انسانی فکروعمل میں قلب(دل) کا کردار اور اسلام

روزمرّہ گفتگو میں ہم کہتے ہیں کہ میرا دل نہیں مانتا یا فلاں کام کو میرا جی چاہ رہا ہے۔ شروع سے مختلف تہذیبوں میں انسان کا یہی طرزِ تکلم چلا آرہا ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی الله تعالیٰ کے متعدد فرامین اسی سیاق میں موجود ہیں مثلاً سورة الحج میں ہے کہ:

فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

الحج – 46

 آنکھیں اندھی نہیں ہوجاتیں بلکہ وہ دل (بصیرت سے) اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

 ایک اور مقام پر یوں ہے :

لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا

الاعراف – 179

” اپنے دلوں سے وہ غوروفکر نہیں کرتے، اپنی آنکھوں سے وہ دیکھتے نہیں”۔

قرآن وحدیث میں دلوں کو غور وفکر اور تدبر وبصیرت کی صلاحیت رکھنے والا قرار دیا گیا ہے، یہاں قرآنی الفاظ ‘قلب’ اور ‘فواد’ کے باہمی فرق کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس جدید سائنس دل کو محض خون پمپ کرنے والا ایک آلہ ہی قرار دیتی ہیں۔ چنانچہ سائنس کی مرعوبیت کا شکار ہوتے ہوئے بعض اہل علم نے قرآن وحدیث کے اس بیان کو صرف ایک انسانی روزمرہ محاورہ قرار دینے کی بھی جسارت کی ہے، لیکن آج سائنس قرآن کریم کے اس بیان کی تصدیق کررہی ہے کہ دلوں کے اندر بھی غور وفکر کرنے والا عصبی نظام پایا جاتا ہے۔ زیر نظر مضمون سے جہاں قرآن کریم کی حقانیت مترشح ہوتی ہے ، وہاں یہ بھی پتہ چلتاہے کہ ایک مسلمان کو اپنا اعتماد اوایقان قرآن وسنت کے بیانات پر ہی رکھنا چاہئے اور سائنس کے کسی موقف کو حرفِ آخر سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ ح م

‘قلب’ انسانی جسم کا اہم اور کلید ی عضو ہے جو جسم انسانی کی طرح فکر وعمل میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔اس لیے قرآن وحدیث کی نظر میں قلب کی درستی پر انسانی عمل کی درستی کا انحصار ہے۔

قرآن وحدیث میں انسانی دل کو ذہانت کا منبع اور جذبات و احساسات رکھنے والا عضو قرار دیا گیا ہے۔اس دور میں سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی،اس لیے اُنیسویں صدی تک یہی سمجھا جاتا رہا کہ انسانی دل کی حیثیت صرف پمپ جیسی ہے جو پورے جسم میں خون پمپ کرتا ہے۔تاہم بیسویں صدی کے وسط میں سائنس نے پہلی مرتبہ یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ انسانی دل میں بھی انسانی دماغ کی طرح کے ذہانت کے خلیے پائے جاتے ہیں۔اس انقلابی دریافت کے بعد پھر انسانی دل پر بحیثیت منبع ذہانت(Source of Intelligence) کےمغرب میں بھی کئی اہم سائنسی تحقیقات ہوئیں ۔ان تحقیقات کو اس بحث میں مختصراً پیش کیا جائے گا تاکہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہوسکے کہ سائنس آج ان حقائق کو دریافت کررہی ہے جو قرآن وحدیث نے 1400سال پہلے بیان کر دیے تھے۔

انسانی دل کے اندر چھوٹا سادماغ…جدید سائنسی تحقیق

اُنیسویں صدی حتیٰ کہ بیسویں صدی کے نصف تک سائنس دانوں کے حلقوں میں انسانی دل کو صرف خون پمپ کرنے والا ایک عضو ہی سمجھا جاتا تھا۔ لیکن پھر کچھ مزید سائنسی تحقیقات ہوئیں تو سائنس، دل کے متعلق اس بات کو سمجھنا شروع ہوئی جو قرآن نے اور آقاے نامدار ﷺ نے چودہ سو سال پہلے کہی تھی۔جیساکہ تفسیر قرآن کے ماہر صحابیٴرسول سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا تھا:

”اس قرآن میں ایسی آیات ہیں جنہیں صرف وقت گزرنے کے ساتھ ہی سمجھا جا سکے گا۔” یعنی جیسے جیسے انسان کا مشاہدہ وسیع اور باریک ہوتا جائے گا(ویسے ویسے اُن آیاتِ قرآنیہ کا مفہوم بھی واضح ہوتا جائیگا)۔

انسانی دل کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہو اکہ جدید سائنس نےا نسانی دل کے متعلق اب یہ سمجھنا شروع کیا ہے کہ اس میں بھی ذہانت کے خانے ہیں ۔انسانی دل پر جدید تحقیقات کی بنیاد پر کینیڈا کے سائنس دان ڈاکٹر جے اینڈریو آرمر (Dr. J. Andrew) Armour M.D,Ph.D) نے ایک نئی میڈیکل فیلڈ کی بنیاد رکھی ہے جس کانام ہے نیورو کارڈیالوجی(Neuroradiology) یعنی انسانی دل کا اعصابی نظام(Nervous System) ڈاکٹر آرمر نے دل کے اعصابی نظام کے لیے’دل کے اندر چھوٹا سا دماغ’ (A little Brain in the Heart)کی اصطلاح وضع کی ہے۔

یہ اس لیے کہ اُنہوں نے دریافت کیا ہے کہ انسانی دل کے اندر تقریباًچالیس ہزار اعصابی خلیے(Nerve Cells) پائے جاتے ہیں ۔یہ وہی خلیے ہیں جن سے دماغ بنتا ہے ۔یہ اتنی بڑی تعداد ہےکہ دماغ کےکئی چھوٹے حصے اتنے ہی اعصابی خلیوں سے مل کر بنتے ہیں۔ مزید برآں دل کے یہ خلیے دماغ کی مدد کے بغیر کام کرسکتے ہیں ۔دل کےا ندر پایا جانے والا یہ دماغ پورے جسم سے معلومات لیتا ہے اور پھر موزوں فیصلے کرنے کے بعد جسم کے اعضا حتیٰ کہ دماغ کو بھی جوابی ہدایات دیتا ہے۔

علاوہ ازیں دل کے اندر موجود دماغ میں ایک طرح کی یاداشت (Short Term Memory) کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے ۔دل کو دھڑکنے کےلیے دماغ کی ضرورت نہیں ہوتی ،یہی وجہ ہےکہ دل کی پیوندکاری کے آپریشن میں دل اور دماغ کے درمیان تمام رابطے کاٹ دیے جاتے ہیں اور جب دل نئے مریض کے سینے میں لگایا جاتا ہے تو وہ پھر سے دھڑکنا شروع کردیتا ہے ۔ان تمام تحقیقات کو پیش کرنے کے بعد ،جو ڈاکٹر اینڈریو آرمر اور اُن کے معاون سائنس دانوں نے دل کے اعصابی نظام پر کی ہیں، ڈاکٹر آرمر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

”انسانی دل کے پاس اپنا چھوٹا سا دماغ ہوتا ہے جو اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت مشکل قسم کے تجزیے کر سکتا ہے۔دل کے اعصابی نظام کی ساخت اور کارکردگی کے متعلق جاننے سے ہمارے علم میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا ہے جس کے مطابق انسانی دل نہ صرف دماغ کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے بلکہ دماغ کی مدد کے بغیر آزادنہ طور پر بھی فرائض ادا کرتا ہے۔”

(بحوالہ:فرائیڈے اسپیشل ،کراچی، 8جولائی ،2011ء از ڈاکٹر مشتاق گوہر، نیویارک امریکہ:

Neuroradiology: Anatomical and functional Principles, California,2003.

(http://www.rcpsych.ac.uk/pdf/Heart,%20Mind%20and%20Spirit%20%20Mo amed%20Salem.pdf

تحقیق سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ دل ،الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کی مد د سے دماغ اور بقیہ جسم کو اطلاعات پہنچاتا ہے۔ دل انسانی جسم میں سب سےزیادہ طاقتور الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ پیداکرتا ہے جو انتہائی تناسب سے کافی دور تک پھیلتی ہیں۔ دل کی پیداکردہ الیکٹرومیگنٹک فیلڈ، دماغ کی پیداکردہ میگنیٹک فیلڈ سےپانچ صدگنا طاقتور ہوتی ہیں اور ان کو جسم سے کئی فٹ کے فاصلے سے بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔ ”

(McCraty, Bradley& Tomasion,2004,

http://www.coherenceinhealth.nl/usr-data/general/verslagen/Verlsag_Rollin_McCraty.pdf )

دل اور دماغ کے مابین دوطرفہ گفتگو کا سائنسی ثبوت

1970ء تک سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ صرف دماغ انسانی دل کو یک طرفہ احکام جاری کرتا ہے اور دل ہمیشہ اُن کے مطابق کام کرتا ہے،لیکن 1970ءکی دہائی میں امریکی ریاست اوہائیو(Ohio)کے دو سائنس دانو ں جان لیسی اور اس کی بیوی بیٹرس لیسی نے یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ انسان کے دماغ اور دل کے درمیان دوطرفہ رابطہ ہوتا ہے ۔ یہ تحقیق امریکہ کے معروف موٴقر سائنسی جریدے امریکن فزیالوجسٹ کے شمارے میں چھپی تھی۔ تحقیق کا عنوان تھا: (Two-way communication between the heart and the brain)

اُنہوں نے تجربات سے یہ دریافت کیاکہ جب دماغ جسم کے مختلف اعضا کو کوئی پیغام بھجواتا ہے تو دل آنکھیں بند کرکے اُسے قبول نہیں کرلیتا۔جب دماغ جسم کو متحرک کرنے کا پیغام بھیجتا ہے تو کبھی دل اپنی دھڑکن تیز کردیتا ہے اور کبھی دماغ کے حکم کے خلاف پہلے سے بھی آہستہ ہو جاتا ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل اپنی ہی کوئی منطق ودانش استعمال کرتا ہے۔ مزید برآں دل بھی دماغ کو کچھ پیغامات بھیجتا ہے جنہیں دماغ نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ ان پر عمل بھی کرتا ہے۔” (American Psychologist, 1978.)

جان لیسی اور بیٹرس لیسی کی تحقیقات پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی سائنس دان ڈاکٹر رولن میکریٹی اپنی کتاب میں لکھتا ہے:

”جیسے جیسے اُن کی تحقیق مزید آگے بڑھی اُنہوں نے دریافت کیا کہ دل کی اپنی مخصوص منطق ہے جو بسا اوقات دماغ سے آنے والے پیغامات سے مختلف سمت میں جاتی ہے۔حاصل کلام یہ کہ انسانی دل اس طرح کام کرتا ہے جیسے اس کا اپنا ایک دماغ ہو”۔ (Heart-brain Neurodynamics: The Making of emotions, California, 2003.)

امریکی سائنس دان ڈاکٹر پال پیرٴسل(Paul Pearsall, Ph.D.) نے انسانی دل کی ذہانت پر اپنی کتاب میں سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔ڈاکٹر پیر ٴسل کا موقف ہے کہ علوم انسانی کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ سائنس نے کئی سچائیوں کو بہت مشکل سے تسلیم کیا ۔ اٹھارویں صدی کے وسط تک ڈاکٹر حضرات جراثیم کے وجود کو تسلیم نہیں کیا کرتے تھےاور اس دوران کئی مریضوں کی اموات جراثیموں کی وجہ سے ہوئیں،کیونکہ اس دور کے طبیب اپنا نشتر (Scalpel)اپنےجوتے کے تلے کے چمڑے سے تیز کرتے تھے جس پر نشتر پر جراثیم لگ جاتے اور جس مریض کا اس سے آپریشن کیا جاتا، اس کی موت کا باعث بنتے۔

وہ اطبا(Doctors) اس بات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ لوگ جراثیموں جیسی کسی مخلوق کے وجود کے قائل ہیں۔بالآخر جب لیون ہک (Leewen hook) نے خوردبین (Microscope)ایجاد کی اور سائنس دانوں نے خود اپنی آنکھوں سے جراثیم دیکھے تو پھر ہر ہسپتال میں آپریشن سے پہلے ڈاکٹروں نے اپنے ہاتھ دھونا شروع کردیے اور اُنہوں نے اپنے میڈیکل اوزاروں کو بھی جراثیموں سے پاک(Sterilize)کرنا شروع کردیا ۔ ڈاکٹر پیرٴسل کے مطابق یہی حال سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کا بالآخر دل کے معاملے میں ہوگا ،جب اُنہیں پتہ چل جائے گا کہ انسانی دل بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر پیرٴسل مزید لکھتا ہے:

”موجودہ دور کی ایجادات کا تعلق بھی دماغ ہی سے ہے ،دل سے نہیں ۔درحقیقت دماغ سے ہمیں صرف سائنسی ترقی ملی ہے جبکہ اخلاقی ترقی صرف دل سے ہی مل سکتی ہے۔” ڈاکٹر پیرٴسل کے مطابق پورے جسم میں دل کی ایک منفرد خصوصیت اس کا  دھڑکنا(Rhythmicity)ہے،جس کی وساطت سے دل پورے جسم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہر دھڑکن کے ساتھ ہم دل کی موجودگی کو اپنے جسم میں محسوس کر سکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی کلچر او ر تہذیب کے کسی شخص کو لےلیں اور اس سے آپ کہیں کہ وہ اپنی ذات کی طرف اشارہ کرے تو کوئی شخص اپنے سر کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ اپنے دل کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے: ‘میں’ یہ کرتا ہوں یا ‘میں’ یہ کہتا ہوں۔

دراصل انسانی روح کا اصل مکان دل ہوتا ہے اور انسان کی ‘میں’ دراصل اس کی روح ہی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم بھی جب دل کا ذکر کرتے ہیں تو روح کا بھی ذکر کرتے ہیں،حتیٰ کہ مغربی عیسائی مصنّفین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں اس جنّت کی یاد ابھی پائی جاتی ہے جس سے سیدنا آدم کو نکا لا گیا تھا ،مثلاً مغربی مصنف رچر ڈ بائن برگ اپنی کتاب میں لکھتا ہے:

”ہماری مصروفیت بھری زندگی کےہنگاموں کی تہہ میں ہمارے دلوں اور ہمارے اجسام کے خلیوں (Cells) کے ا ندر ایک کھوئی ہوئی جنت (A Paradise lost) کی خفیہ یادیں پوشیدہ ہوتی ہیں جنہیں ہم جنّت میں اپنی مشترکہ بچپن جیسی زندگی(Our shard paradisal infancy)کہہ سکتے ہیں”۔ (The Heart’s Code, New York, 1998.)

محقق جوزف چلٹن پیرٴس اپنی کتاب میں قلبِ انسانی کے متعلق سائنسی تحقیقات کا خلاصہ پیش کرتےہوئے لکھتا ہے:

۱) ہمارے ذہن کو ہمارے دل کا آلہ(Instrument)کہا جاسکتا ہے۔

۲) ہمارے دل کو بذاتِ خود انسانی زندگی کا آلہ کہا جاسکتا ہے۔

۳) ہمارا دماغ اور ہمارا جسم کچھ اس طرح کی ساخت کے بنے ہوئے ہیں کہ وہ دل سے آنے والی معلومات کو ہمارے لیے منفرد تجربۂ زندگی میں تبدیل کرسکیں ۔دماغ اور بقیہ جسم، دل سے آنے والی اس انفارمیشن کا لمحہ بہ لمحہ تجزیہ کرتے رہتے ہیں اور پھر اس نتیجے کو جذبات کی زبان میں دل تک دوبارہ پہنچاتےہیں ۔

۴) دماغ سے آنے والی رپورٹوں کے جواب میں قلبِ انسانی پورے جسم کو اعصابی اور کیمیاوی(Neural and hormonal)سگنل بھیجتا ہے اور اُن میں تبدیلی لاتا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ سے زندگی کے متعلق ہمارا ایک خاص قسم کا تجربہ ہماری شخصیت پر ثبت ہوجاتا ہے ۔

آخر میں محقق پیرٴس جوزف قلبِ انسانی کے متعلق خلاصہ پیش کرتا ہے:

“Our heart plays a major, though fragile role in our overall consciousness”

(Memories and visions of Paradise, Los Angeles, 1989.)

”ہمارا دل ہماری سمجھ بوجھ اور شعور میں نہایت اہم اور نازک کردار ادا کرتا ہے۔”

قلب کے متعلق قرآن وحدیث کے بیانات

قارئین کرام! یوں تو دل کے متعلق قرآن وحدیث میں بے شمار مقامات پر کہا گیا ہے مگر یہاں بطورِ ثبوت چند آیات و احادیث پیش کی جاتی ہیں تاکہ آپ کو جدید سائنس اورقرآنی آیات کی اطلاعات کے درمیان موازنہ کرنے میں آسانی رہے ۔

۱) فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَـٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

الانعام – 43

”پھر جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو وہ کیوں نہ گڑگڑائے؟ مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور جو کام وہ کر رہے تھے، شیطان نے انہیں وہی کام خوبصورت بنا کر دکھا دیئے۔”

وَلِتَصْغَىٰ إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُم مُّقْتَرِفُونَ

الانعام – 113

”اور (وہ ایسے کام) اس لیے بھی (کرتے تھے) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اُن کے دل اُن کی باتوں پر مائل ہوں اور وہ اُنھیں پسند کریں اور جو کام وہ کرتے تھے، وہی کرنے لگیں ۔”

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

الانفال – 2

”سچّے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل الله کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب الله کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو اُن کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے ربّ پر اعتماد رکھتے ہیں۔”

لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ

الحج – 53

”وہ اس لیے ایسا ہونے دیتا ہے تاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی خرابی کو فتنہ بنا دے، ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں کو (نفاق کا ) روگ لگا ہوا ہے اور جن کے دل کھوٹے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ عناد میں بہت دور نکل گئے ہیں۔”

اب فرموداتِ امام الانبیا ءﷺملاحظہ فرمائیے:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ رضى الله عنه عَنِ النَّبِىِّ ﷺ قَال: «يَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ، ثُمَّ يَقُولُ الله تَعَالَى: أَخْرِجُوا مَنْ كَانَ فِى قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ. فَيُخْرَجُونَ مِنْهَا قَدِ اسْوَدُّوا فَيُلْقَوْنَ فِى نَهَرِ الْحَيَا – أَوِ الْحَيَاةِ ، شَكَّ مَالِكٌ – فَيَنْبُتُونَ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِى جَانِبِ السَّيْلِ، أَلَمْ تَرَ أَنَّهَا تَخْرُجُ صَفْرَاءَ مُلْتَوِيَةً» . قَالَ وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا عَمْرٌو “الْحَيَاةِ”. وَقَالَ: خَرْدَلٍ مِنْ خَيْر۔

صحیح بخاری : 22

”ابوسعید خدری رضی اللہ  نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: (جب) جنّت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوجائیں گے، اس کے بعد الله تعالیٰ (فرشتوں) سے فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو (دوزخ سے) نکال لو، پس وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور وہ (جل کر) سیاہ ہوچکے ہوں گے۔

عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِىِّ ﷺ قَالَ: «يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله، وَفِى قَلْبِهِ وَزْنُ شَعِيرَةٍ مِنْ خَيْرٍ، وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله، وَفِى قَلْبِهِ وَزْنُ بُرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ، وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله، وَفِى قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ». قَالَ أَبُو عَبْدِ الله: قَالَ أَبَانُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ حَدَّثَنَا أَنَسٌ عَنِ النَّبِىِّ ﷺ: «مِنْ إِيمَانٍ » مَكَانَ»مِنْ خَيْرٍ»

صحیح بخاری : 44

”سیدنا انس نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص لَا إِلٰه إِلا الله کہہ دے اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر نیکی (ایمان) ہو وہ دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو لَا إِلٰه إِلا الله کہے اور اس کے دل میں گہیوں کے ایک دانے کے برابر خیر (ایمان) ہو وہ (بھی) دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو شخص لَا إِلٰه إِلا الله کہے اور اس کے دل میں ایک ذرہ برابر نیکی (ایمان) ہو وہ بھی دوزخ سے نکالا جائے گا،ابوعبدالله نےکہاکہ ابان نے بروایتِ قتادہ، انس،نبیﷺسے بجائے خیر کے ایمان کا لفظ روایت کیا ہے۔”

عَنْ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهﷺ يَقُولُ: «الْحَلاَلُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لاَ يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الْمشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِيِنِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِى الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ. أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلاَ إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِى أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ، أَلاَ وَإِنَّ فِى الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ . أَلاَ وَهِىَ الْقَلْبُ»

صحیح بخاری : 52

”نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میں نے رسول الله ﷺسے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ حلال ظاہر ہے اور حرام (بھی ظاہر ہے) اور دونوں کے درمیان میں شبہ کی چیزیں ہیں کہ جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص شبہ کی چیزوں سے بچے، اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالیا اور جو شخص شبہوں (کی چیزوں) میں مبتلا ہوجائے، (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے کہ جانور شاہی چراگاہ کے قریب چر رہا ہو جس کے متعلق اندیشہ ہوتا ہے کہ ایک دن اس کے اندر بھی داخل ہو جائے (لوگو!) آگاہ ہو جاؤ کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے، آگاہ ہو جاؤ کہ الله کی چراگاہ اس کی زمین میں اُس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں، خبردار ہو جاؤ! کہ بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو تمام بدن خراب ہو جاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا ‘دل’ ہے۔”

عَنْ قَتَادَةَ قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِىَّ ﷺ وَمُعَاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ قَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ». قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ. قَالَ: « يَا مُعَاذُ »! قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، ثَلاَثًا. قَالَ: «مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ إِلاَّ حَرَّمَهُ الله عَلَى النَّارِ ». قَالَ يَا رَسُولَ الله، أَفَلاَ أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا قَالَ «إِذًا يَتَّكِلُوا». وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا.

صحیح بخاری : 128

اسحٰق بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، ہشام، قتادہ اور انس بن مالک کہتے ہیں کہ ”سیدنا معاذ (ایک مرتبہ) آپ ﷺ کے ہمراہ آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے کہ حضور اکرم ﷺ نے اُن سے فرمایا: اے معاذ (بن جبل)! اُنہوں نے عرض کیا: لبیک یا رسول اللهﷺ وسعدیک! آپ نے فرمایا کہ اے معاذ! اُنہوں نے پھر عرض کیا: لبیک یا رسول الله ﷺ وسعدیک! تین مرتبہ (ایسا ہی ہوا)۔ آپ نے فرمایا کہ جو کوئی اپنے سچّے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ سواے الله تعالیٰ کے کوئی معبود نہیں اور محمد الله کے رسول ہیں، الله اس پر (دوزخ کی) آگ حرام کر دیتا ہے۔ معاذ نے کہا: یا رسول الله ﷺ! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر کردوں؟ تاکہ وہ خوش ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس وقت جب کہ تم خبر کر دوگے تو لوگ (اسی پر) بھروسہ کرلیں گے اور عمل سے باز رہیں گے۔ سیدنا معاذ نے یہ حدیث اپنی موت کے وقت اس خوف سے بیان کردی کہ کہیں (حدیث کے چھپانے پر ان سے) مؤاخذہ نہ ہوجائے۔”

نوٹ: اس موضوع کی مزید تفصیل کے لیے ذیل میں دی گئیں ویب سائٹس سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔

http://www.experiencefestival.com/a/Heart_and_Brain/id/1961

http://www.heartmath.org/research/research-our-heart-brain.html

http://www.therealessentials.com/followyourheart.html

***

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ حماد امین چاولہ حفظہ اللہ

آپ نے کراچی کے معروف دینی ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالمعہد الرابع مکمل کیا ، آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔