اللہ تعالیٰ نے اہلِ اسلام، مسلمانوں کو سال میں دو عیدیں، عید الفطر اور عید الاضحیٰ عطا فرمائی ہیں۔ عید الفطر سال کے تمام مہینوں میں سب سے افضل مہینے رمضان المبارک اور سال کی تمام راتوں میں سب سے افضل راتیں رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کے بعد عطا کی گئی اور عید الاضحی سال کے دنوں میں سب سے افضل دن ذو الحجہ کے پہلے عشرہ کے اختتام پر عطا کی گئی تاکہ ہر مسلمان کو ہمہ وقت اس بات کا احساس رہے کہ اس کی حقیقی خوشی وہ خوشی ہے جو نیک اعمال اور اچھے کاموں سے جڑی ہو ، جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ، اُس کے رسول اور اس کے دین کی محبت ، تعظیم اور اطاعت پر قائم ہو ۔اسی لیے ہمارے دین، کتاب و سنت میں ان دونوں عیدوں کے احکام و مسائل کو بھی بیان کیا گیا ہے ۔ ذیل میں عید سے متعلقہ چند اہم مسائل ذکر کیے جا رہے تاکہ مسلمان خوشی اور مسرت کے ان دونوں موقعوں پر بھی اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ طرز ِعمل اختیار کرکے دنیا و آخرت کی خیر و برکات اور سعادتیں حاصل کرسکیں۔
عید کے دن کی ابتداء نمازِ فجر سے کرنا :
اللہ تعالیٰ نے عید کی جو نعمت اور خوشی عطاء فرمائی ہے اُس کا اوّلین تقاضا اس کا شکر ادا کرنا ہے ۔اور نماز شکرانِ نعمت کے طریقوں میں اہم ترین طریقہ ہے لہٰذا عید کے دن کی ابتداء اللہ تعالٰی کے ذکر اور فرض نماز کی وقت پر اور باجماعت ادائیگی سے کریں اور یاد رکھیں عید کی باجماعت نماز سے زیادہ اہم فجر کی وقت پر اور باجماعت نماز کی ادائیگی ہے جسے ضائع کرکے آپ عید کی نماز اور قربانی جیسے عظیم عمل کی برکات بھرپور انداز سے حاصل نہیں کرسکتے۔
عید کے دن غسل، مسواک اور خوشبو کا مستحب ہونا:
نمازِعید کیلئے جانے سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے۔ صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنھم کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ وہ عید کی نماز کے لیے غسل کیا کرتے تھے لہذا ایسا کرنا پسندیدہ عمل ہے۔ مسواک کا اہتمام کریں اور اگر خوشبو میسر ہو تو اسکا استعمال کریں۔
خواتینِ اسلام خاص خیال رکھیں!
خواتین کے لیے گھر سے باہر نکلتے ہوئے یا غیر محرم کے سامنے بے پردگی اختیار کرنا اور خوشبو لگانا سخت حرام ہے لہٰذا عید کی نماز کی ادائیگی اور مسلمانوں کی دعاء میں شمولیت جیسی عظیم عبادت کے لیے جاتے ہوئے خواتینِ اسلام کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے ۔
صاف ستھرا اور خوبصورت لباس زیبِ تن کرکےعید کیلئے جانا:
عید کے لیے عمدہ و صاف ستھرا لباس پہن کر جانا مستحب ہے۔ امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدین کے موقع پر اپنا سب سے زیادہ خوبصورت لباس پہنتے تھے۔
نمازِعید الفطر سے پہلے کچھ کھانا اور نمازِ عید الاضحیٰ سے پہلے کچھ نہ کھانا:
عید الفطر:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عید فطر والے دِن رسول اللہ ﷺ کھجوریں کھائے بغیر صبح کا آغاز نہیں فرمایا کرتے تھے اور وتر عدد (یعنی تین ، پانچ ، سات جیساعدد) میں کھایا کرتے تھے۔1
عید الاضحیٰ:
سیدنا بُریدہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ ( نبی ﷺ ( عید ) فطر کے دن کھائے بغیر (نمازِ عید کے لیے) باہر تشریف نہ لاتے اور (عید ) اضحی کے دِن (نماز سے) واپس تشریف لانے کے بعد اپنی قربانی ( کے جانور کے گوشت ) میں سے کھاتے ۔2
عید الفطر کے دن نبی کریم ﷺ کھائے بغیر نہ نکلتے اور عید الاضحی (بقرعید) کے دن نمازِ عید پڑھنے تک کچھ تناول نہ فرماتے۔3
نوٹ: عید الفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے طاق عدد میں کھجوریں یا کھجوروں کی غیر موجودگی میں کچھ نہ کچھ میٹھا کھا کر نکلنا چاہیے لیکن اگر کوئی شخص کچھ نہ کھائے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں اور عید الاضحیٰ کی نماز سے پہلے کچھ نہیں کھانا چاہیے اور واپسی پر ناشتہ قربانی کے گوشت سے کرنا چاہیے ، یہی مسنون ہے لیکن اگر عید الاضحیٰ سے پہلے کچھ تناول کرلے تو اس پر کوئی گنا ہ نہیں۔
عید کی نماز مسجد کے بجائے کھلے میدان وغیرہ’’ عید گاہ‘‘ میں ادا کرنا:
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ فطر(عید) اور اضحی (بقرعید) کے دِن (عید کی نماز ) کے لیے عید گاہ کی طرف جایا کرتے تھے‘‘۔4
امام ابن الحاج المالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دونوں عید کی نماز میں یقینی سُنّت یہ ہی رہی ہے کہ یہ نمازیں (مسجد میں نہیں بلکہ) مُصلیٰ (عیدگاہ ) میں ادا کی جائیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ( میری اس مسجد (نبوی) میں ادا کی گئی نماز کسی اور مسجد میں ادا کی گئی نماز سے ہزار درجہ بہتر ہے ، سوائے مسجدِ حرام ( مسجدِ کعبہ )کے5 اور آپ ﷺ نے یہ فرمانے کے ساتھ اِس عظیم فضیلت کو چھوڑ کر عیدوں کی نماز اپنی مسجد (نبوی) میں نہیں ادا کی بلکہ باہر مُصلّے(عیدگاہ ) میں تشریف لے گئے۔6
یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بہر صورت عید کی نماز مسجد میں نہیں بلکہ مُصلّے(عید گاہ) میں ہی ادا کی جانی چاہیئے ۔
عورتوں کا عیدگاہ جانا:
اُم عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں (عورتوں ) کو حکم فرمایا کہ ہم سب (عید )الاضحی اور (عید ) الفِطر میں (عید گاہ کی طرف ) جائیں ، نئی بالغ ہونے والی لڑکیاں اور حیض (ماہواری ) کی حالت والیاں اور جوان کنواریاں (سب کی سب عیدگاہ جائیں) لیکن حیض والی عورتیں نماز نہ پڑھیں بلکہ( نماز کی جگہ سے ذرا ہٹ کر) مسلمانوں کی خیر اور دعاء میں شامل ہوں۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ! اگر ہم میں سے کسی کے پاس پردے کے لیے چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے ؟ تو فرمایا: اُس کی کوئی دوسری (مسلمان) بہن اُسے اپنی چادر میں لپیٹ (کرساتھ ) لائے۔7
بچوں کو عید گاہ لے جانا :
عید ین کے موقع پر بچوں کو عید گاہ لے جانا بھی سنت سے ثابت ہے لیکن اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کی وجہ سے لوگوں کی نماز و خطبہ میں کوئی خلل پیدا نہ ہو ۔ لہٰذا انہیں ضرور ساتھ لے جانا چاہیے اور ساتھ ساتھ نماز ، خطبہ، مسجد ، عید گاہ اور دیگر شرعی احکامات سے متعلقہ آداب کی تعلیم بھی دینی چاہیے ۔
تکبیرات پکارتے ہوئے عیدگاہ جانا اور نماز شروع ہونے تک تکبیرات بلند کرنا:
رسول اللہ ﷺ (عید ) فطر کے دن (نماز کے لیے) نکلتے تو تکبیر بلند کرتے یہاں تک (اسی حالت میں ) عید گاہ تک پہنچتے اور نماز ادا کرنے تک تکبیروں کا سلسلہ جاری رہتا۔ جب نماز ادا کرلیتے تو تکبیریں کہنا ترک کر دیتے۔8
افسوس کہ اب مسلمانوں میں سے اگر کوئی ایسا کرے تو اُسے ملامت بھری نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جو شیطان کی آواز بلند کرتے یا سُنتے ہوئے چلے یعنی موسیقی بجاتے یا سُنتے اور گانے گاتے یا سنتے ہوئے تو اُسے پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔
اِنَّا لِلَّہِ وَ اِنَّا اِلِیه رَاجَعُونَ ۔
نمازِعیدین کا حکم:
عیدین کی نماز ادا کرنا اہلِ علم کے راجح قول کے مطابق نصوص شرعیہ کی روشنی میں اہلِ اسلام پر فرض و واجب ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خود کبھی بھی کسی بھی عید کی نماز نہیں چھوڑی اور مسلمانوں کو یہ نماز پڑھنے کا اس انداز سے حکم دیا ہے کہ خواتین ِاسلام تک کو تاکید فرمائی بلکہ اُن خواتین تک کو حکم دیا جن کے پاس پردے کے لیے کوئی چادر تک موجود نہ ہو کہ وہ اپنی دوسری مسلمان بہن کی چادر میں شامل ہوکر عید گاہ اور مسلمانوں کی خیر و دعاء میں شامل ہوں حتی کہ ماہواری والی خواتین بھی شامل ہوں۔
عیدین کی نماز ادا کرنا اہلِ علم کے راجح قول کے مطابق نصوص شرعیہ کی روشنی میں اہلِ اسلام پر فرض و واجب ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خود کبھی بھی کسی بھی عید کی نماز نہیں چھوڑی اور مسلمانوں کو یہ نماز پڑھنے کا اس انداز سے حکم دیا ہے کہ خواتین ِاسلام تک کو تاکید فرمائی بلکہ اُن خواتین تک کو حکم دیا جن کے پاس پردے کے لیے کوئی چادر تک موجود نہ ہو کہ وہ اپنی دوسری مسلمان بہن کی چادر میں شامل ہوکر عید گاہ اور مسلمانوں کی خیر و دعاء میں شامل ہوں حتی کہ ماہواری والی خواتین بھی شامل ہوں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو عیدگاہ میں پہنچ کر نماز ، خطبہ و دعا میں شامل ہونا ضروری ہے۔واللہ اعلم
لہٰذا ہر مسلمان کو عیدگاہ میں پہنچ کر نماز ،خطبہ و دعا میں شامل ہونا ضروری ہے۔ واللہ اعلم
نمازِ عید سے پہلے یا بعد کوئی نفلی نماز نہیں ہے:
نمازِ عید کی صرف دو عید رکعتیں ہیں ان سے پہلے یا بعد میں کوئی نفلی نماز نہیں۔9
نماز ِعیدین کے لیے نہ اذان ہے اور نہ ہی اقامت:
رسول اللہ ﷺ فِطر (چھوٹی عید ) کے دِن اور اضحی (بڑی عید ) کے دِن عید گاہ کی طرف تشریف لے جاتے اور (وہاں پہنچ کر ) سب سے پہلے نماز کا آغاز فرماتے ‘‘۔10 یعنی نمازِ عید سے پہلے کوئی سنت یا نفل ادا نہ فرماتے البتہ اگر کسی عذرِ شرعی کی وجہ سے نمازِ عید مسجد میں ادا کرنی پڑ جائے تو مسجد میں داخلہ کی دو رکعتیں یعنی تحیۃ المسجد ضرور ادا کرنی چاہیے بشرطیکہ نمازِ عید میں اتنا وقت ہو کہ دو رکعتیں پڑھی جاسکیں وگرنہ نمازِ عید شروع ہو جانے کی صورت میں نمازِ عید ہی ادا کی جائے گی۔ اور اسی طرح نمازِ عید کے بعد بھی کوئی سنت یا نفل نماز نہیں ہے۔
نمازِ عید کا وقت:
نمازِ عید کا وقت طلوع آفتاب کے فوری بعد نفلی نماز ادا کرنے کا وقت ہے ۔ آپ ﷺ نمازِ عید الفطر اوّل وقت سے قدرے تاخیر سے ادا کرتے اور نماز عید الاضحی جلدی ادا کرتے تھے۔
نمازِ عید خطبہ سے پہلے ادا کی جائے:
سنت یہ ہے کہ پہلے نما ز ِعید ادا کی جا ئے پھر خطبہ عید شروع کیا جائے یہ بات بہت سی احادیث میں بیان کی گئی ہے۔
سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ، ابو بکر، عُمر اور عُثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ عید میں حاضر ہوا (اور دیکھا کہ ) سب کے سب ’’خُطبہ سے پہلے نماز ‘‘پڑھا کرتے تھے۔11
نمازِ عید کی رکعتیں:
سیدناعمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ سفر میں نماز دو رکعت ہے اور قربانی والے دن (بڑی عید )کی نماز دو رکعت ہے اور فطر والے دن (چھوٹی عید ) کی نماز دو رکعت ہے اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے اور ان دو دو رکعتوں میں کوئی کمی نہیں (اور یہ حکم) محمد ﷺ کی زبان سے ہے۔12
عیدین میں تکبیرا ت اور نمازِ عید کا طریقہ:
نمازِ عید کا آغاز دیگر نمازوں کی طرح تکبیرِ تحریمہ سے ہو گا لیکن نمازِ عید میں تکبیرِ تحریمہ کے بعد مزید تکبیرات بھی پڑھی جاتی ہیں۔ پہلی رکعت میں تلاوت سے پہلے سات تکبیریں کہی جائیں گی اور دوسری رکعت میں سجدے سے کھڑے ہو چکنے کے بعد پانچ تکبیریں ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ فطر اور قربانی ( والے دن کی نمازوں میں ) پہلی رکعت میں (تکبیرِ تحریمہ کے بعد اور قرائت سے پہلے) سات تکبیریں بلند کیا کرتے اور دوسری میں (قرائت سے پہلے) پانچ تکبیریں ، (دونوں رکعتوں کی یہ تکبیریں) رکوع کے (لیے کہی جانے والی) تکبیروں کے علاوہ ہیں۔13
نوٹ: اگر نمازِ عید کی اضافی تکبیریں یا تکبیرات میں سے کچھ رہ جائیں بھول سے یا جان بوجھ کر تو نماز باطل (ضائع) نہیں ہوگی ، لیکن جان بوجھ کر یہ اضافی تکبیریں چھوڑنے والا یقینا ًرسول اللہ ﷺکی سُنّتِ مُبارکہ کا مُخالف قرار پائے گا ۔
تکبیروں کے بعد سورت الفاتحہ اور اُس کے بعد مندرجہ ذیل سورتوں میں سے کوئی سورت پڑھی جائے گی:
(١) سورت الاعلیٰ ( سَبِّحِ اسمَ رَبِّکَ الاَعلی) (٢) سورت الغاشیہ ( وَھَل اَتَاکَ حَدِیثُ الغَاشِیَۃِ ) (٣) سورت ق ( قٓ وَالقُرآنِ المَجِیدِ) (٤) سورت الانشقاق ( وَاقتَرَبَت السَّاعَۃُ وَانشَقَّ القَمَرُ )۔14
نوٹ: سورۃ الفاتحہ امام و مقتدی دونوں پڑھیں گے کیونکہ سورۃ الفاتحہ پڑھے بغیر کسی بھی نمازی کی کوئی بھی نماز نہیں ہوتی۔15 جبکہ سورۃ الفاتحہ کے علاوہ مذکورہ سورتوں میں سے کوئی سورت یا قرآن مجید کا کوئی بھی حصہ صرف امام صاحب پڑھیں گے اور مقتدی غور سے استماع کریں گے۔اس کے عِلاوہ نمازِ عید باقی نمازوں کی طرح ہی ہے کوئی اور فرق نہیں۔
اگر کسی کی عید کی نماز رہ جائے:
اگر کسی کی نمازِ عید باجماعت رہ جائے ، خواہ کسی وجہ سے ہو یا جان بوجھ کر چھوڑی ہو تو وہ جماعت سے یا انفرادی دو رکعت نمازِ عید مذکورہ طریقہ نمازِ عید کے مطابق پڑھے گا۔16 اس سورت میں اُس کی نمازِ عید تو ادا ہو جائے گی مگر باجماعت نمازِ عید ، خطبہ عید و مسلمانوں کی دعا میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے جو محرومی اجر و برکت اسے حاصل ہوئی اُس کی تلافی وہ نہیں کرسکے گا۔
نمازِ عید سے پیچھے رہ جانے والا :
نمازِ عید سے پیچھے رہ جانے والا جتنی نماز سے رہ گیا اُسے نماز کی کیفیت کے مُطابق مکمل کرے گا ۔
عید گاہ کی طرف جانے اور اُس سے واپسی پر راستے کو تبدیل کرنا:
عید گاہ کی طرف ایک راستے سے جایا جائے اور واپس آتے ہوئے دوسرے راستے سے آیا جائے ۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ عید کے دِن نبی ﷺ ( عیدگاہ آنے جانے کا ) راستہ بدل لیا کرتے تھے۔17
عیدین کے دنوں میں روزہ کی ممانعت:
عید الاضحی کے دن اور عید الفطر کے دن روزہ رکھنے سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے۔18
جمعہ کے دن کی عید:
عید ہفتے کی کسی دن بھی ہوسکتی ہے۔جمعہ کے دن عید ہونے کی صورت میں اہلِ اسلام عام دستور کے مطابق نمازِ عید ادا کرینگے البتہ جمعہ کے بارے میں اہلِ علم کے مابین اختلاف رہا ہے کہ جمعہ ادا کرنا واجب ہے یا انہیں اختیار ہوگا کہ اگر وہ چاہیں تو ادا کریں ، چاہیں تو جمعہ کے بجائے نمازِ ظہر ادا کرلیں۔ البتہ مساجد میں جمعہ کا انعقاد کیا جائے گا جیسا کہ رسول اللہﷺ نے کیا تھا۔ واللہ اعلم
عید کے خُطبہ کے مسائل :
- دونوں عیدوں کے خُطبوں کا آغاز بھی دیگرعام خُطبوں کی طرح اللہ کی حمد و ثناء سے کیا جائے گا۔
- عید کا خُطبہ ایک ہی حصے پر مُشتمل ہوتا ہے ، جمعہ کے خُطبہ کی طرح دو حصوں میں نہیں۔
- عید کا خُطبہ نماز کے بعد ہوتا ہے نہ کہ پہلے :
سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ، ابو بکر، عُمر اور عُثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ عید میں حاضر ہوا (اور دیکھا کہ ) سب کے سب ’’خُطبہ سے پہلے نماز ‘‘پڑھا کرتے تھے ۔19
عید کے خُطبے کے لیے منبر کا استعمال نہیں کیا جائے گا :
نمازِعید سے پہلے خُطبہ دینے اور اِس خُطبہ کے لیے منبر اِستعمال کرنے کی بدعت مروان بن عبد الملک امیر(گورنر) مدینہ نے شروع کی ، اُس کے لیے کثیر بن الصلت نے مٹی اور گارے کا منبر تیار کیا تھا۔20
عید کی نماز کے بعد عید کے خُطبہ میں حاضر رہنا :
عید کی نماز کے بعد عید کے خطبہ میں حاضر رہنا اور غور سے سننا رسول اللہ ﷺ کی سنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا مبارک عمل ہے اور علم و تربیت کے ساتھ ساتھ اجر و ثواب میں زیادتی کا سبب بھی ہے اور سب سے بڑھ کر خطبہ کے آخر مسلمانوں کی دعاؤں میں شامل رہنے کا ذریعہ بھی جس کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے۔لیکن خطبہ میں حاضر رہنا واجب نہیں ہے۔
سیدنا عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہُ کا بیان ہے کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ عید کی نماز میں حاضر ہوا جب نبی ﷺ نے نماز ادا کر لی تو فرمایا : ہم اب خطاب کریں گے ، خطبہ دیں گے لہذا جو چاہے وہ خُطبہ (سُننے )کے لیے بیٹھے اور جو جانا چاہے وہ چلا جائے۔21
عید کی مُبارک باد دینا:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کو عید کی مُبارک باد اس انداز سے دیا کرتے تھے:
سیدنا محمد بن زیاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور نبی کریم ﷺ کے دیگر صحابہ کے ساتھ تھا وہ عید سے واپس آنے پر ایک دوسرے سے کہتے تھے: ’’ تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَ مِنْکَ ‘‘ اللہ تعالیٰ ہم سے اور تم سے( ہمارے نیک عمل ) قبول فرمائے۔
عید کے دن خوشی کا اظہار، کھیل کود تفریح وغیرہ کرنا:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو مدینہ والوں کے لیے دورِ جاہلیت میں سے دو دن ایسے تھے جن میں وہ لوگ کھیل کود کرتے تھے ( یہ دو دن یوم النیروز اور یوم المھرجان تھے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں جب تم لوگوں کے پاس آیا تو تم لوگوں کے لیے دو دن تھے جن میں تُم لوگ کھیل کود کرتے تھے ، اللہ نے تم لوگوں کو ان دو دنوں کے بدلے میں اُن سے زیادہ خیر والے بہترین دو دن فطر اور اضحی کے دن عطا کر دیے ہیں۔22
ان دونوں عیدوں کے دنوں میں مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ وہ عید کے دن شرعی حدود میں رہتے ہوئے خوشی کا اظہار کریں ، کھیل کود کریں اور تفریحات ، تقریبات وغیرہ کا اہتمام کریں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین عام طور پر ایسے کھیل کھیلا کرتے تھے جن میں کافروں کو مرعوب کرنے کے لیے طاقت و قوت اور جنگی مہارت کا اظہار ہوتا تھا نہ کہ ایسے کھیل جن میں وقت اور مال ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ ، شرعی حدود کو پامال کیا جائے ۔کسی پردہ و غیرت ، حد و حیاء کے بغیر مرد و عورت کا اختلاط ہو ۔
یہ صحیح ہے کہ دونوں عیدوں کے دنوں میں مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ وہ دف وغیرہ بجا لیں اور ایسا کلام پڑھ لیں جس میں شرک و کفر ، بے حیائی و جھوٹ وغیرہ نہ ہو لیکن یہ نہیں کہ ہر طرف موسیقی کی مجلسوں ( میوزک پارٹیز و فنکشنز) ، عید ملن پارٹیز وغیرہ میں ، گھروں میں گھروں سے باہر، شیطان کی ہر آواز ( موسیقی کے آلات ، میوزک انسٹرومنٹس ) بجائے جائیں اور جھوٹ ، بے حیائی ، عشق و محبت ، فسق و فجور ، کفر و شرک پر مبنی شیطانی کلام گایا جائے اور مرد و عورت رقص کریں جسے اپنی عزت کا موتی پردے میں چھپا کر رکھنے کا حکم ہے وہ خوشی کے نام پر اپنا انگ انگ سب کو دکھاتی رہے اور نامحرم مردوں کے ہاتھوں میں کھیلتی رہے۔واللہ المُستعان ۔
ان دونوں عیدوں کے دنوں میں مسلمانوں کو ایک عید گاہ میں نماز کے ذریعے عظیم اجتماع کی تعلیم دی گئی کہ اسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت کا اظہار کیا جائے ، غیر مسلموں کو اسلامی شعائر دکھائے جائیں ، مسلمان بھائی چارگی اور باہمی محبت و اخوت کا اظہار کریں۔ یہ نہیں کہ غیر مسلموں کی عیدوں اور تہواروں پر جو کچھ غیر مسلم کرتے ہیں وہی کچھ بلکہ اس سے بھی کچھ بڑھ کر کر کے دکھایا جائے اور اُنہیں یہ تسلی دلائی جائے کہ ہم اور تم ایک ہیں ، ناموں کے فرق سے کچھ نہیں ہوتا ، جو تم کرتے ہو ہم بھی وہی کرتے ہیں لہذا ہم وہ مسلمان نہیں ہیں جنہیں اپنے دین پر ، اپنے کلچر، تہذیب و ثقافت پر فخر ہوا کرتا تھا ، جنہیں یہ احساس تھا کہ انہیں اُن کے اللہ ، رسولﷺ اور دین نے زندگی کی ہر فیلڈ و شعبہ میں بہترین راہنمائی میسر کی ہے ، خوشی و غم کے ہر موقع پر زندگی گزارنے کا ڈھنگ و سلیقہ سکھایا ہے، جو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا تصور بھی نہیں کیا کرتے تھے اور اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکموں کے نفاذ اور اپنے دین کی سر بلندی کے لیے کسی سے ڈرتے تھے نہ ہی کسی کا لحاظ رکھتے تھے ۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
تصحیح و مراجع: الشیخ حماد امین چاولہ حفظہ اللہ
- (صحیح بخاری )
- سنن ابن ماجہ ، سنن الترمذی ، سنن الدارمی ، (ترجمہ مجموعہ روایات میں سے ہے )
- (صحیح بخاری)
- (صحیح بخاری ،صحیح مسلم)
- (صحیح بخاری ،صحیح مسلم)
- (المدخل ، جلد: 2، صفحہ: 283 )
- (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
- (سلسۃ الاحادیث الصحیحۃ / حدیث :171)
- (صحیح بخاری)
- (صحیح بخاری و مسلم)
- ( صحیح بخاری ، حدیث : 962 ، کتاب العیدین ، باب: 8، صحیح مُسلم ، حدیث : 884 ، کتاب صلاۃ العیدین کی پہلی حدیث )
- (مسند احمد، سنن النسائی، سنن البیھقی الکبریٰ)
- (سنن ابو داؤد ، حدیث : 1144، باب : 250، التکبیر فی العیدین ، سنن ابن ماجہ /حدیث : 1280، کتاب اِقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب : 156۔ حدیث صحیح ہے ، دیکھیے: اِرواء الغلیل/حدیث : 639)۔
- (صحیح مُسلم )
- (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
- (صحیح بخاری)
- (صحیح بخاری )
- (صحیح بخاری و مسلم)
- ( صحیح بخاری ، حدیث : 962 ، کتاب العیدین ، باب: 8، صحیح مُسلم ، حدیث : 884، کتاب صلاۃ العیدین کی پہلی حدیث )
- (صحیح بخاری ، صحیح مسلم )
- (سنن ابو داؤد ، سننن ابن ماجہ )
- (مسند احمد)