آئے روز پیش آنے والے حادثات کے نتیجے میں سینکڑوں لاشیں بے یار ومددگار ہوجاتی ہیں ۔ یہ لاشیں غیر شناخت شدہ اورنا معلوم فراد کی ہوتی ہیں جومختلف وجوہات کی بنا پرزندگی ہار جاتے ہیں۔ ان میں نشہ کرنے والے، خودکشیاں کرنے والے، قدرتی حادثات کا شکار ہونے والے،سردی کی تاب نہ لا سکنے والے اورٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والے شامل ہوتے ہیں۔یہ لاوارث لاشیں انتہائی بے ادبی سےمختلف مقامات پر پھینک دی جاتی ہیں ۔عام طور پرلاوارث لاشوں کو یا تو ہسپتال کے سرد خانے میں رکھا جاتا ہے، یا ایدھی سینٹر والے امانتاً دفنا دیتے ہیں ،اس کے بعداگرکوئی ان کا وارث آجاتا ہے تو ان کو ان کی قبر دکھا ئی جاتی ہے ،یا سرد خانے میں محفوظ لاش ان کے حوالے کی جاتی ہے ۔ لیکن ملک کے بعض شہرون اور مقامات پر ان لاشوں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا ، نہ ان لاشوں کو غسل دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ نہ میتوں پر نمازجنازہ پڑھا نےکا بندوبست کیاجاتا ہے۔ بلکہ ان لاوارث لاشوں کو مکانوں ، ہسپتالوں کی چھت کے اوپر ڈال دیا جاتا ہے، یہ ایک نہایت افسوس ناک واقعہ ہے ۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ حال ہی میں غیر ملکی جریدے دی لوکل کی رپورٹ کے مطابق سویڈن سے تعلق رکھنے والی خاتون سائنسدان اور ماہر حیاتیات سوزان وی ماساک نے ایسی مشین تیار کی ہے جس کے ذریعے مُردوں کو فصلوں کی کھاد میں تبدیل کردیا جائے گا۔خاتون سائنسدان کا کہنا ہے کہ انہوں نے تین سالہ تحقیق کے بعد ایک ایسی مشین تیار کی ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے انسانی لاش کو قدرتی کھاد میں تبدیل کردیتی ہے، ان کی ایجاد کا نام پرومیشن ہے، جسے انسانی لاشوں کو قدرتی کھاد میں تبدیل کرنے والی بہترین اور کامیاب ترین مشین قرار دیا جا رہا ہے۔یہ مشین لاش کو مائع نائٹروجن کی پھوار کی مدد سے پہلے برف نما کرسٹل میں تبدیل کرتی ہے اور پھر طاقتور وائبریشن کے ذریعے اسے پائوڈر کھاد میں تبدیل کر دیتی ہےجبکہ اس سارے عمل کیلئے صرف چند منٹ ہی درکار ہوتے ہیں ۔(بحوالہ آج نیوز بروز منگل 02 مئی 2023 ( https://www.aaj.tv/news/97474 )
انسانی لاشوں کو پرندوں، چیلوں،کووں، گِدھوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دینا یا انہیں کھاد میں تبدیل کرنے کے عمل کے اسلامی اور اخلاقی پہلوئوں کے بارے قرآن وحدیث میں کیا ہدایات درج ہیں ، اس بارے میں چند سطور پیش خدمت ہیں ۔
تکریمِ انسانیت
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا
(سورۃ الإسراء: 70)
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے آدم کی اولاد کو بہت عزت بخشی اور انہیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے جو مخلوق پیدا کی اس میں سے بہت سوں پر انہیں فضیلت دی۔
قارئین کرام! اللہ کریم نے اس آیت کریمہ میں یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے مسلمانوں کو تکریم دی۔ بلکہ فرمان باری تعالی یہ ہے کہ بنی آدم کو تکریم بخشی۔ اب بنی آدم میں تو صرف مسلمان نہیں آتے، بنی آدم کا ذکر ہو گا تو ان میں تمام مذاہب، تمام فرقے، تمام مسالک الغرض کل انسان، چاہے وہ اپنے ہوں یا غیر ہوں، مسلمان ہوں یا غیر مسلم ہوں، دوست ہوں یا دشمن ہوں، بنی آدم میں تو سب شامل ہیں اور اللہ کریم فرما رہے ہیں کہ تکریم تمام بنی آدم کے لئے ہے۔ لہذا تمام انسان چاہے وہ جو بھی ہوں، ان کی بطور انسانیت تکریم کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ لیکن افسوس آج کل مسلمان اپنے ہی مسلمانوں کی تذلیل کرنا فرض سمجھتے ہیں۔
مؤمن انسان کی عزت
اگر انسان مؤمن ومسلمان ہو تو اس کی تکریم اور عزت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے، جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يطوف بالكعبة وهو يقول: ما أطيبك وأطيب ريحك، ما أعظمك وأعظم حُرْمَتك. والذي نفس محمَّد بيده، لحُرْمَة المؤمن أعظم عند الله حرْمَة منكِ، ماله ودمه، وأن نظنَّ به إلَّا خيرًا
( السلسلة الصحيحة:3420 ، وصحيح الترغيب والترهيب: 2441).
انسانی لاش کی عزت
ایک سچے مسلمان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک انسانی جان کی عزت واحترام کعبۃ اللہ سے بڑھ کر ہے ، لہذا کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ انسانی نعش کے ساتھ بے حرمتی کرے ۔ اسلام میں انسانی لاش کی بے حرمتی حرام ہے۔فوت ہونے کے بعد میت کا احترام،عزت و تکریم اور حرمت کو برقرار رکھنا لازم ہے۔لاشوں کی بے حرمتی اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا پاسدار اور محافظ ہے۔اسلام دوران جنگ بھی انسانی لاش کی بے توقیری کی اجازات نہیں دیتا۔دین اسلام نے جس طرح انسان کی زندگی میں اس کے ساتھ بدسلوکی اور بے حرمتی کو حرام اور ممنوع قرار دیا ہے اسی طرح بعد از مرگ اس کی حرمت کو برقرار رکھنا بھی لازم ہے۔کسی بھی انسان کے مرنے کے بعد بھی ہڈی پسلی،نکالنا، توڑنا، تمام چیزیں حرام ہیں،متعدد احادیث مبارکہ میں ہے کہ کسی بھی مردہ کی ہڈی وغیرہ توڑنا، اسکو اذیت دینا ایسا ہی ہے کہ جیسا کسی زندہ کی ہڈی پسلی توڑی جائے جیسا کہ کسی زندہ کو اذیت دی جائے،اس پہ وہی گناہ ملے گا جیسے زندہ انسان کی پسلی یا ہڈی توڑنے کا گناہ ہے ۔
مسلمان لاش کی تکریم ، شریعت کے مقاصد میں سے ہے
چنانچه جس طرح انسان کی تکریم ،تعظیم اورعزت اس کی زندگی میں ہے ،اسی طرح عزت وتکریم اس کے مرنے کے بعد اس کی لاش کاہے ۔دین اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ حالتِ امن ہو یا جنگ ، سفر ہو یا حضر ، مستقل رہائش ہو یا عارضی ، کسی طور پر بھی کسی بھی انسان کی جان ومال اور عزت وآبرو کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا جائے ،خاص کر جب وہ انسان ایک مؤمن ومسلمان ہو تو اس کی تکریم اور عزت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔بلکہ ایک مسلمان کے مال وجان کا تحفظ کرنا دوسرے مسلمان کے بنیادی حقوق میں سے ہے ،اور فوت ہونے کے بعد اپنے بھائی کے غسل ، کفن ، ودفن اور جنازہ پڑھنے کا حکم ہے ۔ تکریم انسانیت کا اندازہ آپ درج ذیل احادیث نبویﷺ سے لگا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انسان کے مرنے کے بعد اس کی لاش اور قبر کے بارے میں کیا کیا احکامات دیے ہیں ۔
لاش کو جلانے کی ممانعت
شریعت میں کسی میت کو بیماری کے پھیلنے کے خوف یا کسی اور بنا پر جلانا ہرگزجائز نہیں، بلکہ یہ مشرکانہ رسم کا تاثر ہے،میت کو جلانایہ میت کی سخت توہین ہے ، احادیثِ مبارکہ میں کسی کو جلانے سے صراحتًا ممانعت آئی ہے، اس لیے کہ آگ جہنم کا عذاب ہے، اور آگ میں جلانے کا حق صرف خالقِ کائنات کو حاصل ہے، دنیا میں کسی کو بھی آگ میں جلانا جائز نہیں ہے خواہ وہ کافر ہوں یا جانور وغیرہ چہ جائیکہ مسلمان کی میت کو جلایا جائے۔
حضرت حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ أمَّرَهُ علَى سَريَّةٍ قالَ : فخرجتُ فيها ، وقالَ : إن وجدتُمْ فُلانًا فأحرِقوهُ بالنَّارِ. فولَّيتُ فَناداني فرجعتُ إليهِ فقالَ : إن وجدتُمْ فُلانًا فاقتُلوهُ ولا تُحَرِّقوهُ ، فإنَّهُ لا يُعَذِّبُ بالنَّارِ إلَّا ربُّ النَّارِ
(صحيح أبي داود: 2673 )
جناب رسول اللہ ﷺنے ان کو ایک دستہ کا امیر مقرر فرما دیا پس میں نکلا آپ ﷺ نے فرمایا: اگر فلاں شخص کو پاؤ تو اس کو آگ میں جلا دینا ،جب میں چلنے لگا تو آپ ﷺ نے آواز دی، پس میں آپ ﷺکے پاس آیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم فلاں شخص کو پاؤ تو اس کو قتل کرنا،جلانا مت؛ کیونکہ آگ کا عذاب وہی دے گا جو آگ کا پیدا کرنے والا ہے۔
اسی طرح ایک اورمقام پر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
بَعَثَنَا رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في بَعْثٍ وقالَ لَنَا: إنْ لَقِيتُمْ فُلَانًا وفُلَانًا – لِرَجُلَيْنِ مِن قُرَيْشٍ سَمَّاهُما – فَحَرِّقُوهُما بالنَّارِ قالَ: ثُمَّ أتَيْنَاهُ نُوَدِّعُهُ حِينَ أرَدْنَا الخُرُوجَ، فَقالَ: إنِّي كُنْتُ أمَرْتُكُمْ أنْ تُحَرِّقُوا فُلَانًا وفُلَانًا بالنَّارِ، وإنَّ النَّارَ لا يُعَذِّبُ بهَا إلَّا اللَّهُ، فإنْ أخَذْتُمُوهُما فَاقْتُلُوهُمَا.
(صحيح البخاري: 2954)
کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک فوج میں بھیجا اور ہدایت فرمائی کہ اگر فلاں فلاں دو قریشی ( ہبا بن اسود اور نافع بن عبد عمر ) جن کا آپ نے نام لیا تم کو مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب ہم آپ ﷺکی خدمت میں آپ ﷺسے رخصت ہونے کی اجازت کے لیے حاضر ہوئے، اس وقت آپ ﷺنے فرمایا کہ میں نے تمہیں پہلے ہدایت کی تھی کہ فلاں فلاں قریشی اگر تمہیں مل جائیں تو انہیں آگ میں جلا دینا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آگ کی سزا دینا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے سزاوار نہیں ہے۔ اس لیے اگر وہ تمہیں مل جائیں تو انہیں قتل کر دینا ( آگ میں نہ جلانا ) ۔
ہندو مذہب میں ہر میت کو جلا دیا جاتا ہے اور اس کی راکھ دریا برد کر دی جاتی ہے بلکہ ستم بر ستم یہ ہے کہ مرنے والے کی بیوی کو بھی زندہ ہی جل مرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جسے ‘ستی’ کہا جاتا ہے۔ اسلام نے میت کو جلانا تو کجا اس کی ہڈی توڑنے سے بھی سختی سے منع کیا ہے۔
لاش کومثلہ کرنے کی ممانعت
دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا اور ان کے اعضاء کی قطع و برید کرنے سے بھی اسلام نے سختی سے منع کیا، حضرت عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
نَهَى النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عَنِ النُّهْبَى والمُثْلَةِ.
( صحيح البخاري: 2474 )
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوٹ مار اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
امام احمد بن حنبل حضرت ابن عباس رضي اﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اسلامی لشکروں کو جہاد پر روانہ کرتے تو انہیں واضح طور پر یہ ہدایات فرمایا کرتے تھے:
اغْزُوا بِاسْمِ اللهِ وَفِي سَبِيلِ اللهِ وَقَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللهِ اغْزُوا وَلَا تَغْدِرُوا، وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تُمَثِّلُوا، وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدً
(صحیح أبي داؤد: 2613)
اﷲ کے نام سے اور اﷲ کی راہ میں غزوہ کرو اور اﷲ کا انکار کرنے والوں سے قتال کرو۔ غزوہ کرو، غدر نہ کرو، (غنیمت میں) خیانت نہ کرو، مقتولین کے اعضا نہ کاٹو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:
كانَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ يحثُّنا علَى الصَّدقةِ وينهانا عنِ المُثْلَةِ
(صحيح أبي داود: 2667 )
رسول اللہ ﷺاپنے خطبے میں ہمیں صدقہ پر ابھارتے اور مثلہ سے منع فرماتے تھے۔
مثلہ سے کیا مرادہے؟
مثلہ سے مراد مقتول کے اعضاء کاٹنا ہے ۔ یعنی کسی کا ناک کاٹ دیا جائے ۔ کسی کا کان کاٹ دیا جائے ۔ کسی کی آنکھیں نکال دی جائیں ۔ کسی کے ہاتھ اور بازو کاٹ دیے جائیں تاکہ لاش کی تذلیل کی جائے۔ احترام انسانیت کی بناء پر رسول اللہ نے ایسا کرنے سے منع فرما دیاہے ۔ کیونکہ رسول اللہﷺ تمام جہانوں کیلئے رحمت اورشفقت بناکر بھیجے گئے تھے ۔ جنگوں میں مثله کا عام رواج تھا۔ کفار اس کو فخر سے کرتے تھے۔ اسلام ایک سنجیدہ دین ہے، اس لیے آپ ﷺنے جنگوں میں بھی اور دشمنوں کے ساتھ بھی مثلہ سے روک دیا، البتہ اگر کسی قاتل نے اپنے مقتول کے ساتھ قتل سے پہلے یا بعد میں ایسا سلوک کیا ہو تو اس کے ساتھ بھی وہی سلوک اسی طرح کیا جائے گا تاکہ قصاص کا حق ادا ہو اور اس فعل کی حوصلہ شکنی ہو۔
لاش کاپوسٹ مارٹم
خالق کائنات نے انسان کومحترم بنایا ہے، جس کی وجہ سے اس کا احترام ہر حالت میں لازم ہے، خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ ہو، پس انسان کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا جو اس کی زندگی میں اہانت کا باعث ہو یا جس سے اس کی بے احترامی لازم آتی ہو ، اسلام نے اس کی اجازت نہ اس کی زندگی میں دی ہےاور نہ ہی اس کی موت کے بعد دی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی عذر شرعی کے بغیر انسانی جسم میں زخم لگانے، کاٹنے یا عضو کے تلف کرنے اجازت نہیں دی گئی ہے، اور ظلماً کسی کا عضو تلف کرنے پر قصاص لینے كا حق عطا فرمایا ہے۔
پوسٹ مارٹم کرنے میں انسانی جسم کی توہین کا لازم آنا ظاہرہے کہ چیرپھاڑ کی جاتی ہے اور جسم کے گوشت ، ہڈی وغیرہ کوبطورنمونہ کے حاصل کیا جاتاہے، اور اس کےلیے اس کے ستر کو کھولا جاتا ہے، اور یہ سب امور ایسے ہیں جو زندگی کی حالت میں باعثِ اہانت اور تکلیف ہیں، یه مردہ انسان کے لیے بھی باعثِ اہانت وتکلیف دہ ہیں۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
كسرُعَظمِ المَيِّتِ كَكَسرِهِ حيًّا
(صحيح ابن ماجه 1320)
مردہ کی ہڈی توڑنا زندہ شخص کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
أذى المؤمن في موته كأذاه في حياته
( رواه ابن أبي شيبة في المصنف: 3/ 367)
یعنی کسی مومن کو اس کی موت پر تکلیف دینا اس کی زندگی میں اسےتکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔
امام طحاوی رحمہ اللہ اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ : مُردہ انسان کی ہڈی کا احترام ایسا ہے جیسا کہ زندہ انسان کا ہے۔ (حاشیہ: مؤطا امام مالک، ص: 220)
مذکورہ بالا سطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس طرح زندہ انسانوں کے اعضاء کو کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے اسی طرح مُردہ انسان کو اُس کے جسم کے کسی بھی حصے کو کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے۔
پوسٹ مارٹم کی شرعی حیثیت
اس حدیث کی رو سے مردے کی لاش کا پوسٹ مارٹم (میڈیکل معائنہ) ممنوع قرا ر پاتا ہے مگر انتہائی مجبوری اور ضرورت کے پیش نظر اس میں گنجائش ہے یعنی جب سبب ِموت، وجہ ِقتل اور اصل قاتل تک پہنچنے کی شدید ضرورت ہو یا مردہ عورت کے جسم سے زندہ بچہ نکالنے کی ضرورت ہو، وگرنہ محض طبی تجربات کے لئے اس کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح سمندری سفر میں اگر کوئی فوت ہوجائے اور قریبی ساحل یا کسی جزیرے تک رسائی سے پہلے اس میں تعفن کا خدشہ ہو تو اسے سمندر کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔ (المغنی: 439/3، و فقه السنة: 556/1 )
مُردوں کو گالی دینے کی ممانعت
اسلام نے مسلمان میت کا ا س حد تک احترام باقی رکھا ہے کہ انہیں مرنے کے بعد برا بھلا بھی نہ کہا جائے چنانچہ آپﷺ فرماتے ہیں کہ
لا تَسُبُّوا الأمْوَاتَ، فإنَّهُمْ قدْ أفْضَوْا إلى ما قَدَّمُوا.
( صحيح البخاري : 1393 )
جو لوگ مر گئے ان کو برا نہ کہو کیونکہ جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا تھا اس کے پاس وہ خود پہنچ چکے ہیں۔
مردوں کو گالی دینا کیوں منع ہے؟
رسول اللہ ﷺنے فوت شدہ لوگوں کو گالی دینے سے منع فرمایا خواہ مسلمان ہوں یا کافر اور اس کی دو وجہیں بیان فرمائیں۔ ایک تو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا اس کے پاس پہنچ چکے اب انہیں اس کا بدلہ مل رہا ہے۔ انہیں گالی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کا مالک خود ہی ان سے نمٹ لے گا۔
دوسری وجہ ترمذی میں مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ
لا تسبُّوا الأمواتَ فتُؤذوا الأحياءَ
(صحيح الترمذي: 1982، والسلسلة الصحیحة:2397)
”مردوں کو گالی مت دو کیونکہ ایسا کرنے سے تم زندہ لوگوں کو ایذاء دو گے۔
کیونکہ کوئی شخص بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے عزیزوں کو گالی دی جائے خواہ وہ کافر ہی ہوں۔
درج بالاحدیث میں مر جانے والوں کو برا بھلا کہنے اور ان کی عزت پر انگلی اٹھانے کی حرمت اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ایک بہت بری اخلاقی صفت ہے
انسانی قبروں کی عزت احترام احادیث کی روشنی میں
جس طرح انسانی لاش کی تکریم اور عزت کا حکم ہے،اسی طرح عزت وتکریم اس کی قبرکا بھی ہے۔اس بارے میں چند احادیث ملاحظہ کیجیئے ۔
قبروں پر بیٹھنے کی ممانعت
رسول كریمﷺ كا ارشاد هے كه :
لا تَقعُدوا على القُبورِ.
(تخريج المسند لشعيب الأرناؤوط: 43 ، بإسناد صحيح )
لوگو ! قبروں پر نہ بیٹھا کرو ۔
اسی طرح حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رَآنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى قَبْرٍ فَقَالَ: انْزِلْ عَنِ الْقَبْرِ لَا تُؤْذِ صَاحِبَ هَذَا الْقَبْرِ.
(السلسلة الصحیحة : 3266)
كہ رسول اللہ ﷺنے مجھے ایك قبر پر دیكھا تو فرمایا: قبر سے اتر جاؤ، اس قبر والے كو اذیت نہ دو ۔
قبروں پر بیٹھنا آگ کے انگارے پر بیٹھنے سے بہتر ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لَأَنْ يَجْلِسَ أحدُكم على جَمْرَةٍ فتَحْرِقَ ثيابَه، فتَخْلُصَ إلى جِلْدِه؛ خيرٌ له من أن يَجْلِسَ على قَبرٍ
(صحيح ابن ماجه:1567)
کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کا انگارے پر بیٹھنا جو اس کے کپڑوں کو جلا دے اور اس کا اثر اس کی جلد تک پہنچ جائے تو یہ اس کے لیے کسی قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔
قبروں پر چلنے کی ممانعت
حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ نبی کریمﷺنے فرمایا:
لأن أمشيَ على جمرةٍ أو سَيفٍ أو أخصفَ نعلي برجلي، أحبُّ إليَّ من أن أمشيَ على قبرِ مسلمٍ، وما أبالي أوسطَ القبورِ قضيتُ حاجتي، أو وسطَ السُّوقِ
(صحيح ابن ماجه: 1283، وصحيح الجامع : 5038)
مسلمان کی قبر پر چلنے کے مقابلے میں مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں انگارے پر یا تلوار پر چلوں یا اپنا جوتا اپنی ٹانگ سے سی لوں، ( اسی طرح) سر بازار قضائے حاجت کرنا اور قبروں کے درمیان قضائے حاجت کرنا میرے نزدیک برابر ہے۔‘‘
قبروں کے ساتھ ٹیک لگانے کی ممانعت
حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رآنِي رسولُ اللهِ صلَّى الله عليه وسلَّم وأنَا متكئٌ على قبرٍ فقالَ: لا تُؤْذِ صاحِبَ هَذَا القبرِ
(السلسلة الصحيحة:2960 )
کہ نبی ﷺ نے مجھے ایک قبر پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا تو فرمایا :’’ اس قبر والے کو تکلیف نہ پہنچاؤ ۔‘‘
قبروں کو روندنے کی ممانعت
حضرت جابر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں:
نهى النبيُّ صلَّى الله عليه وسلَّم أنْ تُجَصَّصَ القبورُ، وأن يُكتَبَ عليها، وأن يُبنَى عليها، وأن تُوطَأَ
(صحيح سنن الترمذي :1052)
کہ نبی کریم ﷺنے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قبریں پختہ کی جائیں ۔ ان پر لکھا جائے ۔ اور ان پر عمارت بنائی جائے ۔ اور انہیں روندا جائے ۔
قبروں کو اکھاڑنے کی ممانعت
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان كرتی هیں :
أَنَّ رَسُول اللهِ ﷺ لَعَنَ الْمُخْتَفِيَ وَالْمُخْتَفِيَةَ.
(صحيح الجامع : 5102، والسلسلة الصحیحة : 3293)
کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کواکھاڑنے والے مردوں اور عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔
ان احادیث میں کس قدرانسانی لاش کی تکریم اور اس کی قبرکا احترام کا حکم دیا گیا ہے ،ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی جسمِ انسانی کا تعلق روح کے ساتھ برقرار رہتا ہے۔ اسی طرح انسان کو مرنے کے بعد حیاتِ برزخی حاصل ہوتی ہے، اسی لیے زندہ انسانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ قبرستان جائیں تو ’’السلام علیکم یا اہل القبور‘‘ کے الفاظ کہہ کر اہلِ قبرستان کو سلام کہیں۔
بین الاقوامی قانونِ انسانیت میں میت کا احترام
1949ء کے جنیوا معاہدات نے مقتولین اور غرق ہونے والے لوگوں کی لاشوں کا احترام لازم کیاہے، نیز لاشوں یا ان کے اعضا ء کی بے حرمتی کو ناجائز ٹھہرایاہے ۔ اسی طرح ان معاہدات کی روسے ریاستوں کی ذمہ داری ہےکہ مقتولین کی شناخت اور ان کی تدفین کے متعلق تفصیلات متعین کرنے کے بعد متعلقہ ریاستوں تک اس کی معلومات پہنچائیں ۔
اسلام میں مسلمان میت کے حقوق
روزِ اوّل سے یہ قدرت کا قانون ہے کہ جو اِس دنیا میں آیا ہے اُس نے ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے۔اس حوالے سے اسلام کی حقانیت ملاحظہ ہو کہ اسلام میں اس دنیا میں آنے والوں یعنی زندہ لوگوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس دنیا سے جانے والوں، یعنی مردوں کے حقوق بھی متعین کیے گئے ہیں، جن کو ادا کرنا زندہ لوگوں کے ذمے ہے۔ذیل میں ان حقوق اور ان کی ادائیگی کا طریقہ بیان کیاجارہا ہے۔
غسل وتکفین ، جنازہ اور تدفین
جب انسان مرجائے تو اس کی لاش کا احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو غسل دینا چاہئے ۔ اس کو کفن پہنانا چاہئے ۔اس کی نماز جنازہ پڑھنا چاہئے ۔ اور مسنون طریقے کے مطابق اس کو دفن کرنا چاہئے اوردفن کرنے کے بعد اس کیلئے دعائے مغفرت کرتے رہنا چاہئے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان تمام اعمال کے اجر وثواب بھی بیان فرمائے ہیں، جیساكه حدیث میں آتا هے ، امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک حاکم میں ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من غسَّل ميتًا فكتم عليه غفر اللهُ له أربعين مرةً ، ومن كفَّن ميتًا كساه اللهُ من سُندسٍ واستبرقٍ في الجنَّةِ ، ومن حفر لميت قبرًا فأجنَّه فيه أجرى اللهُ له من الأجرِ كأجرِ مَسكنٍ أسكنَه إلى يومِ القيامةِ .
(المستدرك على الصحيحين للحاکم: 1358، وقال صحيح على شرط مسلم ، وصحيح الترغيب: 3492 )
یعنی جس آدمی نے میت کو غسل دیا اور اس کے عیوب کی پردہ پوشی کی، اس کی چالیس بار مغفرت کی جائے گی، جس نے میت کو کفن پہنایا اللہ تعالی اسے جنت کے سندس و استبرق کا لباس پہنائیں گے، اور جس نے میت کے لیے قبر کھودی اس کے لیے قیامت تک ایسا ثواب لکھا جائے گا جیسے اس نے گھر بنا کر اس میں ٹھہرایا ہو ۔
امام حاکم فرماتے ہیں کہ ’’یہ حدیث صحیح‘‘ ہے اور امام مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔
فرض کفایہ
مسلمان میت کو اس کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے دفن کرنا میت کے مسلمان رشتہ داروں اور اردگرد کے مسلمانوں کے ذمے فرضِ کفایہ ہے، اگر میت کا علم ہونے اور اس کی تدفین پر قدرت کے باوجود میت کو دفن نہیں کیا گیا تو ایسے مسلمان فرض کے تارک اور گناہ گار ہوں گے۔
دعائے مغفرت
کسی کی موت کے بعد اس کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن سلوک کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالی سے اس کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی جائے اور رحم و کرم کی بھیک مانگی جائے جیسا کہ نماز جنازہ کی خاص غرض و غایت بھی یہی ہے اور زیارت قبور کے سلسلے میں حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺصحابہ کرام کو تعلیم فرماتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں یاقبرستان سے گزر ہوتو اہل قبور کے لئے درج ذیل دعا مانگنی چاہئے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يُعَلِّمُهم إذا خرجوا إلى المقابِرِ، فكان قائِلُهم يقول: السَّلامُ عليكم أهْلَ الدِّيارِ من المؤمنينَ والمُسلمينَ، وإنَّا إنْ شاءَ الله لَلاحِقونَ، أسأَلُ الله لنا ولكم العافِيةَ
(صحیح مسلم :975)
كه رسول اللہ ﷺلوگوں کویہ دعا سکھلایا کرتے تھے جب وہ قبرستان کی طرف جائیں تو یوں کہیں ’’اے اس گھر کے مسلمان اور مومن باسیو ،السلام علیکم ! ہم ان شاء اللہ تمہارے پاس آنے ہی والے ہیں ، میں اللہ تعالی سے اپنے اور تمہارے لئے خیرو عافیت کے طلب گار ہوں۔
دوسری روایت میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ :
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللہُ عليْهِ وسلَّمَ كانَ إذا أتى على المقابِرِ قالَ السَّلامُ عليْكم أَهلَ الدِّيارِ منَ المؤمنينَ والمسلمينَ وإنَّا إن شاءَ اللَّهُ بِكم لاحِقونَ أنتم لنا فرَطٌ ونحنُ لَكم تبَعٌ أسألُ اللَّهَ العافيةَ لنا ولَكم
(صحيح النسائي: 2039)
رسول اللہ ﷺ جب قبرستان جاتے تو یه دعا فرماتے : اے اس قبرستان کے مسلمان اور مومن باسیو ! تم پر سلامتی ہو ۔ یقیناً ہم بھی اللہ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں ۔ تم ہم سے پہلے آ گئے ہو ۔ ہم تمہارے پیچھے آ رہے ہیں ۔ میں اپنے لیے اور تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے خیریت و سلامتی کی دعا کرتا ہوں ۔
میت کی تعریف كریں
کسی بھی ایسے آدمی کی برائی نہیں کرنی چاہیے ، جس کا انتقال ہوچکا ہو۔ چاہے ان کے اعمال کیسے ہی رہے ہوں ، کیوں کہ مردہ انسان کی غیبت کرنا نہایت ہی قابل گرفت جرم ہے ، چونکہ اگر زندہ انسان کی غیبت کی تو ممکن ہے کہ اس سے معافی تلافی کرالے؛ لیکن مردہ سے تویہ بھی ممکن نہیں۔ اور یہ بھی بات ہے کہ کسی انسان کی کامیابی اور ناکامی اس کے اعمال سے براہ راست نہیں؛ بلکہ نہ جانے اللہ تبارک و تعالیٰ کو کس انسان کی کون سی ادا پسند آجائے، جس سے خوش ہوکر اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرمادیں، اس لیے کسی مردہ انسان پر لعنت کرنا جائز نہیں۔ ۔
عذاب ِ الہی کے دروازے
پاکستان کے اندر اتنی مصیبتیں آرہی ہیں ،اس قدر پریشانیاں آرہی ہیں ، کبھی انسانوں کے ہاتھوں انسان مارے جا رہے ہیں اور کبھی آفات ،بلائیں ، مصیبتیں سیلاب کی صورت میں اورکبھی بارش کی صورت میں ہم پر نازل ہوتی ہیں ۔کبھی قتل وغارت کا بازر گرم ہوجاتا ہے ، کبھی لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر فساد شروع ہوجاتے ہیں ۔آخر اس کی كیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ پاکستانی قوم عذاب ِ الہی کے تمام دروازے کھولے بیٹھی ہے۔ کہیں اشیاء خورد ونوش میں ملاوٹ ہے تو کہیں میتوں کی قبرستانوں میں بے حرمتی کی جارہی ہے ،کہیں ہسپتالوں میں گردے نکالے جانے کے واقعات ہیں ۔
کامل مسلمان کون ہے ؟
نبی كریم ﷺ نے کامل مسلمان اسی شخص کو قرار دیا گیا ہے، جس کے کسی بھی طرح کے قولا یا فعلا شر سے دوسرے لوگ محفوظ ہو، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنهما بیان كرتے هیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
المُسْلِمُ مَن سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِن لِسَانِهِ ويَدِهِ، والمُهَاجِرُ مَن هَجَرَ ما نَهَى اللَّهُ عنْه
(صحيح البخاري: 10)
کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا) سے مسلمان محفوظ رہیں اور اصل مہاجر وہ ہے جس نے ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیا جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے “۔
یہ الفاظ صحیح بخاری کے ہیں جبکہ امام مسلم نے اس روایت کو ان الفاظ میں نقل کیا ہےکہ:
إنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ أيُّ المُسْلِمِينَ خَيْرٌ؟ قالَ: مَن سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِن لِسانِهِ ويَدِهِ.
(صحيح مسلم: 40)
ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ مسلمانوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ ﷺ نے فرمایا : جس کی زبان اور ہاتھ ( کے ضرر) سے مسلمان محفوظ رہیں۔ “
کیا انسانی لاشوں کا کاروبار ہو رہا ہے؟
انسانی اعضاء کا عطیہ بعض علماء نے چند شروط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے، لیکن اس کی خریدو فروخت جائز نہیں ہے، تاکہ انسانی جسم سامانِ تجارت نہ بن جائےکیونکہ اس سے اس کی بے حرمتی لازمی آتی ہے۔افسوس کی بات ہے کہ بعض غریب ملکوں میں انسانی اعضاء کی تجارت زوروں پر ہے۔ غریبوں کو پیسے کالالچ دے کر یا ان کی بے خبری میں ان کے اعضاء نکال لیے جاتے ہیں اور مال داروں کو مہنگے داموں فروخت کیے جاتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک گھناؤنا جرم ہے۔
لاشوں کو مکانوں اور ہسپتالوں کی چھت پرپھینک دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان لاشوں کی ہڈیوں کی میڈیکل کے طلبہ کو بہت ضرورت ہوتی ہے ۔یہ ہڈیاں ہزاروں میں بکتی ہیں۔ لہذا دیکھا جانا چاہیے کہ کہیں اس آڑ میں لاشوں کا کوئی کاروبار تو نہیں ہو رہا۔ یہاں پر ہڈیوں کی خرید و فروخت تو نہیں کی جا رہی، کیا لاشوں کے اس دھندے کے پیچھے کوئی مافیا تو کام نہیں کر رہا؟ حکومت کو چاہیئے کہ ان لاشوں کی ہینڈلنگ کے لیے کوئی سسٹم بنائے ۔
عبرت کا پہلو :
بے یار ومددگار پڑی انسانی لاشوں میں ہمارے لیے عبرت کا پہلو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی کتنا اہم کیوں نہ ہو ، مگر موت ایک اٹل حقیقت ہے ،لیکن کسی انسان کویہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا ،کیسے موت واقع ہوگی ، انسان کو اپنے انجام کا کوئی خبر نہیں ،ممکن ہے کہ کسی کو کفن نصیب نہ ہو ، کسی کو قبر نصیب نہ ہو، کسی کا جنازہ ہی نہ پڑھا جائے ، کسی کے حق میں دعائے مغفرت کا موقع ہی نہ آئے ۔کسی کی موت کا کوئی کسی کو کوئی علم ہی نہ ہو ، اور کسی کی لاش کو کوئی لینے والاہی نہ ملے ۔ لہذا ہمیں اپنی موت اور اپنے انجام کی فکر کرنی چاہئے کہ مرنے کے بعد ہمارا انجام کیا ہوگا ؟ ہم سب نے موت کا گلے لگانا ہے ، جسم سے روح کے الگ ہونے کے بعد ہمارے جسم کے ساتھ کیا ہوگا ؟ کسی کو کچھ علم نہیں ، لہذا اللہ تعالیٰ سے ہر وقت دنیا وآخرت کی عافیت کا سوال کرتے رہنا چاہئے ۔
وصلی الله علی نبینا محمد وعلی آله وصحبه وأهل بیته أجمعین