انسان کے دین پر گناہوں کے بُرےاثرات

الحمد لله رب العالمین والصلاة والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلیٰ آله وصحبه أجمعین وبعد!

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ

الاعراف – 166

جب وہ اس نافرمانی میں حد سے بڑھ گئے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا تو ہم نے ان سے کہہ دیا کہ ذلیل بندر بن جاؤ۔

نیز فرمایا :

 فَلَمَّا اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِیْنَ

الزخرف – 55

پھر جب انہوں نے ہمیں ناراض کیا توہم نے ان سے بدلہ لیااور ہم نے ان سب کو غرق کردیا ۔

گناہوں کےجہاں دنیاوی اور اخروی بُرے اثرات ہیں وہیں گناہوں کے ایسے نقصانات بھی ہیں جو بندے کے دین  کے لیےبھی نہایت مضر اور باعث ہلاکت ہیں، ذیل میں گناہوں کے چند ایسے نقصانات اختصارکے ساتھ ذکرکیے جارہے ہیں جو انسان کے دین پر بُرے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔

علم سے محرومی :

گناہوں كے دینی نقصانات میں سے ایك نقصان یہ ہے كہ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے انسان علم کے سرمایہ سے محروم ہوجاتا ہے۔گناہ کا انسان پر اس قدر شدید برا اثر پڑتا ہے کہ آدمی سوچنے سمجھنے میں خطا کرنے لگتا ہے اور اس کے حافظہ پر برا اثر پڑتا ہے۔ بھولنے کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے۔ یاد کیا ہوا بھی ذہن سے اڑنے لگ جاتا ہے اور کوئی چیز یاد کرنے میں بہت گراں گزرتی ہے یعنی علم کے انواروبرکات انسان کوحاصل نہیں ہوتے ہیں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

شکوت إلى وکیع سوء حفظي        فأرشدني إلى ترك المعاصي
أخـبرني بأن العلم نور                    ونور الله لا يهدى لعاصي

امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے استاد امام وکیع رحمہ اللہ سے اپنے کمزور حافظے کی شکایت کی تو امام وکیع رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ کسی گناہ میں مبتلا مت ہونا۔ کیونکہ علم وذکاء نور اور روشنی ہے اور گناہ ظلمت اور تاریکی ہے، روشنی اور تاریکی  ایک ہی جگہ جمع نہیں ہوسکتی۔1

فرشتوں کی دعاسے محرومی  :

 گناہوں کے دینی نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہےکہ گناہ گار اللہ کی رحمتوں اور فرشتوں کی دعا سے محروم رہ جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَه يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ يُؤْمِنُوْنَ بِه وَ يَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّ عِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَ اتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَ قِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيْمِ۔ رَبَّنَا وَ اَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ الَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىِٕهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّيّٰتِهِمْ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۔ وَ قِهِمُ السَّيِّاٰتِ

الغافر – 7/8/9

 عرش الٰہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں:  ’’اے ہمارے ربّ! تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پس معاف کر دے اور عذاب دوزخ سے بچا لے اُن لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔اے ہمارے رب! اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے، اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ پہنچا دے) تو بلا شبہ قادر مطلق اور حکیم ہےاور بچا دے اُن کو برائیوں سے۔

معافی سے محرومی :

گناہوں کے دینی نقصانات میں سے ایک یہ ہے کہ گناہ گار کے اندر کھلم کھلا گناہ کرنے کی جرأت پیدا ہوجاتی ہے ، چنانچہ وہ لوگوں کی موجودگی میں بے باک و برملا ارتکابِ معصیت کرتا ہے بلکہ اپنے گناہوں کو فخر و غرور کے ساتھ بیان کرتا ہے،  جب بندہ گناہوں کو کھلم کھلا بیان کرنے لگتا ہے توبندہ اللہ تعالی کی طرف سے گناہوں کی بخشش ، معافی اور مغفرت سے محروم ہوجاتا ہے ، چنانچہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

كُلُّ أُمَّتِى مُعَافًى إِلاَّ الْمُجَاهِرِينَ ، وَإِنَّ مِنَ الْمَجَانَةِ أَنْ يَعْمَلَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ عَمَلاً، ثُمَّ يُصْبِحَ وَقَدْ سَتَرَهُ اللَّهُ ، فَيَقُولَ يَا فُلاَنُ عَمِلْتُ الْبَارِحَةَ كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ بَاتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللَّهِ عَنْهُ

’’میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوائے گناہوں کوکھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کوکھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی(گناہ کا) کام کرے اور اس کے باوجودکہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگرصبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے ربّ نے اس کے گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کھولنے لگا۔ ‘‘2

گناہوں کو حقیر جاننا :

گناہوں کے دینی نقصانات میں سے ایک بڑا  نقصان یہ ہے کہ گناہ گار کے دل سے گناہ کی نفرت ختم ہوجاتی ہے اور بڑے سے بڑا گناہ بھی اس کی نظر میں چھوٹا محسوس ہوتا ہے ،گناہ پر مداومت اور ہمیشگی کرنے سے انسان کے دل میں گناہ حقیر بن جاتا ہے۔اور یہی اس کی ہلاکت کی علامت ہے۔ ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ کأ نَهُ  قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الْفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ مَرَّ عَلَى أَنْفِهِ فَقَالَ بِهِ هَكَذَا

’’مؤمن اپنے گناہ کے بارے میں اس طرح پریشان ہوتا ہے گویا کہ وہ پہاڑ کے عین نیچے موجود ہے اور اسے اپنے اوپر پہاڑ کے گرنے کا خوف لاحق ہے، جبکہ کافر وفاجر اپنے گناہ کو ایک مکھی کی مانند ہلکا خیال کرتا ہے جواس کے ناک پر بیٹھی اور یوں اپنے ہاتھ سے اس نے اس مکھی کو اُڑا دیا۔‘‘3

 باعثِ ذلت ورسوائی :

 گناہوں کے دینی نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ گناہ کی وجہ سے بندہ اپنے رب کے سامنے ذلت ورسوائی کا سامنا کرتا ہےاور وہ اپنے رب کی نظروں سے گرجاتا ہے، امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں كہ:

هَانُوا عَلَى اللهِ فَعَصَوْهُ، وَلَوْ عَزُّوا عَلَيْهِ لَعَصَمَهُمْ

’’ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ كوحقیر اور كم تر سمجھتے ہوئے اس كی نافرمانی كی اگر یہ لوگ اللہ تعالی کی عزت اور تعظیم کرتےتو اللہ انہیں ضرور گناہ یا عذاب سے بچاتا‘ اور جب بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذلیل ہوتا ہے تو کوئی اس کی عزت نہیں کرتا ۔ جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے :

 وَمَنْ يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ

الحج – 18

’’ جسے  اللہ ذلیل کرے، اللہ کے سوا کوئی اور اس کو عزت نہیں دے سکتا۔‘‘ 

مسلم معاشرے میں جب بھی گناہ اور فحاشی پھیلی اوراس معاشرے کے افراد نے جب بھی گناہ اور برے کام کا ارتکاب کیا تو دنیا میں تمام مخلوقات کے سامنے ذلیل ورسوا  ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:

عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله ﷺ بُعِثتُ بين يدي الساعةِ بالسَّيفِ ، حتى يُعبَدَ اللهُ تعالى وحده لا شريكَ له ، و جُعِلَ رِزْقي تحت ظِلِّ رُمْحي ، وجُعِلَ الذُّلُّ و الصَّغارُ على من خالفَ أمري ، و من تشبَّه بقومٍ فهو منهم

  حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مجھے تلوار دے کر قیامت سے قبل مبعوث کیا گیا ہے، تاکہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے، جس کا کوئی شریک نہیں اور میرا رزق میرے نیزے کے سایہ کے نیچے رکھا گیا ہے اور جس نے میرے دین کی مخالفت کی، ذلت و رسوائی اس کا مقدر ٹھہری اور جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انہی میں سے شمار ہو گا۔4

کیونکہ تمام عزتیں اطاعتِ الٰہی سےملتی ہیں، فرمان باری  تعالیٰ ہے:

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعًا

فاطر – 10

جو کوئی عزت چاہتا ہو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے ۔

حصول عزت کے لیےاللہ تعالی کی اطاعت کرےاور اس کی نافرمانی سے باز رہے ۔

غیرت کا خاتمہ :

’’غیرت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے مفہوم میں اہل زبان دو باتوں کا بطور خاص ذکر کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی ناگوار بات دیکھ کر دل کی کیفیت کا متغیر ہو جانا، اور دوسرا یہ کہ اپنے کسی خاص حق میں غیر کی شرکت کو برداشت نہ کرنا۔ ان دو باتوں کے اجتماع سے پیدا ہونے والے جذبہ کا نام غیرت ہے۔

گناہوں کے دینی نقصان میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ گناہ گار شخص کے دل سے غیرت ختم ہو جاتی ہے اور وہ بے غیرت ہو جاتا ہے۔حتی کہ وہ گناہ کرنے کو بھی قبیح نہیں سمجھتا خواہ وہ خود گناہ کررہا ہو یا اس کے اہل عیال گناہ کر رہے ہوں۔ حدیث میں ہے:

قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ : لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفَحٍ ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ ، لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ ، وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي

سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو سیدھی تلوار کی دھار سے اسے مار ڈالوں۔ یہ بات نبی کریم ﷺتک پہنچی تو آپ ﷺنے فرمایا کہ :کیا تمہیں سعد کی غیرت پر حیرت ہے؟۔ میں ان سے بھی بڑھ کر غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔

دوسری حدیث میں ہے :

لَا أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنْ اللَّهِ وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ

’’ اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں ہے اور اسی لیے اس نے ظاہری و باطنی فواحش کو حرام ٹھہرایا۔‘‘5

ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:

 يا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ! واللهِ مَا مِنْ أحَدٍ أغْيَرُ مِنَ اللَّهِ أنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أوْ تَزْنِيَ أمَتُهُ

 اے محمدﷺ کی امت! اللہ كی قسم ! اس بات پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے۔6

ایک طرف گناہوں کے خلاف  اللہ اور اس کے رسول ﷺکی غیرت کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف گناہگار کسی گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ بھینس اور بیل جس طرح اپنے سینگوں سے اپنی اور بچوں کی دشمن سے حفاظت کرتے ہیں،غیرت انسان کے لئے یہی درجہ رکھتی ہے۔ یہ سینگ ٹوٹ جائیں تو پھر شیطان کی صورت میں ازلی دشمن حملہ آور ہوجاتا ہے۔

دعا کا قبول نہ ہونا :

گناہوں کے دینی نقصان میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ گناہ کی وجہ سے اس کی دعائیں اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتیں ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللہَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا وَإِنَّ اللہَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ وَقَالَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے لوگو ! اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک (مال) کے سوا (کوئی مال) قبول نہیں کرتا اللہ نے مومنوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے پیغمبران کرام! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو جو عمل تم کرتے ہو میں اسے اچھی طرح جاننے والا ہوں اور فرمایا اے مومنو! جو پاک رزق ہم نے تمھیں عنایت فرمایا ہے اس میں سے کھاؤ ۔ پھر آپ نے ایک آدمی کا ذکر کیا: جو طویل سفر کرتا ہے بال پراگندا اور جسم غبار آلود ہے ۔  دعا کے لیے آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے اے میرے رب اے میرے رب! جبکہ اس کا کھانا حرام کا ہے اس کا پینا حرام کا ہے اس کا لباس حرام کا ہے اور اس کو غذا حرام کی ملی ہے تو اس کی دعا کہاں سے قبول ہو گی ۔7

عذاب قبر كا سبب :

گناہوں کے دینی نقصان میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ گناہ کی وجہ سے قبر کے اندر بھی  بندے کو اللہ کے عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ‎﴿١٢٤﴾‏ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا

طه – 125

اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے ۔ وه کہے گا کہ الٰہی! مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا؟ حاﻻنکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔

اس کی تفسیر رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے، صحیح ابن حبان میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اللہ عزو جل کے اس قول:

فَاِنَّ لَه مَعِيْشَةً ضَنْكًا

کے متعلق  پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :

عَذَابُ الْقَبْرِ

  یعنی اس سے  مراد  عذابِ قبر ہے۔8

چنانچہ امام طبری رحمہ اللہ

مَعِيْشَةً ضَنْكًا 

 کی تفسیر میں کہتے ہیں:

وأولى الأقوال في ذلك بالصواب قول من قال: هو عذاب القبر

کہ تمام اقوال میں سب سے بہترین اور درست قول یہ ہے کہ مَعِيْشَةً ضَنْكًا سے مراد عذاب قبر ہے ، کیونکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث  میں اس كی صراحت موجود ہے۔

عن أبي هريرة رضی اللہ عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: أتَدرونَ فيم أُنزلتْ هذهِ الآيةَ فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى قال : أتَدرونَ ما المعيشةُ الضَّنكُ ؟ قالوا : اللهُ ورسولُه أعلمُ قال : عَذابُ الكافرِ في قبرِه ، والَّذي نفسي بيدِه إنَّه يُسلَّطُ عليهِ تِسعةٌ وتِسعونَ تِنِّينًا ، أتدرونَ ماالتِنِّينُ ؟ تِسعونَ حيةً لكلِّ حيَّةٍ سبعُ رؤوسٍ يلسَعونَه ويخدِشونَه إلى يومِ القيامةِ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم یہ جانتے ہو کہ یہ آیت ’’فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا‘‘ کن لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے اور کیا تم جانتے ہو کہ معیشت ضنک کیا ہے؟ صحابہ کرام نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: یہ قبر میں کافر کا عذاب ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے کافر پر ننانوے تنین مسلط کیے جائیں گے، کیا تم جانتے ہو کہ تنین کیا ہیں ؟ وہ ننانوے سانپ ہیں، ہر سانپ کے سات پھن ہیں، اور قیامت تک اس کو ڈستے اور نوچتے رہیں گے۔

ہدایت کے بعد گمراہی :

گناہوں کے دینی نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ گناہ کی وجہ سے انسان سیدھا راستہ اور ہدایت پانے کے بعد پھر سے گمراہی کی طرف چلا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

فَلْيَحْذَرِالَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

النور – 63

لازم ہے کہ وہ لوگ ڈریں جو اللہ کا حکم ماننے سے پیچھے رہتے ہیں کہ انھیں کوئی فتنہ آپہنچے، یا انھیں دردناک عذاب آپہنچے۔

حضرت ابوبكر صدیق رضی اللہ عنہ  کا فرمان ہے :

لَسْتُ تَارِكًا شيئًا كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يَعْمَلُ به، إلَّا عَمِلْتُ به، إنِّي أَخْشَى إنْ تَرَكْتُ شيئًا مِن أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ

كہ میں اُس كام كونہیں چھوڑ سکتا جو نبی كریمﷺ کیا کرتے تھے، بلکہ اسی طرح عمل کروں گا جیسے نبی کریم ﷺعمل فرماتے تھے، اس لئے کہ مجھے خدشہ ہے کہ اگر میں نے نبی ﷺ کے کسی عمل اور طریقے کو چھوڑ دیا تو میں بہک جاؤں گا۔9

نیک اعمال کی بربادی :

گناہوں کے دینی نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ گناہ کی وجہ سے اس کے نیک اعمال ختم ہوجاتے ہیں ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ،‏‏‏‏ بِيضًا،‏‏‏‏ فَيَجْعَلُهَا اللہُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا ،‏‏‏‏ قَالَ ثَوْبَانُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللہِ ،‏‏‏‏ صِفْهُمْ لَنَا،‏‏‏‏ جَلِّهِمْ لَنَا أَنْ لَا نَكُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏  أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ،‏‏‏‏ وَيَأْخُذُونَ مِنَ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ،‏‏‏‏ وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللہِ انْتَهَكُوهَا

’’ میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے، اللہ تعالیٰ ان کو فضا میں اڑتے ہوئے ذرے کی طرح بنا دے گا ، ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان لوگوں کا حال ہم سے بیان فرمائیے اور کھول کر بیان فرمایئے تاکہ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہم ان میں سے نہ ہو جائیں، آپ ﷺ نے فرمایا: جان لو کہ وہ تمہارے بھائیوں میں سے ہی ہیں، اور تمہاری قوم میں سے ہیں، وہ بھی راتوں کو اسی طرح عبادت کرتے تھے جیسے تم عبادت کرتے ہو، لیکن وہ ایسے لوگ تھے کہ جب تنہائی میں ہوتے تھے تو حرام کاموں کا ارتکاب کرتے تھے۔10

اسی طرح ایک اور حدیث کے اندر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ

کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے ؟ صحابہ نے کہا : ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہو ، نہ کوئی سازوسامان ۔ آپ نے فرمایا : میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزہ اور زکاۃ لے کر آئے گا اور اس طرح آئے گا کہ ( دنیا میں ) اس کو گالی دی ہو گی ، اس پر بہتان لگایا ہو گا ، اس کا مال کھایا ہو گا ، اس کا خون بہایا ہو گا اور اس کو مارا ہوگا ، تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا اور اگر اس پر جو ذمہ ہے اس کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈالا جائے گا ، پھر اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔11

اللہ تعالیٰ کی ناراضگی :

گناہوں کے دینی نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہ گار شخص کو ناپسند کرنے لگتا ہے، اس اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :

وَاللہُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍأَثِيمٍ

البقرۃ – 276

اور اللہ کسی ایسے شخص سے محبت نہیں رکھتا جو سخت نا شکرا، سخت گناہ گار ہو۔

  گناہوں کے نقسانات میں سے یہ بھی ہے کہ گناہ کی وجہ سے  اس شخص پر اللہ کی ناراضگی کا نزول ہوتا ہے، چنانچہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے دس چیزوں کی نصیحت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا:

  وإِيَّاكَ والمَعْصِيَةَ ، فإنَّ بِالمَعْصِيَةِ حَلَّ سَخَطُ اللهِ

کہ نافرمانی سے بچتے رہنا کیونکہ نافرمانی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنتی ہے۔12

اللہ تبارک وتعالی سے دعاء ہے کہ امت مسلمہ کومختلف گمراہیوں ،گناہوں اورظاہری وباطنی فتنوں سے محفوظ رکھے،اورشریعت کی ہدایات پرچلنے کی توفیق نصیب فرمائے،آمین ثم آمین۔

  1. دیوانِ امام شافعی :ص168
  2. صحیح بخاری :6069،صحیح مسلم:2990
  3. صحيح بخاری: 6308
  4. صحيح الجامع للألبانی : 2831 : ،  و مسند أحمد  بتحقیق  أحمد شاكر  ( 8/44).  إسناده صحيح.
  5. صحیح بخاری : ۴۶۳۷ ، صحیح مسلم: ۲۷۶۰
  6. صحیح البخاری : ۱۰۴۴
  7. صحیح مسلم : ۱۰۱۵
  8. صحیح ابن حبان   ۳۱۲۲
  9. صحيح مسلم  الرقم : 1759۔
  10. صحیح ابن ماجة : ۳۴۴۲ ،  صحیح الترغیب : ۲۳۴۶  ،  صحیح الجامع : ۵۰۲۸
  11. صحیح مسلم : ۲۵۸۱ ،  صحیح الترمذی : ۲۴۱۸،  مسند أحمد : ۸۰۲۹ ۔
  12. رواہ احمد (۵/ ۲۳۸ ح ۲۲۴۲۵) و ابن ماجہ (۴۰۳۴) ۔ صحيح الترغيب. للألبانی : 570.

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ