اسلام کے تمام احکام بندوں کے دنیاوی و اخروی فوائد پر مبنی ہیں کیونکہ ان کا مقرر کرنے والا عظیم حکمت والا رب کائنات ہے۔
فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمة
حکیم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
مناسکِ حج امورِ تعبدیہ میں سے ہیں لہذا ان کے تمام مصالح اور حکمتیں اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں یا جس کو اللہ تعالیٰ نے یہ علم عطا فرمایا ہے مگر چند باتیں افادات کے پیشِ نظر اقتباس کر کے ہدیۂِ قارئین کی جاتی ہیں۔
اللہ عز و جل کی وحدانیت کا اظہار :
حاجیوں کا شعار تلبیہ ہے :
لَبَّيْكَ اللهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ
حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں ، میں حاضر ہوں ، بے شک تمام تعریفیں تیرے لیے، ہر قسم كی نعمتیں اور بادشاهی تیرے لیے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔
گویا لبیک کا ترانہ توحیدِ الٰہی کی شہادت اور عظمتِ الٰہی کا اعتراف ہے کہ ہم ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو بری کر رہے ہیں کہ الٰہی! تیرے سوا نہ کوئی اس قابل ہے کہ ہم اس کی بندگی کریں اور نہ ہی کوئی اس قابل ہے کہ ہم اپنی مصیبتوں میں اس کی طرف نظر اٹھائیں اور نہ ہی کوئی اس قابل ہے کہ ہماری کسی مصیبت کو دور کر دے۔ تلبیہ کو بلند آواز سے پڑھنے میں یہی حکمت ہے کہ اس توحید کو نہ صرف قبول کریں بلکہ اس کا اعلان کریں۔ چنانچہ ایك صحابی نبیﷺ کے حج کا احوال بیان كرتے ہوئے كہتے ہیں كہ :
وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، وَعَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ، وَهُوَ يَعْرِفُ تَأْوِيلَهُ، وَمَا عَمِلَ بِهِ مِنْ شَيْءٍ عَمِلْنَا بِهِ، فَأَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ «لَبَّيْكَ اللهُمَّ، لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ، وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ» وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ
صحیح مسلم – 1218
رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان موجود تھے ۔ آپ ﷺ پر قرآن نازل ہوتا تھا اور آپ ﷺ ہی اس کی تفسیر جانتے تھے ۔ جو عمل آپ ﷺ کرتے تھے ہم بھی اس پر عمل کرتے تھے ۔ پھر آپ ﷺ نے توحید کا تلبیہ پکارا یعنی ’’ لبيك اللهم لبيك .. لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك .. لا شريك لك) کہا اور لوگوں نے وہی تلبیہ پکارا جو وہ آج پکارتے ہیں ۔۔۔۔
حج کے شعار اور اس کے اعمال اور افعال پر اگر ہم غور كریں تو ان میں توحید نمایاں نظر آتی ہے اور اس بات کا بھی اقرار ہے کہ ملک اور حکومت بھی الله ہی کی ہے، حقیقی بادشاہ وہی ہے اور ہم سب اس کے بندے ہیں۔ لہذا دنیا میں اسی کا قانون، اسی کا حکم چلنا چاہئے اور کسی کو اپنی طرف سے نیا قانون بنانے کا اختیار نہیں ہے۔
حصولِ تقوی
حج کے مقاصد میں سے ایک مقصد تقوی کا حصول ہے۔ تقویٰ عبادت كا سب سے بڑا مقصد هے، تقوی بھلائیوں کا مجموعہ ہے اور حج تقویٰ كے حصول کا سب سے بڑا موقع ہے۔ اسلام کی بنیاد جن پانچ ارکان پر رکھی گئی ہے ان پانچوں ارکان کی ادائیگی کے وقت اﷲ تعالیٰ نے ہر عمل کے ساتھ تقویٰ کو لازم قرار دیا ہے۔ چنانچہ روزے کی فرضیت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا: “لعلكم تتقون” تاکہ تم متقی بن جاؤ. اسی طرح جب حج بیت الله كا تذكره آیا تو فرمایا:
وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
البقرۃ – 197
’’پس بے شک (حج) کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جاؤ مگر بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو ! مجھ سے ڈرتے رہو ۔
یعنی حقیقی زادِ راہ جس کا انسان کو دنیا و آخرت میں فائدہ ہوتا ہے تو وہ تقویٰ کا زادِ راہ ہے جو جنت کی طرف سفر کا زادِ راہ ہے اور وہی زادِ راہ ایسا ہے جو انسان کو ہمیشہ رہنے والی کامل ترین لذت اور جلیل ترین نعمت کی منزل مراد پر پہنچتا ہے۔ جو کوئی زادِ تقویٰ کو چھوڑ دیتا ہے وہ اس بنا پر اپنی راہ کھوٹی کر بیٹھتا ہے۔ تقویٰ سے محروم ہونا ہر برائی کا نشانہ بن جانا ہے۔ ایک شخص حج کی ادائیگی کے لیے تمام ضروریاتِ زندگی ساتھ لے کر نکلتا ہے لیکن اگر دل میں تقویٰ ہی نہیں ہوگا تو یہ سفر سیاحت تو ہوگا اور اس سے شاید کچھ آگہی تو حاصل ہو جائے مگر ثواب و رضائے الہی حاصل نہیں ہوگی۔ دوسری جگه سوره حج میں ارشاد فرمایا:
وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ
الحج – 32
اور جو کوئی اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو یہ کام دلوں کی پرہیزگاری کی دلیل ہے۔
اسی سورت میں دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ
الحج – 37
اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون اور لیکن اسے تمھاری طرف سے تقویٰ پہنچے گا۔
یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس نہ قربانیوں کے گوشت پہنچیں گے جو کھا لیے گئے اور نہ ان کے خون جو بہا دیے گئے۔ یہ سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان سے غنی ہے۔ اس کے پاس تو تقویٰ یعنی تمھارے دل کا وہ خوف پہنچے گا جو اللہ کی ناراضگی سے بچاتا ہے، جو جب دل پر غالب ہو جاتا ہے تو آدمی اللہ کے ہر حکم کی تعمیل کرتا اور ہر منع کردہ کام سے باز آ جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ اللّٰهَ لَا يَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِكُمْ وَ أَمْوَالِكُمْ وَلٰكِنْ يَّنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِكُمْ وَ أَعْمَالِكُمْ
صحیح مسلم – 2564
اللہ تعالیٰ تمھاری شکلوں اور تمھارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمھارے دلوں اور تمھارے عملوں کو دیکھتا ہے۔
اس آیت اور حدیث سے دل کے تقویٰ اور نیت کے اخلاص کی اہمیت ظاہر ہے اس لیے قربانی خالص اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے۔ نہ دکھاوا مقصود ہو اور نہ شہرت، نہ فخر اور نہ یہ خیال کہ لوگ قربانی کرتے ہیں تو ہم بھی کریں۔ نیت کے بغیر عمل کا کچھ فائدہ نہیں۔
تقوى کیا ہے؟
“تقوى” عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ وقى سے ماخوذ ہے۔ اسی سے وقایہ ہے۔ جس کا معنى ہے بچاؤ ، حفاظت و حمایت۔ اسی سے واضح ہو جاتا ہے کہ تقوى کو تقوى کیوں کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک انسان کو گناہوں کے ارتکاب سے بچاتا ہے، معصیتوں سے اس کی حفاظت کرتا ہے، حرام و ناجائز امور کے سامنے ڈھال ہوتا ہے اسی لیے اس کو تقوى کہا جاتا ہے۔
تقوی کی تعریف أمیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب رضی الله عنہ نے یوں کی ہے:
الخوف من الجليل، والعمل بالتنزيل، والقناعة بالقليل، والاستعداد ليوم الرحيل1
اللہ سے خوف کھانا، قرآن پر عمل کرنا، کم پر قناعت کرنا اور آخرت کے لیے تیاری کرنا تقوی ہے۔
حج اور سیلفی
حج کے مواقع پر سب سے اہم اور بڑی برائی جو دیکھنے میں آتی ہے وہ کثرت سے اپنی تصاویر لینا اور موبائل پر سیلفیاں اپلوڈ کرنا ہے۔ یہ کام ایسا غیر ضروری اور لایعنی ہے کہ اس سے وقت کا ضیاع تو ہوتا ہی ہے ساتھ میں ریاکاری بھی شامل ہو جاتی ہے جو کہ نیکیوں کو ایسے مٹا دیتی ہے جیسے آگ لکڑی کو ختم کر دیتی ہے۔
سیلفی لینے والا پوری دنیا کو بتا رہا ہوتا کہ دیکھو میں اس وقت حج کے لیے بیت ﷲ کے پاس موجود ہوں۔ اس کے علاوہ اس سیلفی کا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ یہ بتانا کہ میں نے حج کرلیا یا میں عمرے کی ادائیگی کے لیے نکلا ہوا ہوں اور دیکھنے والوں سے داد و تحسین وصول کرنا ہے جو کہ بغیر کسی اختلاف کے ریا کاری کے زمرے میں آتا ہے۔ موبائل کے غیر ضروری استعمال، سیلفیاں بنا کر اپ لوڈ کرنا اور ہر وقت موبائل اور سوشل میڈیا کی دنیا میں کھوئے رہنا سراسر تقوے کے خلاف ہے حالانکہ تقوے کا حکم خود اللہ رب العالمین نے اگلوں اور پچھلوں کو دیا ہے اور اس کی نصیحت و وصیت اس نے بذاتِ خود تمام قوموں کو کی ہے۔ فرمانِ باری تعالى ہے:
وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ
النساء – 131
تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انہیں بھی یقینا یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو ۔
ایامِ حج بہت مختصر ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں بہت زیادہ محنت اور لگن سے عبادت کرنے کی ضرورت ہے۔ اتنے دور سے اتنا سفر کرکے آنے کے بعد بھی کوئی حاجی موبائل، انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر اپنے وقت کا ضیاع کرتا رہے تو گویا اس نے اپنے آنے کا مقصد ہی ضایع کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اظہار
حج کے مقاصد میں سے ایک مقصد اللہ تعالیٰ کے سامنے بندگی کا اظہار ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ :
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ
آل عمران – 97
اور اللہ کی رضا کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا ان لوگوں پر فرض ہے جو وہاں پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو انکار کرے گا تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے ۔
یہ آیتِ کریمہ اس شخص پر حج کو واجب کرتی ہے جس میں حج کی استطاعت کے ساتھ وجوبِ حج کے شرائط مکمل پائے جاتے ہوں اور بندگی کے تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اس حکمِ الٰہی کے سامنے فرمانبردار اور متواضع ہو۔ اس كے پاس سوائے یہ كہنے كے كہ ’’اے میرے رب میں نے سن لیا ور مان لیا‘‘ کوئی اور گنجائش نہ ہو ۔
حج اظہارِِ بندگی کا بہترین انداز ہے۔ جب ایک حاجی رب کے حکم کی تعمیل کے لیے جسم پر دو سفید چادریں لپیٹ کر گھر سے نکلے تو وہ زبانِ حال اور زبانِ قال سے اس بات کا عنوان بنا ہو کہ اللہ ہی رب ہے، وہی حقیقی مالک و رازق ہے، وہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کے سوا سب جھوٹے دعویدارِ خدائی فنا ہونے والے ہیں صرف اللہ ہی ہمیشہ اور باقی رہنے والا ہے۔ یہ اظہارِ بندگی اور رب کے شکر کا ایک انداز ہی تو ہے کہ رب کے فرمان :
وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ
الحج – 29
اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں۔
تو اس حکم کی تعمیل میں ایک مسلمان خشیتِ الٰہی سے سرشار کبھی کعبہ کا طواف کر رہا ہوتا ہے تو کبھی صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ رہا ہوتا ہے، کبھی وقوفِ عرفات کے دوران میں اپنے مالک سے استغفار و مناجات میں مصروف ہے تو کبھی سنتِ ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے اپنی قربانی اللہ کے حضور پیش کر رہا ہوتا ہے اور زبان پر تلبیہ کے ان لفاظ کا ورد ہوتا ہے:
لبیك اللھم لبیك، لبیك لاشریك لك لبیك ان الحمد و النعمة لك والملك لاشریك لك
’’اے اللہ میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، تیرے پاس حاضر ہوں، بے شک تعریف، نعمت اور بادشاہی تیرے ہی لیے ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔‘‘
ذِکرِ الہی
اسلام کی تمام عبادات كا مقصد حقیقت میں الله تعالیٰ کا ذکر ۔ نماز كی مشروعیت کا مقصد بھی ذكر الہٰی ہے۔ جیسا كہ الله نے ارشاد فرمایا:
إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي
طه – 14
بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔
یعنی تلاوتِ قرآن، نماز، روزہ، قربانی اور حج سب اللہ کی کبریائی بلند کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جن آیات میں حج کے احکامات بیان کیے ہیں ان میں خاص طور پر ذکر کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ
البقرۃ – 198
جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعرِ حرام کے پاس ذکرِ الٰہی کرو ۔
اس آیت کا پسِ منظر بیان کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہلِِ عرب جاہلیت میں حج سے فارغ ہونے کے بعد منیٰ میں ٹھہر جاتے تھے اور اپنے اپنے آبا و اجداد کی سخاوت، دریا دلی، شجاعت و بہادری کے واقعات سناتے ہوئے ایک دوسرے پر فخر و غرور کرتے تھے۔ اسلام آنے کے بعد اس سے منع کیا گیا اور صرف اللہ کی بزرگی، بڑائی اور عظمت بیان کرنے کا حکم دیا گیا۔ اسی لیے مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ حج کے دوران میں تلبیہ پڑھتے رہیں کیونکہ یہ اللہ کی بزرگی، بڑائی اور بادشاہی کا اقرار ہے۔
ام المؤمنین سیده عائشه رضی الله عنها سے روایت ہے کہ نبی كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَرَمْيُ الْجِمَارِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ2
كہ بیت اللہ کا طواف کرنا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا اور کنکریاں مارنا یہ سب اللہ کی یاد قائم کرنے کے لیے مقرر کئے گئے ہیں ۔
ذکرِ الہی عظیم عبادت ہے اور اطاعت الہی کا بہترین نمونہ ہے ۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ألا أنبِّئُكُم بخيرِ أعمالِكُم ، وأزكاها عندَ مليكِكُم ، وأرفعِها في درجاتِكُم وخيرٌ لَكُم مِن إنفاقِ الذَّهبِ والورِقِ ، وخيرٌ لَكُم من أن تلقَوا عدوَّكُم فتضرِبوا أعناقَهُم ويضربوا أعناقَكُم ؟ قالوا : بلَى . قالَ : ذِكْرُ اللَّهِ تَعالى قالَ معاذُ بنُ جبلٍ : ما شَيءٌ أنجى مِن عذابِ اللَّهِ من ذِكْرِ اللَّهِ
صحیح الترمذی – 3377
کیا میں تمہارے سب سے بہتر اور تمہارے رب کے نزدیک سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے والے عمل کی تمہیں خبر نہ دوں؟ وہ عمل تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے، وہ عمل تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم ( میدان جنگ میں ) اپنے دشمن سے ٹکراؤ، وہ تمہاری گردنیں کاٹے اور تم ان کی ( یعنی تمہارے جہاد کرنے سے بھی افضل ) “ لوگوں نے کہا: جی ہاں. ( ضرور بتائیے ) آپ نے فرمایا: ”وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے“۔
حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں :
مَا شَيْءٌ أَنْجَى مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ
صحیح الترمذی – 3377
اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی اور چیز نہیں ہے۔
گناہوں سے نجات
حج گناہوں سے نجات حاصل کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے کیونکہ حج ایک ایسی عظیم عبادت ہے جو مسلمان کے تمام گناہوں کو دھو ڈالتی ہے۔ جس طرح جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے تو اس سے سابقہ گناہوں پر مواخذہ نہیں کیا جاتا ایسے ہی خلوصِِ نیت سے کیے ہوئے حج سے مسلمان کا نامۂ اعمال برائیوں سے بالکل پاک ہو جاتا ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مسلمان ہونے لگے تو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ بیعت لینے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں، جب نبی ﷺ نے ہاتھ آگے بڑھایا تو عمرو نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا. نبی ﷺ نے پوچھا اے عمرو ! کیا بات ہے؟ حضرت عمرو کہنے لگے کہ میری ایک شرط ہے. آپ ﷺ نے فرمایا: کیا شرط ہے ؟ عمرو رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میری شرط یہ ہے کہ میرے سارے گناہ معاف ہو جائیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
أما عَلِمْتَ أنَّ الإسْلامَ يَهْدِمُ ما كانَ قَبْلَهُ؟ وأنَّ الهِجْرَةَ تَهْدِمُ ما كانَ قَبْلَها؟ وأنَّ الحَجَّ يَهْدِمُ ما كانَ قَبْلَهُ؟
صحیح مسلم – 121
اے عمرو! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام سابقہ گناہوں کو ختم کر دیتا ہے اور (اللہ کی راہ میں کی گئی) ہجرت سابقہ نافرمانیوں کو مٹا دیتی ہے اور حج بھی سابقہ گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔‘‘
حج کرنے والا نومولود کی طرح ہے
حدیث میں حج کرنے والے شخص کو نومولود بچے سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح ایک نومولود گناہوں سے بالکل پاک صاف ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق کیے گئے حج سے انسان برائیوں سے بالکل پاک ہو جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہرضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا:
مَن حَجَّ لِلہِ فَلَمْ يَرْفُثْ، ولَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَومِ ولَدَتْهُ أُمُّهُ
صحیح البخاری – 1521 / صحیح مسلم – 1350
جس شخص نے اللہ کی رضا کے لیے حج کیا اور فحش باتوں اور گناہوں کا ارتکاب نہ کیا تو وہ اس دن کی طرح (گناہوں سے پاک) لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا ۔‘‘
حج فقر و محتاجی كو دور كرتا ہے
بار بار حج اور عمرہ کرنے والے کے لیے گناہوں اور فقر و فاقہ سے نجات کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تابِعوا بينَ الحجِّ والعمرةِ ، فإنَّهما ينفِيانِ الفقرَ والذُّنوبَ ، كما ينفي الْكيرُ خبثَ الحديدِ والذَّهبِ والفضَّةِ وليسَ للحجِّ المبرورِ ثوابٌ دونَ الجنَّةِ
صحیح النسائی – 2630
حج اور عمرے بار بار کرتے رہو کیونکہ یہ دونوں محتاجی اور گناہ کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کی میل کچیل کو دور کرتی ہے اور حجِ مبرور کا ثواب تو بلاشبہ جنت ہے۔‘‘
مصائب و مشکلات پر صبر
حج ایک درس گاہ ہے جہاں سے انسان آزمائش پر صبر کرنا سیکھتا ہے۔ نہ صرف آزمائش پر بلکہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اشیا کو دورانِ احرام استعمال نہ کرنے اور اپنی نفسانی خواہشات پر صبر کرنا۔ درحقیقت حج سے ایک ایسا ماحول اور معاشرہ قائم کرنا مقصود ہے جس میں بسنے والے انسانوں کے اندر صبر اور برداشت کا مادہ بہت زیادہ ہو۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ
البقرۃ – 197
جو شخص ان میں حج کا ارادہ رکھتا ہو وہ نہ شہوت کی باتیں کرے نہ گناہ کرے اور نہ لڑائی جھگڑا کرے۔
حج کا مقصد اللہ تعالیٰ کے لئے تذلل اور انکساری، عبادات کے ذریعے سے ممکن حد تک اس کے تقرب کا حصول اور برائیوں کے ارتکاب سے بچنا ہے اس لئے کہ یہی وہ امور ہیں جن کی وجہ سے حج اللہ کے ہاں مقبول و مبرور ہوتا ہے ۔ مذکورہ برائیاں اگرچہ ہر جگہ اور ہر وقت ممنوع ہیں تاہم حج کے ایام میں ان کی ممانعت میں شدت اور زیادہ ہو جاتی ہے اور جان لیجیے کہ صرف ترک معاصی سے تقریبِ الٰہی کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے احکام بھی نہ بجا لائے جائیں۔
حضرت عبد الله عباس رضی الله عنهما فرماتے ہیں كہ عرفہ کے دن وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ آ رہے تھے۔
فَسَمِعَ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ورَاءَهُ زَجْرًا شَدِيدًا، وضَرْبًا وصَوْتًا لِلْإِبِلِ، فأشَارَ بسَوْطِهِ إليهِم، وقالَ: أيُّها النَّاسُ، علَيْكُم بالسَّكِينَةِ؛ فإنَّ البِرَّ ليسَ بالإِيضَاعِ.
صحیح بخاری – 1671
تو نبی کریم ﷺ نے اپنے پیچھے سخت شور شرابه ( اونٹ ہانکنے کا ) اور اونٹوں کی مار دھاڑ کی آواز سنی تو آپ ﷺ نے لوگوں کی طرف اپنے کوڑے سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! آہستگی اور وقار اپنے اوپر لازم کر لو ( اونٹوں کو ) تیز دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔
اسی طرح رمیِ جمرات كے وقت جب لوگوں كا رش بڑھ گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
يا أيُّها النَّاسُ لا يقتل بعضُكُم بعضًا وإذا رميتُمُ الجمرةَ فارموا بمثلِ حَصى الخذفِ
صحیح أبی داؤد – 1966
لوگوں! تم میں سے کوئی کسی کو قتل نہ کرے ( یعنی بھیڑ کی وجہ سے ایک دوسرے کو کچل نہ ڈالے ) اور جب تم رمی کرو تو ایسی چھوٹی کنکریوں سے مارو جنہیں تم دونوں انگلیوں کے بیچ رکھ سکو ۔
اگر حاجی کے اندر صبر و برداشت کا مادہ نہ ہو تو حج کا یہ سفر اس کے لیے انتہائی کٹھن ہوسکتا ہے کیونکہ حج میں حاجی کو گھر جیسا آرام و سکون میسر نہیں ہوتا۔ ازدحام اور بھیڑ کی وجہ سے چلنے، بیٹھنے اور آرام کرنے کی جگہ نہیں ملتی، منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ طواف و سعی کے دوران میں کندھے سے کندھا چھل رہا ہوتا ہے، اس لیے امکان ہے کہ حاجی اپنے ساتھی حاجیوں کے ساتھ الجھ پڑے لیکن فرمانِ الهی کی روشنی میں اگر حاجی صبر و برداشت اور درگزر سے کام لے نیز اپنی ساری توجہ عبادت اور مناسکِ حج کی ادائیگی میں رکھے تو یہ اس کے لیے حجِ مبرور ثابت ہوسکتا ہے جس کی جزا جنت ہے۔
سابقہ انبیاء کے احوال کی یاد دہانی
حج کی عبادت در اصل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اسوہ کی طرف رہنمائی ہے۔ ان کی ثابت قدمی اور اللہ کے وعدے پر مکمل یقین کی تذکیر اور یاد دہانی ہے خصوصاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ ایک مومن کو ہر طرح کی آزمائش و مشکلات میں ثابت قدم رہنا سکھاتا ہے۔ حج کا یہ مقصد ہے کہ ہر حاجی اور معتمر خود اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور حاکمیت کا مشاہدہ کرے۔ نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعا میں برکت کا نظارہ کرے جو انہوں نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت کی تھی۔
حج کا یہ مقصد بھی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی پر نگاہ ڈالی جائے کہ وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں اپنے بچے اور بیوی کو وادیِ غیر ذی زرع میں اکیلا چھوڑ آئے اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں اہل و عیال کی محبت کو آڑے آنے نہیں دیا۔ جب بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمایا تو وہ ہر آزمائش پر پورا اترے، آگ میں کودنے کا حکم ہوا تو اس کے لیے تیار تھے، گھر بار چھوڑنے کے لیے بھی تیار، بیوی بچے کو تنہا چھوڑنے کے لیے بھی آمادہ، جوان بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ہوا تو اس کی تعمیل کرنے میں بھی ذرا تامل نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام امتحانات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ
البقرۃ – 124
اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ساتھ آزمایا تو اس نے انھیں پورا کر دیا۔
حج میں نہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آنے والی آزمائشوں کی یاد دہانی ہے بلکہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام پر آنے والی آزمائش کی بھی یاد دہانی ہے کہ جب انہوں نے ننھے اسماعیل (علیہ السلام) کی پیاس بجھانے کے لیے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان دوڑ دھوپ کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدموں سے ایسا چشمہ جاری کردیا جو آج تک بہہ رہا ہے۔ یہ تمام باتیں اس بات کا پختہ شعور دلاتی ہیں کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور حالات کیسے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں ایک مومن اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں دین کی دعوت کو جاری رکھتا ہے اور باطل کی رخنہ اندازیاں اس کے پایۂ استقلال میں کسی قسم کی لغزش پیدا نہیں ہونے دیتیں۔
اتفاق و اتحاد
اتفاق و اتحاد کا حکم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہے۔ چنانچہ فرمانِ الہی ہے :
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا
آل عمران – 103
اے لوگو! اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہوں میں مت بٹو۔
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
إنَّ المُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا. وشَبَّكَ أصَابِعَهُ
صحیح بخاری – 481
کہ ایک مسلمان کا تعلق دوسرے مسلمان کے ساتھ ایک مضبوط عمارت جیسا ہے اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے پھر آپ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے دکھایا“۔
کیونکہ اسلام کا ایک منشاء یہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت پیدا ہو اور تمام ممالک کے مسلمانوں کو ملتِ واحد بنا دیا جائے چنانچہ اسی غرض سے حج کے نام سے ایک ایسی عبادت فرض کی گئی جس کی ادائیگی کے لیے مسلمان اپنے قیمتی جان و مال کو خیر باد کہہ کر ایک اللہ کے حکم پر اطراف و اکناف سے ایک ہی لباس میں اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔ تمام عالمِ اسلام میں رابطۂِ دینی کو مضبوط کرنے کے لیے اور مختلف قوموں، مختلف نسلوں، مختلف زبانوں، مختلف رنگوں اور مختلف ممالک کے مسلمانوں کو دینِ واحد کی وحدت پر قائم رکھنے کے لیے حج فرض کیا گیا۔
اس سے مسلمانوں کو ایک جگہ جمع ہو کر امورِ سیا ست و تجارت وغیرہ سب کاموں میں مشورہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ حج ہے۔ حج ہی کی بدولت باہمی تعاون کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ عام مسلمان جو اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہوتے ہیں وہ ہر قسم کی مشکلات کے باوجود دور دراز ممالک سے سفر کرکے یہاں جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ایک دوسرے کے حالات سے آشنا ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے غم سے واقف ہوتے ہیں جس سے ان میں باہمی تعاون اور اتحاد کی روح پیدا ہوتی ہے۔
عدل و مساوات
عدل و مساوات بھی اسلام کا ایک اہم سنگِ بنیاد ہے۔ حج کے اسرار و رموز میں یہ بھی ہے کہ تمام مسلمان ایک ہی لباس میں بلا تمییز و تخصیصِ شاہ و گدا، آقا و غلام سب ایک ہی حالت میں ایک ہی جگہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوں اور رنگ و نسل کے امتیازی تفرقے ختم ہو جائیں۔ جب امیر و غریب، حکام اور عوام ایک لباس، ایک صورت، ایک حالت، ایک میدان میں کھلے آسمان تلے رب ذو الجلال کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو پوری وسعت اور ہمہ گیری کے ساتھ مساوات کا اظہار ہوتا ہے۔ کسی کے لیے کوئی مراعات نہیں ہوتیں اور نہ ہی کسی اور شخص کے لیے کوئی خاص مقام و مرتبہ ہوتا ہے سوائے تقویٰ کی بناء پر کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ہوتی۔ نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى، إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ ، ألا هل بَلَّغْتُ؟ قَالُوا: بلى يا رسول الله، قال: فليبلغ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ.
السلسلة الصحیحة – 1164
اے لوگو! تمہارا رب ایك ہے، تمہارے والد (آدم) ایك ہیں، خبردار كسی عربی كو عجمی پر كوئی فضیلت نہیں نہ كسی عجمی كو كسی عربی پر فضیلت ہے۔ نہ كسی سرخ كو سیاہ پر اور نہ كسی سیاہ كو سرخ پر فضیلت ہے سوائے تقویٰ كی صورت میں۔ تم میں سے اللہ كے نزدیك عزت والا شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔ كیا میں نے پیغام پہنچا دیا ؟ صحابہ نے كہا: جی ہاں! اے اللہ كے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: موجود شخص غیر موجود كو پیغام پہنچا دے۔
مسلمانوں کے زوال اور امن و سلامتی کے عدم استحکام کی اصل وجہ بھی اتحاد کی دولت سے محروم ہونا ہے۔ حج جیسی عظیم عبادت نسل پرستی اور علاقائی طبقات کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
نعمت کا شکر :
فریضۂ حج میں شکر دو طریقے سے ادا ہوتا ہے۔ مال کی نعمت کا شکر اور بدن کی سلامتی کا شکر۔ انسان دنیا کی جن بڑی نعمتوں سے مستفیض ہوتا ہے ان میں یہ دو بڑی نعمتیں بہت اہم ہیں چنانچہ حج میں ان دو بڑی نعمتوں پر شکر ادا ہوتا ہے جہاں مسلمان اپنی ذات پر ہر قسم کی تکالیف اور مشقتیں برداشت کرتا ہے اور رب کی رضامندی اور تقرب کے لیے اپنا مال خرچ کرتا ہے اور نعمت کا شکر کرناعقل و شریعت دونوں کے اندر فرض ہے۔ چناچہ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
وَاشْكُرُوا لِلہِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
البقرۃ – 172
اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر واقعی تم صرف اسی کی بندگی کرتے ہو۔
سورة البقرة میں فرماتا ہے:
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ
البقرۃ – 152
سو مجھے یاد کرو تاکہ میں تمہیں یاد کروں، میری نعمتوں کا شکر ادا کرو اور ناشکری سے بچو ۔
شكر كی كئی قسمیں ہیں ، ایک شکر دل سے ہوتا ہے یعنی انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اقرار و اعتراف کرے۔ ایک شكر زبان سے ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر اور حمد و ثنا کرے اور ایک شكر اعضاء سے ہوتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے فرامین اور اس کے احکام کی اطاعت و فرمان برداری اور اس کی منہیات سے اجتناب کرے۔
شكر گزاری کے فوائد بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شکر گزاری نعمت کے باقی رہنے اور مزید نئی نعمتوں کے حصول کا سبب ہوتا ہے۔ فرمانِ الہی ہے کہ:
لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ
أبراھیم – 7
” اگر تم شکر کرو گے تو تمہیں اور زیادہ دوں گا“۔
علم، تزکیہ، اخلاق اور توفیقِ عمل جیسی دینی نعمتوں پر شکر کا حکم دینے میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ یہ سب سے بڑی نعمتیں ہیں بلکہ یہی حقیقی نعمتیں ہیں جن کو دوام حاصل ہے جب کہ دیگر نعمتیں زائل ہو جائیں گی۔
رسولِ کریم ﷺ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یہ دعا سکھلائی کہ اسے ہر نماز کے بعد پڑھا جائے۔
أللَّهمَّ أعنِّي على ذِكْرِكَ، وشُكْرِكَ، وحُسنِ عبادتِكَ
صحیح أبی داؤد – 1522
” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت كے لئے میری مدد فرما۔“
آخرت كی یاد دهانی
حج کے رکنِ اعظم وقوفِ عرفہ میں میدانِ حشر کی مشابہت بھی ہے۔ جس طرح حج کے موقع پر مسلمان عرفہ کے میدان میں کھلے آسمان تلے جمع ہوتے ہیں اسی طرح میدانِ حشر میں بھی کھلے آسمان تلے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے۔ حج کو قیامت سے بھی مشابہت ہے۔ جس طرح بندہ اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے بے سر و سامان صرف دو کپڑوں میں اپنے بدن کو ڈھانپ کر اپنے گھر والوں کی مدد سے دور ہوتا ہے۔ اسی طرح بروزِ قیامت میدانِ حشر میں بھی نفسا نفسی کے عالم میں اپنے رب کے حضور حسا ب دینے کے لیے کھڑا ہوگا۔ عرفات کا اجتماع میدانِ حشر کا نمونہ ہے۔ احرام کا لباس کفن سے مشابہ ہے۔ حج کا اہم مقصد آخرت کی یاد دہانی ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی الله عنہ فرماتے ہیں :
أرتحلت الدنيا مدبرة، وارتحلت الآخرة مقبلة، ولكل منهما بنون، فكونوا من أبناء الآخرة، ولاتكونوا من أبناء الدنيا. فإن اليوم عمل و لاحساب، وغداً حساب ولا عمل
صحیح البخاری – 6417
یہ دنیا ادھر سے کوچ کر کے منہ پھیرے ہوئے چلی جا رہی ہے اور آخرت ادھر سے کوچ کر کے ہماری طرف منہ کیے آ رہی ہے (یعنی دنیا کا ہماری طرف سے منہ پھیر کر اپنی فنا کی طرف بڑھنا اور آخرت کا اپنی بقا کے ساتھ ہماری طرف متوجہ ہونا ظاہر ہو رہا ہے) اور ان دونوں (دنیا و آخرت) میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں۔ پس تم (نیک عمل اختیار کر کے اور آخرت کی طرف متوجہ ہو کر) آخرت کے بیٹے بنو اور آخرت سے بے پروا اور دنیا کی طرف راغب ہو کر دنیا کے بیٹوں میں سے نہ ہو۔ یاد رکھو! آج کا دن عمل کرنے کا ہے حساب کا دن نہیں ہے (یعنی یہ دنیا دار العمل ہے دار الحساب نہیں۔ یہاں بس زیادہ سے زیادہ نیک عمل کئے جاؤ) اور کل (قیامت) کا دن حساب کا دن ہوگا۔ عمل کرنے کا وقت نہیں رہے گا۔