الحمدللّٰه رب العالمین و صلی اللّٰہ و سلم علی أشرف الأنبیاءوالمرسلین محمد وعلی آله و أصحابه ومن تبعهم باحسان إلی یوم الدین أشهد أن لاإله إلااللّٰه وحده لا شریک له و أشهد أن محمدا عبده و رسوله و بعد !
حلال کمائی کیوں ضروری ہے ؟
انسان اس دنیا میں جو اپنی زندگی کا دورانیہ گزار رہا ہے یہ دورانیہ بہت مختصر بھی ہے اور بہت اہم بھی ہے، انسان جب اس دنیا میں شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو اس کا اپنے چار سو پھیلی ہوئی وسیع کائنات کے ساتھ سابقہ پیش آتا ہے ، وہ اپنے آپ پر غور کرتا ہے تو یہ اپنی مرضی سے نہیں آیا ،اسی طرح جس ماحول میں آیا ہے وہ بھی اس نے اپنی مرضی سے منتخب نہیں کیا ، اپنی شکل وصورت قد و قامت کو دیکھتا ہے تو یہ چیزیں بھی ایسی ہیں کہ جن پہ اس کا کوئی اختیار نہیں ،اس کا اپنا وجود اور یہ کائنات اس کی اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ جو کچھ بھی میرے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے اس کے بنانے میں میرا کوئی عمل دخل نہیں۔ نیز یہی چیز انسان کی یہ رہنمائی بھی کرتی ہے کہ وہ جانے کہ اس جہان کو پیدا کرنے والی ایک قادر مطلق اور علیم و خبیر رحیم و کریم ہستی ہے اور وہ اللہ ربّ العزت ہے۔ یہی آواز اس کے دل کی ہوتی ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کی اسی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ اللہ ربّ العزت نے ایک عظیم مقصد کے لئے اسے دنیا میں پیدا فرمایا ہے ،قرآن نے ہمیں یہ مقصد بتایا کہ انسان اللہ ربّ العزت کی بندگی کرے اور اس کائنات کے تمام وسائل ،رزق کے خزانے، جو کچھ ہے یہ سب اس لئے بنایا گیا ہے کہ یہ سب اس بندگی کے عمل کو پورا کرنے کے لئے انسان کے ممدّومعاون ثابت ہوں نیز یہ تمام وسائل جو اللہ ربّ العزت نے اس کائنات میں پیدا فرمائے ہیں ان میں انسان کے لئے امتحان اور ابتلاء بھی ہے اور اس لئے بھی پیدا فرمائے ہیں کہ یہ انسان کی رہنمائی کریں کہ اس کائنات کا پیدا کرنے والا ہی اس جہاں کا فرمانروا بھی ہے اور اس ساری کائنات کا پروردگار بھی، تمام انسانوں کا رب:
﴿فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾
یٰس : 83
ترجمہ : پس پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں ہرچیز کی بادشاہت ہے اور جس کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے ۔
ہر چیز کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں ہے سچا بادشاہ ہے ، اس لئے انسان کو اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس کا پیداکرنے والا اس جہاں کا بادشاہ اس کے لئے کونسا طرز عمل پسند کرتا ہے اسے راضی رکھنا ہوگا اور اس کی ناراضگی سے خود کو بچانا ہوگا ،اللہ رب العزت نے اس حوالے سے وحی کے ذریعے بھی رہنمائی فرمائی ہے اور عقل وفطرت کے ذریعے بھی کہ انسان کو کونسا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے ؟
دنیا میں اختیارِ انسانی اور معیشت
انسان اس دنیا میں بہت ساری صلاحیتیں ، بہت اعلی منصب لےکر آتا ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۗ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾
الأنعام : 165
ترجمہ : وہ ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایااور ایک کا دوسرے پر رتبہ بڑھایا تاکہ تم کو آزمائے ان چیزوں میں جو تم کو دی ہیں بالیقین آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے اور بالیقین وہ واقعی بڑی مغفرت کرنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔
اللہ ربّ العزت نے انسان کو زمین میں اختیار دیا ہے لیکن یہ اختیار لا محدود و مطلق نہیں ہے بلکہ محدود اختیارہے۔اللہ ربّ العزت نے انسان کوانتخاب کا اختیار دیا ہے اور انسان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس دنیا میں اس اختیار کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی امانت سمجھ کر استعمال کرے اور اس کا ایسا استعمال نہ کرے کہ جس سے اللہ ربّ العزت ناراض ہو جائیں اور حق تعالی شانہ کا غضب اس کا مقدر ٹھہرے۔
انسانی ضروریات اور کسبِ حلال
انسان کی زندگی کو باقی رکھنے اور اس کی جسمانی قوت کو بحال رکھنے ،دنیامیں نسل انسانی کو باقی رکھنے کے لئےانسان کی ضروریات بہت ہیں ، اللہ تعالی جو پروردگارِ عالم ہے نے بڑے وسیع اور اعلی پیمانے پر انسان کی ضروریات پوری کرنے کا انتظام فرمادیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ﴾
الأعراف : 10
ترجمہ : اور بیشک ہم نے تم کو زمین پر رہنے کی جگہ دی اور ہم نے تمہارے لئے اس میں سامان رزق پیدا کیا تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔
اس زمین کے اندر انسان کے برتنے اور استعمال کرنے کے لئےسامان زندگی فراوانی کے ساتھ پیدا فرمادئیے ہیں ، اللہ تعالی نے بہت بڑے خزانے اس دنیا کے اندر رکھے ہوئے ہیں جنہیں انسان استعمال کرسکتا ہے ۔
اللہ رب العزت نے چونکہ انسان کو ایک اعلی مقام و مرتبہ عزت و کرامت کا عطا فرمایا ہے ،اس لئے انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ رب العزت کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق اسے استعمال کرے جن چیزوں کے استعمال کا اللہ رب العزت نے راستہ کھولا ہےانہیں استعمال کرے اور جن سے روکا ہے ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچا کے رکھے ،اللہ تعالی نے انسان کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے سب کچھ پیدا کیا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ ﴾
ابراہیم: 34
ترجمہ : اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔
اشیاء کائنات میں آزمائش
اس وسیع کائنات میں ایسی چیزیں بھی اللہ نے رکھ دی ہیں جو انسان کے امتحان اور ابتلاءکے لئے پیدا فرمائی ہیں کہ ان سے انسان نے بچنا ہے، یہ چیزیں اشیاء اور اعیان بھی ہیں جن سے انسان نے اپنے آپ کو بچا کے رکھنا ہے اور انسان کے تصرفات و اعمال بھی ہیں کہ جن کا انسان نے ارتکاب نہیں کرنا ۔ اللہ ربّ العزت نے جن چیزوں کی ممانعت فرمائی اور حرام قرار دیا ہے یہ ممانعت اشیاء و اعیان اس کائنات کے اندربنائی ہوئی چیزوں سے بھی متعلق ہیں لیکن بہت تھوڑی ہیں ،اور دوسری چند ایک جن کی تفصیل آسمانی کتابوں اور ان کے جامع ترین مجموعے قرآن مجید کے اندر اللہ رب العزت نے محرمات کی تفصیل بیان فرمادی ہیں۔ فرمان الہٰی ہے:
﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ﴾
الأنعام: 119
ترجمہ : حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتا دی ہے جن کو تم پر حرام کیا ہے مگر وہ بھی جب تمہیں سخت ضرورت پڑ جائے تو حلال ہے ۔
ان حرام کردہ چیزوں کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب انسان کیلئے حلال ہے ۔
﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾
البقرۃ: 29
ترجمہ : وہ اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا۔
سب کچھ اللہ نے تمہارے لئے بنایا ہے اور یہ آسمان و زمین اور اس کے درمیان میں پھیلا ہوا یہ سارانظام جب حرکت میں آتاہے تو انسان کو رزق ملتا ہے ، اس کے بعد ہی انسان اپنے افعال و تصرفات اور اپنی زندگی کی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکتا ہے اس لئے انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اللہ رب العزت کی اس ہدایت کو پیش نگاہ رکھے ۔ اس لئے کہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اس کا عمل اور تصرف ہے اس کا معاملہ صرف یہ نہیں کہ کیا اور معاملہ ختم ہوگیا بلکہ یہ افعال اس کی ذات پر اثر انداز ہوتے ہیں اس کی آنے والی زندگی پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ان افعال کے اثرات باقی رہتے ہیں ۔ اور یہ انسان نہیں جانتا اس کے افعال و تصرفات کے اور اس کے استعمالات اور ان تحصیلات کے جو اس دنیا کے اندر وہ سمیٹتا اور جمع کرتا ہے وہ نہیں جانتا کہ کیا کچھ اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ لیکن اللہ رب العزت سب جانتے ہیں اس ذات پر کوئی چیز مخفی نہیں نہ ماضی کی نہ حال کی اورنہ مستقبل کی ۔ فرمان ِ باری تعالیٰ ہے :
﴿ وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى اللّٰهِ مِن شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ﴾
ابراہیم: 38
ترجمہ : زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ پر پوشیدہ نہیں ۔
ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہر چیز سے باخبر ہے وہ جانتا ہے کہ انسان کے افعال و تصرفات کیا ہوتے ہیں اس لئے کرم کرتے ہوئے مہربانی کرتے ہوئےانسان کے ساتھ نوازش کا معاملہ فرماتے ہوئے اللہ نے اسے ایسے تصرفات سے روکا ہے جودنیا وآخرت میں نقصان دہ ہوتے ہیں ، اس لئے اس نے وہ چیزیں حرام ٹھہرا دیں ، ورنہ اللہ رب العزت کو کوئی مجبوری نہیں ہے صرف انسان کی بھلائی کے لئے اللہ رب العزت نے انسان کو ان چیزوں سے روکا ہے ۔ حلال کا دائرہ اللہ تعالیٰ نے بہت وسیع بنایا ہے کہ انسان اپنے تمام کھانے ، پینے ، رہنے پہننے اور اپنی نسل کے بڑھنے کے سلسلے قائم رکھ سکتا ہے۔ اور اہمیت حلال کی یہی ہے کہ اگر انسان اس شاہراہ کے اوپر چلنا چاہتا ہے جو اللہ رب العزت نے اس کے لئے تجویز فرمائی ہے جو سعادت کی راہ ہے اور دونوں جہاں کی فوز و فلاح کی راہ ہے اور وہ صراط مستقیم ہے ،تو پھر انسان حلال کے دائرے کے اندر اپنے آپ کو محدود رکھے اور محرمات سے اپنے آپ کو بچا کے رکھے وگرنہ انسان کی زندگی صحیح راستے پہ نہیں گزرے گی اور اس کا انجام دنیا و آخرت کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔
سابقہ اقوام کی معیشت کے معاملے میں حکم عدولی اور اس کا انجام
اللہ رب العزت نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے قرآن مجید میں یہ بیان فرمایا ہے کہ بعض اقوام جنہوں نے اللہ رب العزت کی ہدایت اور رہنمائی سے رو گردانی کی اور اس کی مخالفت کی اور اس دنیا کے میں بالخصوص معاشی معاملات کے اندر اپنی من مانی کرنا چاہی اللہ رب العزت نے ان کا تذکرہ فرمایا کہ کس طرح وہ تباہی اور بربادی کا شکار ہوگئے انہیں وقت کے پیغمبر شعیب علیہ السلام نے یہی کہا تھا کہ:
﴿قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ وَلَا تَنقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ ۚ إِنِّي أَرَاكُم بِخَيْرٍ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ (84) وَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (85) بَقِيَّتُ اللّٰهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ (86)﴾
ھود: 84 – 86
ترجمہ : انہوں نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور تم ناپ تول میں بھی کمی نہ کرو میں تمہیں آسودا حال دیکھ رہا ہوں اور مجھے تم پر گھیرنے والے دن کے عذاب کا خوف (بھی) ہے۔اے میری قوم! ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کرو لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دواور زمین میں فساد اور خرابی نہ مچاؤ۔ اللہ تعالٰی کا حلال کیا ہوا جو بچ رہے تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو۔
اسی طرح ایک اور کردار اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے ،قارون کا کردار جو بڑا دولت مند تھا ، اسے بھی یہی کہا گیا : فرمانِ باری تعالیٰ :
﴿وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللّٰهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ﴾
القصص: 77
ترجمہ : جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند رکھتا ہے۔
یعنی :اللہ رب العزت نے تمہارے اوپر بہت نوازشات فرمائی ہیں تجھے بھی چاہئے کہ تو حسن عمل کے دائرے کے اندر اپنے آپ کو محدود رکھے اور صراط مستقیم کو چھوڑ کر فساد مچانے والا راستہ اختیار نہ کرے لیکن اس پیمائش کی اس نے بھی پرواہ نہ کی اور اسی راستے کے اوپر قائم رہا۔نتیجہ یہ نکلا کہ :
﴿فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِن فِئَةٍ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللّٰهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنتَصِرِينَ﴾
القصص: 81
انسان اللہ رب العزت کے متعین کردہ دائرہ سے ظلم و عدوان ،بغی و طغیان کے ساتھ نکلتا ہے، تو پھر اپنی تباہی کو دعوت دیتا ہے ،جیسا کہ اللہ رب العز ت نے فرمایا:
انسان اللہ رب العزت کے متعین کردہ دائرہ سے ظلم و عدوان ،بغی و طغیان کے ساتھ نکلتا ہے، تو پھر اپنی تباہی کو دعوت دیتا ہے ،جیسا کہ اللہ رب العز ت نے فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا﴾
النساء: 29
ترجمہ : اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے ہو خرید وفروخت اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے۔
اگر نا جائز طریقوں سے ایک دوسرے کا مال کھاؤگے تو یہ اپنے آپ کو قتل کرنے کے مترادف ہوگا ، تمہاری تباہی کا باعث ہوگا ،اور اللہ تعالی تمہیں غرق کردے گا ، اور آج اللہ رب العزت کے نظام کو چھوڑ کرمن مانی معاشی سرگرمیاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ زمین کے خزانے بے حساب ہیں رزق کے وسائل اللہ رب العزت نے بہت زیادہ فرمائے ہیں ،لیکن انسانی معاشرہ پریشانیوں کے اندر مبتلا ہے ، معاشرے میں امن نہیں ہے ، چین نہیں ہے ۔جس کا باعث کسبِ حلال سے اعراض ہے ۔
کسب حلال کی افادیت کیا ہے؟
رب راضی ہوتا ہے
سب سے بڑا افادیت کا پہلو تو یہی ہے اس سے انسان کا پروردگاراور بادشاہ جس کے سامنے اس نے پیش ہونا ہے اور جا کر اپنی زندگی کا جواب دینا ہے وہ اس سے راضی ہو جاتاہے ،اس سے خوش ہو جاتا ہے ، اس کی خوشنودی اور رضا مندی انسان کو اگر حاصل ہو جائے تو اس سے بڑھ کر انسان کے لئے اور کوئی سعادت کی بات نہیں۔
رحمتوں اور برکتوں کا نزول :
اور دوسری افادیت اس کی یہ ہے کہ اس کے ساتھ اللہ رب العزت کی رحمتیں اور برکتیں انسان کو حاصل ہوتی ہیں ، فرمان ِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾
الأعراف: 96
ترجمہ : اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔
اگر لوگ دنیا کے اندر بسنے والے ایمان اور تقوی کا راستہ اختیار کریں جس کا مظہر اور مقتضی یہ ہوتا ہے کہ انسان حلال کے دائرے میں اپنے آپ کو محدود رکھے اور حرام سے اجتناب کرے تو اس ایمان اور تقوی کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت آسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ہیں اور انسان کی عزت اور کرامت بھی اسی چیز کے اندر ہے کہ انسان اپنے آپ کو حلال کے دائرے کے اندر محدود رکھے اور حرام کی طرف تجاوز نہ کرے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’جو شبہات سے بچتا ہے وہ اپنی عزت کو بھی بچالیتا اور جو شبہات میں پڑ گیا گویا وہ حرام میں پڑ گیا ‘‘۔ [1]
راحت و سکون حاصل ہوتا ہے
اگر انسان اپنے آپ کو حلال کے دائرے کے اندر محدود رکھتا ہے تو انسان کی زندگی میں راحت و سکون بھی ہوتا ہے اور اسکے افعال و تصرفات کے اندر شیرینی اور مٹھاس ہوتی ہے ،پاکیزہ اور حلال چیز ہی انسان کے اندر حلاوت پیدا کرنے والی چیز ہے اور پھر یہی چیز ہے کہ جو انسان کو جنت میں لے جانے کا سبب بنے گی جنت میں وہی لوگ جائیں گے جو خود کو طیبات اور پاکیزہ رزق تک محدود رکھتے ہیں جنہیں فرشتے اس حال میں لے کر جاتے ہیں کہ انہوں نے طیّب بن کر زندگی گزاری ہے ان کا عمل ، کھانا،لباس سب اچھا اور پاکیزہ ،ہر عمل انہوں نے اچھا کیا ہے فرشتے انہیں لے کر جاتے ہیں اور پیغام دیں گےکہ:
﴿سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ﴾
الزمر: 73
ترجمہ : تم پر سلام ہو، تم خوش حال رہو تم اس میں ہمیشہ کیلئے داخل ہوجاؤ۔
تم پہ سلامتی ہو اللہ رب العزت کے بندو ’’طِبْتُمْ ‘‘تم پاک رہے اب یہ پاکیزگی کا گھر اب تمہارا ٹھکانہ ہے۔
کسب حرام کے نقصانات
ظاہر ہے کہ اگر انسان شبہات کا بھی ارتکاب کرے اور یہ اسے حرام کی طرف لے جائیں تو نہ اس کا دین بچے گا نہ اس کی عزت و کرامت بچے گی انسان ذلیل و خوار ہو جائے گا اور دین کی رہنمائی سےمحروم ہوجائے گا پھر انسان کا دل ایسا ہو جاتا ہے کہ انسان کو راستہ ہی سجھائی نہیں دیتا نیکی نیکی معلوم نہیں ہوتی، برائی برائی معلوم نہیں ہوتی دل سیاہ ہوکر الٹا ہوجاتا ہے اور انسان کو کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا جبکہ کسبِ حلال پر اکتفا کرنا انسان کی عبادات اور دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہوتا ہے حرام انسان کو ایسا بنادیتا ہے کہ اس سے نہ انسان کی دعا قبول ہوتی ہے اور نہ عبادات جس طرح کہ فقیہ الامۃ ترجمان القرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حرام کھانے سےانسان کی دعا نہیں قبول ہوتی اور دعا سب سے بڑی عبادت ہے ۔‘‘ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں فرمایا کہ’’ اس کی دعا قبول نہیں ہوتی نہ عبادت ۔‘‘ زندگی کے اندر راحت اور سکون نہیں رہتا زندگی پریشانیوں کا مجموعہ بن جاتی ہے انسان دولت کے انبار جمع کر لیتا ہے اور کاروبار کے دائرے وسیع کر لیتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ اسے نہ سکھ کی نیند آتی ہے اور نہ راحت کے ساتھ وہ زندگی بسر کر سکتا ہے بلکہ امن و امان کی صورت حال مخدوش ہوجاتی کہ انسان کسی وقت بھی اپنے آپ کو کہیں بھی محفوظ نہیں سمجھتا اور ہر وقت اپنے آپ کو خطرے کے اندر محسوس کرتا ہےیہ اس امر کا نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان نے حلال کے دائرے سے نکل کر حرام کے اس ممنوع دائرے کے اندر قدم رکھ دیا جس سے اللہ ربّ العزت نے اسے منع کیا تھا ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حلال کمانے ، حلال کھانے اور اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
[1] صحيح مسلم : کتاب المساقاة ، باب أخذ الحلال وترک الشبهات