ہم خوشحال زندگی کیسے گزار سکتے ہیں؟

پہلا خطبہ

تمام  تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے سعادت مندی اور مسرتیں اپنے اطاعت گزار بندوں کے لئے لکھ دی ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں  وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں وہی پہلے اور بعد میں آنے والے سب لوگوں کا معبود ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد  اللہ کے بندے  اور تمام انبیاء میں افضل ترین ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانو! میں تمہیں اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، اسی میں سعادت مندی اور خوشحالی پنہاں ہے۔

اللہ کے بندوں!

ذہنی سکون، دلی اطمینان اور سعادت  پوری انسانیت کے مقاصد میں شامل ہے، یہ ساری بشریت کا  ہدف ہے، سب لوگ انہیں حاصل کرنے کیلیے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خوب کوشش  اور تگ و دو کرتے ہیں، لیکن انسان جتنی بھی کوشش کر لے اس کیلیے دنیا کی جتنی مرضی رنگینیاں جمع کر لے، خواہشات نفس  پوری کرنے کیلیے جتنی بھی دوڑ دھوپ کر لے، انہیں یہ سب ملنے والا نہیں ہے  وہ تو اس کی راہ کے راہی بھی نہیں بن سکتے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ خوشحال اور  زندگی میں لہر بہر کی تمام تر صورتوں کا راز خالق انسانیت کے اس فرمان میں پنہاں ہے. فرمانِ باری تعالی ہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

النحل – 97

جو مرد یا عورت ایمان کی حالت میں نیک عمل کرے تو ہم اسے خوشحال زندگی بسر کرائیں گے اور ان کے بہترین اعمال کے مطابق انہیں ان کا اجر عطا کریں گے۔

اس آیت کریمہ میں محقق مفسرین کے ہاں “خوشحال زندگی” سے مراد دنیا کی زندگی ہے، جبکہ آخرت کی زندگی  میں ملنے والی مسرتیں، خوشیاں، راحتیں اور نعمتیں اس کے علاوہ ہیں۔

 اس راز سے مراد اللہ پر ایسا ایمان ہے  جس میں انسان شرک سے پاک خالص اطاعت  کے ساتھ اللہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے، ایسا ایمان انسانی زندگی  کی ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے سعادت مندی بنتا ہے ، یہ انسان کی شرح صدر کرتا ہے، دل مطمئن رہتا ہے ، حتی کہ اگر تنگی اور ترشی  آ بھی جائے تو وہ اس زحمت کو بھی رحمت میں تبدیل کر لینے کی صلاحیت رکھتا ہے، انسان کا دل ہمیشہ راحت ،مسرت  اور خوشی  سے سر شار رہتا ہے، اللہ تعالی پر ایمان کی بدولت انسان  محبت اور معرفتِ الہی کے ساتھ ساتھ اسی سے تعلق رکھتا ہے، اسی پر توکل کرتا ہے، نیز اسی کی جانب متوجہ رہتا ہے: فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ

التغابن – 11

اور جو بھی اللہ تعالی پر ایمان لائے تو وہ اسے ہدایت سے نوازتا ہے۔

اور اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (مومن کا معاملہ تعجب خیز ہے کہ اس کا سارے کا سارا معاملہ ہی  خیر والا ہے، اور یہ خوبی صرف مومن کے ساتھ خاص ہے۔ چنانچہ اگر مومن کو تکلیف پہنچے تو مومن اس پر صبر کرتا ہے، تو یہ تکلیف اس کیلیے بھلائی کا باعث بن جاتی ہے۔ اور اگر مومن کو خوشی ملے تو وہ اس پر شکر کرتا ہے تو یہ خوشی اس کیلیے بھلائی کا باعث بن جاتی ہے) مسلم

یہ ایمان ہی ہے جو انسان کو ملی ہوئی معمولی دنیا پر بھی خوش کر دیتا ہے، اللہ تعالی کی عنایت پر راضی کر دیتا ہے، اور اللہ تعالی کی نوازشوں پر قناعت پسند بنا دیتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص اپنے گھر میں صبح اس طرح بیدار ہو کہ جسمانی طور پر صحت مند ہو، اس دن کی خوراک اس کے پاس ہو، تو گویا وہ ایسے ہے کہ اس کیلیے ساری دنیا سمیٹ دی گئی ہو) ترمذی، ابن ماجہ

چنانچہ مسرتوں اور نعمتوں سے بھر پور کامیابی صرف ایسے ہی ممکن ہے جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہے: (یقیناً وہ شخص کامیاب ہو گیا  جو اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کر دے ، اللہ تعالی اسے ضرورت کے مطابق رزق دے، نیز اللہ تعالی اسے جو کچھ بھی عنایت کرے اس پر قناعت عطا کر دے) مسلم

اسی مفہوم کو بیان کرتے ہوئے سلف صالحین میں سے کسی نے کہا: “اللہ کی قسم! ہم ایسی سعادت میں ہیں کہ اگر بادشاہوں  کی اولاد کو اس کا علم ہو جائے تو اسے پانے کیلیے ہم پر تلواریں  سونت لیں”۔کسی نے تو یہ بھی کہا: “بسا اوقات میری ایسی کیفیت ہو جاتی ہے  اور میں کہہ اٹھتا ہوں: اگر جنتی لوگوں کو ایسی کیفیت میسر ہو تو وہ واقعی پر تعیش زندگی  میں   ہوں گے”۔

مسلم اقوام:

دل ٹوٹ  پھوٹ کا شکار ہو تو اسے جوڑنے کیلیے صرف اللہ تعالی سے لگاؤ ہی کار گر ثابت ہوتا ہے۔ دل وحشت زدہ ہو تو اس کی تنہائی اللہ تعالی سے محبت کے ذریعے ہی  ختم ہوسکتی ہے۔ دل کے غموں کو  وحدانیتِ الہی  اور معرفت الہی سے زائل کیا جا سکتا ہے۔دلوں میں حسرت کی آگ بھڑک اٹھے تو اللہ کے احکامات ، نواہی  اور تقدیر پر کامل ایمان سے اسے بھجایا جا سکتا ہے۔  اور اسی کا نام دنیا ہے۔

اللہ تعالی کی محبت، اسی کی جانب رجوع اور اللہ تعالی کی دائمی یاد دل کی پیاس مٹا سکتی ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:

أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ

الرعد – 28

 خبردار! اللہ کے ذکر سے دل اطمینان پاتے ہیں۔

آپ ﷺ فرماتے تھے: (بلال! نماز کے ذریعے ہمیں راحت پہنچاؤ) اسے ابو داود نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں نماز کے ذریعے راحت پہنچاؤ، یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز سے ہماری جان چھڑاؤ۔

ایسے ہی آپ ﷺ کا فرمان ہے: (میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے) اسے نسائی نے روایت کیا ہے اور متعدد حفاظ حدیث نے اسے  صحیح کہا ہے۔

لہذا اگر کوئی شخص ابدی راحت  اور قلب و جان  میں ظاہری و باطنی دائمی خوشحالی کا متمنی ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے نفس کو اللہ تعالی کے احکامات کے مطابق ڈھال لے، اپنی زندگی  کے ہر گوشے کو اللہ تعالی کی اطاعت میں گزارے تو پھر وہ اس دنیا میں بھی مختلف نعمتوں کے مزے لوٹے گا اور آخرت میں بھی، فرمانِ باری تعالی اسی کے بارے میں  کہ :

إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ

الانفطار – 13

 بیشک نیک لوگ  نعمتوں میں ہوں گے۔

مسلمان! اللہ تعالی کی نافرمانی سے  دور رہو؛ کیونکہ اس کا وبال  حسرت اور خسارہ ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “جس وقت انسان اللہ کی نافرمانی کرتا ہے تو اللہ تعالی اس پر اپنے دو سپاہی مسلط کر دیتا ہے یہاں تک بندہ توبہ نہ  کر لے: پہلا سپاہی: “غم” اور دوسرا سپاہی “پریشانی” اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا

طٰه – 124

 اور جس نے میرے ذکر سے اعراض کیا تو اس کیلیے تنگ زندگی ہو گی۔

اس لیے مسلمان! اپنے دل کا تعلق صرف اللہ تعالی سے بناؤ، اپنے پروردگار کے بارے میں حسن ظن رکھو، اگر تم متقی اور پاک صاف بن جاؤ تو تمہیں سعادت مندی اور خوشحالی نصیب ہو گی، ہمارے پروردگار کا فرمان ہے:

أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّهِ

الزمر – 22

  کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالی نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے تو وہ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک نور  پر ہے۔

اللہ تعالی ہم سب کو  خوشیاں اور مسرتیں عطا فرمائے۔

میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں، اپنے  لیے ، آپ سب اور تمام مسلمانوں کیلیے اللہ تعالی سے گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں آپ  بھی اسی سے بخشش مانگو بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

میں اپنے پروردگا کی حمد بیان کرتا ہوں اور اسی کا شکر گزار ہوں، میں گواہی دیتا ہوں  کہ اللہ سوا  کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں۔

مسلمانوں!

محصور وہ ہے جس کا دل پروردگار سے  روک دیا جائے، اسیر وہ ہے جو اپنی خواہشات کا اسیر ہو، پریشان  وہ ہے جو اپنے آپ کو گناہوں میں ملوّث کر لے، مغموم وہ ہے جو اپنے نفس کو تباہ کن گناہوں اور شرعی خلاف ورزیوں میں ڈبو لے۔

کسی صاحب معرفت کا کہنا ہے کہ:  “دنیا میں سے مسکین لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن دنیا کی بہترین چیز سے لطف اندوز نہیں ہوتے۔ کہا گیا: وہ کیا چیز  ہے؟ تو بتلایا: اللہ کی محبت، اللہ کے ساتھ انس، اللہ سے ملنے کا شوق، صرف اسی کی جانب متوجہ ہو کر بقیہ ہر چیز سے رو گردانی کالطف”۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

الأحقاف – 13

  یقیناً جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر ڈٹ گئے انہیں کوئی خوف نہ ہوگا  اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

اللہ تعالی نے ہمیں جلیل القدر عمل یعنی نبی کریم ﷺ پر درود و سلام کا حکم دیا ہے ، یا اللہ! ہمارے نبی  اور رسول محمد -ﷺ- پر رحمتیں، برکتیں، اور سلامتی نازل فرما۔

یا اللہ! خلفائے راشدین، اہل بیت ،صحابہ کرام  اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں سے بھی راضی ہو جا۔

یا اللہ! یا ذو الجلال و الاکرام! یا اللہ! ہم تیرے اسما و صفات کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ ہمارے بھائیوں پر فلسطین  میں امن و امان نازل فرما، یا اللہ! ان کی آزمائشیں ختم فرما، یا اللہ! ان کی پریشانیاں ختم فرما،  یا اللہ! ان کی تنگی کا خاتمہ فرما، یا اکر الاکرمین! یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! فلسطینیوں  اور تمام مسلمانوں کے دشمنوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! فلسطینیوں  اور تمام مسلمانوں کے دشمنوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! فلسطینیوں  اور تمام مسلمانوں کے دشمنوں پر اپنی پکڑ نازل فرما،  یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! دشمنان اسلام کی منصوبہ بندیاں غارت فرما، یا اللہ! دشمنان اسلام کی منصوبہ بندیاں غارت فرما، یا اللہ! ان کے خلاف تدبیر فرما، یا حیی! یا قیوم! یا اللہ! وہ مسلمانوں کے خلاف دن رات ، خفیہ اور اعلانیہ مکاریاں کر رہے ہیں یا اللہ! ان کی مکاری انہی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا ذو الجلال والاکرام!

یا اللہ! امت محمدیہ پر امن و امان نازل فرما، یا اللہ! انہیں فراخی  اور استحکام عطا فرما، یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! یمن، عراق، اور تمام مسلم ممالک میں مسلمانوں کی پریشانیاں ختم فرما، یا ذو الجلال والاکرام!

یا اللہ! شام میں ہمارے بھائیوں کی مشکل کشائی فرما، یا اللہ! ان کی مصیبتیں  وا فرما، یا اللہ! شامی پناہ گزینوں کو ان کے گھروں میں خیر و سلامتی کے ساتھ واپس پہنچا، یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! مسلمان مرد و خواتین  اور زندہ و فوت شدگان کی مغفرت فرما۔

یا اللہ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما۔

یا اللہ! ہمیں نعمتیں اور مسرتیں اپنانے والے لوگوں میں شامل فرما، یا حیی! یا قیوم! یا اللہ! ہمیں تیرے نیک، صالح، اطاعت گزار اور متقی لوگوں میں شامل فرما، یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! خادم حرمین شریفین  کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان کے ولی عہد کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ذو الجلال و الاکرام! یا اللہ! ان دونوں کو تیری رضا  کے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان دونوں کی دینی اور دنیاوی امور میں مدد فرما، یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! مسلمانوں کے دلوں میں الفت پیدا فرما، یا اللہ! مسلمانوں کے دلوں میں الفت پیدا فرما، یا اللہ! حق اور تقوی پر مسلمانوں کو متحد فرما، یا اللہ! حق اور تقوی پر مسلمانوں کو متحد فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

اللہ کے بندوں!

اللہ کے بندو! اللہ کا ڈھیروں ذکر کرو، اور صبح و شام بھی اسی کی تسبیح بیان کرو ، اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ

آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے خاندان سے ہیں، بنو تمیم سے تعلق ہے، آپ نے جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے ماجستیر کی ڈگری حاصل کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں جج کے فرائض بھی ادا کررہے ہیں۔