پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کےلئے ہیں جس نے اپنی محبت کو سب سے بڑی عنایت اور عظیم ترین عطیہ قرار دیا، میں کھانے پینے کی چیزیں مہیا کرنے پر اسی کےلئے حمد و شکر بجا لاتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، وہ ہر قسم کے عیوب اور نقائص سے پاک ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اسکے بندے اور رسول ہیں، آپ نے نورِ ہدایت کی جانب دعوت دی اور دلوں کو نقائص سے پاک کرنے کی ترغیب دلائی، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے ۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا
الاحزاب – 70/71
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جب بھی بولو تو سچ بولو۔ وہ تمہارے اعمال کی اصلاح اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا، جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو وہ بہت بڑی کامیابی پا گیا۔
اللہ کی محبت ایمان کے لوازمات میں سے ہے، عقیدہ توحید اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک انسان اپنے رب کو ہر اعتبار سے محبوب نہ بنا لے ، “محبت” کی “محبت” سے بڑھ کر وضاحت نہیں کی جاسکتی ، اللہ کے سوا کو ئی چیز ایسی نہیں ہے جو انسان کو ہر اعتبار سے محبوب ہو، اللہ تعالی ہی وہ ذات ہے جو الوہیت اور عبادت کے لائق ہے، اور وہی کمال عاجزی انکساری اور محبت کا حقدار ہے۔
اللہ کی محبت کا معاملہ ہی کچھ اور ہے؛ دل کو جتنی اپنے خالق سے محبت ہوتی ہے کسی سے نہیں ہوتی ، اور کیوں نہ ہو!؟ وہی اس کا خالق ، معبود، ولی، مولا، پروردگار، کارساز ، رازق، مارنے اور زندہ کرنے والا ہے، اس کی محبت میں نفسیاتی سکون، روحانی زندگی، دلی خوشی ،قلبی غذا، عقل کےلئے نور، آنکھوں کی ٹھنڈک، اور تعمیرِ باطن ہے، قلبِ سلیم ، پاکیزہ ارواح ، اور عقلمندوں کے ہاں اللہ کی محبت، اور اس کی ملاقات سے بڑھ کر کوئی چیز نہ تو انہیں لذت دیتی ہے اور نہ ہی محظوظ کر سکتی ہے۔
انسان اللہ تعالی کی جتنی محبت اکٹھی کرے اسے اتنی ہی ایمان کی مٹھاس اور لذت ملے گی، اسی لیے جو شخص اپنے دل کو حُبِ الہی میں غرق کر دے؛ اللہ اسے غنی کر دیتا ہے، پھر اسے کسی سے ڈرنے یا کسی پر بھروسا کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ، چنانچہ حُبِ الہی ہی ایک ایسی چیز ہے جو دل کی پیاس بجھا سکے اور اس کے بعد کسی کی ضرورت پیش نہ آئے۔
اگر انسان اپنے دل کےلئے دنیا جہان کی آسائشیں اکٹھی کر لے پھر بھی اسے حقیقی سکون صرف حُبِ الہی میں ملے گا ، اگر دل سے اللہ کی محبت چھین لی جائے تو اس کا درد آنکھوں کی بینائی، کانوں کی سماعت ، زبان کی قوتِ گویائی کے ضائع ہونے بھی زیادہ ہو گا، بلکہ اگر اس بدن سے روح پرواز کر جائے تو اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا حُبِ الہی سے دل کے خالی ہونے پر ہوتا ہے۔
اللہ کے بندو! حقیقت میں محبت یہ ہے کہ: آپ اپنا سب کچھ اپنے محبوب کے نام پر قربان کر دو اپنے لیے کچھ نہ چھوڑو، اسی لیے تو اللہ کی محبت سب محبتوں پر غالب رہتی ہے، کامیاب شخص بھی اپنی تمام تر محبتوں کو اپنے رب کی محبت کے تابع رکھتا ہے کہ اسی میں اس کی کامیابی کا راز پنہاں ہے۔
محبت کے سب مدعی یکساں نہیں ہوتے؛ اسی لیے اللہ تعالی نے مومنوں کو شدید محبت کرنے والا کہا، فرمایا:
وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ
البقرة – 165
جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں۔
لفظِ أَشَدُّ دعوی محبت میں درجہ بندی کی دلیل ہے۔
حُبِ الہی : اللہ تعالی کی ذات اور اس کے پسندیدہ اعمال کو اپنی جان ، روح، اور مال پر ترجیح دینے کا نام ہے، جس کا تقاضا ہے کہ خلوت و جلوت ہر حالت میں اس کے فرامین کی پیروی کی جائے، اور ہمیشہ یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کی محبت کا حق ادا نہیں ہو رہا، دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ : ہمہ وقت اپنے آپ کو محبوب کی یاد میں مشغول کر دیں، اس پر اپنی جان نچھاور کر دیں، اور دل میں محبوب کی چاہت کے علاوہ اور کچھ نہ ہو، زبان ہمیشہ اسی کی یاد سے تر رہے، اسی لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:
وَأَسْأَلُكَ حُبَّكَ، وَحُبَّ مَن يُّحِبُّكَ، وَحُبَّ عَمَلٍ يُّقَرِّبُ إِلَى حُبِّكَ
یا اللہ! تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں، اور تجھ سے محبت کرنے والے کی محبت کا ، اور ہر ایسے عمل کی محبت کا جو تیری محبت کے قریب تر کر دے۔
ُحِب کے دل میں محبت شدت اختیار کر جائے تو یہ والہانہ محبت بن جاتی ہے ،اور والہانہ محبت کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی سے انتہا درجے کی محبت کریں، لوگوں کو والہانہ محبت کی؛ غذا سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے؛ کیونکہ غذا کی عدم دستیابی سے جسم کو نقصان ہوگا، جبکہ حُبِ الہی کی عدم موجودگی میں روح برباد ہو جائے گی ۔
مؤمن اپنے رب کو پہچان لے تو وہ رب سے محبت کرنے لگتا ہے ، جب محبت ہو جائے تو اس کی جانب متوجہ رہنے کی کوشش کرتا ہے، اور جب اسے چاشنی اور لذت ملنے لگے تو دنیا کو شہوت کی نگاہ سے اور آخرت کو کاہلی اور سستی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔
حُبِ الہی انسان کو اسکے ذمہ واجب کام کرنے اور تمام ممنوعہ کاموں سے دور رہنے پر ابھارتی ہے، اور مزید آگے بڑھ کر مستحبات پر ترغیب ، اور مکروہ چیزوں سے انسان کو دور رکھتی ہے۔
حُبِ الہی انسانی دل کو حلاوتِ ایمان سے بھر دیتی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص اللہ کو رب مانے، اسلام کو اپنا دین جانے، محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- کو اپنا رسول مانے تو اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا)
حقیقی حُبِ الہی دل سے اللہ کی تمام نا فرمانیوں کو باہر نکال کر انسانی جسم کو اطاعت پر مجبور کر دیتی ہے، جس سے نفس مطمئن ہو جاتا ہے، حدیث قدسی میں ہے (۔۔۔جب میں کسی بندے سے محبت کرنے لگوں تو میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی بینائی بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جن کے ذریعے وہ چلتا ہے)
انسان محبت کی لذت سے تمام مصیبتیں بھول جاتا ہے، اور دوسروں کی طرح اسے تکلیف محسوس نہیں ہوتی، حُبِ الہی گناہوں سے بچنے کےلئے انتہائی مضبوط ترین ذریعہ ہے، کیونکہ ہر کوئی اپنے محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ دل میں جتنی مضبوط محبت ہوگی اتنی ہی انسان اللہ کی اطاعت کرے گا اور نافرمانی سے بچے گا، اور جیسے جیسے محبت کمزور پڑتی جائے گی؛ گناہوں کی گرفت اتنی ہی مضبوط ہو جائے گی۔
خالی دعووں کی محبت اس وقت تک ان سہولیات سے عاری ہوتی ہے، جب تک وہ سچی محبت نہ کرے، چنانچہ جیسے ہی سچی محبت پیدا ہو تو انسان برائیوں سے دور رہتے ہوئے اطاعت گزاری کرتا ہے اور نا فرمانی سے حیا بھی کرتا ہے، جبکہ جھوٹی محبت سے انسان اپنے تئیں تو بڑا خوش باش نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں اس کے فوائد سے دور ہوتا ہے، اس لیے انسان کبھی اپنے دل میں اللہ کی محبت تو پاتا ہے لیکن یہ محبت اسے برائیوں سے نہیں روک پاتی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ: محبت میں سچائی نہیں، اللہ کی تعظیم اور احترام اس میں شامل نہیں، جبکہ محبت کے ساتھ ساتھ اللہ کی عظمت اور احترام مل جائے تو یہ اللہ کی بہت بڑی اور افضل ترین نعمت ہے ، وہ جسے چاہے یہ نعمت عنایت فرماتا ہے۔
جب محبت عاجزی ، انکساری سے عاری ہو تو وہ صرف زبانی جمع خرچ ہے؛ اس کی کوئی وقعت نہیں، یہی حال ہے ان محبت کے دعوے داروں کا جو محبت کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن اس کے مطابق اللہ کے احکامات کی پاسداری نہیں کرتے، اور نہ ہی اپنی زندگی میں اقوال و افعال اور عبادات کو رسول اللہ ﷺ کے فرامین ، اور سنت کے مطابق ڈھالتے ہیں۔
لہذا جو شخص زندگی میں رسول اللہ ﷺ کو اپنے لیے اسوہ نہ بنائے تو اس نے اللہ تعالی سے محبت ہی نہیں کی، اس طرح کے خالی دعوے تو یہود و نصاری کیا کرتے تھے، ان کی بات نقل کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ
المائدة – 18
یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں ۔
محبت کا دعوی کرنے میں تو ہر کوئی شیر ہوتا ہے تاہم اللہ تعالی نے ان کے تمام زبانی دعوں کی جڑ اکھیڑ کر رکھ دی ، اور سب پر حقیقت عیاں کر دی فرمایا:
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
آل عمران – 31
آپ کہہ دیں: کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے محبت اللہ تعالی کی محبت کے لوازمات میں سے ہے، چنانچہ جو شخص اللہ تعالی سے محبت کرتا ہے وہ لازماً رسول اللہ ﷺ کی سنت کا شیدائی ہوگا۔
حب ِ الہی کی علامت یہ ہے کہ ، اس کے نیک بندوں سے محبت کی جائے ، اولیاء اللہ سے تعلق قائم کیا جائے، بد کاروں سے دوری اختیار کی جائے، اللہ کے دشمنوں سے باہمی مل جل کر جہاد کیا جائے ، اللہ کے دین کی مدد کرنیوالوں کا ہاتھ بٹایا جائے، جس قدر دل میں حُبِ الہی کی جڑیں مضبوط ہونگی یہ کام بھی اسی قدر زیادہ ہونگے۔
اللہ کے بندوں! یہاں ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ کون سے اسباب ہیں جو اللہ کی محبت دل میں پیدا کرتے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:
اللہ کی لا تعداد و بے شمار انعام کردہ نعمتوں کو جانیں، فرمانِ باری تعالی ہے :
وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا
النحل – 18
اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گننا چاہو تو کبھی ان کا حساب نہ رکھ سکو گے۔
اسی طرح فرمایا:
وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ
القصص – 77
اور لوگوں سے ایسے ہی احسان کرو جیسے اللہ نے تمہارے ساتھ بھلائی کی ہے۔
ایک اور اہم سبب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کے اسما و صفات کے بارے میں علم حاصل کیا جائے؛ جسے اللہ کی معرفت حاصل ہو جائے وہی اس سے محبت کرتا ہے، اور جو محبت کرے وہ اس کی اطاعت بھی کرے گا، اور جو اس کی اطاعت کرے اللہ تعالی اس پر اپنی کرم نوازی فرمائے گا، اور جس پر کرم نوازی ہو گئی ؛ اللہ تعالی اسے اپنے قریب جگہ دے گا، اور جسے اللہ کے قریب جگہ مل جائے اس کے تو وارے نیارے ہوں گے۔
نیز اہم سبب یہ بھی ہے کہ اللہ کی آسمان و زمین پر بادشاہت اور ان میں موجود مخلوقات وغیرہ پر غور و فکر کیا جائے ۔
اور سب سے عظیم ترین سبب یہ ہے کہ : کثرت سے ذکرِ الہی میں مشغول رہے؛ کیونکہ محبوب کی یاد محبت کی علامت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
الرعد – 28
غور سے سنو! اللہ کی یاد سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کےلئے ہیں جس نے اپنے بندوں کی دعاؤں سے مدد فرمائی، میں اپنے رب کےلئے حمد و شکر بجا لاتا ہوں وہی عنایتیں کرنے والا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہی سب مخلوقات کا پروردگار ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ کی معجزوں کے ذریعے تائید کی گئی، اللہ تعالی آپ پر اور آپ کے صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
میں اپنے آپ سب سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
آل عمران – 102
ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو، اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں ۔
اللہ کے بندوں!
یہاں محبت کی چار اقسام میں فرق کرنا انتہائی ضروری ہے:
محبة الله” اللہ کی محبت: اللہ کے عذاب سے بچنے کےلئے یہ کافی نہیں، کیونکہ مشرک، صلیب کے پجاری، اور یہودی وغیرہ بھی اللہ کے ساتھ یہ والی محبت کرتے ہیں۔
2) “محبة ما يحب الله” اللہ کی پسندیدہ اشیا سے محبت: محبت کی یہ ہی وہ قسم ہے جس سے انسان کفر سے نکل کر اسلام میں داخل ہوتا، اللہ تعالی کے ہاں محبت کی اس قسم والے لوگ ہی مقرب ہیں۔
3) “الحب لله وفيه” اللہ کے لئے محبت کرنا: یہ دوسری قسم کے لوازمات میں سے ہے ، اسی لیے جب تک اللہ کےلئے محبت نہ کی جائے تو دوسری قسم کسی صورت میں مکمل نہیں ہو سکتی۔
4) “محبة مع الله”اللہ کے ساتھ ساتھ کسی اور سے بھی محبت کرنا: یہ شرکیہ محبت ہے، چنانچہ کسی نے اگر اللہ کے ساتھ کسی اور سے بھی محبت کی اور وہ گزشتہ دوسری اور تیسری سے تعلق نہیں رکھتی ؛ تو ایسے شخص نے غیر اللہ کو اللہ کا ہمسر بنایا ہے ، اور یہ ہی مشرکین کا اندازِ محبت تھا، جن کے بارے میں فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ
البقرة – 165
کچھ لوگ ایسے ہیں جو غیر اللہ کو اس کا شریک بناتے ہیں۔ وہ ان شریکوں کو یوں محبوب رکھتے ہیں۔ جیسے اللہ کو رکھنا چاہیے اور جو ایماندار ہیں وہ تو سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت رکھتے ہیں۔
رسولِ ہُدیٰ پر درود و سلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔
یا اللہ! محمد -ﷺ- پر انکی اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمت و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں، ، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے اور محمد -ﷺ- پر انکی اولاد اور ازواج مطہرات پر برکتیں نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔
یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی رضی اللہ عنہم سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، اور اپنے رحم و کرم، اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، اور کافروں کیساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! جو کوئی بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بری نیت رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، یا اللہ! جو کوئی بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بری نیت رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی و بربادی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعا!
یا اللہ! اپنے دین، قرآن ، سنت نبوی، اور اپنے مومن بندوں کو غلبہ عطا فرما۔
یا اللہ! تیرے دین کی حمایت کرنے والوں کی مدد فرما، اور اسلام سمیت مسلمانوں کو رسوا کرنے والوں کو ذلیل فرما دے، یا اللہ! اس امت کےلئے ایسا معاملہ فرما کہ تیری اطاعت کرنے والے معزز قرار پائیں اور تیری نا فرمانی کرنے والے ذلیل و رسوا ہوں، نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے، یا رب العالمین!
یا اللہ! پوری دنیا میں تمام مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں تمام مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں تمام مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! تیری دھرتی پر جہاں کہیں بھی مسلمان ہیں ان کی مدد فرما، یا رب العالمین !
یا اللہ! مسلمان بھوکے ہیں ان کے کھانے کا بند و بست فرما، پاؤں سے ننگے ہیں انہیں جوتے عطا فرما، پاؤں سے ننگے ہیں انہیں جوتے عطا فرما، تنگ دست ہیں انہیں غنی فرما دے، یا اللہ! ان کی مدد فرما، یا اللہ! انہیں اپنی خصوصی مدد عطا فرما، یا اللہ! مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے ان کا بدلہ لے، یا اللہ! مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے ان کا بدلہ لے، یا اللہ! مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے ان کا بدلہ لے۔
یا اللہ! کتاب کو نازل کرنے والے! بادلوں کو چلانے والے، لشکروں کو شکست دینے والے، تمام اتحادی افواج کو شکست سے دوچار فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو شکست سے دو چار فرما، اور مسلمانوں کو ان پر غلبہ عطا فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور جہنم سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر عمل اور قول کا سوال کرتے ہیں اور ہم جہنم یا اس کے قریب کرنے والے ہر عمل اور قول سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! جلدی یا دیر سے ملنے والی خیر چاہے ہمارے علم میں ہے یا نہیں ہر قسم کی بھلائی کا ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں، یا اللہ! جلدی یا دیر سے ملنے والے شر چاہے ہمارے علم میں ہے یا نہیں ہر قسم کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے نیکیاں کرنے ، گناہوں سے دوری اور مسکینوں سے محبت کا سوال کرتے ہیں، نیز ہمیں معاف کر دے اور ہم پر رحم فرما، یا اللہ! اگر توں اپنے بندوں کی آزمائش کرنا چاہے تو ہمیں بغیر آزمائے اپنی طرف بلا لینا۔
یا اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال ، عافیت کی تبدیلی، تیری اچانک پکڑ اور ہمہ قسم کی ناراضگیوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہم پر اپنی برکتیں، رحمتیں، فضل اور رزق کے دروازے کھول دے۔
یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کو غلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لئے ہدایت آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ظالموں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا، تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔
یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہوں کو دھو ڈال ، ہماری حجت ثابت کر دے، ہماری زبان کی حفاظت فرما، اور ہمارے سینے کی تمام بیماریاں ختم کر دے۔
یا اللہ! فوت شدگان پر رحم فرما، بیماروں کو شفا یا ب فرما، قیدیوں کو رہائی عطا فرما، ہمارے تمام معاملات کی باگ ڈور سنبھال ، اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! تمام معاملات کے نتائج ہمارے لیے اچھے فرما، اور ہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما، یا ارحم الراحمین! یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو حق بات کی توفیق دے اور تیری رہنمائی کے مطابق انہیں توفیق دے، اور ان کے تمام کام اپنی رضا کےلئے بنا لے ، یا رب العالمین! یا اللہ!ان کے دونوں نائبوں کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا ارحم الراحمین! یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو کتاب و سنت کے نفاذ کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
الاعراف – 23
ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
الحشر – 10
اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
البقرة – 201
ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل – 90
اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔
تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔