علم کی اہمیت و فضیلت

پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ  اللہ کے بندے اوروہ رسول ہیں جنہوں نے پیغام پہنچا کر امانت ادا کرتے ہوئے امت کی خیر خواہی کی اور اُسے ایسی روشن ترین شاہراہ  پر لگایاجس کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں اور اِس سے صرف وہی بھٹکتے ہیں جو برباد ہونے والے ہوتےہیں ، سو آپ اور آپ ﷺ کی آل و اصحاب پر  اور قیامت  تک آنے والے ہراُس شخص پر جو آپ ﷺ کی پیروی کرتا ہو اور آپ ﷺکے راستے کی طرف بلانے والا ہو، اللہ تعالیٰ کی بےشمار رحمتیں اور برکتیں بازل ہوں۔

اما بعد!

بلاشبہ سب سے بڑھ کر سچی بات اللہ تعالیٰ کی کتاب اور سب سے  بڑھ کر مضبوط کڑا اور سلسلہ کلمہ تقویٰ ہے ،سب سے بہترین شریعت ملتِ ابراھیم علیہ السلام ،سب سے شاندار قصص قرآن ِ مجید اور سب سے افضل راستہ محمد ﷺ  کا راستہ ہے۔اور سب سے بُری چیزیں اسلام میں ایجاد کردہ نئی نئی چیزیں ہیں اور ہر بدعت و ضلالت گمراہی ہے۔

اے اللہ کے بندو! احکام کی بجا آوری میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور منع کردہ امور سے بعض رہو۔

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

آل عمران – 102

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔

اے اقوامِ مسلم ! بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کرم کیا  اور اُسے ایسا ملکہ عطا کیا  کہ جس سے وہ علم حاصل کرتاہےاور اللہ تعالیٰ نے بذریعہ قلم اُسے وہ کچھ سکھا دیاجسے وہ نہیں جانتا تھا۔اُسے عقل و بیان  کی نعمت عطا کی اور دلیل و برہان کے ذریعے اُسے مخاطب کرتے ہوئے مکلف ٹھرایا۔اسے علم کا شرف عطا کرکے اپنی بہت سی مخلوقات  پر فضیلت بخشی اور علم کی بنا پر ہی اُسے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر فرمایا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿٣٠﴾‏ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ‎﴿٣١﴾‏ قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ‎﴿٣٢﴾‏ قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ

البقرۃ – 30/31/32/33

اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے واﻻ ہوں، تو انہوں نے کہا ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے؟ اور ہم تیری تسبیح، حمد اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ان سب نے کہا اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تونے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم وحکمت والا تو تو ہی ہے۔اللہ تعالیٰ نے (حضرت) آدم علیہ السلام سے فرمایا تم ان کے نام بتا دو۔ جب انہوں نے بتا دیئے تو فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں (پہلے ہی) نہ کہا تھا کہ زمین اور آسمانوں کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے تھے۔

اے اللہ کے بندو ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کو علم میں اضافے کی دُعا مانگنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا

طه – 114

ہاں یہ دعا کر کہ پروردگار! میرا علم بڑھا۔

ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : پروردگار نے اپنے نبی کریم ﷺ کو سوائے علم کے کسی بھی چیز میں اضافے کی دُعا مانگنے کا حکم نہیں دیا۔ علم اور ذِکر ِ الٰہی کی مجالس ہی جنت کے باغات ہیں۔چنانچہ صحیح حدیث میں نبی اکرم ﷺ سے ثابت  ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: جب تم جنت کے باغات میں سے گذرا کرو تو کچھ چر چگ  لیا کرو۔تو صحابہ کرام نے پوچھا کہ : جنت کے باغات کیا ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ذکرِ الٰہی کی مجالس ۔ سنن ترمذی

اور آپ ﷺ نے بتایا کہ علما ء ِ کرام ہی بلاشبہ انبیاء کرام کے وارث ہیں۔اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ : انبیاء نے دنیا کی کوئی وراثت نہیں چھوڑی بلکہ انہوں نے علم چھوڑا ہے۔سنن ابی داؤد

اے اقوام ِمسلم! یقیناً تعلیم ہی تربیت کی اساس   اور بنیاد ہے اور اِسی سے اخلاق سنورتے اور غلطیوں کو تدارک ہوتا ہےاور اِسی سے اقدار کی نشونما ،مفاہیم کی اصلاح اور کج روی کی دُرستگی ہوتی ہے۔علم ہی وہ محفوظ قلعہ اور محفوظ ترین بنیاد ہے جس سے فتنوں اور آزمائشوں کی طلاطم خیز موجوں کے وقت پامردی ،استقامت  و رسوخ میسر ہوتا ہے۔علم ہی نجات کا ذریعہ ،اصلاح کا راستہ ،کامیابی و کامرانی کا باعث،کائینا ت کا سب سے بڑھ کر باعثِ عزت و شرف زیور اوربندوں پر اللہ تعالیٰ کا سب سے شاندار فضل ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ

المجادلة – 11

اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا۔

علم ہی اقدار و اخلاق کا پیمانہ ،شرف و کمال کا معیار ،بلندیوں تک پہنچنے کا زینہ ،امیدوں کا ضامن اور قوموں کی رفعتوں  اور بلندیوں کا ذریعہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے اِس  کے ذریعے بعض قوموں کو بلندی عطا کی تو وہ آگے بڑھ گئے اور بعض کو محروم رکھا تو وہ پیچھے رہ گئے۔

جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ

الزمر – 9

بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں(اپنے رب کی طرف سے) جو عقلمند ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے اہلِ علم پر یہ مہربانی کی اور انہیں یہ خصوصیت عطا کی کہ ان کے تذکرے کو اپنے علم سے جوڑ کراپنی وحدانیت پر اُن کو گواہ بناتے ہوئے فرمایا:

شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ

آل عمران – 18

اے اللہ کے بندو! بچو کی تعلیم و تربیت کے تم شرعاً ذمہ دار ہولہٰذا اپنے فریضے کی ادائیگی میں خوب محنت کرو،اپنی اولاد کی اصلاح و خیر خواہی کی بھر پور کوشش کرو۔ان کے تعلیمی پروگراموں کی نگرانی کرو،تعلیم و تربیت میں اِن کے اساتذہ کی مدد کرواور اپنے بچوں کےلئے حتی الامکان سازگار ماحول اور تعلیم سے متعلقہ ضروری ساز و سامان فراہم کروتاکہ اس کے سبب اللہ تعالیٰ تمہیں نیک اولاد اوراُنہیں نفع بخش علم عطا فرمائے۔

بلاشبہ یہ سب سے عظیم عبادت، سب سے بڑی نیکی ،باقی رہنے والا عملِ صالح اور مرنے کے بعدکی زندگی کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔جیساکہ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب انسان فوت ہوجاتاہے  توسوائے دین کے اُس کے سارے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں۔ ایک صدقہ جاریہ اور دوسرا نفع بخش علم  اور تیسرا نیک اولاد جو اُس کے لئے دُعائیں مانگتے ہیں۔صحیح مسلم

لہٰذا اپنے بچو کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دوکہ جس میں تمہارے بچوں کی اصلاح اور اُن کے ذریعے معاشرے کی تعمیر  و ترقی ہو۔اور اِس کام میں تمام تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون کروکیونکہ تمہارا ہر شخص نگران ہے اور اُس سے اپنی رعایا کہ بارے میں بازپُرس ہوگی۔

اے اللہ کےبندو! تعلیم و تربیت کے ذریعے اپنے بچوں کی اصلاح کے اسباب اختیار کرو،اُن کے فارغ اوقات کو مفید بناؤ،انہیں تلاوت ِ قرآنِ کریم او ر نیکیوں اور خیر و بھلائی کی ترغیب دلاؤ۔تاکہ اُن کی ہدایت و دُعا کےذریعے تم پر رحم کیا جائےکیوں کہ تم نہیں جانتے کہ اُن میں سے کون تمہارے لئے زیادہ نفع بخش ہے۔

اللہ تعالیٰ میرے لئے اور آ پ سب کے لئے قرآن عظیم میں برکت دے اور مجھے اور آپ کے اُس کی آیات اور حکمتوں سے فائدہ پہنچائے۔ میں وہی کچھ کہ رہا ہوں جو آپ لوگ سن رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے ہر گناہ و خطا کی مغفرت طلب کرتاہوں۔آپ بھی اُسی سے مغفرت طلب کریں بے شک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ۔

دوسرا خطبہ:

اللہ تعالیٰ کے احسانات پر اُس کی تعریف و توصیف اور انعامات پر اُس کا شکر ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں  اور وہی عظیم الشان ہے۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اُس کے بندے ،نبی ،رسول اور اُس کی رضامندی کے داعی ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ اور آپ ﷺ کی آل و اصحاب پر بے شمار صلوۃ   و سلام  نازل فرمائے۔

حمد و ثنا کے بعد!

اے اللہ کے بندو! علم حاصل کروکیونکہ اس کاحصول خشیت ِ الٰہی ،اس کی تلاش عبادت ،اس کامطالعہ تسبیح ،اس کی تحقیق جہاد ،اس کا نادان کو سکھانا صدقہ اور اِس کا  اہلِ علم کےلئے خرچ کرنا تقرب الی اللہ کا باعث ہے۔اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئےتمام وسائل مسخر کئے ،سازگار حالات مہیا فرمائے،اسٹیشنری اور جدید ٹیکنالوجی  کو دستیاب کیا،ای -لرنگ کےآلات ِ اتصال اور ورچؤل ایجوکیشن کے پلیٹ فارم قیام ِ عمل میں آئے۔لہٰذا اب تعلیم سے منقطع رہنے کاکسی بھی شخص کے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے۔ کیونکہ ہر قسم کے وسائل دستیاب ہیں اور حجت قائم ہے۔جبکہ گزشتہ زمانوں میں ہمارے آبا ؤ اجداد محرومیوں اور بے وطنی کا شکار رہتے اور ہر قسم کی صعوبت و مشقت برداشت کرتے تھے اور علم کی تلاش اور اُس کے حصول کے ذرائع  کی تگ و دو کرتے رہتے تھے۔تنگیوں ،تکلیفوں ،مصیبتوں ،محنت و مشقت اور مشکل ترین زندگی پر صبر کرتے تھے۔چنانچہ جس نے کوشش کی اُس نے مراد پالی اور جس نے جو فصل کاشت کی  اُسے پالیا ۔لہٰذا تم دیگر قوموں کامقابلہ کرواور بلندیاں حاصل کرلو۔

اے اساتذہ و معلمین ِ کرام!  تمہیں مبارک ہو جب تم تعلیم کے پیشے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے انبیاء  و مصلحین کے جانشین ہو یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو معلم ہی بنا کر بھیجا ہے۔تمہیں مبارک ہو جو تمہیں علم کی صحبت ،خدمت ،نشر و اشاعت اور خیر و بھلائی کے  خرچ کرنے  اور سکھانے کےلئے بھیجا گیا ہے۔تمہیں مبارک ہو جو تم اس قابل ِ رشک ذمہ داری پر ہو،سو اپنی نیت کو خالص کرو اور اللہ تعالیٰ  سے اجر و ثواب کی اُمید رکھو۔یقین کرو کہ جو بھی خیر و بھلائی تم اپنے لئے آگے بھیجو گےاُسے عند اللہ ضرور پاؤ گے۔اور تمہیں رب العالمین کی طرف سے بہت بڑا اجر و ثواب مبارک ہو۔

جناب ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی کو راہِ راست کی طرف دعوت دی تو اُسے بھی راہِ راست پر چلنے والوں کے برابرہی اجر ملے گا۔اور اِس سے اُن کے اجر  میں بھی کوئی کمی نہیں آئے گی۔صحیح مسلم

تو نیت کو خالص کرو ،ذمہ داری کا مظاہرہ کرو۔ قوم کے بچے تمہارے ذمہ ایک امانت ہیں اور اِس امت کا مستقبل تمہاری ذمہ داریو ں سے جڑا ہے ۔لہٰذا اپنی مسؤلیت کے بارے میں اللہ سے خوب ڈرو۔اور اُن کےدلوں میں دینی اقدار کا بیچ بو،انہیں علم دوست بناؤ،انہیں بلند کردار اور حسن ِ اخلاق کا خوگر بناؤ۔اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو دنیا و آخرت کی بلندی کی بشارت حاصل کرلو۔

اے لوگو! بدن کی صحت و عافیت اللہ تعالیٰ کی اُن نعمتوں میں سے ایک ہے  جو اُس نے ہمیں عطا کیں  اور اُن نعمتوں کو واجب قرار دیاہے ۔اور یہ صحت کے لئے حفاظتی اقدامات او ر احتیاطی تدابیر سے ہی ممکن ہے۔تو تم تعلیمی اداروں میں داخل ہونے کےلئے حفاظتی ویکسین لگوانے میں جلدی کرو۔ صحت کے حفاطتی اسباب میں سے سب سے اہم ویکسین کا حصول ہی ہے  کیونکہ اس سے قوت ِ مدافعت ،بچاؤ اور بیماری کے اثرات کوکم کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدد ملتی ہے ۔

اے اللہ کے بندو! دوا کو اختیار کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں پیدا کی جس کا علاج نہ ہو۔ سوائے بڑھاپے کےکیونکہ وہ خاتمے  کا راستہ ہے ۔ اس کائینات کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اور صرف تیرے رب ِ ذوالجلال والاکرام کی ذات ہی باقی رہنے والی ہے ۔

اے اللہ محمد اور آلِ محمد ﷺ پر اُسی طرح رحمتیں اور برکتیں نازل فرماجس طرح  تو نے ابراھیم علیہ السلام اور اُ ن کی آل پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں ۔ یقینا ً تو قابلِ تعریف اورعظمت والا ہے۔

اے اللہ تو تمام صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین سے راضی ہوجا بالخصوص چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان  ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی سےراضی ہوجا۔

اے اللہ ! تو اُن کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہوجا۔اے ارحم الراحمین۔

اے اللہ ! ہمیں ایمان ،اخلاق اور صحت عطا فرما۔

یا اللہ ! ہم تیری رضامندی اور بخشش کاسوال کرتے ہیں۔

یا اللہ ! ہمارے کانوں  اور آنکھوں کی حفاظت فرما۔تیرے سواکوئی سچا معبود نہیں ۔

اے اللہ !  ہم کفر و فقر سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

اے اللہ ہم تجھ سے طیب و پاکیزہ رزق کا سوال کرتے ہیں اور ہر بیماری سے شفا  کا سوال کرتے ہیں۔

اے اللہ ! اساتذہ کو بہترین بدلہ عطا فرما۔

اے اللہ ! اُن کے اوقات اور اُن کی عمروں میں برکت نازل فرما۔ اُن کی اولادوں اصلاح  فرما۔ اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔

خطبة الجمعة مسجد نبوی: فضیلة الشیخ  عبداللہ بن عبد الرحمٰن بعیجان حفظه اللہ
19بتاریخ: 26/محرم/1443 ھجری ، مطابق 3/ستمبر/2021 عیسوی۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالرحمٰن بعیجان حفظہ اللہ

آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، آپ ایک بلند پایہ خطیب اور بڑی پیاری آواز کے مالک ہیں۔جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے پی ایچ ڈی کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کلیۃ الشریعۃ میں مدرس ہیں۔