عمر کے گزرنے میں پنہاں عبرت ونصیحت

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے ہیں ، ہم اُس کی حمد بجا لاتے ہیں اور اُسی سے مدد مانگتے ہیں اور اُسی سے بخشش طلب کرتے ہیں ۔ہم اپنے نفس کی بُرائی اور شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے ،اُسے گمراہ کرنے ولا کوئی نہیں اور جسے وہ گمراہ کردے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ،وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔

بہت زیادہ درود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کے آل و اصحاب پر۔

حمد و ثنا کے بعد!

اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ سےڈرو جس طرح اُس سے ڈرنے کا حق ہے، اور خلوت و سرگوشی ، ہر حال میں اُس کی نگرانی کا احساس اپنے دل میں قائم رکھو۔

مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے دنیاوی زندگی کو بلا و آزمائش کا مسکن بنایا ہے ۔بندے دائمی ٹھکانے تک پہنچنے کےلئے مراحل طے کرتے ہیں ۔چناچہ یہ مطیع و فرمانبرداروں کے لئے کھیتی اورعبادت گزاروں کے لئے تجارتی منڈی ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَالْعَزِيزُالْغَفُورُ

الملک – 2

بہت بابرکت ہے وه (اللہ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور جو ہر چیز پر قدرت رکھنے ولا ہے۔

پس جو اچھے کام کرے گا وہ کامیا ب ہوکر اجر و ثواب کا مستحق ہوگا اور جو بُرے کام کرے گا اور کوتاہی سے کام لے گا وہ ناکام ہوکرعذاب کا مستحق ہوگا ۔اوراللہ تعالیٰ نے انسان و جنات کو صرف اپنی عبادت کی غرض سے پیدا کیا۔ اُس نے خود اپنے بندوں کے اندر اور اُن کے ارد گرد بے شمار دلائل رکھ دئے، انبیاء کی بعثت فرمائی ،آسمانی کتابوں کو نازل فرمایا اور اُن پر اپنی حجت قائم کردی اور اُن کے لئے حق کے دلائل واضح کردئے ۔اللہ تعالیٰ نے ہر بندے کے لئے موت کا وقت مقرر کردیاہے ،ہر مخلوق کی مدت طے کردی ہےاور اپنے علم کے مطابق اُس کی عمر لکھ دی ہے۔پس بندے کو اس دنیا میں جو عمر دی گئی ہے،وہ ہی اُس کی محنت اور عمل کی مدت ہےپھر اس کےبعد وہ اپنے رب سے جاملے گا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ

الانشقاق – 6

اے انسان! تو اپنے رب سے ملنے تک یہ کوشش اور تمام کام اور محنتیں کرکے اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔

اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں انتہائی مختصر ہے چاہے انسان کی کتنی ہی لمبی عمر کیوں نہ ملے ، ایک دن تو اس کو موت آنی ہی ہے۔اور ہر سانس جو انسان کے سینے میں آتی جاتی ہے وہ اُس کی زندگی کے مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے جوگزرجانے کے بعد واپس نہیں ہوتا ۔اورعمر کا زیادہ ہونا درحقیت اُس کا کم ہونا اور موت سے قریب ہونا ہے ۔مگر اکثر لوگ اپنی تخلیق کی حکمت سے غافل ہیں ۔اس لئے دنیا کی چکا چوند اور فتنہ سامانیوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں ۔اور اپنے وجود کے مقصدِ حقیقی کو فراموش کربیٹھتے ہیں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ‎﴿١﴾‏ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ

التکاثر – 1/2

زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا۔ یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔

دن اور رات اور سورج و چاند کی گردشیں اور مختلف موسم و زمانے کے حالات اور اُس کے آنے اور جانے ،وقت کے بدلنے اور سالو ں کے گزرجانے اور دنوں کے پلٹنے میں بہت ساری عبرتیں ہیں جو بندے کو یہ یقین دلاتی ہیں کہ دنیا کی زندگی فانی ،غیر مستقر اور گزرجانے والی ہے۔اور اس کا انجام آخر کار فنا و ہلاکت ہے۔

ایک عظیم امر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں زمانے ،اُس کے اجزاء و مراحل کا کثرت سے ذکر کیا ہے ۔وہ امر یہ ہے کہ بندے کو یہ یاد دلائے کہ یہ زندگی بہت زیادہ پلٹنے والی اور بہت جلد ختم ہونے والی ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رات و دن ،سورج و چاند ،چاشت ،فجر و عصر کی قسم کھائی ہے۔ اور بندوں کو اس بات کی دعوت دی ہے کہ وہ چاند و سورج کی گردش کی وجہ سے اوقات کے گزرنے اور حالا ت کے اتار چڑھاؤسے عبرت حاصل کرے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ ‎﴿٣٩﴾‏ لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ

یٰس – 39/40

اور چاند کی ہم نے منزلیں مقررکر رکھی ہیں، یہاں تک کہ وه لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پرآگے بڑھ جانے والی ہے، اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں۔

ہر سال بلکہ ہر دن جو انسان کی عمر میں سے کم ہوتاہے، اِس میں اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ہر ابتداء کی انتہا ہے۔ہر چیز کی عمر لکھی ہوئی ہے۔ہر آغاز کو اختتام تک پہنچنا ہے۔اور ہرعمارت کی مدت ختم ہونی ہے۔ نئے سال کے سورج کا طلوع ہونا انسان کو اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ اب بھی موقع میسرہے اور امید و رجاء کا دروازہ کھلا ہواہے۔دانا و کامیاب وہ ہے جواپنے عمل و اپنی عمر کے ثمرات کو اسی طرح شمار کرتا رہے جس طرح کہ وہ اپنی تجارت میں نفع وتقصان کو شمار کرتا رہتا ہے۔کیونکہ عمرہی ہر مخلوق کا اصل سرمایہ ہے۔اوراس کا سامان صحت و تندرستی ہے۔مگراکثر لوگ اس میں گھاٹے کا سودہ کرتے ہیں۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دو نعمتیں ہیں جن میں اکثر لوگ خسارے اور گھاٹے میں رہیں گے۔صحت اور فرصت۔ صحیح البخاری۔

دنیا میں منافع کا حصول ، نیک اعمال کی انجام دہی اور موت کی مسلسل تیاری پر موقوف ہے۔انسان لمبی عمر کا متمنی ہوتا ہے۔دنیا اور اُس کے مال و متاع کا حریص ہوا کرتاہے۔نعمتیں اُسے آخری انجام اور عنقریب آنے والی موت سے غافل کردیتی ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 آدم کا بیٹا بوڑھا ہوجا تا ہے لیکن اِس میں دو چیزیں جوان رہتی ہیں ،مال اور عمر کی حرص و طمع۔ متفق علیہ۔

دنیا کی حقیقت اور اِس کے سرعتِ زوال سے واقف شخص کی سب سے بڑی دانش مندی یہ ہے کہ اس کے ہر معاملے میں نفع بخش اور اکمل ترین چیز کو اختیار کرے۔چنانچہ وہ اپنا وقت اُنہی چیزوں میں صرف کرتا ہے کہ جن کے فوائد کامل اور نتائج خوش کن ہوں۔وہ فضیلت والے اعمال میں سب سے اعلیٰ ،نیک اعمال میں سب سے بلند اور عبادتوں میں سب سے اہم کو اختیار کرتاہے۔دانا انسان اپنے لئے جنت سے کم پر راضی ہو ہی نہیں سکتا۔وہ اِن عبادتوں کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے۔جو اُس کی نیکیوں میں اضافے اور اُس کے گناہوں  میں کمی کا سبب ہوں۔ جو اطاعتوں اور نیکیوں پر دوام نہ کرسکےاُسے چاہئیے کہ وہ گناہوں سے کنارہ کش ہوجائے۔لیکن یاد رہے جو احسان پر احسان نہیں کرسکتا وہ کمی کی طرف جاتا رہےگا۔اور جو نیکیاں کر کے آگے نہیں بڑھ پائے گاوہ گناہ پر گناہ کر کے پیچھے رہ جائےگا۔

طاقت و قوت کے بعد کمزوری کا آنا زندگی کا ایک لازمی جزو ہے۔جوانی کے بعد بڑھاپے کا آنا یقینی امر ہے۔اور تندرستی کے بعد بیماری کا لاحق ہونا ایک ایسی راہ ہے جس پر چلے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ

الروم – 54

اللہ تعالیٰ وه ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر اس کمزوری کے بعد توانائی دی۔

اول سے آخر تک دنیا کی مثال اُس کھیتی کی سی ہے جو مسولہ دھار بارش کے بعد اگتی ہے، جس کی ہریالی اور خوبصورتی سے اُس کے مالک خوش ہوتے ہوں، پھر وہ کچھ ہی مدت میں سوکھ کر بُھس بن جاتی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ

الحدید – 20

خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا زینت اور آپس میں فخر (و غرور) اور مال واوﻻد میں ایک کا دوسرے سے اپنے آپ کو زیاده بتلانا ہے، جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر جب وه خشک ہو جاتی ہے تو زرد رنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو پھر وه بالکل چورا چورا ہو جاتی ہے۔

اور جسے اتنی لمبی عمر مل جائےکہ اس کے چہرے پر سفیدی ظاہر ہونے لگےتو گویا یہ اُس کے قربِ موت کی تنبیہ ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ

الفاطر – 37

کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وه سمجھ سکتا۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اِس آیت میں نذیر سے مراد بڑھاپہ ہے۔اور اِ س اُمت کے لوگوں کی عمریں اوسطاً ساٹھ اور ستر کے درمیان ہوں گیں۔اور جو ساٹھ سال کی عمر پالے تو اُس کا عذر لمبی عمر کی مہلت کی وجہ سے ختم ہوگیا۔ اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ اُس شخص کا عذر باقی نہیں رکھتا جس کو ساٹھ سال کی عمر تک مہلت دیتا ہے۔

اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے زندگی اور قوت و شباب کی پیری اور ضعیفی سے پہلے اور مالداری کو فقر و فاقہ سے پہلے غنیمت جاننے کی ترغیب دی ہے۔اور فرصت کے لمحات کو کام میں لانے کا حکم دیاہے۔نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانوں:

  • بڑھاپے سے پہلے جوانی کو ۔
  • بیماری سے پہلے تندرستی کو۔
  • فقر و فاقے سے پہلے بے نیازی و خوشحالی کو۔
  • مصروفیت سے پہلے فرصت کو ۔
  •  اور موت سے پہلے زندگی کو۔سنن النسائی۔

اور اِن چیزوں کو غنیمت سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ بکثرت نیک عمل کریں اور وقت کی حفاظت کریں۔فضائل و محاسن کو اپنائیں،فضول و بے ہودہ کاموں سے دور رہیں اور نیک کاموں کی طرف سبقت کریں۔چنانچہ ایک بندے کی حالت یہ ہونی چاہیئےکہ اُس کا آج کا دن گذشتہ کل سے بہتر ہواور آئندہ کل آج سے بہتر ہو۔اور جس کے دونوں دنوں کے عمل برابر ہوںوہ دراصل دھوکے میں ہے۔اور جو استقامت کےبعد الٹے پاؤں لوٹ جائےوہ فتنے میں مبتلا ہے۔

چند روزہ زندگی کا سب سے بڑ اضیاع یہ ہے کہ اِن اوقات کو آخرت سنوارے بغیر یوں ہی ضایع کیا جائے۔اور جو شخص اپنے وقت کی حفاظت نہیں کرتا تو اُس کے ہاتھ سے اس وقت سے فائدہ اُٹھانے کا موقع نکل جاتا ہے۔اور وقت کا سب سے بہترین مصرف یہ ہے کہ اُسے دین و دنیا کے لئے نفع بخش علم کے حصول ،دعوتِ قرآن ،صبح شام کے ذکر و اذکار ،حلال روزی کے لئے محنت و کوشش اور مخلوق کےساتھ احسان اور اُن کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگایا جائے۔دنیا میں ایک طرح کے حالات نہیں رہتے ۔ دن بدلتے رہتے ہیں اور ایک انسان خوشی و غمی ،امیری و غریبی اور امن و خوف کے مختلف  حالات سے لامحالہ گذرتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ

البقرۃ – 155

اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے۔

اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ ایک بندہ بہر صورت اپنی حالت کے مطابق اُسی کی عبودیت میں رہےچنانچہ شکر کے بغیر صبر مکمل نہیں ہوسکتا۔ اور نعمت کی قدر وہی جانتا ہےجسے نعمت چھن جانے کی تکلیف کا احساس ہے۔اور اللہ تعالیٰ سے کما حقہ وہی ڈرتا ہےجس کی تمام امیدیں اُسی سے وابستہ ہیں۔اور جس نے احسانات کی شدت کے رک جانے کو نہ جھیلا ہووہ انعامات کی لذت کو نہیں جان سکتا۔اور جو اس راز کو جان جائے گا وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور بندوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کےافعال کو صحیح نظر سے دیکھے گا۔چنانچہ جو بھی اونچ نیچ اور تنگی و کشادگی ،کمی پیشی اور اچھائی اور بُرائی ہم دیکھتے ہیں اس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حد درجہ حکمتیں پنہا ہیں۔اور ہر صورت میں بندوں کا کسی خاص عبادت میں ہوناضروری ہوتا ہے۔تقدیر کو تقدیر سے ہی دور کیا جاتا ہے۔اور دائمی شکر ہی خیر کے نزو ل کا سبب ہے۔تقدیر کے سامنے سر تسلیمِ خم کرنا شریعت کے اُصولوں کے منافی نہیں ہے ۔اور بندے کی توحید کی دُرستگی ، ایمان کی سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ تقدیر پر ایمان اور شریعت پرعمل دونوں کو جمع کیا جائے۔اس دنیامیں بندہ مختلف آزمائیشوں میں گھرا ہوا ہے۔چناچنہ شیطان اُسے وسوسے میں ڈالتا ہے ۔ نفسِ عمارہ بُرائی کا حکم دیتا ہے۔اور خواہشات اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی رہتی ہیں۔

لہٰذا توبہ و استغفار کو لازم پکڑے بغیر بندے کے لئے کوئی چارہ کار نہیں ۔ یہ زندگی پھر یعنی ہمیشگی کا عمل ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

النور – 31

 اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔

توبہ ایک عظیم عبادت ہے ۔اسے اللہ تعالیٰ اپنے کے لیے پسند فرماتاہے ۔ارشادِباری تعالیٰ ہے:

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ

البقرۃ – 222

 اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

بندہ معصیت اور غفلت سے قریب ہوتاہے ۔غلطی کرنا پشری تقاضو ں میں سے ہے ۔بلکہ توشتہ تقدیر ہےالبتہ اس میں معیوب اور قابلِ ملامت امر یہ ہے کہ انسان توبہ سے اعراض کرے اور گناہوں پر اصرار کرے۔نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لُّ بني آدم خَطَّاءٌ, وخيرُ الخَطَّائِينَ التوابون

سنن الترمذی، ابن ماجه

جو کسی بُرائی کا ارتاکاب کرلے تو اُسے چاہیئے کہ بکثرت توبہ و استغفار کرے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کےبُرائی کو مٹا دے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ

ھود – 114

یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔

اور نبی اکرم ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

سچی توبہ پر گناہ کے بعد نیکی کرلوتو وہ اُسے مٹادے گی۔سچی وتوبہ پر زندگی کا خاتمہ ، توفیقِ الٰہی ہے۔اور باذنہ تعالیٰ ذریعہ نجات بھی ہے۔کیونکہ جو شخص توبہ کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ اُس کی توبہ کو قبول کرلیتا ہے۔اور جس شخص کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول کرلےتو دوسرے گناہوں پر اُس کا مواخذہ نہیں کرے گا۔اور جو گناہوں کے بعد توبہ کو لازم پکڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے قربِ موت بھی توبہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔اس کے برخلاف جو ٹال مٹول کرتا ہے تو ممکن ہے کہ توبہ کرنے سے پہلے اچانک ہی موت آجائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُولَٰئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا

النساء – 17

اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آجائیں اور توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی توبہ قبول کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بڑے علم والا حکمت والا ہے

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اُس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اُس پر غرغرہ کی کیفیت طاری نہ ہو۔

بڑی اور قابلِ ذکر چیز موت کو یاد کرنااور اپنے اور غیروں کی موت سے نصیحت حاصل کرنا ہے۔خصوصاً آج کے زمانے میں جب نئی نئی بیماریاں ظاہر ہورہی ہیں۔اور یکے بعد دیگرے وبا کے ظہور نے لوگوں کو خوف زدہ کر رکھا ہے۔اور بہت سے لوگ ناگہانی موت کا شکار ہورہے ہیں۔اور اچانک دنیا سے کوچ کررہے ہیں۔ لہٰذا انسان کو چاہیئے کہ وہ وہاں کے لئے تیار رہے۔اور ہلاکت سے نجات پانے کے اسباب پر ہمیشہ غور و فکر کرتارہے۔

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم

يُقَلِّبُ اللَّهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ

النور – 44

اللہ تعالیٰ ہی دن اور رات کو ردوبدل کرتا رہتا ہے آنکھوں والوں کے لیے تو اس میں یقیناً بڑی بڑی عبرتیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ میرے لئے اور آپ کے لئے قرآن مجید کو بابرکت بنائے اور مجھے اور آپ کو اس بابرکت اور حکمت والے ذکر سے فائدہ پہنچائے۔میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے ،تمہارے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے تمام گناہوں کی معافی طلب کرتاہوں۔اور تم بھی اُس سے معافی طلب کرو۔ بےشک وہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

دوسراخطبہ:

تمام تعریفیں اللہ  کے لئے ہیں اُس کے احسان پر ، اور تمام شکر اُسی کے لئے ہیں اُس کی توفیق اور نوازشات پر۔ اور میں اُس کی عظمت و شان بیان کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ، وہ تنہا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔

بہت زیادہ درود و سلام نازل ہواُن پر ، اُن کی آل پر اور اُن کے اصحاب پر۔

اما بعد!

مسلمانوں تم پر اللہ کا مہینہ محرم سایہ فگن ہونے والا ہے ۔ اس مہینے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے حرمت والا قرار نہیں دیا۔ یہ اُن مہینوں میں سے ایک ہے کہ جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرمت بیان کی ہے۔ جن میں گناہ و نافرمانی کے ذریعے اپنے اوپر ظلم کرنے سے منع فرمایا ہے۔  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ

التوبة – 36

مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔ یہی درست دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ﻇلم نہ کرو۔

ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ان مہینوں میں گناہ کر نا سنگین جرم ہے۔اور اِن میں کئے گئے نیک اعمال کا اجر و ثواب کئی گنا ہ بڑھ جاتا ہے۔اس مہینے  میں بکثرت نفلی روزے رکھنا مستحب عمل ہے۔نبی اکرم ﷺ نےارشاد فرمایا:

رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ،اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم کےروزے ہیں۔اور اس کےدنوں میں سب سے افضل دن جس میں روزہ رکھنے کی جستجو ہونی چاہیئےوہ عاشورہ کا دن ہے۔آپ ﷺ نے خود اس دن روزہ رکھا۔اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا  حکم دیا۔

رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا: کہ یہ وہ دن ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کو نجات دی اور فرعون کو اُس کی قوم سمیت غرقاب کردیا۔ تو اپنے رب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا۔ اور بہتر یہ ہے کہ عاشورہ کے ساتھ اِس سے ایک دن پہلے کا بھی روزہ رکھا جائے۔ا س طرح نو اور دس دو دن روزہ رکھا جائے۔کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اگر آئندہ سال تک میں زندہ رہا تو ضرور نو کا روزہ رکھوں گا۔

شریعت محمدی میں نئے سال کے آغازکی نہ کوئی خوبی ہےاور نہ اس کی کوئی خاص فضیلت یا خصوصیت وارد ہوئی ہے۔ اس لئے جسمانی مالی یا دیگر عبادات کو اس دن کے ساتھ خاص کرنا ،دین میں نئی ایجاد ہے اور عظیم شریعت سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے۔

پھر یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم ﷺ پر کثرت سے درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے چنانچہ اُسے نے اپنی کتاب میں فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ ! تو بے شمار برکتیں نازل فرما ہمارے نبی اکرم محمد ﷺ پر اور خلفائے راشدین  سے راضی ہوجا ، جنہوں نے حق کے ساتھ فیصلہ کیا اور حق کے ساتھ انصاف کیا۔ ابو بکر ، عمر ، عثمان ،علی  رضی اللہ عنہم ، اور تمام صحابہ کرام سے  اور ہم سےبھی راضی ہوجا اپنے جود و کرم سے ۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت  ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں  کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔

اے اللہ ! تو فلسطین کی اور اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ان کی نصرت فرما ان کی حفاظت فرما۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ عدل کا بھلائی کا ور قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں اور ناشائستہ حرکتوں ،ظلم و زیادتی سے روکتا ہے۔ وہ خو تمہیں نصیحت کررہا ہےکہ تم نصحت حاصل کرو ۔پس اللہ تعالیٰ کو یاد رکھووہ تمہیں یاد رکھے گا۔اور اُس کی نعمتوں پر اُس کا شکریہ ادا کرو، وہ مزید سے نوازے گا۔اور اللہ تعالیٰ کا ذکر تو سب سے بڑی چیز ہے۔اور جو کام تم کرتے ہواللہ اُسے جانتا ہے۔

خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ عبدالمحسن القاسم حفظه اللہ
29 ذی الحجة 1443هـ بمطابق 29 جولائی 2022

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ جسٹس ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ

آپ یعنی جناب عبد المحسن بن محمد بن عبد الرحمن القاسم القحطانی کو پیدا ہوئے۔ آپ نے جامعہ امام محمد بن سعود ریاض سے گریجویشن کیا اور المعہد العالی للقضاء سے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی مسجد نبوی کی امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ محکمۃ الکبریٰ مدینہ منورہ میں قاضی (جسٹس ) بھی ہیں ۔