پہلا خطبہ :
ہر طرح کی تعریف و توصیف اللہ عزوجل کے لئے ہے جس نے مخلوقات میں سب سے اعلی و اکرم ہستی کے ذریعے ہمیں عزت بخشی۔ اور میں گواہی دیتا ہوں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ، جس کا فضل و کرم بے پایا ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے آقا ﷺ اس کے بندے ،رسول اور اپنے رب کے داعی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ﴿١١٩﴾ مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ
التوبة – 119/120
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گردوپیش ہیں ان کو یہ زیبا نہ تھا کہ رسول اللہ کو چھوڑ کر پیچھے ره جائیں اور نہ یہ کہ اپنی جان کو ان کی جان سے عزیز سمجھیں۔
حمد و ثنا کے بعد!
اے ایمان والو! کوئی بھی انسان چاہے علم و فضل او رعقل و فہم میں کتنا بھی اعلیٰ ہو رسول اللہ ﷺ کے محاسن ، کمالات اور حسن و جمال کا احاطہ نہیں کرسکتا ہے بلکہ سارے لوگ مل کر بھی نبی اکرم ﷺ کے اوصاف بیان نہیں کرسکتے۔
خود اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو پڑھانے کی ذمہ داری لی ، چنانچہ فرمایا:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
العلق – 1
پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔
اور جو کچھ بھی پڑھایا اُسے آپ ﷺ کے حافظے میں محفوظ کردیا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰ
الاعلیٰ – 6
ہم تجھے پڑھائیں گے پھر تو نہ بھولے گا۔
اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو سکھانے کی ذمہ داری بھی لی ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ ﴿١٢﴾ يُنَبَّأُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ﴿١٣﴾ بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ﴿١٤﴾ وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ ﴿١٥﴾ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ
القیامة – 12/19
آج تو تیرے پروردگار کی طرف ہی قرار گاه ہے۔ آج انسان کو اس کے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے سے آگاه کیا جائے گا۔ بلکہ انسان خود اپنے اوپر آپ حجت ہے۔ اگر چہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔ (اے نبی) آپ قرآن کو جلدی (یاد کرنے) کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ اس کا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔ ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔ پھر اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمہ ہے۔
اور دوسری جگہ فرمایا:
وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا
النساء – 113
اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب وحکمت اتاری ہے اور تجھے وه سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادِ ہے:
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ
الکھف – 110
آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں۔
اس آیتِ کریمہ میں جس مقام کا ذکر ہے وہ اِن چنندہ رسولوں کی قدر اور حیثیت پر دلالت کرتا ہے، جنہیں ان کے رب نے وحی الٰہی کو قبول کرپانے کے لئے تیار کیا ، اس کے قابل بنایا ، اور اُن کے جسم و روح ، عقل و فہم ، آنکھ اور کان بلکہ سارے اعضا و جوارح میں طاقت و قوت عطا کی۔
اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اپنے نبی اکرم محمد ﷺ کی اتباع و پیروی کا حکم دیا ہے۔ اور اُن کی اتباع کو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ محبت کی نشانی قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾ قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ
آل عمران – 31/32
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناه معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے۔ کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منھ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔
اس اطاعت و اتباع کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اقوال ،افعال اور مختلف حالات میں ان کے طرزِ معاشرت کی پیروی کی جائے اور اُن کے اعلیٰ اخلاق و صفات کی معرفت حاصل کی جائے تاکہ اُن کی اتباع و پیروی کی جاسکے ۔ نہ اُن کے اوامر کی مختلف کی جائے اور نہ بدعت کا ارتکاب کیا جائے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نبی اکرم ﷺ سے محبت کا یہ حال تھا کہ دیگر چیزوں کو تو چھوڑیے وہ ان کی عادات کو بھی اپنی زندگی میں اُتارتے تھے ۔ آپ ﷺ پر بے شمار درود و سلام نازل ہو۔
اپنی جان ، باپ ،بیٹے ، بیوی ،کنبہ ،قبیلہ، تجارت اور مال ودولت سے بڑھ کر نبی اکرم ﷺ سے محبت کرنا واجب ہے۔ بلاشبہ محبت کے اسبابِ حسن و جمال ،کمال و خوبی اور عطا و بخشش ہیں اور یہ عناصر اوصافِ کمال اور محاسنِ اخلاق کے پیکر میں بدرجہ اتم موجود ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے عظیم اور عمدہ شکل و صورت سے مزین کیا اور نوع طہارت و پاکیزگی اور حسنِ کمال کے پھولوں سے سجادیا ، اُن پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و سلامتی نازل ہو۔
علم و معرفت محبت کا سبب ہے، اس لئے محبوب کی خوبیوں سے جتنی زیادہ معرفت ہوگی اُتنی ہی زیادہ اُس سے محبت ہوگی۔آدمی جب آپ ﷺ کے عظیم اوصاف اور عمدہ اخلاق سے مطلع ہوتا ہے تو اس کے سامنے ایک خوبصورت تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے، جو دل و دماغ میں پیوست ہوجاتی ہے گویا وہ اپنے محبوب ﷺ کو دیکھ رہا ہوتاہے۔
آپ ﷺ کے اخلاق اور اوصاف و صفات کے ذکر سے دلوں کو زندگی ملتی ہے ، روح اور عقل جھوم اُٹھتی ہے اور شوق و محبت جوش مارنے لگتی ہے۔ آپ ﷺ نے ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: روزے رکھا کرو کیونکہ فضل و شرف میں کوئی عمل اُس کے برابر نہیں ہے۔ روزہ انسان کو جہنم سے بچانے والی ایک ڈھال ہے۔ جس طرح تمہارے پاس دشمنوں سے بچنے کے لئے ڈھال ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی اکرم ﷺ کو سب سے خوبصورت شکل اور سب سے کامل خلقت میں پیدا کیا تھا، آپ کے مدح سراؤں کا اتفاق ہے کہ آپ ﷺ جیسا نہ کوئی آیا اور نہ کوئی آئے گا۔ آپ ﷺ اخلاق اور خلقت دونوں کے اعتبار سے سب سے زیادہ خوب صورت تھے، آپ ﷺ سے حسین نہ کوئی آپ ﷺ سے پہلے آیا اور نہ بعد میں آیا بلکہ آپ ﷺ جیسا بھی نہیں آیا۔ آپ ﷺ سب سے زیادہ کشادہ دل تھے۔ سب سے نرم خو تھے اور سب سے زیادہ اچھی صحبت و معاشرت والے تھے۔ آپ ﷺ پر اچانک جس کی نظر پڑی وہ ڈر گیا اور جس نے آپ ﷺ نے میل جو ل رکھا وہ آپ ﷺ سے محبت کرنے لگا۔ جب آپ خاموش رہتے ، تو آپ ﷺ پر وقار رقصاں ہوتا اور جب گفتگو فرماتے تو حسن و جمال چھلکتا۔ آپ کی زبان بڑی میٹھی تھی۔ آپ ﷺ کی بات جچی تلی ہوتی تھی ، نہ زیادہ نہ کم ، گویا آپ ﷺ کی گفتگو پروئی ہوئی موتیاں ہیں جو ایک ایک کر کے گر رہی ہیں۔ دور سے بھی آپ بڑے حسین و جمیل لگتے اور قریب سے بھی ۔ نہ اتنے لمبے تھے کہ آنکھوں کو بدنما لگے اور نہ اتنے پست قد تھے کہ آنکھوں کو حقیر لگے ، گویا دو ٹہنیوں کے درمیان ایک ٹہنی ہو۔ آپ ﷺ کا چہرہ سب سے زیادہ روشن تھا۔ آپ ﷺ کا قد و قامت سب سے خوب صورت تھا ، جب آپ ﷺ گفتگو کرتے تو آپ کی گفتگو سنی جاتی ، جب حکم دیتے تو فوراً اس کی بجا آوری ہوتی، آپ بڑے معزز ومکرم تھے، آپ نہ ترش رو تھے اور نہ آپ کی بات جھٹلائی جاتی ، آپ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و سلامتی نازل ہو۔
آپ ﷺ کا چہرہ پر نور اور روشن تھا اور اس پر نور اور جمال اس قدر برستا تھا کہ اگر ان پر نگاہ پرجاتی تو گویا آفتاب طلوع ہونے کا گمان ہوتاتھا، بڑی عظمت اور شان و شوکت کے مالک تھے، اورچودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتے تھے۔ پس آپ ﷺ کا یہ پر نور حسین و جمیل ، معانی اور اسرار سے بھرپور چہرہ اس بات کی قطعی دلیل اور روشن ثبوت ہے کہ آپ ﷺ سچے اور برحق رسول ﷺ ہیں۔ یہاں تک جب آپ مدینہ تشریف لائے اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرہ انور پر غور کیا اور آپ ﷺ کے خدوخال کا معائنہ کیا تو پکار اُٹھے کہ (میں نے جانا کہ یہ چہر کسی جھوٹے کا نہیں ہوسکتا)۔
وہ حیض کے غبار سے پاک تھے یعنی اُن کی ماں حالتِ حمل میں حیض سے پاک تھیں۔ اسی طرح جب وہ اپنی والدہ کا دودھ پی رہے تھے تو غیلہ کے فساد سے پاک تھے۔ جب آپ اُن کے چہرے کے خدوخال کو دیکھیں گے۔ تو آپ چمکتا دمکتا چہرہ دیکھیں گے۔ آپ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت بدن تھے ، آپ ﷺ کا لباس ، گھر اور مجلس سب سے زیادہ صاف ستھری ہوتی تھیں۔ آپ ﷺ نہایت سفید اور خوبصورت تھے ، آپ ﷺ کی گردن چمکتے چاندی میں ایک بہترین گڑیا کی طرح تھی ، گویا آپ ﷺ کے منہ سے نور نکل رہا ہو، آپ ﷺ جب بھی گھر میں داخل ہوتے یا نکلتے تو مسواک کرتے تھے۔
آپ ﷺ خوبصورت ہونے کے باوجود بھی خوبصورتی کا خیال رکھتے تھے ، چنانچہ آپ ﷺ کے پاس ایک خاص جوڑا تھا جو آپ عیدین اور جمہ کے دنوں میں پہنا کرتے تھے، آپ ﷺ ایک دن گھر سے نکلے تو پیالے کے پانی کے عکس میں اپنے بال اور شکل و صورت کو دیکھا اور فرمایا: “بے شک اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور جب کوئی اپنے بھائیوں سے ملاقات کے لئے نکلے تو اپنی وضع قطع دُرست کرلے”۔
جب کوئی وفد آپ ﷺ سے ملاقات کے لئے آتا تو آپ ﷺ سب سے خوبصورت کپڑا زیبِ تن کرتے اور صحابہ کرام کو بھی اِس کا حکم دیتے اور فرماتے: “میانہ روی ، وقار و تمکنت اور خوبصورتی ہیئت و صورتِ نبوت کے پچیس اجزاء میں سے ایک جز ہے”۔
اور فرماتے تھے : “بے شک اللہ عزوجل جب بندے کو نعمت سے نوازتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر اُس بندے پر دیکھئے اور بدحالی اور خستہ حالی کے منظر کو ناپسند کرتا ہے اور متکبر سائل کو ناپسند کرتاہے اور شرمیلا ، عفیف اور پاک دامن انسان کو پسند کرتا ہے”۔ بے شک اللہ عزوجل نے آپ ﷺ کی سماعت ، بصارت ،نطق اور احوال ہر چیز کا تزکیہ کیا ہے اور اعلیٰ ترین اوصاف سے نوازا ہے۔ آپ ﷺ کی آواز حد درجہ خوبصورت اور واضح تھی ، اس میں دھیما پن اور نغمگی تھی ، کرخت آواز نہیں تھی۔اور جب آپ ﷺ خطبہ دیتے تو آپ ﷺ کی آواز پردہ نشین خواتین تک پہنچتی اور جب آپ ﷺ کعبہ کے پاس رات کے اندھیرے میں تلاوت کرتے تو اُمِ ہانی رضی اللہ عنہا اپنے بستر سے آپ ﷺ کی آواز کو سنتیں۔
آپ ﷺ کی گفتگو شیریں اور بات بڑی اچھی ہوتی تھی، جب آپ ﷺ گفتگو کرتے تو دلوں پر سحر طاری کردیتے اور روحوں اور عقلوں کو اپنی گرفت میں لے لیتے اور ایسا لگتا کہ نور آپ ﷺ کے منہ سے پوٹا جارہا ہے۔آپ ﷺ سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور خوش بیان تھے، آپ ﷺ کوجامع الکلام ،عظیم حکمت ،ہوش ربا زجر و توبیخ، فیصلہ کن امر، محکم فیصلے، عمدہ وصیت، بلیغ نصیحت، قوی اور واضح دلیل سے نوازا گیا تھا۔ آپ ﷺ جب گفتگو کرتے تو فیصلہ کن گفتگو کرتے جسے ہر سامع سمجھتا، اگر کوئی اُسے شمار کرنا چاہتا تو کرلیتا، آپ ﷺ کی گفتگو میں سلیقہ مندی اور سبک روی تھی ، فضول گوئی اور تکلف کو ناپسند کرتے تھے، آپ ﷺ کی نماز معتدل ہوتی خطبہ معتدل ہوتا، نہ ہی معنی میں خلل ہوتا اور نہ طوالت کی وجہ سے اُکتاہٹ ہوتی، جب خطبہ دیتے تو لاٹھی پر ٹیک لگاتے، اور چند مختصر اور مبارک کلمات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف بیان کرتے۔
جب خطبہ دیتے تو سخت غضبناک ہوجاتے ، آواز بلند اور آنکھیں سرخ ہوجاتیں اور گویا کسی لشکر کو دشمن سے آگاہ کررہے ہوں۔جب نصیحت کرتے تو دلوں میں اثر چھوڑتے اور نفوس کو تازہ کردیتے تھے یہاں تک آنکھوں سے آنسوں چھلک پڑتے ، دلوں پر رقت اور خشیت طاری ہوجاتی اور لوگ مشاہدہ اور معاینہ کی حالت کو پہنچ جاتے۔
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں بڑی مؤثر نصیحت فرمائی جس سے ہمارے دلوں میں خشیت طاری ہوگئی اور ہماری آنکھوں سے آنسوں چھلک پڑے۔ ہم نے کہا کہ شاید یہ آپ ﷺ کا آخری خطبہ ہے لہٰذا آپ ﷺ ہمیں وصیت فرمائیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور میرے بعد میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اور مضبوطی سے تھام لو کیوں کہ ہر بدعت گمراہی ہے”۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: “اللہ کے رسول ﷺ نے ایک دن منبر پر قرآن مجید کی اس آیت کو تلاوت کو پڑھا “:
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
الزمر – 67
اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہئے تھی نہیں کی، ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے، وه پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔
اشارے میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے آپ ﷺ اپنے ہاتھ کو آگے پیچھے کرتے ہوئے ہلارہے تھے اور فرمارہے تھے: اللہ تعالیٰ اپنے آپ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے کہے گا: میں عظمت و کبریائی کا مالک ہوں، میں بادشاہ ہوں، میں زور آور ہوں ، میں سخی ہوں۔ یہاں تک کہ منبر کانپنے لگا، ہمیں لگا کہ آپ ﷺ کے ساتھ منبر گر پڑے گا، آپ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و سلامتی ہو۔
آپ ﷺ کا علم سب سے وسیع اور فہم سب سے بلیغ تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بہت زیادہ نفع بخش علوم اور بکثرت اعلیٰ معارف سے نوازا تھا، چنانچہ آپ ﷺ تمام مخلوق میں سب سےزیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے تھے، بلکہ آپ ﷺ تمام انبیاء میں سب سے زیادہ علم والے ، سب سے بہادر اور شجاع تھے، ایک دن آپ ﷺ گھر سے نکلے اور منبر تشریف لائے پھر فرمایا: تم لوگ مجھ سے سوال کرو، اور آج تم لوگ جس چیز کے بارے میں سوال کروگے اس کو بیان کروں گا”۔ اس کے باوجود اللہ رب العالمین نے آپ ﷺ کو ہمیشہ علم میں اضافے کا سوال کرنے کا حکم دیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا
طٰه – 114
ہاں یہ دعا کر کہ پروردگار! میرا علم بڑھا۔
آپ ﷺ کا دل سب سے بہتر ،پاکیزہ ، کشادہ ،قومی ، تقویٰ شعار ، صاف ستھرا ، نرم اور رحمت و شفقت سے معمور تھا ، وہ بیدار اور زندہ دل تھا ، جو ایمان اور قرآن کے نور سے معمور تھا، سب سے بہترین دل آپ ﷺ کا دل ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں کی طرف دیکھا تو محمد ﷺ کے دل کو سب سے بہتر پایا تو اس کو اپنے لئے منتخب کرلیا، اور اپنی رسالت دے کر مبعوث کیا ، پھر بندوں کے دلوں کو دیکھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین دلوں کو سب سے بہتر پایا تو اُنہیں نبی اکرم ﷺ کے لئے وزیروں کا درجہ دیا جو اُس کے دین کا دفاع کریں ، چنانچہ مسلمان جس چیز کو اچھا سمجھتا ہے وہ اچھا ہے اور جس چیز کو بُرا سمجھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بُرا ہے۔
بے شک وہ دل جس پر قرآن مجید اپنے تمام اسرار ومعانی ، حروف ، روح اور حقائق کے ساتھ نازل ہوا ہےوہ سب سے وسیع اور مضبوط دل ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ﴿١٩٤﴾ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ
الشعراء – 193 /195
اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے۔ آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاه کر دینے والوں میں سے ہو جائیں۔ صاف عربی زبان میں ہے۔
آپ ﷺنے اپنے دل کے فیوض و برکات سے اپنے ساتھیوں کو بھی فیضیاب کیا اور اپنے نورِ علم سے اُن کے دلوں کو بھی منور کیا۔
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا
الشوریٰ – 52
اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں۔
آپ ﷺ کا دل بیدار تھا اس طور پر کہ آپ ﷺ پر نہ غفلت طاری ہوتی تھی اور نہ ہی آپ ﷺ کے دل پر نیند کا اثر ہوتا تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا: “میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا”۔
اور آپ ﷺ کی بیدار قلبی یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کے اخلاق و اطوار قرآن کریم کی عملی تصویر تھے، اسی لئے غصہ کرتے اور اسی کے لئے راضی ہوتے ، نہ بد زُبان تھے اور نہ ہی بد زُبانی کرتے تھے اور نہ ہی بازاروں میں شور و غل مچاتے تھے، بُرائی کا بدلہ بُرائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ عفو و درگزر سے کام لیتے تھے۔ آپ ﷺ کو جس نے بھی پکارا، چاہے اپنے ساتھیوں میں سے ہو یا اہلِ خانہ میں سے ، آپ ﷺ نے لبیک کہا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بناکر مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ فحش گو نہیں تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعے اندھی آنکھوں ، بہرے کانوں اور بند دلوں کو کھول دیا اور آپ ﷺ کی ہر اچھائی کی طرف رہنمائی کی اور ہر اعلیٰ اخلاق سے مزین کیا، سکینت آپ ﷺکا لباس ، نیکی آپ ﷺ کا شعار ،تقویٰ آپ ﷺ کا ضمیر ، حکمت آپ ﷺ کی منطق ، صدق آپ ﷺکی فطرت ، وفا آپ ﷺ کی طبیعت ، عفو آپ ﷺ کی عادت ، نیکی آپ ﷺ کا اخلاق ، حق آپﷺ کی شریعت ، عدل آپ ﷺ کی سیرت ، راہِ ہدایت آپ ﷺ کا مقصود ، اسلام آپ ﷺ کا دین اور احمد آپ ﷺ کا نام تھا۔
اللہ تعالیٰ نے گمنامی کے بعد آپ ﷺ کو شہرت دی، آپ ﷺ کےذریعے قلت کو کثرت میں ، محتاجگی کو مالداری میں اور فرقت و بدحالی کو اتحاد و یگانگت میں بدلا اور انسانوں کے عظیم انبوہ کو ہلاکت سے نجات دی اور آپ ﷺ کی اُمت کو سب سے بہترین امت بنایا ،جنہیں حکم ہے کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیں اور بُرائی سے روکیں ، آپس میں متحد رہیں، اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے، اس کے لئے مخلص اور رسول کی تصدیق کرنے والے ہوں۔
اور آپ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ نرم اخلاق کے تھے ، آپ سے کوئی بھی سوال کرتا تو آپ ﷺ اُس کی بات دھیان سے سنتے اور اُس وقت تک اپنا چہرہ نہیں پھیرتے جب تک وہ سائل خود واپس نہ چلا جاتا ، اور جب کوئی آپ ﷺ ہاتھ پکڑنا چاہتا تو آپ ﷺ پکڑنے دیتے اور اُس وقت تک نہیں کھینچتے جب تک وہ خود نہ کھینچ لے، اپنے اہلِ و عیال اور اقارب کے ساتھ بے تکلف ہوتے، اپنی ازواجِ مطہرات اور اہل و عیال کے ساتھ بڑی سخاوت اور حسنِ معاملہ کرتے تھے ، اُن کے ساتھ نرمی ،لطف اور احسان و ہمدردی کےساتھ پیش آتے تھے اور فرماتے تھے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ وعیال کے لئے بہتر ہو اور میں تم میں اپنے اہل وعیال کے لئے سب سے بہتر ہوں۔ اور فرماتے کہ مؤمنوں میں سب سے کامل ایمان کا وہ ہے جو سب سے اعلیٰ اخلاق کا ہے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ اُنسیت اور لطف سے پیش آتے۔
آپ ﷺ کا چہرہ سب سے خوبصورت ، خوش نما اور بارونق تھا ، سلام کا جواب اُس سے بہتر انداز میں دیتے اور آنے والے کا پر جوش استقبال کرتے تھے، اپنے ساتھیوں کے احوال دریافت کرتے ،قوم کے سربراہوں کی تعظیم کرتے ، اپنے صحابہ کرام کے ساتھ بے تکلفی کے ساتھ پیش آتے اور اُن کے لئے مجلس کو وسیع کرتے ، مسکرا کر ملتے اور گفتگو کرتے ،اکثر آپ ﷺ کی ہنسی مسکراہٹ والی ہوتی اور آپ فرماتے کہ کثرت سے کھل کھلا کر مت ہنسو ، کیوں کہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہوجاتا ہے ۔ وہ کریم کو اُس سے بھی بہتر کرم سے نوازتے تھے اور احسان کرنے والے کو اُس سے بھی بہتر بدلہ دیتے تھے۔ اپنے ساتھیوں کی تلاشی لیتے ، محبت کا اظہار کرتے ،عہد کا خیال رکھتے اور وعدوں کی پاسداری کرتے۔
آپ ﷺ بہت زیادہ متواضع تھے ، اپنا کام خود کرتے اور اپنی سواری پر اپنے پیچھے کسی کو بٹھاتے، بیواؤں اور یتیموں اور لونڈیوں کے ساتھ چلتے اور اللہ تعالیٰ کے مسلم بندوں کی تکریم کرتے تھے اور فرماتے: بے شک اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ تم لوگ تواضع اختیار کرو، یہاں تک کہ ایک دوسرے پر نہ گھمنڈ کرے اور نہ ہی ایک دوسرے پر زیادتی کرے۔ اور آپ ﷺ نے یہ پسند کیا کہ وہ نبی اور ایک عام انسان بن کر زندگی گزاریں نہ کہ بادشاہ بن کر۔
آپ ﷺ بہت زیادہ حلیم اور بُرد بار تھے، اپنے نفس کے لئے کبھی انتقام نہیں لیا ، مگر جب اللہ تعالیٰ کی حرمت کی پامالی ہوتی تو اُس کا انتقام لیتے۔ آپ ﷺ لوگوں میں سب سے بہتر ، سب سے بڑے سخی اور سب سے بڑے بہادر اور شجاع تھے ،جب بھی آپ ﷺ سے کچھ مانگا جاتا تو آپ ﷺ دیتے اور آپ اس انداز سے دیتے کہ آپ کو تنگ دستی کا کوئی خوف نہیں ، چنانچہ آپ سے زیادہ کوئی بہادر ، نڈر سخی اور خوش و مطمئن نہیں دیکھا گیا۔ آپ ﷺ کے ساتھیوں پر جب مصیبتیں نازل ہوتیں اور خوف کا ماحول ہوتا تو آپ ﷺ کے دامن میں پناہ لیتے اور آپ ﷺ کے مضبوط پہلو میں آکر اپنی حفاظت کرتے ، آپ ﷺ پر بہت زیادہ درود و سلام نازل ہوں۔
آپ ﷺ بندوں کے حقوق کے معاملے میں سب سے زیادہ عدل پرور، انصاف کرنے اور حق کے لئے لڑنے والے تھے۔ آپ ﷺ اپنے اہل وعیال ، بچوں اور یتیمو کے ساتھ بہت زیادہ شفیق اور مہربان تھے۔ بعض اوقات اپنے اصحابِ کرام کے بیمار ہونے سے یا اُن میں سے کسی کی وفات پر روتے ، جانوروں اور پرندوں پر بھی آپ ﷺ رحم کرتے۔ آپ ﷺ پر بہت زیادہ درود و سلامتی نازل ہو۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
الانبیاء –
اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔
آپ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ حیا دار تھے ، کیوں کہ آپ ﷺ کا ایمان سب سے بڑھ کر تھا ، آپ ﷺ ایک کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے تھے، کسی سے اس طرح نہیں ملتے تھے جس کو وہ ناپسند کرتاہو۔ اور آپ ﷺ کی حیا محبت ، تعظیم ، عبودیت ، خوداری اور وقار والی تھی ، آپ ﷺ کی شخصیت بہت زیادہ باوقار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو عزت و شرف اور بزرگی کا تاج پہنایا تھا اور عظمت اور شان و شوکت کا لبا س عطا کیا تھا ، آپ ﷺ پر ہمیشہ تمام کاموں میں عظیم مناسبات میں ، نمازوں میں اور تمام عبادات میں خشوع و خضوع اور تواضع اور انکساری غالب رہتی تھی۔
آپ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ حیا دار تھے ، کیوں کہ آپ ﷺ کا ایمان سب سے بڑھ کر تھا ، آپ ﷺ ایک کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے تھے، کسی سے اس طرح نہیں ملتے تھے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو۔ اور آپ ﷺ کی حیا محبت ، تعظیم ، عبودیت ، خوداری اور وقار والی تھی ، آپ ﷺ کی شخصیت بہت زیادہ باوقار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو عزت و شرف اور بزرگی کا تاج پہنایا تھا اور عظمت اور شان و شوکت کا لباس عطا کیا تھا ، آپ ﷺ پر ہمیشہ تمام کاموں میں عظیم مناسبات میں ، نمازوں میں اور تمام عبادات میں خشوع و خضوع اور تواضع اور انکساری غالب رہتی تھی۔
اللہ عزوجل نے فرمایا:
وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ ﴿١﴾ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ ﴿٢﴾ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ﴿٥﴾ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ ﴿٦﴾ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ ﴿٧﴾ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ﴿٨﴾ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ﴿٩﴾ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ﴿١٠﴾ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ ﴿١١﴾ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ ﴿١٢﴾ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ﴿١٣﴾ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ﴿١٤﴾ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ﴿١٥﴾ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ ﴿١٦﴾ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ ﴿١٧﴾ لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ
النجم – 1/18
قسم ہے ستارے کی جب وه گرے۔ کہ تمہارے ساتھی نے نہ راه گم کی ہے نہ وه ٹیڑھی راه پر ہے۔ اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔ وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔ اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے۔ جو زور آور ہے پھر وه سیدھا کھڑا ہو گیا۔ اور وه بلند آسمان کے کناروں پر تھا۔ پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا۔ پس وه دو کمانوں کے بقدر فاصلہ ره گیا بلکہ اس سے بھی کم۔ پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی۔ دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے) دیکھا۔ کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں۔ اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔ سدرةالمنتہیٰ کے پاس۔ اسی کے پاس جنہ الماویٰ ہے۔ جب کہ سدره کو چھپائے لیتی تھی وه چیز جو اس پر چھا رہی تھی۔ نہ تو نگاه بہکی نہ حد سے بڑھی۔ یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں۔
اللہ تعالیٰ میرے لئے اور آپ کے لئے قرآن مجید کو بابرکت بنائے اور مجھے اور آپ کو اس بابرکت اور حکمت والے ذکر سے فائدہ پہنچائے۔ میں وہی کچھ کہ رہا ہوں جو آپ لوگ سن رہے ہیں اور میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے بخشش طلب کرتا ہوں، آپ سب بھی اُسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں ، وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسراخطبہ :
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب کردے ، اور اللہ ہی بطورِ گواہ کافی ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ تنہا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں اور اُس کی توحید بجالاتا ہوں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ! تو بہت زیادہ درود و سلام نازل کر ہمارے نبی محمد ﷺ پر۔
اما بعد!
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرواوردُرست اور سچی بات کرو!۔
لوگو! اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو بنی نوع آدم علیہ السلام کے سب سے بہترین زمانے میں مبعوث فرمایا، آپ ﷺ کے بپورے سلسلہ نسب میں کہیں بھی زناکاری نہیں ، چنانچہ آپ ﷺ کرامتِ الٰہیہ سے محفوظ ہو کر اور ربانی عنایتوں کے سائے تلے پیدا ہوئے ، جو آپ ﷺ کی نبوت کی پیشگی دلیل، آپ ﷺ کی رسالت کا پیش نامہ اور آپ ﷺ کی رفعتِ شان و مقام کا اعلامیہ تھا۔ بےشک آپ ﷺ کی شان بہت بلند ہے ، آپ ﷺاپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دُعا ، اپنے بھائی عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ، اور اپنی والدہ ماجدہ کے خواب کی تعبیر ہیں جو اُنہوں نے آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کے وقت ایک روشنی کی شکل میں دیکھا تھا جس نےشام کے محلات کو روشن کردیا، اس میں نور کی طرف اشارہ تھا جو آپ ﷺ لے کر آئے جس سے آپ ﷺ نے دنیا کو روشن کیا اور کفر کے اندھیرے ختم کیے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ﴿١٥﴾ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
المائدۃ – 15/ 16
تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے۔ جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ انہیں جو رضائے رب کے درپے ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتا ہے اور اپنی توفیق سے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف ﻻتا ہے اور راه راست کی طرف ان کی رہبری کرتا ہے۔
آپ ﷺ نے اس نور کے ذریعے بصیرتوں کو جلا بخشی ، ضمیروں کو زندہ و بیدار کیا۔ اندھی آنکھوں اور بند کانوں کو کھولا، آپ ﷺ کے نور سے کسریٰ کے ایوان ٹوٹ گئے، فارس کی آگ بجھ گئی اور ساوا کی جھیل خشک ہوگئی، اس سال اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس گھر (بیت اللہ ) کے تعلق سے اصحابِ فیل کے مکر و سازش کو ناکام بنادیا، جو (گھر) اس کے رسول ﷺ کی جائے نماز اور جائے حج و عمرہ بننے والا تھا، چنانچہ آپ ﷺ پناہِ الٰہی میں پروان چڑھے، اسی کی محافظت، نگرانی اور نگہداشت میں پلے بڑھے، چونکہ اللہ تعالیٰ نبوت و رسالت کے ذریعے آپ ﷺ کی تکریم اور بلند مقام پر فائز کرنا چاہتا تھا اسی لئے اُس نے خوب اچھے طریقے سے آپ ﷺ کی پرورش کی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالضُّحَىٰ ﴿١﴾ وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ ﴿٢﴾ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ ﴿٣﴾ وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىٰ ﴿٤﴾ وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ ﴿٥﴾ أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ ﴿٦﴾ وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ ﴿٧﴾ وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ ﴿٨﴾ فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ ﴿٩﴾ وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ ﴿١٠﴾ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ
الضحٰی
قسم ہے چاشت کے وقت کی۔ اور قسم ہے رات کی جب چھا جائے۔ نہ تو تیرے رب نے تجھے چھوڑا ہے اور نہ وه بیزار ہو گیا ہے۔ یقیناً تیرے لئے انجام آغاز سے بہتر ہوگا۔ تجھے تیرا رب بہت جلد (انعام) دے گا اور تو راضی (وخوش) ہو جائے گا۔ کیا اس نے تجھے یتیم پا کر جگہ نہیں دی۔ اور تجھے راه بھوﻻ پا کر ہدایت نہیں دی۔اور تجھے نادار پاکر تونگر نہیں بنا دیا؟۔ پس یتیم پر تو بھی سختی نہ کیا کر۔ اور نہ سوال کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ۔ اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا ره۔
بعثت سے قبل بھی آپ ﷺ عقلِ کامل اور بڑی عزت و شرف کے مالک تھے، جب آپ ﷺ کا اُم المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہما سے نکاح ہوا تو اس موقعے پر ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھتے ہوئے کہا: “اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے ہمیں ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے اسماعیل علیہ السلام اور معد کی نسل سے پیدا کیا۔ اور ہمیں اپنے گھر کا متولی اور حرم کا پاسباں بنایا، اس نے ہمارے لئے امن والا حرم بنایا اور ایسا گھر عطا کیا جس کی طرف لوگ قصد کرتے ہیں اور لوگوں پر ہمیں حاکم بنایا ، پھر یہ میرا بھتیجا محمد بند عبداللہ ہے ، اس کا جس کسی سے بھی موازنہ کیا جائے گا تو شرف و فضل اور عقل و دانش میں اُس سے برتر و بالا تر ہوگا، اگرچہ مالی اعتبار سے مضبوط نہیں ہے، (لیکن یہ کوئی عیب نہیں ہے) کیونکہ مال و ثروت ایک ناپائیدار چیز ہے اور جلدی سے گزرجانے والا سایہ ہے، عارضی ہے ، واپس جانے والا ہے ، جب کہ محمد ﷺ اپنے حسب و نسب میں معروف ہیں”۔
پھر چالیس سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مبعوث کیا ، تو آپ ﷺ نے اللہ کی طرف دعوت دی، صبر کیا، اللہ تعالیٰ کی خاطر ہجرت کی ، جہاد کیا ، استقامت اختیار کی اور کامیاب ہوگئے ، لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کو قبول کیا اور کئی علاقے اور ملک اس کے تابع ہوگئے۔
مومنو! واضح ترین مظہر جہاں رسول اللہ ﷺ کے سب سے زیادہ محبت کے حقدار ہونے کی حقیقت آشکار ہوتی ہے وہ آپ ﷺ کے صحابہ کرام ہیں کہ آپ ﷺ اُنہیں اُن کے مال و اولاد ، اپنی جانوں اور شدتِ پیاس میں ٹھنڈے پانے سے زیادہ محبوب تھے، جس پر متعدد واقعات و حادثات دلالت کرتے ہیں۔
جب سیدنا زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کو مشرکین نے قید کر کے قتل کرنا چاہا تو سفیان بن حرب نے کہا جب کہ وہ (ابو سفیان) اُس وقت مشرک تھا: کہ کیا تو پسند کرتا ہے کہ آج تیری جگہ محمد ﷺ ہوتے ، اور اُنہیں قتل کردیا جاتا اور تو اپنے اہل وعیال میں ہوتا ، توزید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: کہ اللہ کی قسم میں قطعا ًیہ پسند نہیں کرتا کہ میری جگہ وہ (محمد ﷺ) ہوتے اور انہیں ایک کانٹا بھی چبھتا، اور میں اپنے گھر والوں میں بیٹھا ہوتا، تو سفیان کہنے لگا کہ لوگوں میں سے کسی کو اس قدر محبت کرتے نہیں دیکھا جس طرح اصحابِ محمد رضی اللہ عنہم محمد ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔
غزوہ احد میں ایک انصاری عورت کا باپ، بھائی اور خاوند سب شہید ہوگئے جب اسے خبر ملی تو پوچھنے لگی کہ : مجھے اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں بتلاؤ؟ تو انہوں (صحابہ کرام) نے کہا وہ تیری چاہت کے مطابق بالکل خیر وعافیت سے ہیں، تو کہنی لگی مجھے دکھلاؤ تا کہ ان کی زیارت کرسکوں ، اور کہنے لگی کہ آپ ﷺ کی عافیت جان کر اور آپ کو دیکھ کر مصیبت و پریشانی بالکل معمولی اور ہلکی ہو چکی ہے۔
ایک شخص اللہ کے رسول ﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کرنے لگا: اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ مجھے میرے مال و اہل سے زیادہ محبوب ہیں ، اور بے شک جب مجھے آپ ﷺ کی یاد آتی ہے تو میں آپ ﷺکے پاس آیے بغیر اپنے آپ کو روک نہیں پاتا تو آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے دل اور آنکھوں کو ٹھنڈا کر لیتا ہوں اور جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کر تا ہوں، تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں نبیوں کے ہمراہ بلند مقام پر فائز ہوں گے اور میں اگر جنت میں داخل ہوا تو آپ ﷺ کی زیارت نہیں کر پاؤں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ وہ ایک دن حاضر ہوا تو اس کا رنگ بدلہ ہوا تھا، آپ ﷺ نے پوچھا کہ تمہارا رنگ کیوں اترا ہوا ہے؟ تو کہنے لگا کہ مجھے کوئی تکلیف یا بیماری نہیں ہے ، بس جب آپ ﷺ کو دیکھ نہیں پاتا تو شدید وحشت محسوس کرتا ہوں پھر آپ کی زیارت ( کر کے تسکین حاصل کر لیتا ہوں، اور پھر آخرت کو یاد کرتا ہوں تو آپ ﷺ کی زیارت کی محرومی سے ڈرتا ہوں تو اللہ تعالی نے اس آیت کو نازل کر دیا:
وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا
النساء – 69
اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے، وه ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں۔
اللہ کے بندو! رسول اکرم ﷺ پر درد بھیجو، کیونکہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اس کا حکم دیا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
بیشک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والوں تم (بھی) ان پر درودسلام بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔
اے اللہ !ہمیں ان میں سے بنا جنہوں نے تیرے نبی ﷺکے دین کو لازم پکڑا، ان کے کلمے کو تقویت دی، اور ان کے عہد و پیان کی حفاظت کی، ان کی جماعت اور دعوت کی مددکی ، ان کے پیروکاروں اور گروہ کی کثرت کا باعث بنا، اور ان کی راہ اور سنت کی مخالفت نہیں کی ۔
اے اللہ! ہمیں ان لوگوں میں سے بنا جنہوں نے تیرے نبی ﷺکی راہ کو لازم پکڑا۔
اے اللہ! تیرے حکم کی مخالفت اور تیرے نبی اکرم ﷺ کی راہ سے انحراف سے پناہ مانگتے ہیں۔
اے اللہ! ہم تجھ سے ہر اس خیر کا سوال کرتے ہیں جس کا سوال تیرے بندے اور رسول ،ہمارے نبی محمد ﷺ نے کیا، اور ہم پناہ مانگتے ہیں ہر اس شر سے جس سے تیرے بندے اور رسول اور ہمارے نبی محمد ﷺ نے پناہ مانگی۔
اے اللہ! ہمیں فتنوں کے شر سے بچا، اور ہر طرح کی آزمائش سے محفوظ رکھ، اور ہمارے ظاہر اور باطن کی اصلاح فرما، ہمارے دلوں کو حسد اور کینے سے پاک کر۔
اے اللہ! ہم تجھ سے رزق کی کفالت کا، اور کفایت شعاری کے ساتھ زہر کا، اور ہر شبہے میں وضاحت اور ہر حجت میں صواب، اور غضب اور رضا میں عدل کا، اور تقدیر کے فیصلے سے رضامندی کا، فقر اور مالداری میں میانہ روی کا، قول و فعل میں تواضع کا، سنجیدہی اور مذاق میں صدق کا سوال کرتے ہیں، اور ہمیں اپنے فضل سے بے نیاز کر دے تو بہت زیادہ معاف کرنے والاہے۔
اے اللہ! تو علم کے نور سے ہمارے دلوں کو روشن کر دے ، ہمارے جسم کو تیری طاعت میں لگا دے، اور ہمارے دلوں کے اسرار کو فتنوں سے محفوظ رکھ، اور ہماری سوچ و فکر کو تیری ذات میں غور و فکر کرنے میں لگا دے، اور ہمیں شیطان کے وسوسے سے بچا، اے رحمن ، تا کہ اس کا غلبہ ہمارے اوپر نہ ہو سکے ، ہمیں اپنی مضبوط پناہ میں لے اور موت تک تیرے عفو، لطف اور عافیت میں رکھ ۔
اے اللہ ! ہدایت یافتہ آئمہ ابو بکر ،عمر ، عثمان ،علی رضی اللہ عنھم اور دیگر تمام صحابہ کرام سے تو راضی ہوجا اور ہمیں اُن سے راضی کردے۔
اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔
اے اللہ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دینِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔
اے اللہ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجائے۔
اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور اُن پر استقامت دے۔
خطبة الجمعة مسجد نبویﷺ: فضیلة الشیخ ڈاکٹر احمد طالب حميد حفظه اللہ
11 ربیع الاول 1444 ھ بمطابق 7 اکتوبر 2022