1985 میں موچی دروازے میں ایم آر ڈی کا جلسہ تھا نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم کے گھر میں تمام سیاسی رہنما جمع تھے اور دو بجے کے قریب سٹیج پر پہنچنے کا طے کیا گیا ۔ تمام قائدین نے کہا ہم یہاں سے ظہر کی نماز ادا کر کے جاتے ہیں ۔ حاجی غلام احمد بلور نے علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کو کہا کہ آپ نماز پڑھائیں ۔ نوابزادہ نصراللہ خان ، مولانا فضل الرحمن ، حاجی غلام احمد بلور ، غلام مصطفی جتوئی ، ملک محمد قاسم یہ سب موجود تھے ۔ ایک کونے میں میں بھی چپکا کھڑا تھا ، میرا لڑکپن تھا ۔ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ نے ظہر کی نماز کرائی ، نماز کے بعد سلام پھیرا اور کہا عصر کی نماز بھی ادا کر لیں ۔
حاجی غلام احمد بلور بولے ” علامہ صاحب ابھی تو ظہر کا وقت ہے عصر کا وقت ہی نہیں ہوا ” اس پر علامہ احسان اللہ ظہیر رحمہ اللہ بولے کہ :
” جی ظہر کے ساتھ عصر جمع کی جا سکتی ہے یہ سنت سے ثابت ہے اس کو جمع متقدم کہتے ہیں “
اس پر حاجی غلام احمد بلور بولے کہ”علامہ صاحب ، آج آپ ہمارے امام ہیں اور امام کے پیچھے ہمیں قبول ہے ” یہ کہا اور سب نے عصر کی نماز پڑھی اور اس کے بعد سب سٹیج پر گئے اور مغرب تک جلسہ چلتا رہا ۔
بہت سے دوست اسلام آباد سے لاہور کے لیے فیصل موورز پر آنے والے صاحب کا قصہ بیان کر رہے ہیں ۔اسلام آباد سے لاہور کا سفر زیادہ سے زیادہ پانچ گھنٹے کا ہے اس میں تقریبا 20 منٹ کا قیام کیا جاتا ہے ۔ اگر آپ دوپہر کو 12 بجے نکلتے ہیں تو اس سفر کے دوران آپ کی ظہر اور عصر دونوں بیت جاتی ہیں ۔ یقیناً کسی مسلمان کے لیے نماز کا ضائع ہونا دنیا کے مال کے ضائع ہونے کی نسبت بھی زیادہ صدمے کا باعث ہوتا ہے ۔
اصولی طور پر کسی بھی بس سروس کو اپنے سفر کے دورانیے کا شیڈول طے کرنے میں مسافروں کی نماز کا خیال رکھنا لازم ہے ۔ یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ مسافروں کی اکثریت بھی اور انتظامیہ کے لوگ بھی نمازیں پڑھنے والے کم ہوتے ہیں اور نماز ترک کرنے والے یا تساہل کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں ۔ اب جو شخص خود نماز نہیں پڑھتا اس کو دوسرے کی نماز کی کیا پرواہ ہوگی ؟ تمام بس سروسز کا فرض ہے کہ نماز اور ریفریشمنٹ کے وقفے میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اتنا وقت ہو کہ نماز آسانی سے ادا ہو جائے ۔ لیکن اس کے باوجود جو مسافر نمازی ہیں ان کو اپنے سفر کی ترتیب بنانے میں بھی نماز کا خود خیال رکھنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ کچھ مسائل کی بھی خبر ہونی چاہیے۔ عمر گزر جاتی ہے نماز پڑھتے ہوئے اور نمازیوں کو نماز کے بہت سے مسائل کی خبر ہی نہیں ہوتی۔
اب آتے ہیں اس تازہ معاملے کی طرف ۔۔
میرا ایک سوال ہے کہ بس نے بارہ بجے چلنا تھا ٹھیک پانچ بجے پہنچنا تھا ۔ اب اس بس میں دو ایسے طالب علم ہیں جن کا آگے انٹرویو ہے یا ایک ایسا مریض ہے کہ جس کا ڈاکٹر کے ساتھ لاہور میں وقت طے ہے، یا کسی کو شادی نکاح کے فنکشن میں، تقریب میں بروقت شریک ہونا ہے ۔ اس دوران بیچ میں آپ کھڑے ہوتے ہیں اور ڈرائیور کو آواز لگاتے ہیں کہ بھائی گاڑی روکو، میں نے نماز پڑھنی ہے۔ اگر وہ گاڑی روکتا ہے تو سارے موجود افراد کا شیڈول درہم برہم ہو جاتا ہے اور اگر وہ گاڑی نہیں روکتا تو آپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور آپ فیس بک پر پوسٹ لگا دیتے ہیں اور پوسٹ لمحوں میں وائرل ہوتی ہے اور ہر طرف سے بائیکاٹ بائیکاٹ کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔
گاڑی میں بیٹھے آپ نے پوسٹ لگا دی ، وائرل ہو گئی، اس بیچ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا آپ نے پھر آواز لگائی اور اس نے پھر گاڑی نہیں روکی ۔ لیکن ہم دوسری طرف چلتے ہیں ۔ وہ شخص گاڑی روکتا ہے، آپ اترتے ہیں، اچھے طور پر وضو کرتے ہیں، چونکہ آپ کو مسائل کا معلوم نہیں اور دین میں دی گئی سہولیات کی آپ کو خبر ہی نہیں ،سو آپ پہلے سنتیں پڑھتے ہیں، پھر چار فرض ظہر کے پڑھتے ہیں، پھر دو سنتیں پڑھتے ہیں، پھر کچھ وظائف کرتے ہیں اس بیج تمام مسافر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ ایسا نہیں بھی کرتے اور جلدی سے نماز پڑھ کے آ جاتے ہیں تو بھی سب مسافر بے چینی سے آپ کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور سارے بے نمازی نہیں ہوتے ان میں بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنہوں نے باقاعدہ دیے گئے وقفے میں اپنی نمازیں پوری کر لی ہیں ۔
کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ نے دین کا کتنا نقصان کیا ؟
ان میں سے کچھ کمزور عقیدے اور کمزور دینی نسبت کے سبب آپ سے زیادہ اس نماز سے الجھ رہے ہیں کہ جس سے الجھنا بھی شاید کفر۔۔۔۔کے قریب لے جائے، کیا آپ نے دین کی تبلیغ کی ؟ یا آپ نے دین کا نقصان کیا؟؟؟
اگر آپ کو دین کی معلومات عمدہ طور پر ہوتیں تو آپ کو یہ معلوم ہوتا کہ گاڑی جب اسلام آباد سے نکلے گی اور بھیرہ پہنچے گی تو اسے وہاں پہ 20 منٹ کا قیام کرنا ہے ۔ اگر آپ کے لیے نماز ہر شے سے اہم ہوتی تو آپ کھانے پینے والا معاملہ گھر سے کر کے آتے تاکہ آپ کی نماز کسی صورت متاثر نہ ہو ۔آپ گاڑی سے اترتے ،سیدھا مسجد جاتے،اور اگر واش روم استعمال کرتے ، اس کے بعد اچھے طریقے سے وضو کرتے ، دو رکعت ظہر کی پڑھتے اور اس کے بعد دو رکعت عصر کی پڑھتے ۔
آپ کو معلوم ہوتا کہ سفر کی مجبوری کے سبب آپ ظہر کے ساتھ عصر جمع کر سکتے ہیں اس کے بعد آپ کو معلوم ہوتا کہ دورانِ سفر نمازیں قصر ہوتی ہیں ۔یعنی آدھی رہ جاتی ہے اور چار کی جگہ دو رکعت ۔۔۔یوں آپ دو رکعت ظہر اور دو رکعت عصر بہت زیادہ سہولت سے زیادہ سے زیادہ دس منٹ میں پڑھ کے بہت آرام سے بیس منٹ میں گاڑی تک واپس آ جاتے ۔ کوئی مسافر آپ کے اس شیڈول سے متاثر نہ ہوتا اور آپ کو ضرورت نہ پڑتی کہ آپ ڈرائیور کو کہتے کہ نماز کے لیے گاڑی روکو اور آپ کی نمازیں بھی اچھے طریقے سے ادا ہوتیں ۔اب اگر آپ چاہتے کہ آپ سنتیں بھی ادا کریں تو آپ کو معلوم ہوتا کہ آپ گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ کر سنتیں ادا کر سکتے ہیں ۔ آپ کو یہ مسئلہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ (اگر آپ صحت مند ہیں) تو فرض نماز کے لیے قیام شرط ہے اور قبلہ رخ ہونا لازم ۔۔۔سو اس کے لیے لازم تھا کہ گاڑی سے اترا جائے اور وہ کام آپ کر چکے ہیں بھیرے میں رک کر ۔۔۔۔
جب کہ سنتیں اور نوافل سواری پر بیٹھے ہوئے بھی ادا کیے جا سکتے ہیں اور اس کے لیے قبلہ رخ ہونا بھی ضروری نہیں اور یہ بات رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کے لیے اونٹ سے اترتے قبلہ رخ ہو کر اس کو ادا کرتے قیام و سجود اور رکوع کرتے ۔ لیکن اس کے بعد اپنے اونٹ پر بیٹھ جاتے تاکہ قافلہ چلتا رہے اور دوسرے ساتھی متاثر نہ ہوں اور آپ اونٹ پر بیٹھے بیٹھے نوافل اور سنتیں ادا کرتے ۔۔اور آپ بھی جانتے ہیں کہ اونٹ کا رخ اپنی منزل کی طرف ہوتا ہے نہ کہ وہ قبلہ رخ ہوتا ہے ۔۔۔۔
حوالہ جات
1۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کرتے ہیں :
كانَ رَسولُ اللہِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَجْمَعُ بيْنَ صَلَاةِ الظُّهْرِ والعَصْرِ، إذَا كانَ علَى ظَهْرِ سَيْرٍ ويَجْمَعُ بيْنَ المَغْرِبِ والعِشَاءِ. .
( صحيح البخاري: 1107)
کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ملا کر پڑھتے۔ اسی طرح مغرب اور عشاء کی بھی ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔(حدیث صحیح ،اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے)۔
2۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ صَلاَةِ المَغْرِبِ وَالعِشَاءِ فِي السَّفَرِ
(صحیح البخاری : 1108)
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔
3۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ كانَ في غزوةِ تبوكَ إذا زاغتِ الشَّمسُ قبلَ أن يرتحلَ جمعَ بينَ الظُّهرِ والعصرِ وإن يرتحل قبلَ أن تزيغَ الشَّمسُ أخَّرَ الظُّهرَ حتَّى ينزلَ للعصرِ وفي المغربِ مثلُ ذلِكَ إن غابتِ الشَّمسُ قبلَ أن يرتحلَ جمعَ بينَ المغربِ والعشاءِ وإن يرتحل قبلَ أن تغيبَ الشَّمسُ أخَّرَ المغربَ حتَّى ينزلَ للعشاءِ ثمَّ جمعَ بينَهما
(صحيح أبي داود: 1208،والترمذي :553)
کہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی دن کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو آپ ظہر اور عصر ملا کر پڑھ لیتے ( جسے جمع تقدیم کہا جاتا ہے ) اور اگر کبھی آپ کا سفر سورج ڈھلنے سے پہلے ہی شروع ہوجاتا تو ظہر اور عصر ملا کر پڑھتے ( جسے جمع تاخیر کہا جاتا ہے ) مغرب میں بھی آپ کا یہی عمل تھا اگر کوچ کرتے وقت سورج غروب ہو چکا ہوتا تو آپ مغرب اور عشاء ملا کر پڑھ لیتے اور اگر سورج غروب ہونے سے قبل ہی سفر شروع ہو جاتا تو پھر مغرب کو مؤخر کر کے عشاء کے ساتھ ملا کر ادا کرتے۔
4۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ یہ بھی بیان فرماتے ہیں:
كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ إذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أخَّرَ الظُّهْرَ إلى وقْتِ العَصْرِ، ثُمَّ يَجْمَعُ بيْنَهُمَا، وإذَا زَاغَتْ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ.
(صحيح البخاري: 1111، ومسلم :704)
یعنی سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمو ل تھا کہ اگر سفرسورج ڈھلنے سے قبل شروع ہوتا تو آپ ظہر کو عصر میں ملا لیا کرتے تھے اور اگر سورج ڈھلنے کے بعد آپ سفر کرتے تو ظہر کے ساتھ عصر ملا کر سفر شروع کرتے تھے۔
5۔ مسلم شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی مروی ہے اس میں مزید یہ ہے کہ :
قال سعید: فقلت لابن عباس ما حمله علی ذلك قال: أراد أن لا یحرج أمته
( رواہ مسلم، ص:246 )
یعنی سعید نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا آپ ﷺ نے یہ اس لیے کیا تاکہ امت تنگی میں نہ پڑ جائے۔
سواری پر نوافل اور نماز ۔۔۔
عن جابر رضي الله عنه قال: كانَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُصَلِّي علَى رَاحِلَتِهِ، حَيْثُ تَوَجَّهَتْ فَإِذَا أرَادَ الفَرِيضَةَ نَزَلَ فَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ.
(صحيح البخاري: 400، ومسلم :540)
ترجمہ : سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر نماز پڑھتے تھے، وہ جس طرف بھی آپ کو لیے پھرتی۔ لیکن جب فرض (نماز پڑھنے) کا ارادہ کرتے تو سواری سے اتر پڑتے اور قبلہ کی طرف منہ کرلیتے۔
کاش ہم نے دین کو پڑھا ہوتا ، دین کی روح کو سمجھا ہوتا آسانیاں تلاش کی ہوتی اور آسانیاں بانٹی ہوتی تو آج ہم کو یہ پوسٹ وائرل کر کے فیصل موورز کے بائیکاٹ کی اپیل نہ کرنی پڑتی ۔۔۔۔۔۔ ابوبکر قدوسی