فلسفہ قربانی: دروس اورحکمتیں

فلسفہ قربانی،دروس وحکمتیں

10 ذی الحجۃ وہ مبارک اور عظیم الشان دن ہے جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے رب کی طرف سے بڑھاپے میں عطا ہوئے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حکم الٰہی کی خاطر قربان کر دیا جبکہ دوسری طرف آپ علیہ السلام کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمانبرداری ، جانثاری اور رضا مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی گردن اللہ کے حضور پیش کر کے قربانی کے تصور کو ہمیشہ کے لئے امر کر دیا۔ ان دونوں کی فرمانبرداری اور قربانی کو اسی وقت ربِ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت بخشا اور آپ کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سلامتی کا پروانہ عطا کر کے آپ علیہ السلام کی جگہ ایک دنبہ بھیج دیا جسے ربِ تعالی نے ذبحِ عظیم قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے :

وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ

الصافات – 107

اور ہم نے اس کے فدیے میں ایک بہت بڑا ذبیحہ دے دیا۔

یعنی اسماعیل علیہ السلام کے بدلے میں ایک عظیم قربانی عطا ہوئی جس کو ابراہیم علیہ السلام نے ذبح فرمایا۔ یہ قربانی اس لحاظ سے عظیم تھی کہ اس کو اسماعیل علیہ السلام کے فدیے میں قربان کیا گیا اور اس لحاظ سے بھی عظیم ہے کہ یہ جلیل القدر عبادات میں شمار ہوتی ہے. نیز یہ اس لحاظ سے بھی عظمت کی حامل ہے کہ اس کو قیامت تک کے لئے سنت قرار دے دیا گیا ہے۔

قربانی کی تاریخ

قرآنِ حکیم قربانی کی تاریخ کے بابت ہمیں یوں بتاتا ہے کہ:

وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّيَذْکُرُوا اسْمَ اﷲِ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْم بَهِيْمَةِ الْاَنْعَام

الحج – 34

اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو ﷲ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (بوقتِ ذبح ) اللہ کے نام کا ذکرکریں۔

مذکورہ بالا آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سابقہ تمام امتوں پر قربانی فرض تھی۔

قربانی کا لغوی معنی

” قربانی ” عربی زبان کا لفظ ہے۔ اصل لفظ ’’ قُربان ‘‘ ہے جو ’’قرب‘‘ سے مشتق ہے۔ ’’قرب‘‘ کسی چیز کے نزدیک ہونے کو کہا جاتا ہے۔ اس  لفظ کا عکس یا ضد ’’ بُعد ‘‘  یعنی دوری ہے۔ قرب سے قربانی کا لفظ مبالغے کے طور پر واقع ہوا ہے۔ جیسے’’قراءت‘‘ کے معنی فقط ’’پڑھنا‘‘ ہے اور قرآن کے معنی اس کتاب کے ہیں جسے بار بار اور کثرت سے پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کا نام انہی وجوہ کی بنیاد پر قرآن رکھا ہے کہ کثرتِ قراءت کے اعتبار سے دنیا کی کوئی کتاب اس کے برابر نہیں ہے ۔ اسی طرح پیاسے کے لئے عربی زبان میں لفظ ’’عطش‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ ’’عطش‘‘ سے عطشان مبالغے کے طور پر واقع ہوا ہے جس کا مطلب ہے حد سے زیادہ پیاسا۔ ان مثالوں سے یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ جب کوئی لفظ ’’فُعْلَان‘‘ (مبالغہ) کے وزن پر آئے تو یہ کثرت کے معنی دینے لگتا ہے۔ جانور کے ذبح کرنے کے عمل کو قربانی سے اس لئے موسوم کیا گیا ہے کہ جانور کو ذبح کرنے کا عمل بندے کو اللہ کے انتہائی قریب کر دیتا ہے۔

قربانی کی حکمتیں

دسویں ذی الحجہ کے دن سب سے افضل عمل اللہ کی رضا وخوشنودی کے لئے جانور ذبح کرنا ہے مگر رب العالمین کو قربانی کے جانور سے نہ تو گوشت مطلوب ہے اور نہ ہی خون مقصود ہے بلکہ مطلوب و مقصود تو کچھ اور ہی ہے۔ آئیے مندرجہ ذیل میں قربانی کے عمل سے ملنے والے دروس، اس کے مقاصد اور حکمتوں کے بارے میں کچھ باتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔

حصولِ تقوی

قربانی کے مقاصد اور حکمتوں میں میں سے سب سے بڑی حکمت اور مقصد اللہ تعالی کا ہم مسلمانوں کو تقوى کی تعلیم دینا ہے۔ ہمارے اندر تقوی و إخلاص کی صفت پیدا کرنی ہے اور ہم سب کو متقی و مخلص بنانا ہے۔ جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ  كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ  وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ

الحج – 37

” اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے نہ گوشت پہنچتے ہیں نہ خون۔ اسے تمہاری پرہیزگاری درکار ہے اس نے جانوروں کو تمہارے لیے اس لیے مسخر کیا ہے تاکہ اس کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق اس کی بڑائی بیان کرو اور اے نبی ! نیک لوگوں کو خوشخبری دیجیے۔“

علامہ عبد الرحمن بن ناصر السعدین رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:

’’ ان کو فقط ذبح کرنا مقصود نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون پہنچتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سب چیزوں سے بے نیاز اور قابلِ ستائش ہے اس کے پاس تو صرف بندوں کا اخلاص، ثواب کی امید اور صالح نیت پہنچتی ہے اس لئے فرمایا : ﴿ وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ﴾ ”  کہ اس کے پاس تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔“  پس اس آیتِ کریمہ میں قربانی میں اخلاص کی ترغیب دی گئی ہے۔ قربانی کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب ہو، اس کا مقصد تفاخر، ریاکاری، شہرت کی خواہش یا محض عادت نہ ہو۔ اسی طرح دیگر تمام عبادات کے ساتھ اگر اخلاص اور تقویٰ مقرون نہ ہوں تو وہ اُس چھلکے کی مانند ہیں جس کے اندر مغز نہ ہو اور اس کی مثال اس جسد کی سی ہے جس کے اندر روح نہ ہو۔1

تقوى و اخلاص دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ اور بلاشبہ جو متقی ہوگا وہ مخلص بھی ہوگا۔ اور جس کے اندر اخلاص ہوگا وہ متقی بھی ضرور ہوگا۔اور ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر پائے جائیں۔ یہ قربانی کا سب سے بڑا فلسفہ ہے کیونکہ اللہ تعالى نے خود اس کا ذکر کیا ہے۔ اب اگر کسی شخص کے اندر قربانی سے یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے تو سمجھ لیں کہ اس کی قربانی صحیح ہے۔اور اگر قربانی کا اصلی و حقیقی مقصد حاصل نہیں ہو رہا ہے تو اس کی قربانی رائیگاں ہے ۔

اخلاصِ نیت

اخلاصِ نیت کے بغیر کوئی عمل اللہ کے ہاں قبول نہیں ہے لہذا دیگر اعمالِ صالحہ کے ساتھ ساتھ قربانی جیسے عظیم عمل میں بھی اخلاص ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی بات کا ہمیں حکم دیا ہے ۔

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

الانعام – 162

اے نبی !کہہ دیجیئے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو جہانوں کا رب ہے۔

سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

إنَّ اللهَ لا يقبلُ منَ العملِ إلَّا ما كانَ لَهُ خالصًا ، وابتغيَ بِهِ وجهُهُ

(صحيح النسائي: 3140)

بلا شبہ الله تعالیٰ صرف وہی عمل قبول كرتا ہے جو خالص اسی كے لیے ہو اور اس سے الله تعالی ٰكی رضا مقصود ہو ۔

قربانی کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے اندر تقوی کی صفت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام عملوں کے اندر خلوص پیدا کریں۔ یعنی نیک اعمال کو انجام دیتے وقت ہمارے دلوں میں کسی بھی قسم کی کوئی ریاکاری کا جذبہ نہ ہو لیکن افسوس آج ہم نے قربانی کو اپنا سٹیٹس دکھانے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے مہنگے سے مہنگا جانور اس لئے خریدتے ہیں تاکہ سماج و معاشرے کے اندر ہماری تعریفیں عام ہوں۔ آج کل یہ وبا بھی بہت عام ہے کہ لوگ اپنے اپنے جانوروں کی تصاویر اور ویڈیو اپنے سوشل اکاؤنٹ پر شیئر کرکے لائک اور کمنٹ چاہتے ہیں۔ جو لوگ بھی ایسا کرتے ہیں ان کو اپنی قربانی کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ جس نے بھی اپنا نیک عمل لوگوں کے دکھانے کے لئے کیا اس کے نیک اعمال تباہ و برباد ہو جائیں گے جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

’’إنَّ أخْوَفَ ما أخافُ عليكم الشِّركُ الأصْغَرُ، قالوا: وما الشِّركُ الأصْغَرُ يا رسولَ اللهِ؟ قال: الرِّياءُ؛ يقولُ اللهُ عزَّ وجلَّ لهم يومَ القِيامةِ إذا جُزِيَ الناسُ بأعمالِهم: اذْهَبوا إلى الذين كنتُم تُراؤون في الدُّنيا، فانظُروا هل تَجِدون عِندَهُم جزاءً؟!2

 میں تم پر سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ ہے شرک اصغر۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی ﷺ ! یہ شرکِ اصغر ہے کیا چیز؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ شرکِ اصغر ریاکاری اور دکھاوا ہے۔(پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ سنو) کل بروزِ قیامت رب العالمین یہ ارشاد فرمائے گا کہ اے لوگوں! دنیا کے اندر جن جن کو دکھانے کے لئے تم نیک اعمال انجام دیتے تھے آج ان کے پاس جاؤ اور جا کر دیکھو کہ کیا ان کے پاس تمہارے لئے کوئی اجر و ثواب اور بدلہ ہے۔

درسِ توحید

قربانی كے دروس میں ایك درس یه هے كه قربانی کے ذریعے ہمیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ ہم ہر طرح کے شرک و کفر سے دوری اختیار کرکے مؤحد بن جائیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جب قربانی کا جانور ذبح کیا جاتا ہے تو جو دعا پڑھی جاتی ہے اس کے اندر یہ آیت بھی موجود ہے ۔ فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ

الانعام – 162/163

 آپ فرما دیجئے کہ یقینا میری نماز اور میری ساری عبادتیں اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کے لئے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج مسلمان قربانی بھی کرتے ہیں، قربانی کے جانور کے حلق پر چھری پھیرتے وقت یہ کہتے بھی ہیں کہ میرا جینا مرنا سب اللہ کے لئے ہے مگر پھر بھی غیروں سے نفع و نقصان کی امید لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ آج تو مسلمانوں کی اکثریت ایسی ہے جو قربانی کرنا تو جانتی بھی نہیں ہے مگر وہ غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا ، گیارہویں منانا پورے ذوق وشوق سے کرتی ہے بلکہ یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ اگر ولیوں کے نام سے جانور ذبح نہ کیا جائے تو پھر پورا سال ہمارا برباد ہو جائے گا ، ہم ہلاک و برباد ہو جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ قربانی ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ جانور ذبح کرو تو صرف اور صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اور اگر کسی نے غیروں کی رضا و خوشنودی چاہی تو پھر وہ ملعون و مغضوبِ الہی ہے جیسا کہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے :

لَعَنَ اللهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ

مسلم – 1978

کہ جس کسی نے بھی غیراللہ کے نام سے جانور ذبح کی اس پر اللہ کی لعنت ہو۔

درسِ اتباعِ سنتِ رسول ﷺ

قربانی كے دروس اور حكمتوں میں سے ایك درس اتباعِ سنت کا درس هے کیونکہ عمل وہی قابلِ قبول ہے جو نبی كریم ﷺ كے فرمان سے ثابت ہو اور وہ عمل کسی بھی حال میں مقبول نہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ سے ہٹ کر ہو اگرچہ وہ چیز کتنی اچھی ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہی سبق اور یہی پیغام ہمیں قربانی کے جانور کے ذریعے ہرسال دیا جاتا ہے وہ اس طرح سے کہ قربانی تبھی قابلِ قبول ہوگی جب انسان عید الاضحی کی نماز کے بعد ذبح کرے اگر کسی نے عید الاضحی کی نماز پڑھے بغیر جانور ذبح کر لیا تو پھر اس کی قربانی قربانی نہیں بلکہ صرف گوشت کھانے کا مزہ لینا ہے جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

ضَحَّى خَالِي أَبُو بُرْدَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَقالَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ: تِلكَ شَاةُ لَحْمٍ، فَقالَ: يا رَسولَ اللهِ، إنَّ عِندِي جَذَعَةً مِنَ المَعْزِ، فَقالَ: ضَحِّ بهَا، وَلَا تَصْلُحُ لِغَيْرِكَ، ثُمَّ قالَ: مَن ضَحَّى قَبْلَ الصَّلَاةِ، فإنَّما ذَبَحَ لِنَفْسِهِ، وَمَن ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ فقَدْ تَمَّ نُسُكُهُ، وَأَصَابَ سُنَّةَ المُسْلِمِينَ3

میرے ماموں نے عید الاضحی کی نماز پڑھنے سے پہلے ہی اپنے جانور کو ذبح کر دیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ نماز سے پہلے تمہارا جانور ذبح کرنا یہ صرف گوشت ہے قربانی نہیں ہے پھر آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ سنو!’’ جس نے بقرعید کی نماز پڑھنے سے پہلے اپنے جانور کو ذبح کرلیا تو اس نے محض اپنے نفس کے لئے ہی ذبح کیا اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا تو اسی کی قربانی قابلِ قبول ہے اور ایسا کرنے والا ہی مسلمانوں کی سنت کو پائے گا۔

درسِ اتباعِ ملتِ ابراہیم علیہ السلام

قربانی كے دروس میں سے ایک عظیم درس حضرت ابراهیم علیه السلام کے نقشِ قدم کی حقیقی اتباع ہے  اور اس اتباع اور تابعداری کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی ﷺ کو بھی دیا تھا چنانچہ فرمانِ الہی ہے :

ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا  وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

النحل – 123

پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ابراہیم کی ملت کی پیروی کر جو ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔

اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا  وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

الانعام – 162

آپ کہئیے کہ میرے رب نے سیدھی راہ یعنی دینِ قیم کی طرف میری رہنمائی کی ہے جو ابراہیم کا دین تھا۔ وہ ابراہیم جو صرف اللہ کی پرستش کرنے والے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے سید الوریٰ ، محمد مصطفیٰ ﷺ کو حکم دیا کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی اتباع کریں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اس کی امت کی پیروی کریں۔  یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سب سے بڑی فضیلت ہے۔

اور اس کا سبب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی قربانی، زہد و تقوی، اخلاص، دعوت الى اللہ، ہجرت ، ضیافت، توکل على اللہ، بردباری، عبادت، دعا، تضرع، خشوع و خضوع، صبر و ایثار اور عزم و ہمت کا بہترین نمونہ ہے۔ اور قربانی کا مقصد انہیں تمام ابراہیمی صفات کو ایک مسلمان کے اندر پیدا کرنا ہے۔ اسی لیے الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ

الممتحنة – 4

تمہارے لئے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔

 حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا جو خلاصه اور نچوڑ ہے وہ اللہ کے ہر حکم کو بلا چوں و چراں تسلیم کر لینا ہے اور كسی قسم كے نفع و نقصان کا اندازہ لگائے بغیر اس پر فورا عمل کرنے کے لیے تیار ہو جانا ہے خواہ وہ اپنے لختِ جگر کو قربان کرنے کا حکم ہی کیوں نہ ہو۔

لیکن آج کے زمانے میں افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان ابراہیم علیہ السلام کو زبانی یا ظاہری طور پر یاد کر لیتے ہیں، خطبوں اور گھروں میں ان کا تذکرہ کر لیتے ہیں لیکن حقیقی طور پر ان صفات کو ہم اپنی زندگی میں اپنانے کے لیے باکل تیار نہیں ہیں اور نہ ہم اس کی کوشس کرتے ہیں۔ جس کا مشاہدہ آج کے دور میں ہر کوئی کر رہا ہے۔

ظاہری اور باطنی عیوب سے پاکی

قربانی کے مقاصد اور دروس میں سے ایک درس یہ ہے کہ قربانی ہمیں ظاہری وباطنی عیوب سے پاک ہونے کا درس دیتی ہے۔ یعنی جس طرح قربانی کے صحیح ہونے کے لئے قربانی کے جانور کا بے عیب ہونا ضروری ہے اسی طرح سے ہماری نجات کے لئے اور جنت پانے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے دل کو ہر طرح کے کفر و شرک کی آلودگیوں، بدعات و خرافات کی نجاستوں سے پاکی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دل کی دیگر بیماریوں یعنی نفاق ، ریاكاری ، بد گمانی ، بغض وعداوت ، کینہ ، حسد اور تكبر جیسی قبیح عادتوں سے پاک و صاف رکھیں۔ جیسا کہ رب العالمین کا فرمان ہے:

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ،إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ

الشعراء – 88/89

یعنی کہ جس دن مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی لیکن (فائدے میں وہی شخص رہے گا) جو اللہ کے سامنے بے عیب دل لے کر آئے گا۔

اور آپ ﷺ نے بھی اُس انصاری صحابی کوجنت کی بشارت دی تھی جو کسی بھی مسلمان سے بغض وعداوت نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی حسد کا جذبہ اپنے سینے میں پالتا تھا چنانچہ اُس انصاری صحابی سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ مقام یعنی جنت کی بشارت کیسے ملی ؟ تو اُس صحابی نے کہا :

 غَيْرَ أَنِّي لَا أَجِدُ فِي نَفْسِي لِأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمَيْنِ غِشًّا، وَلَا أَحْسُدُ أَحَدًا عَلَى خَيْرٍ أَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ. فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: هَذِهِ الَّتِي بَلَغَتْ بِكَ، وَهِيَ الَّتِي لَا نُطِيقُ4

کہ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے متعلق کوئی کینہ نہیں رکھتا اور نہ ہی کسی مسلمان کو ملنے والی نعمتوں پر اس سے حسد کرتا ہوں۔ یہ سن کر عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ نے کہا کہ یہی وہ چیز ہے جس نے آپ کو جنتی بنایا ہے اور جس کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔

 اور آج ہماری حالت یہ ہے كہ ہم بے عیب جانور تو قربانی کر لیتے ہیں مگر تمام برائیوں جیسے جھوٹ، غیبت و چغل خوری، ظلم و زیادتی وغیرہ کو گلے لگائے رکھتے ہیں!!۔

مال ِحرام سے اجتناب

قربانی كے دروس میں سے ایک درس یہ ہے كہ قربانی حرام مال سے اجتناب كا درس دیتی ہے كہ جس طرح سے عیب دار جانور قربانی کے لئے قابلِ قبول نہیں بالكل اسی طرح سے حرام مال بھی الله كے راستے میں قابلِ قبول نہیں۔ جس طرح سے جانور کا عیب قربانی کے قبول ہونے میں رکاوٹ ہے اسی طرح سے حرام کمائی اور حرام دولت بھی عبادتوں کے قبول ہونے میں رکاوٹ ہے جیسا كہ نبی كریم ﷺ کا فرمان ہے:

أَيُّها النَّاسُ، إنَّ اللهَ طَيِّبٌ لا يَقْبَلُ إلَّا طَيِّبًا، وإنَّ اللهَ أمَرَ المُؤْمِنِينَ بما أمَرَ به المُرْسَلِينَ، فقالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} [المؤمنون: 51]، وقالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} [البقرة: 172]، ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أشْعَثَ أغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إلى السَّماءِ، يا رَبِّ، يا رَبِّ، ومَطْعَمُهُ حَرامٌ، ومَشْرَبُهُ حَرامٌ، ومَلْبَسُهُ حَرامٌ، وغُذِيَ بالحَرامِ، فأنَّى يُسْتَجابُ لذلكَ؟!

(صحيح مسلم: 1015)

کہ اے لوگو! اللہ پاک ہے اور صرف پاک وحلال چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے اور اللہ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو نبیوں اور رسولوں کو دیا ہے۔ فرمانِ باری تعالی ہے:  اے رسولوں! حلال چیزیں ہی کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کررہے ہو اس سے اللہ بخوبی واقف ہے (المومنون:51) ایک دوسری جگہ اللہ نے فرمایا: ’’ اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ پیو۔ (البقرۃ:172) پھر آپﷺ نے ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا جو بہت دوردراز کا سفر کرتا ہے، تھکاوٹ سے چُور ہو چکا ہے اور گرد و غبارسے بھرا ہوا ہے اور پھر ایسا مسافر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر رب کے حضور’’ يَا رَبِّ يَا رَبِّ ‘‘ کہہ کہہ کر دعائیں کرتا ہے حالانکہ اس کا کھانا، پانی اور لباس حرام کمائی سے ہے بلکہ اس کی پرورش بھی حرام کمائی سے ہو رہی ہے تو پھر ایسی صورتوں میں اس کی دعائیں کیسے قبول ہوں گی۔ معلوم هوا كه قربانی کے صحیح ہونے کے لئے جانور کا تمام عیوب سے پاک ہونا یہ اس بات کی دلیل ہے اللہ کی رضا وخوشنودی کے لئے جو مال خرچ کیا جائے وہ حلال کمائی سے ہو۔

درسِ خدمت خلق

قربانی كے دروس میں میں سے ایك درس یہ ہے كہ اپنے مال میں سے غریبوں اور مسکینوں کا حصہ کچھ نہ کچھ ضرور نکالنا ہے۔ اگر تمہیں خدا کی رضا وخوشنودی مطلوب ہو تو پھر لاچار و مجبور قسم کے لوگوں کی خبرگیری کرتے رہنا ہے ، غریبوں کی مدد کرتے رہنا ہے كیونكہ اسی میں تمہاری دنیوی و اخروی نجات ہے۔ چنانچہ اسی درس اور تعلیم کی طرف رب العالمین نے رہنمائی کرتے ہوئے حکم دیا کہ:

فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ

الحج – 28

 تم خود بھی قربانی کے گوشت سے کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔

اور ایک دوسری جگہ پر رب العالمین نے بہت ہی وضاحت کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا کہ قربانی کے گوشت سے فائدہ تم ان لوگوں کو بھی پہنچایا کرو جو مانگتے نہیں ہیں۔ فرمایا:

فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ

الحج – 36

 یعنی کہ قربانی کے گوشت سے تم خود بھی کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔

آج کل تو ویسے ہی پریشان کن حالات ہیں، مهنگائی عروج پر ہے، کمانے اور کھانے کی تنگیاں ہیں، سال دوسال سے لوگ رزق کے مسئلے کو لے کر پریشانیوں سے دوچار ہیں ایسے حالات میں غریبوں اور مسکینوں کا خاص خیال رکھیں، اپنے علاقے میں دیہاڑی مزدوروں کا بھی خاص خیال رکھیں، اس سال اگر ہوسکے تو گوشت کی ذخیرہ اندوزی نہ ہی کریں تو ہمارے لئے بہتر ہوگا کیونکہ پہلے تو كرونا وائرس اور پھر بے تحاشا مہنگائی نے سب کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

درس پابندی نماز

اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ کوثر میں اندر نماز کے ساتھ قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ

الکوثر – 2

کہ اے نبیﷺ! آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے۔

مذکورہ بالا آیت کے اندر جہاں اللہ نے نماز کے ساتھ قربانی کا ذکر کیا ہے وہیں پر یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو انسان قربانی کرنے جا رہا ہے اسے چاہئے کہ پہلے وہ نماز کا پابند ہو جائے اور قربانی کے ساتھ ساتھ نماز کا بھی اہتمام کرے ورنہ نماز کے بغیر قربانی تو کیا دیگر عبادتیں بھی رائیگاں ہیں۔ جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

الصَّلاةُ ثلاثةُ أثلاثٍ ، الطَّهورُ ثلُثٌ والرُّكوعُ ثلُثٌ والسُّجودُ ثلثٌ فمن أدَّاها بحقِّها قُبِلَت منهُ وقُبِلَ منهُ سائرُ عملِهِ ، ومن رُدَّت عليهِ صلاتُهُ رُدَّ عليهِ سائرُ عملِهِ5

نماز تین حصوں پر مشتمل ہے: ایک تہائی حصہ طہارت ہے، ایک تہائی رکوع اور ایک تہائی سجدے ہیں۔ جس نے کما حقہ نماز ادا کی اس کے بقیہ اعمال بھی مقبول ہوں گے اور جس کی نماز مردود ہو گئی اس کے بقیہ اعمال بھی رائیگاں جائیں گے۔“

 پس جس نے نماز کو اس کے تمام حقوق کے ساتھ ادا کیا تو اس کی نمازیں بھی قبول کی جائیں گی اور ساتھ میں اس کے تمام نیک اعمال بھی قبول کئے جائیں گے اور ہاں جس انسان کی نمازیں رائیگاں اور ناقابل قبول ہوں گی تو اس کے تمام نیک اعمال بھی رائیگاں اور بیکار ہوجائیں گے۔

 اب ذرا سوچئے کہ اگر ہم نماز کی پابندی نہیں کریں گے تو پھر یہ ہماری قربانیاں اور دیگر نیک اعمال کس کام کے؟ قیامت کے دن الله تعالیٰ سب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال کرے گا اور جب ہماری نماز صحیح ہوگی تو قربانی اور دیگر تمام عبادتیں اپنے آپ صحیح ہوجائیں گی جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ6

بروزِ قیامت ہر ایک سے سب سے پہلے تمام نیک اعمال میں جس عمل کے بارے میں سوال ہوگا وہ نماز ہے، اگر نماز صحیح نکلی تو پھر کامیابی ملے گی اور انسان جنت میں داخل ہوگا اور اگر نماز نامکمل نکلی تو پھر انسان کو ہلاک و برباد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔

ذرا غور کیجئے

برادران اسلام! اگر ہم نمازوں کا اہتمام نہیں کریں گے تو پھرہماری یہ قربانیاں کس کام کی؟ تو آئیے ہم سب آج سے ہی یہ عہد کرتے ہیں کہ جس طرح سے ہم نے قربانیاں دی ہیں ٹھیک اسی طرح سے ہم نمازوں کا بھی اہتمام کریں گے، اپنی زندگی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق گزاریں گے، اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنے تمام باطل اور ناجائز سفلی خواہشات کو قربان کردیں گے، قربانی کے ساتھ ساتھ سماج و معاشرے کے تمام باطل و فرسودہ رسم و رواج کو بھی چھوڑ دیں گےاور اپنی جان ومال کو رضائے الہی کے لئے قربان کر دیں گے۔ان شاء اللہ

وصلی اللہ علیٰ نبینا محمد وعلیٰ آله وصحبه وأهل بیته أجمعین

  1. ( تفسیر سعدی ، سورۃ الحج: آیت نمبر: 37)
  2. ( مسند أحمد: 23630، و السلسلة الصحیحة للألبانی:951)
  3. (صحیح بخاری:5546، وصحيح مسلم: 1961)
  4. (صححه شعيب الأرناؤوط في تخریج المسند: 12697)
  5. (صحيح الترغيب : 539، والسلسلة الصحيحة: 2537)
  6. (السلسلة الصحیحة للألبانی :1358 ،ترمذی : 413 )

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ