پہلا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں ، اسی نے تمہارے مابین اخلاق تقسیم کیا ہے جیسے کہ اس نے تمہارے مابین رزق تقسیم فرمایا ، پھر تمہاری درجہ بندی کے لئے اخلاق کو معیار قرار دیا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے اچھے اچھے نام، اعلی صفات اور بہترین خوبیاں ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے پیغام رسالت پہنچا دیا، امانت ادا کر دی اور امت کی خیر خواہی فرمانے کے ساتھ راہِ الہی میں کما حقہ جہاد کیا یہاں تک کہ آپ کو موت آ گئی، یا اللہ! ان پر، ان کی آل ، متقی صحابہ کرام اور آپ کے نقش قدم پر چلنے والے لوگوں پر روزِ قیامت تک رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! تقوی الہی اختیار کرو؛ کیونکہ تقوی دنیا میں عزت اور آخرت کے لئے زادِ راہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
الأنفال – 29
اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں قوت تفریق عطا کرے گا اور تمہاری خطائیں تم سے مٹا دے گا، نیز تمہیں بخش دے گا، اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔
مسلم اقوام!
انسانوں کی رنگت اور لغت الگ الگ ہونے کے باوجود وہ ایک ہی باپ کی اولاد ہیں ، تاہم ان کے اخلاق اور مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے اخلاق ہی اقدار کا معیار اور لوگوں کے ہاں کسوٹی کا درجہ رکھتا ہے۔ اخلاق ہی بلندیوں کیلیے زینہ ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان سچا ہے کہ: (بیشک تم میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے) بخاری
اللہ کے بندوں!
جس دین سے ہم نسبت رکھتے ہیں یہ دین سراپا اخلاقیات کا دین ہے، پھر ہمارے نبی ﷺ کو اخلاقیات کی تکمیل کیلیے مبعوث فرمایا گیا، مزید بر آں عالم اسلام کا دو تہائی حصہ اسلامی اخلاقیات سے ہی حلقہ بگوش اسلام ہوا ۔
ردائے اخلاق کا جھومر اور متفقہ طور پر اعلی ترین خوبی یہ ہے کہ انسان حیا سے متصف ہو۔
حیا بہت ہی اعلی خوبی ہے جو کہ انسان کو اچھے کام کرنے پر ابھارتی ہے، ہر قسم کی برائی سے روکتی ہے، حیا انسان کو تمام گناہوں اور برائیوں سے بچاتی ہے، نیز حیا داری انسان کے با اخلاق اور اعلی کردار کی علامت بھی ہے۔
حیا ، بے حیائی کا خاتمہ کر تی ہے، عزت کو تحفظ دیتی ہے، دل میں عفت پیدا کرتی ہے۔
حیا انسان کیلیے انتہائی نفیس دولت ہے، اس سے صرف اچھے لوگ ہی متصف ہوتے ہیں، اور حیا انبیائے کرام کا زیور ہے، ابو مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (گزشتہ نبوّتوں کی تعلیمات میں سے لوگوں نے یہ بھی پایا ہے کہ: جب حیا نہ ہو تو جو مرضی کرو) بخاری
حیا حقیقت میں اسلام کا شعار ہے؛ کیونکہ (ہر مذہب کا [ضابطہ ]اخلاق ہوتا ہے، اور اسلام کا [ضابطہ] اخلاق حیا ہے) ابن ماجہ، البانی نے اسے صحیح الجامع الصغیر میں صحیح کہا ہے۔
(ایمان کے ستر سے زائد درجے ہیں اور حیا بھی ایمان کا ایک درجہ ہے) صحیح مسلم
ایک بار رسول اللہ ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو حیا کی وجہ سے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہہ رہا تھا: “تم بہت زیادہ شرمیلے ہو” حتی کہ اس نے کہا : ” شرمیلے پن نے تمہیں نقصان پہنچایا ہے” تو اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اسے چھوڑ دو، بیشک حیا ایمان کا حصہ ہے، اور جس میں حیا نہ ہو اس کا ایمان ہی نہیں) صحیح بخاری
ایمان میں حیا شامل ہونے کا اصل راز یہ ہے کہ یہ دونوں یعنی ایمان اور حیا اچھے کام کی دعوت دیتے ہیں اور اچھے کاموں کے قریب کرتے ہیں، نیز برائی سے روکتے ہیں اور برائی سے دور بھی کرتے ہیں۔
حیا خیر کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، چنانچہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (حیا صرف خیر کا باعث ہی بنتی ہے) اسی طرح آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: (حیا سراپا خیر ہے۔) صحیح مسلم
اللہ کے بندوں!
رسول اللہ ﷺ میں گزشتہ اور پیوستہ سب لوگوں کی خوبیاں یکجا تھیں، آپ ﷺ کا اخلاق انتہائی اعلی ترین تھا، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کے بارے میں فرمایا:
وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ
القلم – 4
اور بیشک آپ انتہائی عظیم اخلاق کے مالک ہیں۔
تو “رسول اللہ ﷺ پردے کی اوٹ میں موجود کنواری لڑکی سے بھی زیادہ با حیا تھے، اور جس وقت آپ ﷺ کوئی ناگوار چیز دیکھتے تو حیا سے بھر پور چہرے پر بھی ناگواری عیاں ہو جاتی تھی”۔
حیا کی مختلف شکلیں اور درجے ہیں، ان میں سے اعلی ترین درجہ اللہ تعالی سے حیا کا ہے، یعنی آپ کو اس بات سے حیا آئے کہ اللہ تعالی آپ کو ایسی جگہ دیکھے جہاں جانے سے اس نے منع کیا ہے؛ کیونکہ وہی آپ کا خالق اور بہترین انداز سے پیدا کرنے والا ہے۔ اسی طرح آپ کو اس بات سے حیا آئے کہ اللہ تعالی کی طرف سے عنایت ہونے والی نعمتوں کو اسی کی نافرمانی میں استعمال کریں۔
نبی ﷺ نے اللہ تعالی سے حیا کرنے کی بھر پور ترغیب دلائی اور فرمایا: (اللہ تعالی سے کما حقُّہ حیا کرو) صحابہ کرام نے کہا: “اللہ کے رسول! الحمد للہ، ہم سب حیا کرتے ہیں” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (یہ مطلب نہیں! یہاں اللہ تعالی سے کما حقُّہ حیا مطلوب ہے، یعنی: آپ دماغ اور اس میں موجود معلومات کی حفاظت کریں، پیٹ اور اس میں جانے والی خوراک کا خیال رکھیں، پھر موت اور [اس کے بعد آنے والی] بوسیدگی کو یاد رکھیں، جو شخص آخرت کا طلب گار ہو وہ دنیاوی چکا چوند ترک کر دیتا ہے۔ جو شخص یہ کام کر لے تو وہ اللہ تعالی سے کما حقُّہ حیا کرتا ہے)، حاکم نے اسے مستدرک میں روایت کیا ہے اور صحیح قرار دیا نیز ذہبی نے ان کے حکم کو تسلیم کیا ہے۔
معزز ، محرر اور حفاظت کرنے والے فرشتوں سے حیا کریں؛ مبادا آپ کے خلاف گواہی نہ دے دیں:
عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ (17) مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ
ق – 17/18
دائیں اور بائیں فرشتے بیٹھے ہوئے ہیں [17] کوئی بھی لفظ وہ منہ سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس نگہبان تیار ہے۔
لوگوں سے حیا کریں کہ کہیں آپ اللہ تعالی کی طرف سے پڑا ہوا پردہ چاک کر دیں اور لوگوں کے سامنے اعلانیہ گناہ کریں: (میری ساری امت کو معاف کر دیا جائے گا سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والوں کے)
اپنے نفس اور اعضا سے ہی حیا کریں کیونکہ کل قیامت کے دن یہی تمہارے خلاف گواہی دیں گے:
يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (24) يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ
النور – 24/25
جس دن ان مجرموں کی اپنی زبانیں، ہاتھ اور پاؤں ان کے کرتوتوں سے متعلق ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ [24] اس دن اللہ تعالی انھیں وہ بدلہ دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی حق ہے، سچ کو سچ کر دکھانے والا ہے۔
اللہ تعالی میرے اور آپ کیلیے قرآن مجید کو بابرکت بنائے، ہمیں اپنے نبی کریم کی سنت اور آپ کی رہنمائی کے مطابق چلنے کی توفیق دے، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور عظمت و جلال والے اللہ سے اپنے اور سب مسلمانوں کیلیے تمام گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں، آپ بھی اسی سے بخشش طلب کرو، بیشک وہ بخشنے والا ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں وہ بہت با حیا اور پردہ پوشی کرنے والا ہے، اللہ تعالی نے ہی اخلاقیات کو اقدار میں شامل فرمایا، اور ان اخلاقیات کی تکمیل کیلیے بشیر ،نذیر اور سراج منیر یعنی ہمارے نبی محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانوں!
ہم اخلاقی پستی کے دور سے گزر رہے ہیں، خاتمے کی جانب بڑھتی ہوئی دنیا میں فتنے ٹھاٹھیں مار رہے ہیں، چہار سو شبہات اور شہوات کا راج ہے، کل تک جو چیز نیکی سمجھی جاتی تھی آج وہ کچھ لوگوں کے ہاں برائی بن چکی ہے اور جو چیز کل تک برائی تھی وہ آج معمول کی نیکی بن چکی ہے۔ اخلاقی محاذ آرائی جدید آلات اور ذرائع کے توسط سے گھروں میں گھس چکی ہے۔
چنانچہ جس ماحول میں ہمیں نشانے پر رکھا جا رہا ہے یہ بات ضروری ہو چکی ہے کہ ہم نو عمر جوانوں کی تربیت اسلامی عقیدے پر کریں، اللہ سے حیا کی ترغیب دیں، یہ دونوں چیزیں تحفظ کا بہترین ذریعہ ہیں، نیز تربیت اور تزکیہ سمیت اللہ تعالی کو اپنا نگران سمجھنے کیلیے کار گر ہیں۔
مسلم اقوام! اور قابل احترام مسلمان بہنوں!
حیا اگرچہ مردوں سے بھی مطلوب ہے؛ لیکن خواتین سے حیا کا مطالبہ مزید پر زور ہے، خاتون اپنے اخلاق کے ذریعے بھی اللہ کی عبادت کرتی ہے، اللہ سے ثواب کی امید کرتی ہے اور عذاب سے ڈرتی ہے، پھر حیا عورت کے دینی اور فطری اخلاق کا حصہ ہے، چنانچہ کھاتے ،پیتے اور پہنتے وقت حیا کا اہتمام کرتی ہے۔ اسی طرح چلتے پھرتے اور باہر نکلتے وقت حیا کا عملی نمونہ بن کر رہتی ہے۔
حیا حقیقت میں مسلمان خاتون کی اصل جمع پونجی ہے، حیا کے ذریعے ہی خاتون اپنی عزت آبرو کی حفاظت کرتی ہے۔
حیا خاتون کا امانت دار حجاب ہے، حیا ہی عورت کی خوبصورتی اور عورت کے پاکدامن ہونے کی مضبوط دلیل ہے، حیا ہر عورت کیلیے محفوظ ترین جگہ ہے۔
مسلم خواتین!
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ایک خاتون کے حیا کا ذکر موسی علیہ السلام کے واقعے میں کیا ہے کہ جب موسی علیہ السلام مدین کے کنویں پر پہنچے تو وہاں شعیب کی بیٹیوں نے حیا داری کی اعلی منظر کشی کی ، اس منظر کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ:
جس وقت موسی علیہ السلام نے ان دونوں کی عفت اور مردوں سے دوری دیکھی تو ان کے جانوروں کو خود ہی پانی پلایا دیا، اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ (23) فَسَقَى لَهُمَا
القصص – 23/24
پھر جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچے تو دیکھا کہ بہت سے لوگ (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے ہیں اور ان سے ہٹ کر ایک طرف دو عورتیں (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے کھڑی ہیں۔ موسیٰ نے ان سے پوچھا: تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ وہ کہنے لگیں : “ہم اس وقت پانی پلا نہیں سکتیں جب تک یہ چرواہے پانی پلا کر واپس نہ چلے جائیں اور ہمارا باپ بہت بوڑھا ہے ” ۔ چنانچہ موسیٰ نے ان عورتوں کی بکریوں کو پانی پلا دیا۔
ان دونوں کی عفت اور مردوں سے الگ تھلگ رہنا حیا کے باعث تھا، اور حیا ہی مسلمان خاتون کا شعار ہوتا ہے نیز حیا اچھی تربیت کی علامت ہے۔
انہی آیات میں اچھے کردار کے ایک اور منظر کی جانب بھی اشارہ موجود ہے کہ جب چال اور انداز گفتگو میں بھی حیا اور اطمینان چھلک رہا تھا تو اللہ تعالی نے واپس آنے والی لڑکی کی مدح سرائی فرمائی کہ وہ چلتے ہوئے حیا سے لبریز تھی چنانچہ وہ مٹکائی اور نہ ہی اٹھلائی، بے پردگی بھی نہ کی اور نہ ہی نرم لہجے میں بات کی:
فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا
القصص – 25
تو ان دونوں میں سے ایک شرم سے چلتی ہوئی ان کے پاس آئی اور کہنے لگی : “آپ نے ہماری بکریوں کو جو پانی پلایا ہے تو میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ آپ کو اس کا اس کا صلہ دے ” ۔
مسلمان بہن!
یہ دیکھیں: آپ کی ماں اور آپ کیلیے اسوہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا حیا کا انتہائی اعلی عملی نمونہ پیش کرتی ہیں کہ زندہ اور فوت شدہ سب سے حیا کرتے ہوئے پردہ کرتے ہوئے کہتی ہیں: “جس گھر میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر مدفون ہیں میں وہاں یہ کہتے ہوئے بغیر حجاب کے داخل ہو جاتی تھی کہ یہاں میرے خاوند اور والد ہی تو مدفون ہیں، لیکن جب عمر وہاں دفن ہوئے تو اللہ کی قسم! میں جب بھی وہاں گئی تو حجاب کے ساتھ گئی کہ مجھے عمر سے حیا آتی ہے۔”
اسی طرح جب قافلے گزرتے اور آپ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام کی حالت میں ہوتیں تو اپنی اوڑھنی اپنے چہرے پر ڈال لیتی تھیں۔
آپ رضی اللہ عنہا صحیح حدیث کے مطابق مردوں سے الگ تھلگ طواف کرتی تھیں، مردوں کی بھیڑ سے دور رہتی تھیں۔
جب آپ کی لونڈی نے کہا: میں نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے اور دو یا تین بار حجر اسود کا بوسہ بھی لیا ، تو سیدہ عائشہ کہنے لگیں: “اللہ تمہیں اس کا اجر نہ دے! تم مردوں سے دھکم پیل ہوتی ہو! تم تکبیر کہہ کر چلتی کیوں نہیں بنیں؟”
مسلمان خاتون!
عورت کا حجاب اور حشمت دونوں ہی عورت کے دین اور اخلاق کا لازمی حصہ ہیں، چنانچہ اگر کوئی عورت اپنی فطرت سے باغی ہو کر دین سے بیزار ہو جائے، چادر اتار دے ، ستر پوشی چاک کر دے، اپنے مخصوص اعضا کھلے رکھے تو اس کا دین بھی برباد اور اس میں امانت داری بھی ختم ہو جاتی ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جہنمیوں کی دو قسمیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھیں!)ان میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: (تن پر لباس کے باوجود برہنہ خواتین جو کہ دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور خود مائل ہونے والی ہیں، ان کے سر بختی اونٹ کی ڈھلکی ہوئی کوہان کی طرح ہیں، وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی بلکہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائیں گی، حالانکہ کی جنت کی خوشبو انتہائی دوری سے محسوس کی جا سکتی ہے)
مسلمانوں!
(خبردار! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار اور ہر ذمہ دار سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا، چنانچہ مرد اپنے اہل خانہ کا ذمہ دار اور ا س سے اِن کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر اور بچوں کی ذمہ دار ہے، عورت سے اِن کے بارے میں پوچھا جائے گا، خبردار تم میں سے ہر ایک ذمہ دار اور ہر ذمہ دار سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا) مسلم
یا اللہ! ہم تجھ سے اتنی حیا مانگتے ہیں جو ہمیں تیری نافرمانی سے روک دے، یا اللہ! ہمیں اچھے اخلاق کی توفیق دے، تیرے سوا اچھے اخلاق کی توفیق دینے والا کوئی نہیں۔ نیز ہمیں برے اخلاق سے پھیر دے ان سے پھیرنے والا تیرے سوا کوئی نہیں!
یا اللہ! ہم تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت اور تونگری کا سوال کرتے ہیں۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل و رسوا فرما اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما۔
یا اللہ! اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو پر امن اور مستحکم بنا دے۔
یا اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن نصیب فرما، یا اللہ! ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما، یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، نیکی اور تقوی کے کاموں کیلیے ان کی رہنمائی فرما۔
یا اللہ! انہیں اور ان کے ولی عہد کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہترین اقدامات کرنے کی توفیق عطا فرما، جن میں ملک و قوم کی خیر و بھلائی ہو ، یا رب العالمین! یا اللہ! حجاج کرام کا حج قبول فرما، یا اللہ! حجاج کرام کا حج قبول فرما، یا اللہ! ان کی خصوصی حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں مکمل تحفظ عطا فرما، یا اللہ! انہیں ان کے گھروں تک عظیم و اجر و ثواب کے ساتھ صحیح سلامت واپس پہنچا، یا اللہ! ان کے حج کو خالص اپنی رضا کیلیے بنا لے، یا اللہ! ان کے حج کو تیری بارگاہ میں حصولِ جنت کا موجب بنا، یا رب العالمین!
اللہ کے بندوں!
اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الأحزاب – 56
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔
اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اَللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.
یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین، جو کہ یکسو خلیفہ تھے یعنی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سمیت تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، تابعین عظام اور روزِ قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والے لوگوں سے راضی ہو جا، نیز ان کے ساتھ ساتھ اپنے رحم، کرم اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا۔ یا ارحم الراحمین!