بیٹھ کر سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بڑی تیزی کے ساتھ حدیث بیان کرنا شروع کی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں ٹوکا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم تو اس تیزی کے ساتھ گفتگو نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اس طرح ٹھہرٹھہر کر بات کرتے کہ اگو کوئی شخص آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے الفاظ کو گننا چاہتا تو گن سکتا تھا۔


کھانے پینے کے آداب

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’اگر آپ اکٹھے بیٹھ کر کھائیں، تو کسی شخص کو نہ چاہئے کہ وہ دو دو چھوہارے اکٹھے کھائے جب تک اپنے ساتھیوں سے اجازت نہ لے لے‘‘

مجھے جلسوں اور کانفرنسوں میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے، یہ دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے کہ چند علماء اس تہذیب اور شائستگی سے یکسر تہی دامن ہیں، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں سکھائی تھی، بڑے بڑے مولویوں کو دیکھا ہے کہ دسترخوان پر بیٹھے ہوں اور ملازم ڈونگے میں سالن لائے تو تمام سالن اپنی قاب میں نہایت چابکدستی سے اُلٹ دیتے ہیں، دن دہاڑے سب ساتھیوں کے سامنے، علی الرغم اور سمجھتے ہیں کہ دین سے آداب کا کوئی تعلق نہیں ہے اور دین محض تسبیح آرائی ہی کا نام ہے، وہ نہیں سمجھتے کہ ان آداب کو نظرانداز کرنا صریحاً بے دینی ہے۔

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

کل مما یلیک

بخاری:کتاب الأطعمۃ، باب الأکل مما یلیہ، صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ، باب آداب الطعام والشراب

یعنی، کھانےمیں سے وہ کھاؤ جو تمہارے قریب ہے۔

بعض لوگ دوسروں کے سامنے ہاتھ بڑھا کر جھپٹ لیتے ہیں۔ یہ نفس پر حرص و طمع کے غلبے کی دلیل ہے۔ بعض جاہل صوفیوں کو دیکھا کہ دسترخوان پر چند لقمے کھاکر پیچھے ہٹ بیٹھتے ہیں اور انہیں یہ زعم ہوتا ہے کہ یہ پارسائی کا تقاضا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ جب دسترخوان بچھا دیا جائے تو کسی آدمی کے لئے جائز نہیں کہ دسترخوان اٹھانے سے پہلے ہی اٹھ کھڑا ہو اور نہ کسی کو اپنا ہاتھ کھینچنا چاہئے اگرچہ وہ سیر ہوگیا ہو۔‘‘

اور اس کی علت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتائی کہ

فان الرجل بخجل جلیسه

ابن ماجہ:کتاب الأطعمۃ، باب النھی ان یقام عن الطعام حتیٰ یرفع وان یکف یدہ…

یعنی’’ اس بات سے اس کےہمنشین کو خجالت ہوگی۔‘‘

اسے خیال ہوگا کہ شاید میں بسیار خوری کا ارتکاب کر رہا ہوں، وہ بھی اپنا ہاتھ سکیڑ لےگا اور ہوسکتا ہے کہ اسے کھانے کی حاجت ابھی باقی ہو۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ لقمے جو سیر ہونے کے بعد ساتھیوںکے پاس خاطر سے کھاتے ہیں، ان میں سے ہر ہر لقمے پر بھی اجر و ثواب مرتب ہوتا ہے۔

بعض مہمان دھرنا مارکر بیٹھے رہتے ہیں اور اتنا لمبا قیام کرتے ہیں کہ صاحبِ خانہ ملول ہونے لگتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے غیر اسلامی حرکت قرار دیا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

الضیافة ثلاثة ایام

بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، مسلم ، کتاب الحدود، باب الضیافۃ و نحوھا

’’مہمان نوازی کا حق تین روز ہے۔‘‘

ولا یحل له ان یثوی عندہ حتیٰ یحرجه

بخاری: کتاب الأطعمة، باب اکرام الضیف و خدمته ایاہ …

’’اور کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے ہاں اتنا قیام کرے کہ وہ تنگ آجائے‘‘۔

آپ نے غور کیا کہ محفل میں بیٹھ کر سرگوشیاں کرنا اسلام نے اس لئے مذموم قرار دیا کہ اس سے مسلمان بھائیوں کو رنجش ہوتی ہے اور کھانےسے ہاتھ کھینچنے کو اس لئے ناجائز قرار دیا کہ اس سے ساتھیوں کو خجالت ہوتی ہے اور لمبے قیام کو اس لئے ممنوع قرار دیا کہ صاحبِ خانہ کا دل تنگ نہ آجائے۔ ان آیات اور احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوئی کہ اسلام نے آدابِ معاشرت کے خطوط اسی اصول کی روشنی میں متعین کیے ہیں کہ کسی شخص کی کوئی حرکت دوسرے شخص کے لئے اذیت، رنجش، خفت، گرانی، انقباض، تکدّر، خجالت، تشویر، توحُّش یا کسی اور ناگواری کا باعث نہ ہو۔

یہ متعدد ہم معنیٰ الفاظ تو ہیں مگر ان میں سے ہر لفظ جدا مفہوم ادا کرنے کیلئے تحریر کئے گئے ہیں،آپ نے دیکھا کہ تہذیب و شائستگی کی کیسی لطافتیں اور باریکیاں اسلام نے ہمیں سمجھائی ہیں۔

؎  ہزار نکتۂ باریک ترزِ مُو ایں جاست

یہی معنیٰ ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ گرامی کا:

المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ

بخاری:کتاب الایمان، باب المسلم من سلم المسلمون۔ مسلم: کتاب الایمان، باب بیان تفاضل الاسلام

’’صحیح معنوں میں مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں۔‘‘

اگر آپ ان ناگواریوں سے کسی ناگواری کا باعث ہوتے ہیں تو مسلمان آپ سے محفوظ و سلامت نہیں ہیں۔ سنن نسائی میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ شبِ برأت کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم بستر سے اٹھے، تو اس خیال سے کہ میری نیند میں خلل نہ پڑے، آہستہ سے اٹھے، نعل مبارک آہستہ پہنا کہ اس کی آواز نہ ہو، کواڑ آہستہ سے کھولا، باہر آہستہ سے تشریف لے گئے اور کواڑ آہستہ سے بند کیا۔ [2]

سونےوالے کی کس قدر رعایت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں سکھائی کہ کوئی ایسی حرکت نہ کی جائے، جس سے سونے والا دفعتاً جاگ اٹھے اور پریشان ہو، دیکھئے یہ تہذیب و ثقافت کی کیسی تابناک روایات ہیں جو ہمارے حصے میں آئی ہیں۔

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً سیدنا انس سے مرفوعاً اور جناب سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مرسلاً مروی ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: عیادت کے لئے جائیے تو بیمار کے پاس زیادہ دیر نہ بیٹھیے، تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر جائیے۔ ‘‘

آپ غور کیجئے کہ اس حدیث میں کس قدر دقیق رعایت ہے اس بات کی کہ کوئی کسی کی گرانی کا سبب نہ بنے، مریض کے پاس زیادہ دیر بیٹھنے کی اس لئے ممانعت فرمادی کہ جب تک مریض کے پاس بیٹھے رہیں گے، اسےآپ کی طرف متوجہ رہنا پڑےگااور آپ سے بات چیت کرنی پڑےگی۔ زیادہ گفتگو سے بیمارمضمحل ہوتا ہے۔ بعض عیادت کرنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں مریض کروٹ بدلنے اور پاؤں پھیلانے میں حجاب محسوس کرتا ہے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد ہے:

من اکل ثوما او بصلا فلیعتزلنا

بخاری:کتاب الاذان، باب ماجاء فی الثوم…۔ مسلم: کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ

’’جو (کچا) لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے الگ رہے یعنی مجلس میں نہ بیٹھے۔‘‘

دیکھئے اس خیال سے کہ پیاز کی بو سے اہل مجلس کی طبیعت مکدّر ہوگی، پیاز کھانے والے شخص کو مجلس سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ میں نے جو آیات اور احادیث آپ کوپیش کی ہیں ان کی روشنی میں فقہائے کرام نے بہت تفصیلات مرتب کی ہیں ان میں سے بعض عرض کیے دیتا ہوں:

(1)اگر کسی کے ہاں آپ مہمان ٹھہریں اور آپ کھانا کھاچکے ہوں تو دسترخوان بچھ جانے پر یہ اطلاع دینا کہ کھانا کھاچکا ہوں، مذموم ہے۔ میزبان انتظام کی زحمت اٹھاتا ہے اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کا اہتمام اور طعام دونوں اکارت گئے۔

(2)اگر کوئی صاحب بیمار ہوں اور پرہیزی کھانا کھاتے ہوں، تو دسترخوان بچھ جانے کے بعد ناک چڑھانا اور نخرےبگھارنااور یہ کہنا کہ میں تو پرہیزانہ کھاتا ہوں، میزبان کے لئے خجالت کا باعث ہوتا ہے، آپ کسی کے مہمان ٹھہریں، تو جاتے ہی صاحبِ خانہ کو بتادیجئے کہ آپ پرہیزانہ کھاتے ہیں۔

(3)بعض لوگ کسی کے ہاں ٹھہرتے ہیں تو دھڑلے سے اوروں کو بھی دسترخوان کی طرف بلاتے ہیں۔ مہمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اوروں کو دعوت دیتا پھرے، اسے کیا خبر کہ گھر میں کھانا کتنا ہے؟پھر اسے اس بات کا استحقاق بھی تو نہیں، یہ غیر متعلق بات میں دخل دینا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس کا تلخ تجربہ ہے۔

میری ایک عزیزہ سفر پر جارہی تھیں، بہت سے قرابت دار انہیں خیرباد کہنے کے لئے میرے ہاں آئے ہوئے تھے، میں نے عزیزہ سے کہا کہ تم کھانا کھالو، گاڑی کا وقت ہوا چاہتا ہے، ایک بڑی بوڑھی خاتون نے اعلان کردیا کہ ہم کھانا کھانے لگے ہیں، جو شریک ہوناچاہتا ہے ساتھ کے کمرے میں آجائے، کمرہ کھچاکھچ بھرگیا، سارے گھر کا کھانا دسترخوان پر لاپڑا، عزیزہ کے لئے جوزادِ سفر تیار تھا، وہ بھی لایاگیا، سب کے حصے میں دو دو لقمے آئے۔ سب شرمندہ ہوئے۔

(4)بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ کوئی شخص کسی کے ہاں مدعو ہو تو کہتے ہیں کہ ہمارے بھی ان سے مراسم ہیں۔ چلیے ہم بھی ساتھ چلتے ہیں۔ ان سے مل کر دسترخوان بچھنے سے پہلے ہی لوٹ آئیں گے، یہ عادت بھی مذموم ہے اور صاحبِ خانہ کے لئے باعث تشویش ہے۔ اگر صاحب خانہ بٹھالے تو ان کے لئے یکایک کھانا مہیا کرنے کی تکلیف ہوتی ہے اور کبھی تو سالنوں میں پانی انڈیلنا پڑتا ہے۔

اگر صاحب خانہ رخصت کردے، تو اسے شرمندگی اور خجالت ہوتی ہے اور اسلامی نقطۂ نظر سے دوسروں کے لئے اذیت کا باعث ہونا یا خجالت کا باعث ہونا یکساں مذموم اور ممنوع ہے۔

سلام ،مصافحہ اورمعانقہ سے متعلق پہلے گفتگو گذر چکی ہے یاد رکھئے کہ سلام، مصافحہ اور معانقہ اور ان تمام آداب کا مقصد دوسروں کا جی خوش کرنا اور انہیں راحت پہنچانا ہے۔ جب علت ساقط ہوجائے تو معلول بھی ساقط ہوجاتا ہے۔ اگر مصافحہ اور معانقہ سے کسی وقت دوسرے کو اذیت ہو تو شائستگی کا تقاضا یہی ہے کہ آپ ایسے وقت میں مصافحہ اور معانقہ سے اجتناب کیجئے مثلاً:

  اگر کسی آدمی کا ہاتھ زخمی ہے یا کوئی عذر لاحق ہے تو اسے مصافحہ کی زحمت نہ دیجئے۔

اسی طرح اگر کوئی جلدی میں کہیں جارہا ہو، اور تیز تیز قدم اٹھا رہاہو تو اس سے آپ کو اندازہ لگانا چاہئے کہ یہ صاحب جلدی میں ہیں ایسی صورت میں اسے مصافحہ کے لئے ٹھہرانا اذیت کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا اسلامی نقطہ نظر سے ناقابلِ تحسین ہے۔

کسی مجلس میں زیادہ افراد ہوں اور کسی مسئلے پر غور کر رہے ہوں ، آپ دیر سے آئے ہیں تو تہذیب کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ محض سلام پر اکتفا کیجئے۔ ہر ایک سے جدا جدا مصافحہ کرنا، سلسلہ گفتگو کو کاٹنا، اور اس میں خلل ڈالنا اہل مجلس کے لئے گرانی اور تکدّر کا باعث ہوتا ہے اور آپ کو اذیت جداہوگی۔

اسی طرح بعض لوگوں کو ہر وقت ہر جگہ معانقہ کی عادت ہوتی ہے۔ بیمار، ضعیف، ناتواں اور نازک مزاج لوگوں کو اس سے اذیت ہوتی ہے۔ معانقہ اسی وقت تک درست ہے جب تک وہ راحت اور آرام کا باعث ہو۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بھی فرمادیا

المومن الذی یخالط الناس ویصبر علی آذاھم خیر من الذی لا یخالط الناس ولا یصبر علیٰ آذاھم

سنن ترمذی:ابواب صفة القیامة والرقائق والورع۔ سنن ابن ماجه:کتاب الفتن، باب صبر علی البلاء

ترجمہ: ’’وہ مومن جو لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے اور ان کی ایذا پر صبر اور تحمل سے کام لیتا ہے اس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں سے میل ملاپ نہیں رکھتا اور ان کی ایذاء پر صبر و تحمل سے کام نہیں لیتاہے۔‘‘

انسان کے عقائد اور عبادات میں خلل پڑے، تو اس میں انسان کا ذاتی نقصان ہے اور آدابِ معاشرت میں کوتاہی ہو تو دوسروں کو ضرر پہنچتا ہے اور دوسروں کو ضرر پہنچانا اپنے آپ کو ضرر پہنچانے سے زیادہ سنگین ہے۔ آخر کچھ بات تو ہے کہ سورۂ فرقان میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے اوصاف بیان کیے، حسنِ معاشرت کا ذکر ان کی تہجد گزاری اور شب زندہ داری کے ذکر سے مقدم رکھا:

﴿وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (63) وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا﴾

[ الفرقان : 63 – 64 ]

ترجمہ: اور رحمن کے (حقیقی) بندے وہ ہیں جو زمین پر انکساری سے چلتے ہیں اور اگر جاہل ان سے مخاطب ہوں تو بس سلام کہہ کر (کنارہ کش رہتے ہیں)اور جو اپنے پروردگار کا حضور سجدہ اور قیام میں راتیںگزارتے ہیں۔

اسلام نے جو آدابِ معاشرت ہمیں سکھائے ہیں۔ میں نے ان کا اجمالی سا خاکہ آپ کے سامنے رکھا ہے۔ دوستو میرا ایمان ہے کہ محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس کائنات کے سب سے مہذب اور متمدن انسان تھے۔ وہ تہذیب و ثقافت جو انہوں نے ہمیں بخشی ہے، اس قدر جامع اور ہمہ گیر ہے کہ ہر مقام اور ہر زمانےمیں زندہ اور باقی رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آپ یقین کیجئے کہ زمانے کی لنبان گو کتنی آگے بڑ ھ جائے، دنیا کی مہذب اور متمدن قومیں اس سے بہتر تہذیب و ثقافت کو جنم دینے سے عاجز رہیں گی۔ 

عزیزو! انگریز یہاں سے رخصت ہوا اور تمہارے جسموں پر اس کی حکمرانی شاید باقی نہ رہی ہو، لیکن تمہارے ذہنوں پر وہ اب بھی چھایا ہوا ہے اور تمہارے دلوں پر وہ ابھی تک براجمان ہے۔ یہ کیسا احساس کمتری ہے، یہ کیسی رُلا دینے والی بدبختی ہے، یہ کیسا ہنگامہ زبونیٔ ہمت ہے کہ تمہارے اپنے گھر میں ثقافت اور تہذیب کے یہ لعل و جواہر ہیں اور تم غیروں کے خذف ریزوں پر للچائی ہوئی نظر ڈالتے ہو؟

و صلى اللّٰه تعالى على نبينا محمدوالہ وصحبہ أجمعین


[1] مناھل الصفا للسیوطی:998، الشفاء للقاضی عیاض:2/90

[2] نسائی:3415، 3416

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ سید ابو بکر غزنوی رحمہ اللہ

سیدابوبکر غزنوی 23 مئی 1927 کو پیدا ہوئے ، آپ خود بھی ایک بہت بڑے عالم دین تھے اور آپ کے والد ، دادا ، پردادا بھی اپنے اپنے ادوار کے بڑے اور معروف علماء میں سے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی کیا بلکہ گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اور پھر ایل ایل بی کیا۔ آپ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر رہے، آپ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلیٰ رہے ، آپ خطیب ، مصنف اور لیکچرار جیسے اعزازات اور صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔