اسباب، خدشات/ مقاصد اور ان کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں
دنیا میں میڈیا اور کمیونی کیشن تھیوریسٹ” مارشل میک لوہان” نے 1964میں “گلوبل ویلج” کی اصطلاح وضع کی۔ جس سے مراد ایک ہی وقت میں دنیا کی ثقافت کے سکڑنے اور پھیلنے کا رجحان ہے جو کہ وسیع تکنیکی ترقی کی وجہ سے ہے اور یہ ثقافت کے فوری اشتراک کی اجازت دیتا ہے۔ آج پوری دنیا میں جس نوعیت کے فساد برپا ہو رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ جب پوری دنیا سمٹ کر گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر چکی ہے تو دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والے فساد کے اثرات ہر انسان پر مرتب ہوتے ہیں۔ یہ بات مارشل میک لوہان نے تو چند سال پہلے کی ہے لیکن پندرہ سو سال پہلے جب نہ کائنات کے متعلق اتنی وسعت تھی اور نہ لوگوں کو اس بات کا اندازہ تھا۔ اس وقت رب العالمین نے فرمایا تھا:
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
الروم – 41
خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں سے کی ہوئی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا مزہ چکھائے ‘ شاید وہ باز آ جائیں۔
آج جب دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے تو اس آیت کی حقیقی تصویر عوام الناس کے سامنے ابھر آئی ہے۔ اولین زمانے میں شاید اس کی کیفیت کچھ ایسی نہ ہو۔ کیونکہ تب تو نہ تسخیرِ کائنات کی اس وسعت کا لوگوں کو اندازہ تھا اور نہ ہی فساد کی ان انواع کا ادراک تھا جو اب رونما ہو رہے ہیں۔ پورا عالم جو فساد کا منبع و مرکز بن چکا ہے وہ ایک الگ بات ہے۔ حال ہی میں روس اور یوکرائن کے تصادم کے سلسلے میں جو معیشت کی تباہی ہوئی اور یورپ کی بریڈ باسکٹ کی حیثیت رکھنے والا ملک روس کے شکنجے میں جکڑا جا چکا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صدیوں سے یوکرین مشرقی افریقہ سے لے کر مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کو اناج کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ اس تناظر میں ایک اخباری رپورٹ کے مطابق فرانس کے صدر نے کہا تھا: جنگ ایک بار پھر یورپ لوٹ آئی ہے۔ روس اور یوکرائن کی جنگ طویل ہوگی جس کے زراعت کی دنیا پر اثرات ناگزیر ہوں گے۔
اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت پر ہونے والے اثرات کے حوالے سے تجزیہ نگاروں نے لکھا تھا: اس تنازعے کا براہِ راست اثر جو پاکستان پر پڑ سکتا ہے وہ ہے گندم کی قیمت۔ گندم پاکستان یوکرین سے سستی درآمد کرتا رہا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان نے یوکرین سے 13 لاکھ ٹن گندم درآمد کی تھی جو کہ گزشتہ سال کے دوران پاکستان کی کل درآمدات کا 40 فیصد بنتا ہے۔ اگر یوکرین سے گندم کی ترسیل میں تعطل پیدا ہوتا ہے تو پاکستان میں فوڈ سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور گندم دیگر ممالک سے مہنگے داموں درآمد کرنی پڑ سکتی ہے۔
جب روس یوکرائن جنگ شروع ہوئی تھی تب آئی ایم ایف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ روس کے یوکرین پر حملے کے اثرات دنیا کی معیشت پر پڑیں گے۔ عالمی ترقی کی رفتار میں کمی، مہنگائی میں اضافے کی شکل میں سامنے آئیں گے۔ پناہ گزینوں کی لہر اور دوسرے انسانی مسائل کے علاوہ اس جنگ سے افراطِ زر بڑھے گا۔ خوراک اور توانائی کی اشیا مہنگی جب کہ آمدنی کی قدر کم ہو گی۔ علاقائی اقتصادی ترقی میں کمی کا خدشہ ہے۔ سیاحت ، تجارت سمیت مختلف میدانوں میں دباؤ کو محسوس کیا جائے گا۔
بلاشبہ روس اور یوکرائن کا تصادم عالمی معیشت کے لیے ایک دھچکا ہے جس سے پیداواری شعبہ متاثر ہو رہا ہے اور اشیائے خورد و نوش کے نرخ بڑھ رہے ہیں۔ جنگ کے حوالے سے یوکرین کی تباہی کو افغانستان کے مثل قرار دینے کی پیشین گوئی ہو چکی ہے جب کہ روس کی اپنی معیشت کو بھی خطرہ ہے۔ المختصر یہ کہ اس کے پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہونے کے امکانات واضح ہیں لہذا ابھی مہنگائی کی اس دلدل میں دھنسنے کی مشقِ ستم مسلسل جاری تھی اور عوام و خاص سب پریشان اور مفلوک الحالی کا رونا رو رہے تھے کہ قدرت نے ایک اور آفت سے عوام کو دو چار کردیا۔ رواں سال 14جون کو شروع ہونے والی مون سون بارشوں نے پاکستان میں ملکی تاریخ کی بدترین تباہی مچائی ہے۔ مون سون بارشوں کے ابتدائی مرحلے نے صوبہ بلوچستان کو سب سے زیادہ متاثر کیا جب کہ حالیہ بارشوں نے جنوبی پنجاب اور سندھ میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ اور اب دریائے سوات کی بپھری موجوں نے خیبر پختون خواہ میں تباہی مچا دی ہے۔
پاکستان کے بیشتر علاقوں میں خطرناک صورت حال ہے۔ الغرض وطنِ عزیز اس وقت تاریخ کے خوف ناک سیلاب سے نبرد آزما ہے۔ سندھ بلوچستان میں کثیر تباہی اور اب جنوبی پنجاب پہ خطرات منڈلا رہے ہیں۔ لوگ بے گھر، معیشت تباہ، کاروبار ختم ، فصلیں تباہ اور ان علاقوں کے رہنے والے بنیادی ضروریات اور گھروں سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ ایک معمولی معاملہ نہیں ۔ دل دہل گئے ہیں اور اس خوف ناک صورت حال نے اہلِ پاکستان کے لیے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ تباہی 2005 میں زلزلہ کی تباہی جو کے اپنے لحاظ سے ایک بڑی تباہی تھی اس سے کہیں زیادہ تباہی کا سامنا ہے۔ پانی نے گاؤں کے گاؤں اجاڑ دیئے، مکینوں کو در بدر کر دیا ہے، کچے گھر منہدم اور زمینی راستوں کی بندش سے پریشان حال مکین مجبور و بے کس ہو چکے ہیں۔
“پاکستانی کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی NDMA کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ملک کے چاروں صوبوں میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں جِس کے نتیجے میں زرعی معیشت پرگہرا اثر پڑا ہے اور ملک کی معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ہزاروں مکانات تباہ ہو گئے اور دیہی علاقوں میں موجود کچے مکانات بہہ گئے جِس سے لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے”۔
“انگریزی اخبار’ ٹربیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کے سبب پڑے پیمانے پر مالی نقصان بھی ہوا ہے۔ سیلاب سے 800 بلین مالیت کی فصلیں تباہ ہوگئیں، 12559 مویشی موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ چھ لاکھ سے زائد افراد امدادی کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔”
یہ جہاں آزمائش میں مبتلا لوگوں کا امتحان ہے وہیں پر جو لوگ محفوظ ہیں ان کے لیے ایک بڑا سبق اور ذمہ داری بھی ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں اللہ سے توبہ و استغفار کریں اور ان آزمائش زدہ لوگوں کے لیے حرص و بخل سے دامن بچا کر دیدہ و دل کچھ اس طرح واہ کر دیں کہ:
وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ
الحشر – 9
وه اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے۔۔
عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ” الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ” .
سنن النسائی – 2560
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ “مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى ” .
صحیح مسلم – 2586
کی عملی تفسیر اور نمونہ پیش کر دیں۔ آئیے دیکھتے ہیں جس تباہی سے وطنِ عزیز دو چار ہے حال اور مستقبل میں اس کے معیشت پر بد ترین اثرات نمایاں ہوں گے, مالی طور پر غیر مستحکم ، قرضوں میں جکڑے اور کچھ سطح غربت سے بھی نیچے کی زندگی گزارنے والے ملک کو بحال ہوتے کتنا وقت لگے گا۔ یہ وقت بتائے گا اور رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہمارے حال پر رحم کرے۔
قدرتی آفات اور تباہی کے اسباب:
پہلا سبب:
اگر ہم درج بالا آیت کے پس منظر میں اس فساد کے اسباب اور تناظر کے حوالے سے مفسرین کی آراء کو جمع کریں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بحر و بر میں فساد برپا ہو گیا یعنی ان کی معیشت میں فساد اور اس میں کمی، ان کی معیشت پر آفات کا نزول اور خود ان کے اندر امراض اور وباؤں کا پھیلنا یہ سب کچھ ان کے کرتوتوں کی پاداش اور فطری طور پر فاسد اور فساد برپا کرنے والے اعمال کے سبب سے ہے۔
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ….
الروم – 41
خشکی سے مراد زمین کے میدان، پہاڑ اور صحرا وغیرہ ہیں اور سمندر سے مراد سمندری جزیرے، ساحلوں پر آباد شہر اور بستیاں اور سمندروں میں سفر کرنے والے جہاز اور کشتیاں ہیں۔ فساد (خرابی) سے مراد ہر آفت اور مصیبت ہے چاہے وہ جنگ و جدال اور قتل و غارت کی صورت میں نازل ہو یا قحط، بیماری، فصلوں کی تباہی، بدحالی، سیلاب اور زلزلے وغیرہ کی صورت میں ہو۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے بحر و بر میں جو فتنہ و فساد برپا ہے اور آسمان کے نیچے جو ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں یہ سب شرک کی وجہ سے ہیں۔
جب سے لوگوں نے توحید اور دینِ فطرت کو چھوڑ کر شرک کی راہیں اختیار کی ہیں اس وقت سے یہ ظلم و فساد بھی بڑھ گیا ہے۔ شرک جیسے قولی اور اعتقادی ہوتا ہے اسی طرح شرک عملی بھی ہے جو فسق و فجور اور معاصی کا روپ دھار لیتا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ:
بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ
الروم – 41
جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا۔
اس آیت سے مراد شرک ہے اور تباہ شدہ اقوام کی دوسری خرابیاں جن کا قرآن نے ذکر فرمایا ہے اور جن کی وجہ سے ان پر عذاب آیا انکا اصل بھی شرک تھا۔ اگر وہ ایک اللہ پر ایمان لاتے تو ہر گز ایسے گناہوں کے اجتماعی طور پر مرتکب نہ ہوتے کیونکہ احوال و حادثات کے ظاہری اسباب کوئی بھی ہوں اصل اور حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور ناراضی ہے۔ اور اعمال نیک و بد ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حالات کو انسانی اعمال سے وابستہ فرمایا ہے چنانچہ انسان کے نیک و بد اعمال کی نوعیت کے اعتبار سے معاملات ہوتے ہیں: نفع و نقصان، صحت و مرض، خوشی و غمی، بارش و خشک سالی، مہنگائی و ارزانی، بدامنی و دہشت گردی، وبائی امراض، زلزلہ، طوفان، سیلاب وغیرہ یہ سب ہمارے نیک و بد اعمال کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔
دوسرا سبب:
اگر ہم قرآنِ حکیم میں قوموں پر پیش آنے والے اچھے یا بُرے حالات کا تدارک کریں اور حاصل ہونے والا انسانی تجربہ بھی اسی پر شاہد ہے کہ بہت ساری قوموں پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے دُنیا میں ہی مختلف قسم کے عذاب آئے ہیں۔ کوئی مسخ کیا گیا، کوئی زمین میں دھنسایا گیا، کوئی دریا میں غرق کیا گیا، کوئی طوفان کی نذر ہوا۔ ان تباہ شدہ اقوام کی بستیوں کے کھنڈرات آج بھی اس حقیقت پر حرفِ آخر ہیں کہ نافرمانی سبب لقمہِ عذاب بنے۔ رب العالمین کا فرمان ہے:
وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ
الشوریٰ – 30
اور تم کو جو مصیبت پہنچتی ہے تمہاری اپنی کرتوتوں کی وجہ سے آتی ہے اور بہت سے گناہ وہ ویسے ہی معاف کردیتا ہے۔
تیسرا سبب:
اللہ کے ذکر سے غفلت معیشت کی تنگی کا سبب ہے۔ رب العالمین کا ارشاد ہے:
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ
طه – 124
اور جو میری یاد سے منہ موڑے گا اس کی معیشت تنگ ہوگی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔
چوتھا سبب:
ایک اور مقام رب العالمین نے اس کا سبب ایمان نہ لانا اور تقوی اختیار نہ کرنا بیان فرمایا ہے:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ ٱلْقُرَىٰٓ ءَامَنُواْ وَٱتَّقَوْاْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَٰتٍۢ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُواْ فَأَخَذْنَٰهُم بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ
الاعراف – 96
اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور ڈرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے نعمتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا پھر ہم نے ان کے اعمال کے سبب سے گرفت کی۔
آفات کے مقاصد اور ان کا حل:
پہلا مقصد:
یہی بڑی حقیقت ہے کہ یہ معاملات اللہ کی طرف سے الارم ہوتے ہیں۔
اس طرح کے عبرت انگیز حادثات میں انسان اپنے اعمال کا محاسبہ کرے تاکہ اللہ کی کوئی تنبیہہ اس کے غفلت شعار دل کو جگا دے۔
لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
الروم – 41
کا ارشاد یہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ ذات پاک ہے جس نے اپنی آزمائش کے ذریعے سے انعام اور احسان کیا ورنہ اللہ تعالیٰ اگر ہمارے تمام کرتوتوں کی سزا کا مزا چکھاتا تو روئے زمین پر ایک بھی جاندار نہ چھوڑتا۔ رب العالمین کا ارشاد ہے:
وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
السجدۃ – 21
اور یقیناً ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔
دوسرا مقصد:
اور یہ ایک زندہ جاوید حقیقت ہے کہ قدرتی سزائیں شرعی سزاؤں سے کہیں زیادہ شدید اور درد ناک ہوتی ہیں۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ
ھود – 102
اور جب بھی آپ کا پروردگار ظلم کرنے والی بستیوں کو پکڑتا ہے تو اس کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے بلاشبہ اس کی گرفت درد ناک اور سخت ہے ۔
آئیے دیکھتے ہیں ان آفات کا حل کیا ہے:
پہلا حل:
کتاب و سنت کے دلائل اس بات پر واضح ہیں کہ جس معاشرے کی بنیاد اللہ کی توحید ، اس کے احکام و حدود کی اقامت پر ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمار برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اور شرک کی غلاظت سے اپنے دامن کو بچا لینا، حرام اور لغو کاموں سے اجتناب اور خالقِ کائنات کی نافرمانی سے بچ جانا ہی اس کا حل ہے۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ
الاعراف – 156
میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے، میں اپنی رحمت متقی، زکاۃ دینے والے اور ہماری آیات پر ایمان لانے والوں کیلیے لکھ دونگا۔
دوسرا حل:
رب العالمین کی شریعت ہی ایک مسلمان کے لیے پر امن، پر اطمینان اور خوش حال زندگی گزارنے کا ذریعہ ہے۔ نیز اسی شریعت کی بنا پر اللہ تعالی دنیا و آخرت میں بلائیں بھی ٹال دیتا ہے۔
تیسرا حل:
حدود اللہ کا قیام۔ حدیث میں ہے کہ:
قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِقَامَةُ حَدٍّ بِأَرْضٍ خَيْرٌ لِأَهْلِهَا مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً”.
(سنن نسائی : 4909، قال الشیخ الألبانی : حسن)
حد کا زمین میں قائم ہونا ، زمین والوں کیلئے چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے
چوتھا حل:
سورہ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے تقوی اور پرہیز گاری کو رزق کا باعث قرار دیا:
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا° وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ
الطلاق – 2/3
جو اللہ سے ڈر گیا وہ اس کے لیے نکلنے کی راہ پیدا کرے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ رکھے گا تو وہ اسے کافی ہے۔
اس تحریر کی وساطت سے میری اپنی قوم اور اہلِ پاکستان اور خصوصاً حکمرانانِ وقت سے التماس ہے کہ اگر ان آفات کے بھنور سے نکلنا ہے تو آئیے! ہم سب اللہ کے سامنے جھک جائیں، اپنے گناہوں کا کفاره اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے صورت میں کریں، توحید کی رحمت کو اپنے دامن میں سمیٹ لیں۔ گناہ اور بے حیائی کے مراکز کو ختم کر دیں۔ سودی نظام کے خاتمے اور بائیکاٹ کے ذریعے ربِّ کریم کی رحمتوں کو آواز دیں۔ ورنہ قدرت ڈھیل تو دیتی ہے مگر برائیوں میں مداہنت اختیار کرنے والوں کے لیے قدرت کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ اس لیے اللہ نہ کرے ہمارا حشر کہیں اس کے مصداق ہو جائے:
تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں
وما توفیقی الا باللہ۔