آج دورانِ مطالعہ ایک ایسے صحابی رسول ﷺ کا نام سامنے آیا کہ جن کے ایمان لانے کا واقعہ، توحید و رسالت سے والہانہ محبّت اور اسلام کے لیے عظیم قربانیاں پڑھ اور جان کر آنکھوں میں آنسوں کے ساتھ ساتھ دل میں اپنے خالق و مالک اللہ الٰہ العالمین کے لیے احساسِ تشکّر مزید گہرا ہوگیا کہ اُس نے ہمیں اپنے پسندیدہ دین اسلام کو قبول کرنے و اپنانے کی توفیق عطا فرمائی ۔
میں بات کررہا ہوں صحابی جلیل سیدنا ’’مصعب بن عمیر الہاشمی القُرَشی‘‘ رضی اللہ عنہ کی جو مكہ مكرمہ میں پیدا ہوئے۔ خِلقت میں بڑے ہی حسین و جمیل جن کی پرورش بڑے ہی لاڈ اور پیار سے ہوئی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے لیے پہننے کے کپڑے ملکِ شام سے تیار ہوکر آتے، جو اپنے زمانہ کے اعلی سے اعلی عطور اور خوشبو میں نہائے رہتے تھے کہ جس جگہ سے بھی مصعب ؓ گزر جائیں وہ مہک مہک اٹھے، حضرمی جوتے پہنا کرتے جو اُس زمانہ میں محض امراء ہی پہنا کرتے تھے۔
خود رسول اللہ ﷺ مصعب ؓ کا تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے کہ’’ مکہ میں مصعب ؓ سے زیادہ حسین، خوش لباس اور پروردۂ نعمت کوئی نہیں‘‘۔ سوچیے کہ سیدنا مصعب ؓ کے کیا ناز و نعم ہوں گے!!۔لیکن یہاں اب مزید غور سے سمجھنے کی باتیں ہیں۔
ایک وقت آیا کہ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے منتخب فرمایا کہ اب مصعب ؓ کے نصیب بدلنے والے تھے اور آزمائیشیں بھی شروع ہونی تھیں کہ مصعب ؓ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جنت کا سودا کرنا تھا اور اللہ کا سودا بڑا قیمتی اور مہنگا ہے اس لیے بغیر آزمائشوں کے کیسے حاصل ہو جاتا ؟ سو سیدنا مصعب کی آزمائشیں شروع ہوتیں ہیں۔
رسول اللہ ﷺ ابھی دارِ ارقم میں تھے، اسلام و مسلمان ابھی کمزور و مغلوب تھے، اسلام کا ڈنکا بجانا تو دور کوئی کھل کر اسلام قبول تک نہیں کرسکتا تھا اور جو اسلام قبول کرلیتا اُسے ایسی ایسی اذیتیں دی جاتیں کہ سُن کر ہی روح کانپ اٹھے۔ عورت جو نام ہی نازک آبگینوں کا ہے کہ ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جائے، اسلام قبول کرنے کی وجہ سے عورتوں تک کو نہ بخشا جاتا۔
عمّار بن یاسر کی والدہ اسلام کی پہلی شہیدہ خاتون سیدہ سمیّہ رضی اللہ عنھم انہیں گرم کنکریوں پر لٹایا جاتا، لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کر دیا جاتا حتی کہ ابو جہل نے انہیں نیزہ مار کر شہید کر دیا۔
سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ جنہیں دہکتے ہوئے انگاروں پر ننگی پیٹھ لٹایا گیا حتی کہ اُن کی کمر کی چربی پگھلنے سے وہ انگارے ٹھنڈے ہوئے۔
اور سیدنا بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ کہ جن کے قدموں کی آہٹ رسول اللہ ﷺ نے جنت میں سنی جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو انہیں پورا پورا دن ننگے جسم صحراء کی تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیا جاتا۔
’’ یہ تھے میرے نبی کے صحابہ و صحابیات‘‘ رضی اللہ عنھم اور یہ تھیں وہ اذیتیں جو اسلام و ایمان کی خاطر انہیں دی گئیں۔
اور سیدنا مصعب پہلے نہیں تھے کہ جنہیں اُن اذیتوں کا پتہ ہی نہ ہو بلکہ وہ یہ سب جانتے تھے بلکہ اُن کے لیے تو بظاہر کتنا مشکل ہوگا کہ وہ پلے ہی بڑے ناز و نعم میں تھے، وہ جانتے ہوں گے کہ سب کچھ چھین لیا جائے گا، ناز و نعم تو دور بلکہ جینا تک حرام کر دیا جائے گا اور مصعب ؓ کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی، ابھی جوانی کا عالم تھا۔۔۔ وہ جوانی کہ جس کا جوش عروج پر ہوتا ہے اور عموماً نوجوان جوانی کے نشے میں دنیا میں ہی مست رہنا چاہتے ہیں اور خود کئی جوانوں کے والدین تک انہیں زندگی جینے کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے ہیں کہ ابھی تو جوانی ہے دنیا کے مزے لینے دو اور اگر کوئی دین کی طرف راغب ہو بھی جائے تو پریشان ہو جاتے ہیں کہ اپنی جوانی برباد کرلے گا۔۔۔ لیکن مصعب تھے کہ اس سب کے باوجود ٹھان چکے تھے کہ اسلام قبول کرنا ہے اور اسلام کی خاطر نا صرف سب کچھ قربان کرنے کیلیے بلکہ ہر قسم کی تکلیف و اذیت برداشت کرنے کیلیے تیار ہوگئے کہ اسلام کی سچائی و گہرائی اگر کسی کے دل میں اتر جائے تو اُسے اسلام کے مقابلہ میں دنیا کی ہر لذت، عیش و عشرت ہیچ لگتی ہے اور اسلام کی خاطر ہر تکلیف میں لذت محسوس ہوتی ہے۔
سو مصعب ؓ اسلام قبول کرتے اور نبی آخرالزماں ﷺ پرایمان لے آتے ہیں اور اُن کا شمار’’سابقین اوّلین‘‘ میں ہوجاتا ہے کہ جو صحابہ میں سب سے افضل طبقہ ہے، ابتدا میں ہی اسلام قبول کرنے والے ۔
اُن کی والدہ اور گھر والوں کو جب پتہ چلتا ہے تو سیدنا مصعب کے لیے اُن کی محبت نفرت میں بدل جاتی ہے اور سارے ناز و نعم ختم کر دیے جاتے ہیں بلکہ ’’توحید‘‘ اختیار کرنے کے جرم میں انہیں قید و بند کی سزا سنائی جاتی ہے، نرم و نازک لباس، انواع و اقسام کے لذیذ کھانے، عِطریات اور دنیاوی عیش و تنعّم و مادی اسباب و وسائل سب چھین لیے جاتے ہیں اور مختلف اذیتیں دی جانے لگتی ہیں تاکہ مصعب ؓ اسلام چھوڑ دیں۔۔۔ حتی کہ اُن سے بے پناہ محبّت کرنے والی ماں اُن کے اسلام کی وجہ سے ان کے خلاف ہو جاتی ہیں۔۔۔ ایک فرمانبردار محبت کرنے والے بیٹے کیلیے اس سے بڑی تکلیف اور کیا ہوگی؟ ۔۔۔ لیکن مصعب ؓ ہیں کہ انہیں بھی اسلام کی طرف بلاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ماں کی اصل خیر خواہی بھی اسی میں ہے۔۔۔ پھر وہ وقت بھی آتا ہے کہ سیدنا مصعب اسلام کو چھوڑنے کے بجائے اپنی پوری دنیا چھوڑ چھاڑ، گھربار اور وطن تک کو خیرباد کرنے کیلیے تیار ہو جاتے ہیں۔
اللہ اکبر! پھر وہ ہوتا ہے کہ دل تڑپ تڑپ اٹھے ۔۔۔ دنیا کی مادّی نعمتوں سے مالا مال مصعب ؓ سے ان کے جسم تک کے سارے کپڑے تک اُتروا لیے جاتے ہیں اور انہیں بالکل برہنہ کرکے گھر سے نکال دیا جاتا ہے کہ اللہ، رسولﷺ اور دینِ اسلام سے اتنی ہی محبت ہے تو ان کی خاطر یہ سب کچھ حتی کہ جسم کے کپڑے تک بھی تم سے چھین لیے جائیں گے ۔
’’ایسے تھے میرے نبی (ﷺ) کے صحابی ‘‘۔
اسلام لانے کے بعد سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی دنیا اب پہلے جیسی نہیں رہتی ۔ اب اُن کی دنیا کا یہ عالَم ہے کہ سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سیدنا مُصعَب کو دیکھتے کہ اُن کے جسم پر ایک پرانا سا پھٹا ہوا کمبل ہے جس پر بھی پیوند لگے ہوئے ہیں تو آپﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور آپﷺ فرماتے :
انظروا إلى هذا الرجل الذي نوّر الله قلبه، لقد رأيته بين أبوين يغذوانه بأطيب الطعام والشراب، فدعاه حبّ الله ورسوله إلى ما ترون
’’مصعب کو دیکھو جس کے دل کو اللہ نے (اسلام کے نور سے ) منوّر کیا. میں نے اس وقت مصعب کو دیکھا تھا اس کے والدین اسے بڑے ناز و نعم میں رکھتے تھے اور آج اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی محبّت اسے یہاں لے آئی ‘‘ ( رواہ أبو نُعيم في الحليہ) لیکن مُصعب ہیں کہ اُن کے اطمینان، خوشی اور سکون کا یہ عالم ہے کہ جیسے انہوں نے اپنی پوری دنیا قربان نہیں کی ہو بلکہ انہیں تو پوری دنیا مل گئی ہو اور ایسا کیوں نہ ہو کہ ’’جسے اسلام مل گیا اُسے سب کچھ تو مل گیا‘‘ ۔
ایمان لانے کے بعد سیدنا مصعب کی اب خواہش یہ ہے کہ وہ دنیا بھر کو اسلام کے نور سے روشن کر دیں ۔ اُن کی خواہش کو کس طرح اللہ تعالیٰ نے پورا فرمایا آئیے جانتے ہیں ۔
مدینہ طیبہ سے قریباً بارہ افراد مکہ مکرمہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور اسلام قبول کرتے ہوئے آپﷺ کی بیعت کرلیتے ہیں جسے ’’بیعتِ عقبہ اولیٰ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اُن افراد کی واپسی پر رسول اللہﷺ کسی کو اُن کے ساتھ روانہ فرمانا چاہتے ہیں جو انہیں تعلیمِ قرآن بھی دے اور اہلِ مدینہ کو دعوتِ اسلام بھی پہنچائے ۔ایسے میں آپ ﷺ کی نظرِ بصیرت جس شخصیت کا انتخاب کرتی ہے وہ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ہوتے ہیں جنہیں ’’ اسلام کا پہلا سفیر ‘‘ بنا کر مدینہ طیّبہ روانہ کیا جاتا ہے۔
اور اس طرح سیدنا مصعب مدینہ طیّبہ میں سال بھر رہتے اور قرآن مجید کی تعلیم اور دعوتِ دین کو خوب انجام دیتے یہاں تک کہ اس عظیم کام کی مناسبت سے آپ کا نام ہی ’’قاری اور مُقرِی‘‘(پڑھانے والا) پڑجاتا ہے۔۔۔ لوگ آپ کو دیکھتے تو پکار اُٹھتے:
جَاء الْمُقْرِی
(وہ پڑھانے والے آ گئے)۔
مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی سال بھر کی انتھک محنت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ اسلام قبول کرتے جاتے ہیں یہاں تک کہ مدینہ طیّبہ کا تقریباً کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس میں کوئی نہ کوئی مسلمان نہ ہو اور پھر اگلے سال مدینہ طیّبہ سے 75 اشخاص مکہ مکرمہ آتے ہیں اور اسلام قبول کرتے ہوئے محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔
سیدنا مصعب کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والوں میں سیدنا اُسید بن حُضیر اور سیدنا سعد بن مُعاذ جیسے جلیل القدر صحابہ بھی شامل تھے. سیدنا اُسید بن حُضیر کہ جن کی تلاوتِ قرآن سننے کے لیے فرشتے آسمان سے اترتے ہیں اور سیدنا سعد بن مُعاذ کہ جن کی وفات پرعرشِ الٰہی بھی ہِل جاتا ہے ۔۔۔ ایسے تھے میرے نبی (ﷺ) کے صحابہ۔ رضوان اللہ علیھم اجمعین
مکی دور کے بعد جب ہجرت کا حکمِ الٰہی ہوتا ہے تو سب سے پہلے ہجرت فرمانے والے بھی یہی سیدنا مُصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ہوتے ہیں۔
اسلام کے سب سے پہلے معرکہ حق و باطل غزوہ بدر میں سیدنا مُصعب ناصرف شریک ہوتے ہیں بلکہ اُن کے ہاتھ میں مہاجرین کا عَلَمِ جہاد بھی دیا جاتا ہے اور اس کے اگلے ہی سال غزوہ احد کے معرکہ میں بھی عَلَمِ توحید سیدنا مصعب کے ہی ہاتھ میں ہوتا ہے جسے تھام کر نا صرف یہ کہ وہ اُس کی حفاظت کرتے ہیں بلکہ دشمنوں سے مقابلہ بھی کرتے ہیں اور رسول اللہﷺ کے لیے خود کو بار بار بطورِ ڈھال کے پیش بھی کرتے ہیں۔
غرض اسی حالت میں مشرکین کا ایک گھڑسوار ابن قمیئہ بڑھ کر تلوار کا وار کرتا ہے جس سے سیدنا مصعب کا داہنا ہاتھ شہید ہو جاتا ہے لیکن مُصعَب بائیں ہاتھ سے فوراً عَلَم کو تھام لیتے ہیں کہ پرچمِ توحید کو گِرنے دینا اس فدائی ملت کے لئے سخت عار تھا۔۔۔ ابن قمیئہ دوسرا وار کرتا ہے جس سے بایاں ہاتھ بھی شہید ہو جاتا ہے لیکن اس مرتبہ بھی دونوں بازوؤں سے حلقہ کرکے عَلَمِ اسلام کو اپنے سینے سے چمٹا لیتے ہیں ۔ دشمن جھنجھلا کر تلوار پھینکتا ہے اور اس زور سے تاک کر نیزہ مارتا ہے کہ اس کی انی ٹوٹ کر مُصعب کے سینے میں رہ جاتی ہے۔
اور ایسے رسول اللہﷺ کا یہ جاں نثار صحابی، اسلام کا پہلا سفیر، محض چالیس سال کی عمر میں رہتی دنیا کیلیے اسلام کی سربلندی کی عظیم مثال قائم کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرجاتا ہے۔۔۔ ’’ ایسے تھے میرے نبی ﷺ کے صحابی ‘‘ ۔۔۔ رضی اللہ عنہ و أرضاہ
پھر مُصعَب کے بھائی ابو الدوم بن عمیر رضی اللہ عنہما آگے بڑھتے ہیں اور لِوائے توحید کو پہلے کی طرح بلند کرتے ہیں ۔
جنگ اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ رسول اللہﷺ سیدنا مصعب بن عُمیر رضی اللہ عنہ کے جسدِ مبارک کے قریب تشریف لاتے ہیں، آنکھوں میں آنسو ہیں اور زبان پر اُن کے لیے دعائیں ہیں اور اللہ تعالٰی کا یہ فرمان پڑھتے ہیں :
مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ
الاحزاب – 23
مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا۔
پھر رسول اللہﷺ مخاطِب ہوتے ہیں:
’’(مصعب!) میں نے تمہیں مکہ میں دیکھا تھا جہاں تمہارے جیسا حسین و خوش لِباس کوئی نہ تھا لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال الجھے ہوئے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے،
إنّ رسولَ الله يَشْهَدُ أنّكُمُ الشّهَداءُ عِنْدَ الله يَوْمَ القيامَة
بے شک اللہ کا رسول یہ گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ روزِ قیامت بارگاہِ الٰہی میں شہید رہوگے‘‘ پھر اہلِ ایمان سے آپﷺ فرماتے ہیں: ان (اہلِ اُحد) کے پاس آیا کرو اور ان کی زیارت کیا کرو، اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت تک جو بھی (یہاں) انہیں سلام کرے گا وہ اُس کے سلام کا جواب دیں گے۔1
جب سیدنا مُصعب شہید ہوئے تو ان کے جسم پر بس ایک چادر تھی اور شہید کا کفن وہی لباس ہوتا ہے جس میں وہ شہید ہوتا ہے اب تدفین کے وقت ہوا یوں کہ سیدنا مصعب کے جسم پر جو چادر تھی وہ اتنی چھوٹی تھی کہ اگراس سے اُن کا سر ڈھانپتے تھے تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھانپتے تھے تو سر کھل جاتا، رسول اللہ ﷺ نے جب یہ دیکھا تو فرمایا: ’’ ان کا سر چادر سے ڈھانپ دو اور ان کے پاؤں پر گھاس ڈال دو‘‘۔2
یہ تھا وہ آخری لباس مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا کہ جن کے پہننے کے لباس ملکِ شام سے تیار ہوکر آتے تھے ۔ ’’ایسے تھے میرے نبی ﷺ کے صحابی ‘‘۔۔ ایثار و قربانی اور وفا کے عظیم پیکر ۔۔۔ رضی اللہ عنہ و أرضاہ
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ:
اہلِ ایمان کیلیے یہ دنیا آزمائشوں کی آماجگاہ ہے اسی لیے یہاں اہلِ ایمان اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے احکامات کے پابند ہیں اور ان کی خاطر انہیں کبھی اپنی نفسانی خواہشات کی قربانی دینی پڑتی ہے اور کبھی دنیا کی فانی نعمتوں کی لیکن جب اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو ان کی قربانیوں کا صلہ عطا فرمائے گا تو انہیں احساس ہوگا کہ دنیا کی یہ قربانیاں اللہ تعالیٰ کی رضا، جنّت اور اُس کی لازوال نعمتوں کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں جبکہ اس سب کے مقابلہ میں جب اہلِ کفر و نفاق، فاسق و فاجر لوگ کہ جن کا سب کچھ بس یہ دنیا ہی ہے اور اس دنیا کے لیے انہوں نے ہدایت اور ایمان سب کچھ بیچ ڈالا اور دین، آخرت ، جنت و جہنم کو مذاق سمجھا یا اُس سے غافل رہے تو جب وہ اپنی آنکھوں سے جہنم اور اس کی ہولناکیوں کو دیکھیں گے تو قرآن مجید (آل عمران:91) کے مطابق یہی دنیا اور زمین بھر سونا تک اگر بطورِ فدیہ دینا چاہیں گے کہ بس اُن کی جان جہنم اور اللہ کے عذاب سے بچ جائے تو وہ اُن سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔
فرمانِ رسولﷺ ہے: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب سے ہلکے عذاب والے جہنمی سے پوچھے گا: ’’اگر دنیا میں جو بھی چیز ہے تمہاری ہو جائے تو کیا تم اسے (اپنی جان خلاصی کیلیے) فدیہ میں دے دو گے ؟‘‘ وہ کہے گا: ’’ہاں ہاں ! ‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’میں نے تم سے اس وقت اِس سے بہت زیادہ آسان بات کا تقاضا کیا تھا کہ شرک (و کفر ) نہ کرنا تو میں تمہیں دوزخ میں داخل نہیں کروں گا لیکن تم نہ مانے اور شرک (و کفر) کرتے رہے‘‘۔3
یہی وہ حقیقت ہے جسے میرے نبی ﷺ کے صحابہ نے پا لیا تھا اور پھر نا صرف اُن کی دنیا بدلی بلکہ انہوں نے دنیا کو بدل کے رکھ دیا اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے بعد قیامت تک آنی والی دنیا کے ایمان کی قبولیت کے لیے میرے نبی ﷺ کے صحابہ کے ایمان کو معیار بنا دیا۔4
’’ایسے تھے میرے نبی ﷺ کے صحابہ ” رضوان اللہ علیھم اجمعین
اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی حقیقی محبّت سے نوازے اور اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہمّ آمین یاربّ العالَمین و آخرُ دعوانا أن الحمدُ للہِ ربّ العالَمین
اس مو ضوع کے لیے کتبِ احادیث کے ساتھ ساتھ درجِ ذیل کتبِ سیر و تراجم و تاریخ سے استفادہ کیا گیا ہے:
’’ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ للامام الحافظ ابنِ حجر العسقلانی رحمہ اللہ ‘‘
“أُسد الغابہ في معرفۃ الصحابہ للامام ابنِ اثیر رحمہ اللہ “
’’الاستيعاب في معرفۃ الأصحاب للامام ابنِ عبد البر رحمہ اللہ‘‘
’’الطبقات الکبیر لامام ابن سعد رحمہ اللہ‘‘