دنیائے فانی سے خبردار رہیں

پہلا خطبہ

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے  اس دنیاوی  زندگی کو ذمہ داری والی اورفنا ہونے والی بنایاہے، اور آخرت کو بدلے اور ہمیشگی کا گھر بنایا ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنے متقی بندوں کو مکمل جزا دینے کا عدہ کیا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺ اس کے بندے اور برگزیدہ رسول ہیںﷺ۔ یا اللہ! ان پر اور ان کی آل پر اور ان کے نیک و متقی صحابہ پررحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد وثنا کے بعد

اے مسلمانوں!

میں مجھ سمیت آپ سب کو اللہ  سےڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں؛ اور یہی دنیا و آخرت میں  سعادت، کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے۔

اللہ کے بندوں! 

یقینا ہم کٹھن حالات سے گزر رہے ہیں، جس میں اکثر لوگوں کے نزدیک دینی امور  پرذاتی مصلحتیں غالب آچکی ہیں، اور اخلاقی صفات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جارہی ہے۔ دلوں میں دنیا کی محبت بیٹھ چکی ہے، اور لوگ دنیا کی ظاہری زیب و زینت کے پیچھے مکمل طور پر دوڑ رہے ہیں، اور اکثر لوگوں کی دوستی اور دشمنی کی بنیادبھی یہی  فانی دنیا ہے۔اسی کی خاطرمعاملات کو چلاتے ہیں اور اسی کو حاصل کرنے کے لئے لڑائی جھگڑے اور بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔

اے مسلمانوں کی جماعت! بیشک بندے کے دین  پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی بات یہ ہے کہ شرعی ضابطوں اور دینی حدود و  قیود کو پسِ پشت ڈال کراس فانی دنیا کی محبت کے پیچھے  ڈورنا۔

اس فانی زندگی کے سازو سامان کی خاطر کھلم کھلا دشمنیاں کرنا، اور ایمان اور اسلامی احکام کا خیال رکھے بغیر اسے ہی اپنی غرض و غایت بنالینا بدترین فتنوں میں سے ہے۔ اور ایمانی صفات اور اسلامی احکامات کوبھُلا کرصرف اسی  (دنیاوی زندگی ) کو اپنا مقصد اور  ہدف بنالینا مسلمان کے لئے بہت بڑا فتنہ ہے۔

جی ہاں، اے مسلمانوں کی جماعت!

یہی سب سے خطرناک فتنہ ہے کہ اپنا سب سے اہم کام ، غایتِ علم، کوششوں کا محور اور اپنے وجود کا مقصد اس دنیا کو بنا  لینا،  ایسے لوگوں کے لئے اللہ نے یہ وعید سنائی ہے:

وَوَيْلٌ لِلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ (2) الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ

ابراھیم – 2/3

اور کافروں کے لئے تو سخت عذاب کی (صورت میں )ہلاکت ہے۔ جو آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی کو پسند رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں ٹیڑھ پن پیدا کرنا چاہتے ہیں  یہی لوگ پرلے درجے کی گمراہی میں ہیں ۔

اور اللہ تعالی نے مزید اس بارے میں ارشاد فرمایا:

إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ

التغابن – 15

تمہارے مال اور اولاد تو سراسر تمہاری آزمائش ہیں  اور بہت بڑا اجر اللہ ہی کے پاس ہے.

ہمارے  پیارے نبی ﷺ نے اس  عیب لگانے والی حالت سے ان الفاظ  کے ذریعہ پناہ مانگی ہے:

«اللهم لا تجعل مُصيبتَنا في ديننا، ولا تجعل الدنيا أكبر همِّنا، ولا مبلغَ علمِنا»

یا اللہ! ہمارے دین میں مصیبت پیدا نہ کرنا، اور اس دنیا کوہماری سب سے بڑی فکر اور علم کی انتہا نہ بنانا۔

اے مسلمانوں کی جماعت!

جس کے  دین پر دنیا کی محبت غالب آگئی، اور اُس نےاللہ کی اطاعت پراپنی خواہشات کو ترجیح دی تو وہ شیطان کی مضبوط رسیوں اور بڑے شکار  میں جگڑا جاچکا ہے، ہمارے رب نے اس راستے سے مسلمانوں کو روکتے  ہوئے یہ ارشاد فرمایا ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ

فاطر – 5

 لوگوں! اللہ تعالٰی کا وعدہ سچا ہے تمہیں زندگانی دنیا دھوکے میں نہ ڈالے  اور نہ دھوکے باز شیطان غفلت میں ڈالے۔

اور صحیح بخاری میں نبی علیہ السلام کی حدیث ہے:

«تعِسَ عبدُ الدينار، تعِسَ عبدُ الدرهم، تعِسَ عبدُ الخميصة، تعِسَ عبدُ الخَميلة، إن أُعطِيَ منها رضِي، وإن لم يُعطَ لم يرضَ»

دینار کا پجاری ہلاک ہوگیا، دینار کا پجاری ہلاک ہوگیا، کپڑے یا چادر کا پجاری ہلاک ہوگیا، گھنے باغات کا پجاری ہلاک ہوگیا، کہ اگر اسے کچھ دیا جائے تو وہ خوش ہوجاتا ہے اور اگر اسے نہ دیا جائے تو وہ ناراض ہوجاتا ہے۔

اللہ کے بندوں! اس دور میں جہاں مادّی زندگی وحشت ناک بن کر سرکشی پر اُتر آئی ہے، اور درہم و دینار کی پوجا کی جارہی ہے، اور بعض لوگوں کے دلوں پرمنصب و  ریاست کا غلبہ ہوچکا ہے، جس نے انہیں عدل اور شریعت کے طور طریقوں کو بھُلادیا ہے،  اس وقت ضروت اس بات کی ہے کہ:

ہم سب  قرآن و سنت کی نصیحتوں کو یاد کریں، ان کے احکامات پر عمل کریں، اللہ رحمٰن و رحیم کی رضا حاصل کریں اور نبی کریم  ﷺ کی سنت کے مطابق زندگی گزاریں تاکہ اپنے نفس کا محاسبہ کرسکیں، اور اس کی خطرناک اور قبیح  بیماریوں کا علاج کرسکیں۔

اسلامی بھائیوں!

اس آیتِ کریمہ کو قبول کرنے اور عمل کرنے کی غرض سے  غور و تدبر  کے ساتھ سنیئے، فرمانِ الٰہی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ (7) أُولَئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

یونس – 7/8

جن لوگوں کو ہمارے پاس آنے کا یقین نہیں ہے اور وہ دنیاوی زندگی پر راضی ہوگئے اور اس میں جی لگا بیٹھے ہیں اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانا ان کے اعمال کی وجہ سے دوزخ ہے۔

اللہ آپ سب پر رحم فرمائے! پیارے نبی علیہ السلام کی اس حدیثِ جلیل کو یاد رکھیں:

عن أبي الدرداء – رضي الله عنه – قال: خرج علينا رسولُ الله – صلى الله عليه وسلم – ونحن نتذكَّر الدنيا، نتذكَّرُ الفقرَ ونتخوَّفُه، فقال: «آلفقرَ تخافُون؟! والذي نفسي بيده؛ لتُصبَّنَّ عليكم الدنيا صبًّا، حتى لا يُزيغَ قلبَ أحدكم إزاغةً إلا هي»؛ أي: إلا هذه الحياة «وايْمُ الله! لقد تركتُكم على مثل البيضاء، ليلُها ونهارُها سواء».

سیدناابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ ہمارے پاس آئے اور ہم دنیا کی باتیں کررہے تھے، غربت کو یاد کرکے خوف محسوس کررہے تھے، نبی علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم  لوگ فقیری سے ڈرتے ہو؟!  ُاس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے؛ اس دنیا کو تم لوگوں پربہت کشادہ کردیا جائے گا یہاں تک کہ یہ کچھ لوگوں کے دلوں کوٹیڑھا کردے گی۔ اللہ کی قسم!  میں نے تم لوگوں کو ایسےواضح و روشن راستہ پر لا کھڑا کیا ہے جس کی رات اور دن (روشنی کے حساب سے) برابر ہیں۔

یہ بہت ہی عظیم حدیث ہے، اور نبوت کی بھی ایک نشانی  ہے جو اس زمانے میں ہمارے خطرناک حالات کا علاج بتارہی ہے، اور حق سے منہ پھیرنے کے اسباب بیان کر رہی ہے۔ اور  سیدھے راستے سے ہٹانے والی  سب سے خطرناک باتیں  اور فتنوں کے سب سے بڑے دروازے یہ ہیں:

دلوں پر دنیا کا غلبہ،  فانی ہوجانے والی خواہشات  اور چند لمحات کی لذت کو حاصل کرنے میں مشغول ہوکراپنی دائمی  بربادی کو دعوت دیناہے۔

یقینا اگر دنیا اور اس کی لذتوں سے تعلق رکھنے والا دل ایمانی حقائق اور اسلامی اخلاق سے خالی ہو تو وہ بندے کو ہر بُری صفت اور قبیح فعل پرآمادہ کرے گا، اسی لئے فرضی زکاۃ  ادا نہ کرنے والا   دراصل درہم و دینار کی محبت میں آکر بخیلی کرتا ہے۔اور فانی دنیا  کا غلبہ اور  زائل ہوجانے والی شہوات کی محبت ہی بندوں پر ظلم کا سبب بنتی ہے۔اور  بعض لوگ  اس فنا ہونے والے سامان کی وجہ سے ہی جھوٹ،  ملاوٹ، دھوکہ اور حسد میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تو دنیا کی محبت ہی ہر برائی کی جڑ ہے، اسلامی احکامات کو پسِ پشت ڈال کرمحض دنیا کو ہی محبوب بنالینا ہر برائی کا پیش خیمہ ہے۔صحیح بخاری میں فرمانِ رسولﷺہے:

«إنّ أكثرَ ما أخافُ عليكم: ما يُخرِجُ الله لكم من بركات الأرض». قيل: وما بركاتُ الأرض؟ قال: «زهرةُ الدنيا».

اللہ کے رسول ﷺکا فرمانِ مبارک ہے: بیشک مجھے  تم لوگوں سے متعلق سب سے زیادہ جو ڈر ہےوہ اللہ تعالی کی اُن برکتوں کے حوالہ سے ہے جو زمین سے نکلتی ہیں۔ کسی نے عرض کیا: زمین کی برکتیں کیا ہیں؟ فرمایا: دنیا  کا مال و متاع۔ (یعنی تم اُن برکتوں یعنی دنیا میں مبتلا ہوکر آخرت کو بھول جاؤ گے)

اے مسلمانوں کی جماعت!

کیا  ہم عقل استعمال نہیں کرتے؟، کیا اس دنیا کی حقیقت سے نصیحت حاصل نہیں کرتے، یہ تو مصائب  سے بھری ہوئی جگہ ہے،  خوف و خطر نے اسے چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے؟! کیا عقل سلیم اور صحیح منہج کا یہی تقاضہ ہے کہ ہم اس دنیا کی ظاہری زیب و زینت اور دھوکہ کے سامان  سے دھوکہ کھاکر ہمیشہ کے گھر (آخرت)کو بھول جائیں اور اسے حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔

اے مخلوق! کیا توثابت شدہ موت کی حقیقت کی طرف نہیں جارہا؟، کیا تو نے نہیں دیکھا کہ دنیا ایک سائے کی مانند ہے جو کچھ وقت تو سایہ دیتا ہے پھر زائل ہوتاچلاجاتا ہے، جبکہ ہمارے رب نے ارشاد فرمایا:

وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ

آل عمران – 185

اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کی جنس ہے ۔

اللہ کی قسم؛ جو بھی اللہ کے احکامات سے منہ موڑتا ہوا ، ممنوعہ چیزوں میں واقع ہوتا ہوا اس دنیا کے پیچھے بھاگتا ہے اور دین کے راستے کو چھوڑ دیتا ہے، تو چاہے وہ فردِ واحد ہو یا پوری قوم ہو اسے بہت بڑی ندامت ، حسرت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک واقعہ  ذکر کیا جاتا ہے:

ذُكِر أن أحد الملوك جُمِعَت له الدنيا في زمانِه، فنالَ من حلالِها وحرامِها، وما تشتهِيه الأنفُس، فعندما وافاه الأجلُ تذكَّرَ حالَه في الدنيا وما آلَ إليه مصيرُه، فقال: يا ليتني لم أملِك هذا المُلك وكنتُ عسيفًا – أي: أجيرًا -، أو راعيًا في غنَمٍ.

ایک بادشاہ کواپنے وقت میں  پوری دنیا کی نعمتیں اور آسائشیں مل گئیں اور اس نے حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر ہر خواہش کو پورا کیا اور جب اس کی موت کا وقت آیا تواس نے اپنی دنیاوی زندگی کو اورآخرت میں اس کے انجام کا جائزہ لیا تو کہنے لگاکہ: کاش!  مجھے اس دنیا کی بادشاہت نہ ملتی اور  میں ایک نوکر یا بکریوں کا چرواہا بن کر زندگی گزارتا۔

اےمردِ مسلمان اور اے مسلمان  خاتون!

اگر آپ سعادت، عزت اور امن و سکون  چاہتے ہیں تو دنیاوی چمک دھمک بظاہر  کتنی ہی عظیم کیوں نہ نظر آئے اس  کی خاطر  دین کو نہ بیچ دینا۔

اے وہ شخص! جسے اس دنیا نے اندھا کردیا ہے اور اس نے  دنیاوی مال و دولت کو ترجیح دی،دنیاوی مفاد کی خاطر  معصوموں کا خون بہایا، محفوظ عزتوں کو پامال کیا، پاکیزہ مال کو چھینا، تونے بہت بڑا جرم کیا ہے، اور بڑے بگڑی بنانے والے(اللہ)کی مخالفت کی ہے، اپنے رب  سے ڈرجا،اور نیکی کی طرف آجا، اور (آخرت میں) اپنے انجام کو یاد  رکھ۔

اے وہ شخص! جسے اس دنیا نے دھوکہ دیا ہے، اور اس نے حلال و حرام کو ملانے کی کوششیں کیں! اللہ سے ڈرجاؤ ! اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے اور گھر، مال اور وطن سب چھوٹ جائے۔

اے وہ شخص! جو سود کے معاملات میں گھرا ہوا ہے اور مسلمانوں کے درمیان سود کو ترویج دے رہا ہے! وہ  اللہ جل جلالہ کا خوف  دل میں بٹھااور اس کی ناراضگی سے بچ جا، اُس (اللہ)کی پکڑ سخت اور  تکلیف دہ ہے۔

اے  مسلمانوں کی اولاد میں سےوہ شخص! جس نے رسوا کن  چینلز کو مؤمنوں کے درمیان  آزاد انہ نشر کیا  ہے!  اپنے رب سے توبہ کر، اور اللہ تعالی کا یہ فرمان یاد کر:

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ

النور – 19

جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں ۔

اے بے حیائی و فحاشی  کے  چینلز چاہنےاورچلانے والو!

کیا وہ وقت نہیں آیا کہ تم اپنے رب کی طرف رجوع کرو؟حالانکہ تم دیکھ رہے ہو کہ مسلمانوں کو ہر طرف سے فتنوں نے گھیرا ہوا ہے! کیا تمہیں جان و مال میں آنے والی فوری سزا کا ڈر نہیں؟! یا آخرت میں برے انجام کی کوئی فکر نہیں!  کہ پھر ندامت  کا کوئی موقع نہیں ملے گا۔

ہمارے رب نے شہروں میں  سرکشی اور فساد کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ (13) إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ

الفجر – 13/14

آخر تیرے رب نے ان سب پر عذاب کا کوڑا برسایا۔ یقیناً تیرا رب گھات میں ہے۔

اے وہ شخص! جسے برائی پر ابھارنے والے  نفس نے پیسوں پر کام کرنے کو اتنا مزین کردیا ہے کہ وہ سودی اور فسادی بن گیا! ان جرائم اور بیہودہ کاموں پر اللہ کی لعنت کو یاد کرو، جان لو کہ جو کچھ تم لے رہے ہو وہ آگ ہے، رسوائی ہے اور عار ہے، اور فوراً توبہ کرو، اور اللہ کی طرف رجوع کرو۔

اے وہ شخص! جو تمام مسلمانوں کی فلاح و بہبود سے متعلقہ منصوبہ جات کی تکمیل و تنفیذ میں دھوکہ دیتا ہے! اگر تو نے اس دھوکہ سے بہت سارا مال اور بڑی دولت بھی اکھٹی کرلی تو یاد رکھنا کہ تمہارا تو صرف وہی مال ہوگا جو تم نے کھایا، پیا ، پہنااور اُڑادیا، لیکن جان لینا کہ اس وقت  اللہ تعالی گھات  میں ہوتا ہے اور بہت ہی  قوی امکان  ہے کہ توفوری سزا  میں مبتلا ہوجائے، جس کا یہ عمل ہو ،اُس کے لئے آخرت کی وعید کا بھی انتظار نہیں کیا جاتا۔

وگرنہ تمام مسلمانوں کو دھوکہ دیناتو  شرعی نصوص کی بنیاد پر بہت ہی خطرناک معاملہ اور سنگین جرم ہے، جبکہ بعض لوگ اس میں بہت ہی سستی و غفلت کرتے ہیں، کیونکہ اس پر کسی مخلوق کی نگرانی  تو ہوتی نہیں، اور خالق کی نگرانی کو وہ بھول جاتےہیں۔

اے وہ شخص! جو   مسلمانوں کے مال و املاک  میں اپنی نوکری  وعہدہ کی وجہ سے فائدہ اٹھاتا ہے! آخرت کو یاد کر، جان لے کہ تو  اس دنیائے فانی  کو چھوڑکر  باقی رہنے والی جگہ(آخرت)کی طرف جانے والا ہے،  زبردست طاقتورمالک  کے سامنے اپنےپیش کئے جانے کو یاد کر، قبر کے سوال کویاد  کر، اور یہ بھی یاد رکھ کہ موجودہ اوراگلے تمام مسلمان  تجھ سے اُس مال کے  بارے میں جھگڑا کریں گے جس کے ساتھ تو کھیلتا رہا ۔

کیا نبی علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا:

كلُّ لحمٍ نبَت من سُحتٍ فالنارُ أولَى به، إن أقوامًا يتخوَّضُون في مالِ الله بغير حقٍّ، فلهم النارُ يوم القيامة

کہ ہر وہ گوشت جو حرام سے پلا،بڑا ہو وہ  آگ میں جانے کا  مستحق ہے، یقینا کچھ لوگ اللہ کے مال کوناجائز طریقہ سےحاصل کرتے ہیں ،قیامت میں ان کے لئے آگ  ہے۔

اے وہ شخص! جسے  اُس کے عہدے و منصب نے  دھوکہ میں مبتلا رکھا ہوا ہےاور وہ اس لئے ظلم کرتا ہے تاکہ وہ اس عہدے پر برقرار رہ سکے اور اسے بچاسکے، اور جس سے بھی اس کی دشمنی ہو اسے وہ نقصان پہنچاتا ہے، اور اپنے اس عہدے سے رشتہ داروں یا دوستوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔  جان لے کہ عہدہ  ومنصب ہمیشہ نہیں رہتا۔ اس بارے میں کسی نے کیاخوب کہا ہے:

إن الوظائفَ لا تدومُ لواحِدٍ

إن كنتَ تُنكِرُ ذا فأينَ الأولُ؟

کسی کی بھی نوکری ہمیشہ نہیں رہتی، اگر آپ نہیں مانتے تو پچھلا شخص کہاں ہے( جو آپ سے پہلے یہ کام کیا کرتا تھا) ؟

یقینا دن تو بدلتے رہتے ہیں۔

اے عہدے دار!

آپ کو خیانت کے معاملات اور امانت کو ضائع کرنے  سے بچنا چاہئے،اور  عام  سرکاری منصب تو مسلمانوں کی مصلحتوں کے تقاضوں کے  مطابق اور نقصانات کو دور کرنے کے لئے ہوتا ہے، خبردار! کہ آپ ایک شخص کو چھوڑ کر دوسرے کی طرف داری کریں، یا اپنے عہدے کو اپنی اور رشتہ داروں کی مصلحتوں کے مفاد میں استعمال کریں۔

آپ اپنے معاملات میں امانت سے کام لیں، افعال اور  پالیسیوں میں عدل کریں اگرچہ انتظامی نگراں کی آنکھوں سے آپ اوجھل ہی کیوں نہ ہوں ،پرجان لیں کہ آپ کا رب آنکھوں کی خیانت کوبھی جانتا ہے اور سینے کے رازوں کو بھی جانتا ہے، اور سب سے بدترین شخص وہ ہے جو  کسی دوسرے کے دنیاوی فائدے کی خاطر اپنے دین کو نقصان پہنچائے، اور اللہ تعالی بھی اسے ہلاک کرتا ہے جو ہلاکت والے کام کرے۔

فرمانِ رسول ﷺ ہے:

كل الناسِ يغدُو؛ فبائِعٌ نفسَه فمُعتِقُها أو مُوبِقُها

رواہ مسلم

سب لوگ گھر سے نکلتے ہیں ، اور اپنے نفس کا سودا کرتے ہیں، یا تو اسے (جہنم سے)آزاد کردیتے  ہیں یا پھر اسے ہلاک کریتے ہیں۔

یعنی: ہر انسان اس زندگی میں اپنے نفس کے ساتھ بھاگ دوڑ کرتا ہے؛ اور کچھ ایسےلوگ  ہیں جو اسے اللہ کے لئے بیچ دیتے ہیں اور اللہ ہی  کی فرماں برداری  کرتے ہیں اور اس کے احکامات کے دائرے میں رہتے ہیں، اس طرح وہ اپنے نفس کو آگ سے آزاد کرلیتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں  جو نفس کو شیطان کے لئے بیچ دیتے ہیں اور دنیا اور خواہشات کے پیچھے لگے رہتے ہیں، اور دینی امور پر دنیا کو ترجیح دیتے ہیں، تو اس طرح وہ نفس کو ہلاک کردیتے ہیں۔

میں یہ بات کہہ رہا ہوں، اور اللہ تعالی سے اپنے لئے،آپ سب کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر گناہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ بھی اس سے مغفرت مانگیں، بیشک وہ بہت مغفرت  کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

اللہ تعالی کے احسان پر اُسی کے لئے ہر قسم کی تعریف ہے، اور اُس کی توفیق اور احسانات پر بھی اُسی کا شکر ہے، اوراُس کی شان کی عظمت بیان کرتے ہوئے میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور رسول محمدﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں،اُن پر بے انتہا صلوٰۃ و سلام ہو۔

حمدو ثنا کے بعد:

اے مسلمانوں! میں تمہیں اور اپنے آپ کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں اور پچھلے اور اگلے لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ  نے یہی نصیحت فرمائی ہے۔

اے مسلمانوں کی جماعت!

دینی احکامات کو ادا کرنا، شرعی ضابطوں  اور احکامِ نبویﷺکے مطابق زندگی گزارنا ابدی  سعادت و خوشحالی کا پیمانہ ہے؛ اور جو اِس راستے سے بھٹک گیا اُسے قیامت کے دن سخت  سزا کی وعید سنائی گئی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَأَمَّا مَنْ طَغَى (37) وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (38) فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى (39) وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى

النازعات – 37/41

تو جس (شخص) نے سرکشی کی (ہوگی)،اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی،(اسکا) ٹھکانا جہنم ہی ہے۔ ہاں البتہ جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرگیااور اپنے نفس کو خواہشات سے روکے رکھا، تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے۔

اور افضل ترین عمل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجنا،  یا اللہ!  ہمارے نبی محمد ﷺ پر اور اُن کی آل پر اور اُن کے تمام صحابہ پر رحمتیں، سلامتیاں اور برکتیں نازل فرما۔

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ یا اللہ! ہر مظلوم مسلمان کی مد فرما۔ یا اللہ! ہر مظلوم مسلمان کی مد فرما۔ یا اللہ! ہر مظلوم مسلمان کی مد فرما۔ یاللہ! مسلمانوں کی پریشانیوں کو دور فرما۔

یا اللہ! ہمارے ملک سمیت تمام مسلم ممالک کو امن عطا فرما۔ یا اللہ! ہمارے  ملک سمیت تمام مسلم ممالک کو امن عطا فرما۔

یا اللہ!   اے سب سے زیادہ عزت دار! اس ملک کو امن و سکون اور برکتوں والا بنادے۔

یا اللہ! ہمارے اور  تمام مسلمانوں کے حالات درست فرما۔ یا اللہ! ہم سے اور تمام مؤمنوں سے راضی ہوجا۔ یا اللہ! اے عزت و جلال والے! ہم سے اور تمام مؤمنوں سے راضی ہوجا۔

یا اللہ! ہمارے اور  تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش فرما۔ یا اللہ! ہمارے اور  تمام مومنوں کے گناہوں کی بخشش فرما۔ یا اللہ! ہماری اور  تمام مومنوں  کی توبہ قبول فرما۔ یا اللہ! دنیا کو  ہمارا بڑا فکری ٹارگیٹ اور علم کی انتہاء نہ بنانا،  اور ہمارے دین کو  مصیبت سے محفوظ رکھنا۔

یا اللہ! شام میں ہمارے بھائیوں کی حفاظت فرما۔ یا اللہ! شام میں ہمارے بھائیوں کی حفاظت فرما۔ یا اللہ! ان کی مشکل کو دور فرما۔ یا اللہ! ان کی مشکل کو دور فرما۔ یا اللہ! امن و سکون کو ان کے حق میں لکھ دے۔

یا اللہ! ان ظالموں کو ہلاک کردے۔ یا اللہ! اے عزت و جلال والے! ان ظالموں کو ہلاک کردے۔ یا اللہ! مسلمانوں سے  ظلم کا خاتمہ فرمادے۔

یا اللہ! مسلمانوں سے  ظلم کا خاتمہ فرمادے۔ یا اللہ! اے عزت و جلال والے! مسلمانوں سے  ظلم کا خاتمہ فرمادے۔

یا اللہ! خادمِ حرمین کو ہر اس کام  کی توفیق عطا فرما جس سے تو راضی اور خوش ہوتا ہے، اور ان کی پیشانی سے پکڑ کر نیکی اور تقوی  کے کاموں میں مصروف کردے۔ یا اللہ! ان کے نائب کو بھی عملِ صالح کی توفیق عطا فرما۔یا اللہ! انہیں  ہر اس کام  کی توفیق عطا فرما جس سے تو راضی اور خوش ہوتا ہے۔

یا اللہ! ہمارے  اس ملک سمیت تمام مسلم ممالک کو امن و سکون کا گہوارہ بنادے۔

یا اللہ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی  بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

یا اللہ! بیشک تو ہی بے نیاز ہے، یا اللہ! بیشک تو ہی بے نیاز ہے، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں پانی مہیا فرما، یا اللہ! ہمیں پانی مہیا فرما، اے عزت وجلال والے!۔ اللہ کے بندو! اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرو۔

وآخرُ دعوانا ان الحمدُ للہ ربّ العالمین

***

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ

آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے خاندان سے ہیں، بنو تمیم سے تعلق ہے، آپ نے جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے ماجستیر کی ڈگری حاصل کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں جج کے فرائض بھی ادا کررہے ہیں۔