حقیقی لذت ! عبادت کی لذت

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، تمام تعریفات اللہ کے لئے ہیں، جس نے فرمایا: ابن آدم کا ہر عمل اسی کے لئے ہے، سوائے  روزے کے بیشک روزہ میرے لئے ہے، اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، اسی کی حمد بیان کرتا ہوں، اور شکر بجا لاتا ہوں، اسی نے فرمایا:

وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ

آل عمران – 195

اور اللہ تعالی کے ہاں بہترین  اجر[ملے گا]۔

  اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے، جس نے فرمایا:

وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَحِيمًا

النساء – 110

 اور جو شخص گناہ یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے ؛ پھر اللہ تعالی سے بخشش طلب کرے تو وہ اللہ تعالی کو بخشنے والا، اور نہایت رحم کرنے والا پائے گا۔

اور میں یہ بھی  گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول  ہیں، آپﷺ کا فرمان ہے: (روزہ ڈھال ہے)،اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل پر، اور صحابہ کرام پر رحمتیں  نازل فرمائے ۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں ، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

البقرۃ – 183

 اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جیسے پہلے لوگوں پر کئے گئے تھے، تا کہ تم متقی بن جاؤ۔

انسان لذیذ چیزوں سے لذت  حاصل کرتا ہے، اور لطف حاصل کرنے والی اشیاء سے لطف اندوز ہوتا ہے؛ لیکن یہ  تمام لذتیں، عارضی اور فانی ہیں؛ بلکہ کچھ  تو  پشیمانی میں بدل جاتی ہیں۔

حقیقی لذت   روحانی ، قلبی، اور عبادت کی لذت ہے، جو کہ ایک مسلمان کو سعادت کے اعلی مقام تک پہنچا دیتی ہے۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا: (اُس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا  جو  اللہ کے رب، اسلام کے دین، اور محمد ﷺکے نبی و رسول ہونے پر راضی ہوگیا)، یہاں آپ ﷺنے بتلایا: کہ ایمان کا  ذائقہ ہے، اور دل اس ذائقے کو چکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جیسے زبان کھانے پینے کی اشیاء کو چکھ سکتی ہے۔

اسی طرح آپ ﷺنے فرمایا:  (تین چیزیں جس شخص میں پائی جائیں؛ وہ ایمان کی مٹھاس پا لیتا ہے)، [یعنی] ایمان کی مٹھاس اور لذت ہے؛ جس کی وجہ سے دل خوش، نفس مطمئن، اور روح مانوس ہوتی ہے۔

چاہے انسان کے پاس ساری مخلوقات  کی تفریحی اشیاء ہوں لیکن  اسی لذت کی بنا پر انسان حقیقی طور پر فائدہ ، اور سرمدی خوشی حاصل کرتا ہے؛ اسی لذت میں دلی اصلاح ، فلاح، خوشی، سرور، اطمینان، اور سکون  [مضمر]ہے؛ کیونکہ اسی میں بندے کو اللہ کی ضرورت ہوتی  ہے، اس لئے کہ وہی اسکا معبود و محبوب ہے۔

اللہ کی عبادت کے علاوہ دنیاوی ہر لذیذ چیز کی لذت صرف ایک بار ہوتی ہے، اس کے بعد زائل ہوجاتی ہے، کیونکہ عبادت الہی کی لذت تین مرتبہ حاصل ہوتی ہے، 1) عبادت کے دوران، 2) بعد میں جب کبھی آپ کو اپنی عبادت یاد آئے، 3) جس وقت آپ کو اس کا ثواب دیا جائے گا۔

جس وقت دل عبادت الہی، اور اخلاص کا مزہ چکھ لے تو دل کو کسی بھی چیز کی مٹھاس اور لذت اچھی ہی نہیں لگتی ۔

حُب الہی، اور محبوبِ الہی اشیاء کے ذریعے  قربِ الہی حاصل کرنے  پر دلوں کو کامل لذت، اور لا متناہی خوشی  حاصل ہوتی ہے۔

سلف صالحین میں سے کسی نے عبادت، اطاعت، اور مناجات  الہی  سے پر سرور ہو کر کہا: “میری ایسی کیفیت تھی کہ جس کے متعلق میں کہتا ہوں: اگر جنت والے بھی اسی کیفیت میں ہوں تو بلاشبہ وہ اچھی زندگی میں ہوں گے”۔

اور کسی نے ایمان کی وجہ سے دلی سرور اور  خوشی بیان کرتے ہوئے کہا: “دل پر کچھ ایسے لمحات بھی گزرتے ہیں، جن میں دل جھوم اٹھتا ہے، اور دنیا میں نعمتِ ایمان و معرفت جیسی اخروی کوئی نعمت نہیں ہے”۔

آپ ﷺنفسانی راحت، اور آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں پاتے تھے، آپ نے فرمایا: (میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے)۔

قیام اللیل کی بھی اپنی ایک لذت ہے؛ جس کی مٹھاس رات کو قیام کرنے والے  لوگ بیان کرتے ہیں؛ چنانچہ سلف میں سے کسی نے کہا: “رات کے آنے پر میں بہت خوش ہوتا ہوں؛ کیونکہ میری روح  رات کو محبوب سے مناجات ، اور محبوب کے سامنے عاجزی و انکساری کے ساتھ لذت  حاصل کرتی ہے، اور آنکھیں ٹھنڈک حاصل کرتی ہیں، اور فجر طلوع ہونے پر  غمگین ہو جاتا ہوں، کیونکہ دن کے وقت اُس سے دور ہو جاتا ہوں”۔

تلاوتِ قرآن کی بھی لذت ، چاشنی، اور جمال وجلال ہے؛  کیونکہ کلامِ الہی زبان سے پڑھی جائے تو کانوں  میں آواز پڑنے سے نفس میں خشوع ، دلوں میں نرمی، اور اعضاء خشیت و خشوع، محبت و پیار کے باعث  پر سکون  ہو جا تے ہیں۔

[کیونکہ] محبت کرنے والوں کے ہاں محبوب کے ساتھ باتیں  کرنے سے بڑھ کر کوئی چاشنی والا کام نہیں ہے؛ محبوب کے ساتھ گفتگو  ان کے دلوں  کی بہار، مطلوب و مقصود ہے، محبوب سے گفتگو کرتے ہوئے دل کیسے بھر سکتا ہے!! کہ یہی تو ان کا اصل ہدف ہے، چنانچہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “اگر تمہارے دل صاف ہوں تو کلام اللہ سے کبھی تمہارا دل نہ بھرے”۔

راہِ الہی میں خرچ کرنے کی لذت ابو دحداح  رضی اللہ عنہ نے پائی؛ جس وقت انہوں نے اپنا قیمتی ترین اثاثہ ، اللہ کی راہ میں دے دیا، اور پھر اپنی بیوی کی طرف جا کر کہا: “ام دحداح! اس باغ سے باہر آجاؤ، میں نے اس باغ کو جنت کی ایک کھجور کے بدلے میں بیچ دیا ہے” تو ام دحداح بھی یہ کہتے ہوئے کہ : “یہ تو بڑے منافع کا سودا ہے!!”  اپنے باغ سے  خوشی خوشی باہر آگئی ؛ اور اللہ تعالی نے اسے وافر اجر سے نواز ا، راہِ الہی میں خرچ کرنے کی لذت، اور ایمان کی مٹھاس  دل کو اپنے قیمتی اثاثے دیتے ہوئے  بھی خوشی و سرور  سے جھومنے پر مجبور کردیتی ہے۔

جبکہ اہل علم اور حفاظتِ دین کی ذمہ داری نبھانے والے افراد جو کہ تعلیم و تعلّم میں مصروف رہتے ہیں؛ یہ لوگ جب علم حاصل کرنے کی لذت پاتے ہیں تو راتوں کو شب بیداری ، اور سخت حالات کو بھی موم بنا لیتے ہیں، بلکہ کچھ سلف صالحین صرف ایک کتاب کی تصنیف میں چالیس سال صرف کردیتے ہیں۔

علم، اور لذتِ علم کے ذریعے ہی متعلّم فضل و کمال کے ارتقائی مراحل عبور کرتا ہے، اگر اکثر لوگوں کو علم کی مٹھاس و لذت، اور قدر و منزلت کا علم  ہوتا تو سب اسکے لئے تلواریں سونت  لیتے، لیکن اس لذت اور مٹھاس کو تکالیف کے حصار میں بند کردیا گیا ہے، اور لوگوں کو جہالت کی دیواروں نے اس لذت سے دور رکھا ہوا ہے؛ تا کہ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس عظیم فضل کے لئے مختص کرلے۔

لذتِ ذکر بھی بے مثال ہے؛ [چنانچہ ذکر کرنے والوں کے تو] وارے نیارے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مجالس ذکر کو “ریاض الجنہ” کہا گیا ہے، لذت حاصل کرنے والوں کو ذکر الہی سے بڑھ کر کوئی لذیذ چیز نہیں  ملی، کیونکہ اس سے سستی اور عظیم لذت والی عبادت کوئی نہیں ہے، اسی طرح دل کو خوش و خرم رکھنے کے لئے بھی اس سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ

المطففین – 22

 بے شک نیک لوگ یقینا بڑی نعمت میں ہوں گے۔

یہ نعمت  صرف قیامت کے دن کے ساتھ مختص نہیں ہے، بلکہ  یہ لوگ اپنے تینوں ادوار  کے دوران نعمتوں میں رہیں گے، دنیا کی کونسی ایسی نعمت ہے جو نیک و صاف دلی، اور معرفتِ الہی و حب الہی سے بڑھ کر ہو۔

بلاشبہ یہ بات بھی سزا، محرومیت، درد، اور خسارے میں شامل ہے کہ انسان کو اطاعت و عبادت کی لذت سے دور کر دیا جائے۔

ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “بنی اسرائیل کے کسی عالم  نے کہا: “یا رب! میں تیری کتنی نافرمانیاں کرتا ہوں، لیکن پھر بھی تو مجھے سزا نہیں دیتا؟!”تو اُسے کہا گیا: “میں تمہارے انجانے میں بہت سزائیں دیتا ہوں؛  کیا میں نے تمہیں  اپنی مناجات کی مٹھاس سے محروم نہیں کیا؟!!”

سلف میں سے کسی سے پوچھا گیا:  “کیا نافرمان کو بھی اطاعت کی لذت ملتی ہے؟” انہوں نے جواب دیا: “معصیت کا ارادہ کرنے والے کو بھی لذت نہیں ملتی”۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اگر اپنے دل میں عبادت کی مٹھاس اور خوشی نہ پاؤ تو  دل کو قصور وار ٹھہراؤ، کیونکہ اللہ تعالی قدر دان ہے”۔ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “شیخ الاسلام کی مراد یہ ہے کہ: اللہ تعالی عبادت کرنے والے کو دنیا میں دلی مٹھاس ، شرح صدر، اور آنکھوں کی ٹھنڈک کی صورت میں ضرور بدلہ دیتا ہے، اگر ایسا نہ ہو تو اسکا عمل خالص نہیں ہے”۔

دائمی ، ابدی، اور سرمدی لذت  وہ ہے جس میں کسی قسم کی کدورت نہ ہو، جس کے بعد تکلیف نہ آئے، جسے کوئی دکھ ، درد کم نہ کر سکے، اور ایسی لذت اخروی نعمتوں، اور اخروی ٹھکانے کی لذت ہے؛ یہی افضل اور عظیم  نعمت ہے، اسی لئے فرمایا:

وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ

یوسف – 57

اور یقینا آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے کہیں بہتر ہے جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔

اور فرمایا:

وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ

النحل – 30

اور آخرت کا گھر تو کہیں بہتر ہے اور یقینا وہ ڈرنے والوں کا اچھا گھر ہے۔

سب سے بڑی لذت، اور دائمی نعمت، رب کریم کے چہرے کو دیکھنے  کی نعمت ہے، اسی لئے آپ ﷺدعا فرمایا کرتے تھے:

وَاَسْأَلُكَ لَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ وَالشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ فِيْ غَيْرِ ضَرَّآءَ مُضِرَّةٍ وَلَا فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ

اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کے لئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے صاحب عظمت اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی  بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، روزوں اور دین کی نعمت نوازنے پر میں اسی  کی تعریف اور شکر گزاری  بجا لاتا ہوں، ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، وہی صبر کرنے والوں کا ولی ہے، اور  میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد  اللہ کے بندے اور اس کے  رسول ہیں، آپ کو ہدایت اور واضح نور کے ساتھ مبعوث کیا گیا، اللہ تعالی آپ پر آپ کی آل ، تمام صحابہ کرام پر رحمت نازل فرمائے۔

حمدو صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے: 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ 

آل عمران – 102

اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں ہی آئے۔

رمضان میں  ایسی نعمتیں ، اور لذتیں ہیں جنکا کوئی ثانی اور مد مقابل نہیں ، جو دلوں کو ایمانی مٹھاس سے بھر دیتی ہیں، اور دل اطاعت  سے سرشار ہوکر  جھومنے لگتا ہے، رمضان تدبّرِ قرآن کا مہینہ ہے، قیام وصیام کی روحانی فضا کا مہینہ ہے، مناجات الہی اور خلوت  کی بہار ہے ۔

رمضان میں نرم،  آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں، اور اعضاء پر سکون ہوتے ہیں، رمضان قلب و جوارح کی دنیاوی مصروفیات ، اور زندگی کے لئے دوڑ   دھوپ کی جانب سے چھینی گئی صحت واپس لوٹا دیتا ہے،  اور نفس کی ہر قسم کی آلائش و برائیوں سے  صفائی کر دیتا ہے۔

جب نبی ﷺنے وِصال سے روکا تو آپ سے کہا گیا: آپ  تو وِصال کرتے ہیں! آپ نے فرمایا: (تم میں سے میرے جیسا کون ہے؟ مجھے رات کے وقت میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے)، ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اس سے مراد وہ غذا ہے جو اللہ تعالی آپ کو معرفت  کے ذریعے دیتا ہے، مناجاتِ الہی کی لذت کے باعث  جو دل پر فیضان کی صورت میں ہوتی ہے، قربِ الہی کی وجہ سے جو آنکھوں کو ٹھنڈک کی شکل میں ملتی ہے، نعمتِ حُبِّ الہی ، اللہ کی جانب دلی جھکاؤ، اور ان تمام اشیاء کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی کیفیت  جو حقیقت میں دلوں کی غذا ہے ،جو روحانی  نعمت، آنکھوں کی ٹھنڈک، نفسانی ، روحانی، اور قلبی خوشی کے انداز میں ملتی ہے، جو کہ عام غذاؤں کے مقابلے میں زیادہ مفید اور اچھی غذا ہے، بسا اوقات اس روحانی غذا کی وجہ سے جسم کو مدتوں تک جسمانی غذا کی ضرورت نہیں رہتی”۔

اللہ کے بندوں!

رسولِ ہُدیٰ پر درود وسلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتابِ عزیز میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

 اللہ اور اس کے فرشتے  نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود  و  سلام بھیجا کرو۔

یا اللہ! محمد  پر آپ کی اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمت  و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں، اور محمد  ﷺپر آپ کی اولاد اور ازواج مطہرات پر  برکتیں نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔

یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، علی ، اور تمام صحابہ کرام و آل سے راضی ہوجا، یا اللہ! اپنے رحم و کرم اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، اور کافروں کے ساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! یا رب العالمین! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ! ہر جگہ پر مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! جو دین کی مدد کرے تو اسکی مدد فرما، اور جو اسلام و مسلمانوں کو ذلیل کرنے کی کوشش کرے، ان سب کو رسوا فرما۔

یا اللہ! اپنے دین، قرآن، سنت نبوی، اور اپنے مؤمن بندوں کو غالب فرما ، یا اللہ! اپنے دین، قرآن، سنت نبوی، اور اپنے مؤمن بندوں کو غالب فرما۔

یا اللہ! مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ! انہیں متحد فرما دے،  یا اللہ انکے نشانے درست فرما دے، یا اللہ! انہیں متحد فرما دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور ہمیں ہر ایسے قول و فعل کی توفیق دے جو ہمیں جنت کے قریب کر دے، یا اللہ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کرے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے انتہا تک ، اول سے آخر تک ، ہر قسم کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں، اور جنت میں بلند درجات کے سوالی ہیں، یا رب العالمین!

یا اللہ ! ہم تجھ سے  فوری اور متأخر ہر بھلائی کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! اچھی چیز جانتے ہیں یا نہیں جانتے سب عطا فرما دے،  یا اللہ ! ہم تیری فوری اور متأخر ہر شر سے پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ! شر جانتے ہیں یا نہیں جانتے سب سے پناہ عطا فرما۔

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لئے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کوغلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لئے ہدایت  آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ظالموں کے خلاف ہماری مدد فرما۔

یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا،  تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔

یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہوں کو دھو ڈال ، ہماری حجت ثابت کر دے، ہماری زبان کی حفاظت فرما،  اور ہمارے سینے کی تمام بیماریاں  ختم کر دے۔

یا اللہ! فوت شدگان پر رحم فرما، اور تمام مریضوں کو شفا یاب فرما، ہمارے دکھ درد، اور تکالیف کو دھو ڈال، قیدیوں کو رہائی عطا فرما، ہمارے تمام معاملات آسان فرما، اور ہمیں کامیاب فرما، یا رب العالمین۔

یا اللہ! ہمارے کاروبار ، زندگی، اور اہل خانہ میں برکت عطا فرما، اور ہم جہاں بھی ہمیں برکت والا بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، اور اس کو اپنی راہنمائی کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کے لئے بنا لے، یا اللہ ! ان کے نائب کو بھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے ۔ یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو نفاذِ شریعت کو توفیق عطا فرما۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ 

الاعراف – 23

ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف  نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

  رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

الحشر – 10

اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے,  اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔

 رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ 

البقرۃ – 201

ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ 

النحل – 90

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔

تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی چیز ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ 

مسجد نبوی کے معروف خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ داکٹر عبدالباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ کا ہے ، جن کے علمی خطبات ایک شہرہ رکھتے ہیں۔